![](https://ur.islamwhy.com/static/images/website/baner_islamwhy_small.png)
![](https://ur.islamwhy.com/static/uploads/contents/1735867760a24afb918d81b4632e3d1afaee12110a.jpg)
اسلامی اور یہودی عقائد میں بداء اور جبر کی بحث
تحریر: باسم حلی
یہ بات عربی شاعری میں کہی گئی ہے
إذا أنت أكرمت الكريم مَلَـكْتَه وإنْ أنت أكرمت اللئيم تمردا
اگر آپ شریف کو عزت دیں گے تو وہ آپ کا مطیع ہو جائے گا، لیکن اگر آپ لئیم(خود غرض) کو عزت دیں گے تو وہ سرکشی کرے گا۔
کیا اس شعر کا مضمون اللہ تعالیٰ کی رحمت، فضل اور نعمتوں کے نزول کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے؟
کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر رحمت کو لازم کر دیا ہے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ اس بات پر اصرار کرے کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ہمیشہ عدل اور حکمت کے ساتھ معاملہ کرے، اگر وہ اس کی اطاعت کریں (یہی اجمالاً بداء کا مفہوم ہے)، تو دوسری طرف ایک لئیم بندہ اصرار کرے کہ یہ کرم بغیر عقل، عدل اور حکمت کے ہو اور ساتھ ہی ناشکری، کفر اور تکبر کرے، یہاں تک کہ اللہ پر بخل کا الزام لگائے، جیسا کہ بداء کے حوالے سے یہودیوں کا رویہ تھا؟۔
عقیدۂ بداء کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام فیصلے آخری اور حتمی نہیں ہیں بلکہ اس کی رحمت ہمیشہ جاری ہے، اور جو بندہ اس کے دروازے پر توبہ، نیک اعمال اور اللہ کے عہد کی پاسداری کے ذریعے دستک دیتا ہے، اس کے لیے اللہ کی رحمت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی بندہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے سرکشی اور ناشکری کرے، تو وہ خود ہی ان نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا تسلسل دنیا اور آخرت میں جاری رہتا ہے، لیکن یہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ بندہ خود بھی رحمت کے دروازے پر دستک دے، دعاؤں کے ذریعے، اخلاص اور اللہ کے عہد کی پاسداری کے ساتھ ۔ یہی .مطلب قرآن کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے (يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ...، وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ)
اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا ہے اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور تم لوگ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔ (البقرہ: 40)
عقیدۂ بداء، حقیقی معنوں میں، اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اللہ کی رحمت ہمیشہ جاری ہے۔ اللہ کا فضل، اس کی مغفرت اور اس کا کرم کبھی ختم نہیں ہوتے، بشرطیکہ بندے اس کے عہد کی خلاف ورزی نہ کریں اور ناشکری نہ کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے(وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ، وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِل َ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ، مِنْهُمْ أُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ۔)
اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان کے گناہ معاف کر دیتے اور انہیں نعمتوں والی جنتوں میں داخل کر دیتے ۔ اور اگر یہ اہل کتاب توریت و انجیل اور ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل شدہ دیگر تعلیمات کو قائم رکھتے تو وہ اپنے اوپر کی (آسمانی برکات) اور نیچے کی (زمینی برکات) سے مالا مال ہوتے، ان میں سے کچھ میانہ رو بھی ہیں، لیکن ان میں اکثریت بدکردار لوگوں کی ہے۔)المائدة: 65-66(
