18 شوال 1445 هـ   27 اپریل 2024 عيسوى 4:09 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2019-03-05   17155

میثاق مدینہ کی خصوصیات

میثاق مدینہ نہ صرف دنیا کا پہلا تحریری دستور ہونے کے ناطے امتیازی حیثیت کا حامل ہے بلکہ اپنے نفس مضمون اور مفہوم کے اعتبار سے بھی اعلیٰ ترین دستوری و آئینی خصوصیات کا مرقع ہے۔ یہ قرآن سنت نبویہ کے ذیل میں ایک الگ دستور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے شرکاء میں انصار اور مہاجرین کے علاوہ مدینہ منورہ میں رہنے والے یہودی اور دیگر اقلیتوں کے افراد بھی شامل تھے۔ میثاق مدینہ میں وہ تمام بنیادی خصوصیات نظر آتی ہیں جو ایک مثالی آئین میں ہونی چاہئیں۔ میثاق مدینہ کے ذریعے پہلی مرتبہ قائم ہونے والی اسلامی ریاست میں مسلم شہریوں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے جملہ حقوق کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا اور تمام شریک فریقوں پر یہ شرط عائد کی گئی کہ وہ دوسرے ہم شہریوں کے حقوق کا خیال رکھیں گے اور ان کے واجبات کو ادا کریں گے، اس کے بدلے میں انہیں تمام شہری حقوق من جملہ: عقیدہ کی آزادی، حقِ عبادت، حق آزادیِ رائے، اور امن وامان کی سہولت حاصل ہوگی اور ان پر کسی بھی قسم کا جبر واکراہ مسلط نہیں کیا جائے گا؛ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد پروردگار ہورہا ہے:

لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ۔(بقرہ: ۲۵۶)

دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

یہ اسلامی ریاست کا پہلا دستور تھا، جو اسلامی دارالحکومت مدینہ منورہ  کے حدود اربعہ میں نافذ کیا گیا۔ یہ عربوں کے لیے ایک بالکل نیاسیاسی تجربہ تھا؛کیونکہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی ، اور سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے، عربوں میں ناصرف مرکزیت کافقدان تھا؛ بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی عاری تھے، اس معاہدہ میں انفرادیت کی بجائے مرکزیت کو اہمیت دی گئی تھی۔

یہ معاہدہ اور دستور سیاسی، اقتصادی، اجتماعی اور انتظامی اعتبار سے تمام گذشتہ معاہدوں اور دستوری روایات سے بلکل مختلف تھا، کیونکہ اسے لسانی، قومی، قبائلی اور مذہبی تعصب کی بجائے انسانی، اجتماعی، اور اخلاقی بنیادوں پر مرتب کیا گیا تھا، اس میں انسانی بھائی چارہ کو بہت بڑی اہمیت دی گئی تھی۔  اس میں احترام آدمیت، عدل اور مساوات کو فوقیت دی گئی تھی۔ اس میں معاشرہ کے ہر فرد کو اس کے عقیدہ، نسل ،اور علاقائی تعلق سے قطع نظر ایک ریاست کے شہری ہونے اور انسانی معاشرہ کا ایک فرد ہونے کے لحاظ سے دیکھا گیا تھا، اور اس میں اختلافات کو ترجیح دینے کی بجائے مشترکات کو اہمیت دی گئی تھی جس کے نتیجے میں نتیجتا  صدیوں سے اختلافات اور تنازعات کے شکار قبائل میں مثالی بھائی چارے کی ایسی مثالی فضاء قائم  ہوگئی، جو رہتی دنیا تمام انسانوں کے لیے نمونہ بن گئی۔ اس میثاق سے پہلے اوس اور خزرج کے قبائل یہودیوں کی سازشوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے، اور یہودی ان کے اختلافات سے فائدہ اٹھا رہے تھے، لیکن اس میثاق کے نتیجہ میں یہودیوں کو اس قسم کی منفی سیاست، اور قوموں اور قبائل کے درمیان انتشار پھیلا نے اور فساد برپا کرنے سے روکا گیا ۔ 

یوں مدینہ منورہ میں ایک مرکزی حکومت قائم ہوگئی، جس میں ہر فرد کو سکون اور امن کے ساتھ زندگی گزرانے کی مکمل آزادی تھی، اور کسی کو دوسرے سے تعرض کی اجازت نہ تھی۔

 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018