یہ آیت بنی اسرائیل میں بداء کے مفہوم کی مکمل ترجمانی کرتی ہے؛ یعنی اللہ کی رحمت اور خیر کی بارش ان پر اس شرط کے ساتھ کہ تقویٰ اختیار کیا جائے اور تورات و انجیل کو قائم رکھا جائے۔ یہ عہد کی تکمیل کی نشانی ہے۔یہودیوں کا دعویٰ کہ اللہ کا ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔تاریخی کتابوں اور سب سے اہم قرآن مجید میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ بداء کا عقیدہ سب سے پہلے یہودیوں کی اس بات کا جواب تھا کہ اللہ تعالی نے تمام معاملات کا فیصلہ کر لیا ہے، اور اب کوئی تبدیلی، مٹانا یا ثابت رکھنےکا فیصلہ کرنا ممکن نہیں۔ یہ دراصل مکتبہ جبرکی ہی ایک شکل تھی جسے امت محمدیؐ کے بعض فرقوں نے بھی اختیار کیا۔
صدوق نے سلیمان مرزی سے نقل کیا کہ انھوں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا: "کیونکہ اللہ تعالی نے فیصلہ کر لیا ہے، اب اس میں کچھ اضافہ نہیں ہو سکتا۔" امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "یہ تو یہودیوں کا عقیدہ ہے، پھر اللہ تعالی نے کیسے فرمایا: تم مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا ۔((ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ)؟ کتاب التوحید: 452۔
شیخ صدوق فرماتے ہیں: "بداء یہودیوں کے عقیدہ کے رد میں ہے کیونکہ انھوں نے کہا تھا کہ اللہ نے فیصلہ کر لیا ہے )کتاب التوحید: 335 (
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ توحید پر ایمان رکھنے والے لوگ، خاص طور پر یہودیوں سے پہلے، اس عقیدے کے بارے میں کسی قسم کی شک و شبہ کے شکار نہیں تھے اور نہ ہی ان کو نظریہ بداء کے حق میں دفاع یا مناظرہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ جیسے کہا گیا ہے: "علم ایک نقطہ ہے، جسے جاہلوں نے کثیر بنا دیا"، یعنی شک و تردد، تلبیس و تشویش کے ذریعے جو یہودیوں اور ان کے پیروکاروں کا تاریخی معمول رہا ہے۔اس بات کی گواہی قرآن مجید کی یہ حقیقت ہے کہ قرآن نے نہ صرف ان بنیادی اصولوں کو ذکر کیا جو انبیاء اور اوصیاء نے شرائع اور ادیان کے بارے میں بیان کیے، بلکہ اس نے کافروں اور انکار کرنے والوں کے سخت ترین عقائد کو بھی سنجیدگی سے پیش کیا۔ اس کے باوجود، قرآن میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ملتا کہ جو لوگ یہودیوں سے پہلے تھے، وہ اللہ تعالی پر یہ الزام لگاتے تھے کہ اس کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ اور اس پر مناظرہ کرنا، یہودیوں سے شروع ہوا۔
اللہ کا فرمان ہے: (وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ)اور یہود کہتے ہیں: اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، خود ان کے ہاتھ باندھے جائیں اور ان پر لعنت ہو اس (گستاخانہ) بات پر بلکہ اللہ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ (المائدة: 64)
اسحاق بن عمار کی مرفوع حدیث ہے، ابو عبد اللہ علیہ السلام سے نقل کیا گیا کہ آپ نے فرمایا اللہ کے فرمان (وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَة) کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالی نے فیصلہ کر لیا ہے اور اب کچھ بھی بدل نہیں سکتا، نہ کچھ بڑھایا جا سکتا ہے، نہ کچھ کم کیا جا سکتا ہے۔ (کتاب التوحید للصدوق: 167)
اسی طرح حماد بن عیسی کی مرفوع حدیث میں ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا:دعا کرو، اور یہ نہ کہو کہ 'اللہ نے فیصلہ کر لیا ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے ان کے قول کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا ہے:(غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاء )کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا (يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ'؟) اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے(رعد:39) الكافي 2: 467
یہودیوں کا اصل ہدف
یہودیوں کا مقصد اللہ کی مطلق قدرت کو رد کرنا یا اس کی حکمت و قدرت پر شک کرنا نہیں تھا، بلکہ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اللہ تعالی نے ان پر فضل و کرم کی کمی کر رکھی ہے۔ ان کے خیال میں اللہ نے انہیں دیگر انسانوں پر فوقیت دینے کے باوجود انہیں دنیا میں آسانی، خوشحالی اور فتوحات نہیں دیں۔ اس کے باوجود کہ اللہ تعالی قادر ہے اور اس کی خزانے لامتناہی ہیں، وہ ان سے اپنی نعمتیں اور فضل روک کر رکھتا ہے، حالانکہ یہودی خود کو تمام مخلوقات سے بہتر سمجھتے تھے۔
یہودیوں کا یہ الزام تھا کہ اللہ تعالی نے انہیں دنیا پر غالب آنے کا موقع نہیں دیا، اور اپنی حکمت کی وجہ سے ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، یعنی وہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے سے گریزاں ہیں، حالانکہ وہ اس کے فضل کے مستحق ہیں۔ اس لیے ان کا یہ دعویٰ تھا کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ ان پر اپنی کرم و عنایت سے محروم ہیں۔یہ بات اہم ہے کہ یہودیوں نے ایسا اللہ کی ذات پر الزام صرف اپنے بارے میں لگایا ہے، دیگر مخلوقات کے بارے میں وہ ایسا نہیں کہتے۔ اور قرآن میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ آیت تمام یہودیوں کے بارے میں بھی نہیں بلکہ یہودیوں میں سے ان لوگوں کے بارے میں ہے جو نافرمانی، تکبر، اور عناد میں مبتلا تھے ۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: (مِنْهُمْ أُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ) ان میں سے کچھ میانہ رو بھی ہیں، لیکن ان میں اکثریت بدکردار لوگوں کی ہے۔ (المائدة: 66) یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ تمام یہودیوں کی حالت ایک جیسی نہیں تھی، بلکہ کچھ لوگ معتدل اور صالح تھے، جبکہ بیشتر نے برائی کی۔
کیوں قرآن اور اہل بیتؑ نے ان کے دعویٰ کو جھٹلایا؟اگر سوال کیا جائے اور اس سوال کا قرآن و اھل بیت علیہم السلام کے زبانی بیان شدہ بداء کے عقیدے سےکیا تعلق ہے ؟ اھل بیت اطہار علیہم السلام نے ید اللہ مغلولۃ کہنے کو نظریہ بداء کے انکار سے کیوں تفسیر کی ؟ تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ یہود نے اللہ پر بخل اور ہاتھ بندھے ہونے کا الزام لگایا، کیونکہ ان کے بیمار عقیدے کے مطابق وہ خود کو دنیا کی بہترین قوم سمجھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اللہ ان کی ہر خواہش کو پورا کرے، چاہے وہ عقل، عدل، حکمت، شرافت اور ضمیر کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ جب اللہ نے ان کی ایسی خواہشات کو پورا نہ کیا، تو انہوں نے اللہ پر الزام لگایا کہ اس کا ہاتھ (خصوصاً ان کے معاملے میں) بندھا ہوا ہے (یعنی وہ بخیل ہے) اور اس کی رحمت کا دروازہ ان کے لیے بند ہے۔
اور انہوں نے اس بات میں شدید جھوٹ بولا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا دروازہ بند نہیں کیا، سوائے ان پر، ان کی سرکشی، ظلم، انکار اور تکبر کی وجہ سے۔ اور انہوں نے جھوٹ بولا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دروازہ اس وقت بند کیا، جب انہوں نے اللہ کے عہد کا انکار کیا (وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ... اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور تم لوگ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو ( وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ) اور سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر مت بنو۔
یہودیوں کا "بداء" کا انکار
یہودیوں نے اللہ کی رحمت کی طرف جانے والے دروازے کو اپنی تکبر اور نافرمانی سے بند کیا، اور اللہ تعالی کو بخل اور حکمت کے فقدان کا الزام لگایا۔ انہوں نے اللہ کی مشیت کو اپنے مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی، اور جب ان کی خواہشیں پوری نہیں ہوئیں، تو انہوں نے اللہ پر الزام لگایا کہ وہ انہیں دنیا میں غالب نہیں آنے دے رہا۔ جس طرح قرآن بیان کر رہا ہے کہ: (قَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحْقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَال ) اور ان کے پیغمبر نے ان سے کہا: اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے، کہنے لگے: اسے ہم پر بادشاہی کرنے کا حق کیسے مل گیا؟ جب کہ ہم خود بادشاہی کے اس سے زیادہ حقدار ہیں اور وہ کوئی دولتمند آدمی تو نہیں ہے، (البقرة: 247) یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہودیوں نے اللہ کی حکمت کو رد کیا اور اس پر اعتراض کیا کیونکہ وہ اپنے مال و دولت اور دنیاوی حیثیت کو معیار سمجھتے تھے۔
اللہ کی رحمت اور معافی کے نمونے
اس ذہنیت کے ساتھ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر – چند قلیل افراد کے علاوہ – رحمت، خیر اور نصرت نازل کرتا ۔ بلکہ ان پر سزا، عذاب یا آزمائش ہی نازل ہونی تھی ۔ قرآن کریم نے اس کی چند مثالیں پیش کی ہیں، جن میں سے دو یا تین کا ذکر کافی ہوگا، تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ اللہ کی رحمت ان پر کثرت سے تھی، اس سے پہلے کہ ان پر رحمت کا دروازہ بند کر دیا جائے اور تقدیر کے فیصلے کو قطعی کر دیا جائے۔
1۔ گوسالہ پرستی کا واقعہ
اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 40 راتوں تک پہاڑ پر رہیں گے۔ اس دوران ان کے پیچھے یہودیوں نے بچھڑے کی عبادت کی۔ اللہ تعالی نے ان کے اس گناہ کے باوجود انہیں معاف کر دیا: (وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ، ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ )
اور (وہ وقت بھی یاد کرو ) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا پھر اس کے بعد تم نے گوسالہ کو (بغرض پرستش) اختیار کیا اور تم ظالم بن گئے ۔ پھر اس کے بعد ہم نے تمہیں معاف کر دیا کہ شاید تم شکر گزار بن جاؤ۔ (البقرة: 55۔ 56) یہ آیت اللہ کی وسیع رحمت کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو معاف کر دیتا ہے، چاہے وہ کتنی بھی بڑی خطا کریں، بشرطیکہ وہ توبہ کریں اور اپنی نیت درست کریں
2۔ انھیں موت دے کررجعیت کے ذریعے پھر زندہ کرنا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ، ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ) اور (یاد کرو وہ وقت) جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم آپ پر ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک ہم خدا کو علانیہ نہ دیکھ لیں، اس پر بجلی نے تمہیں گرفت میں لے لیا اور تم دیکھتے رہ گئے۔ (البقرة: 56) یہ آیت بنی اسرائیل کے اس واقعے کو بیان کرتی ہے جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ وہ اللہ کو کھل کر دیکھنا چاہتے ہیں، تو اللہ نے انہیں ایک عذاب میں پکڑ لیا اور وہ مر گئے، پھر اللہ نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا تاکہ وہ شکر کریں اور اللہ کی رحمت کو پہچانیں۔
3۔ انہیں من و سلویٰ کھلانا اور ابر کا سایہ دینا
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :( وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ)۔ اور ہم نے تمہارے اوپر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا، ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عنایت کی ہیں اور وہ ہم پر نہیں بلکہ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔(البقرة: 57) یہ آیت بنی اسرائیل پر اللہ کی بڑی عنایتوں کو بیان کرتی ہے جن میں ابر کا سایہ اور من و سلویٰ کا نزول شامل ہیں، جو انہیں اس وقت دیا گیا جب وہ صحرا میں تھے اور خوراک کی کمی کا سامنا کر رہے تھے۔ باوجود ان نعمتوں کے، وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے ظلم کرتے رہے۔
انکار کے نتائج : عذاب کاحتمی فیصلہ :
یعنی اللہ کی رحمت اور فضل کے بغیر، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: (وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى... وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ)
اور ( وہ وقت یاد کرو) جب تم نے کہا تھا: اے موسیٰ! ہم ایک ہی قسم کے طعام پر ہرگز صبر نہیں کر سکتے، پس آپ اپنے رب سے کہدیجئے کہ ہمارے لیے زمین سے اگنے والی چیزیں فراہم کرے، جیسے ساگ، ککڑی، گیہوں، مسور اور پیاز، (موسیٰ نے) کہا:کیا تم اعلیٰ کی جگہ ادنیٰ چیز لینا چاہتے ہو؟ ایسا ہے تو کسی شہر میں اتر جاؤ جو کچھ تم مانگتے ہو تمہیں مل جائے گا اور ان پر ذلت و محتاجی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں مبتلا ہو گئے، ایسا اس لیے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہتے تھے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے اور یہ سب اس لیے ہوا کہ وہ نافرمانی اور حد سے تجاوز کیا کرتے تھے۔ (البقرة: 61)
اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب دیا کیونکہ ان کی پوری تاریخ کفر اور ظلم پر مبنی تھی۔ وہ نبیوں کو قتل کرتے رہے، اور اللہ کی آیات کا انکار کرتے رہے۔
کیا یہودیوں کا کہنا "اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے" صحیح ہے؟ جب اللہ نے ان کے گناہوں اور جحود کے بعد ان کے لیے توبہ کا دروازہ بند کر دیا تو یہودیوں نے کہا : (يدُ اللَّہِ مَغْلُولَہٌ) اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے۔ لیکن کیا وہ سچے ہیں؟ قرآن کے مطابق، وہ دراصل اللہ کی رحمت کو خود ہی بند کرتے ہیں اپنی نافرمانیوں کے ذریعے۔
اللہ نے بنی اسرائیل کے متعلق کہا۔(وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ) اور تم اپنے ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جنہوں نے سبت (ہفتہ) کے بارے میں تجاوز کیا تھا تو ہم نے انہیں حکم دیا تھا: ذلیل بندر بن جاؤ۔( بقرہ : 65) یہ واقعہ بتاتا ہے کہ یہودیوں نے اللہ کے حکم کو چیلنج کیا اور ہفتہ کے دن شکار کرنے کی کوشش کی، حالانکہ اللہ نے انہیں اس سے منع کیا تھا۔ ان کی یہ حرکت نہ صرف گناہ تھی بلکہ اللہ کے احکام کا مذاق اُڑانے والی تھی، اسی وجہ سے اللہ نے انہیں بندر بنا دیا۔ان کے اعمال کا سبب اللہ نے ان کے لیے بداء (رحمت کا دروازہ) کھول رکھا تھا، لیکن ان کے مسلسل گناہوں اور توبہ نہ کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان پر اپنے دروازے بند کر دیے۔ ان کی بدترین گناہ کی مثالیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں جیسے گوسالہ کی پوجا، اللہ کے دیدار کا مطالبہ، اور آسمان سے دسترخوان (مائدہ) کی درخواست۔
اختتام اور سبق
اللہ کی رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے، لیکن یہ دروازہ تب بند ہوتا ہے جب انسان اپنے استکبار اور گناہوں کے ذریعے اسے بند کر دیتا ہے۔ اس کا حقیقی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے، اور اس کا دل اور نظر بھی بند ہو جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا (خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ) اللہ نے ان کے دلوں اور ان کی سماعت پر مہر لگا دی ہے نیز ان کی نگاہوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ (إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ، وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ) جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا فیصلہ قرار پا چکا ہے وہ یقینا ایمان نہیں لائیں گے۔ (يونس: 96)پس اللہ نے انسانوں کو خبردار کیا ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ کی رحمت کے دروازے کو بند نہ کریں۔