ذکرِ الٰہی: شعار، میراث اور پہچان
تحریر: باسم حلی
شریعتوں اور مسالک میں گونا گوں اختلاف ہونے کے باوجود تمام ادیان اس بات پر متفق ہیں کہ ذکرِ الٰہی اور دعا، اللہ تعالی کا قرب ، رضائے الہی اور جنت کے حصول کا واحد راستہ ہیں۔ اس بات کی گواہی اللہ کے کلام سے ہمیں ان الفاظ میں ملتی ہیں۔(مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُم) کہدیجئے: اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی نہ کرتا (فرقان : 77)
اور فرمایا (اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا، يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا) اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش برسائے گا(ھود : 52)
اللہ پر ایمان رکھنے والوں کے لئے اس عظیم الٰہی قانون میں کوئی شک و شبہ نہیں، کیونکہ یہ تمام ادیان کے پیروکاروں کے نزدیک ایک معلوم حقیقت ہے کہ ذکر، اللہ کے نزدیک محبوب ہے۔ لیکن اگر اس کی گہرائی سے معاملے کو دیکھیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذکر کو فرض کرنے میں الٰہی حکمت کیا ہے؟ اور آسمانی نصوص میں اس پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے؟ مختصر الفاظ میں، ذکر ایک نعرہ، میراث اور پہچان ہے، ذکر میں وہ طاقت ہوتی ہے جو انسان کی عزت و وقار کو پامال کرنے والی سلطنتوں کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔ یہ کہنابے جا نہیں ہوگا کہ ذکر کے دنیاوی اور اخروی اثرات بے شمار ہیں۔ شاید کوئی کہے، ذکر تو محض زبان کا وظیفہ ہے، اس کا میراث اور پہچان سے کیا تعلق؟
ذکرِ الٰہی: انقلاب کا پیغام اور پہچان کی طاقت
ذکر، چاہے کچھ لوگوں کو محض چند الفاظ کی بے روح تکرار لگے،مگر اس کی تاریخ اس کے بالکل برعکس ایک اور حقیقت کو ثابت کرتی ہے۔ کیا رومی سلطنت، جو بت پرستی پر قائم تھی، ہر اُس شخص کو صلیب پر نہیں چڑھاتی تھی جو اللہ کی وحدانیت کا اعلان کرتا یا انجیل کی تلاوت کرتا؟ کیا مشرکینِ مکہ اُن لوگوں کو اذیتیں نہیں دیتے تھے جو قرآن کی تلاوت کرتے یا (اللّٰهُ أَحَدٌ) کا اعلان کرتے؟ یہ مخالفت کیوں ہوتی تھی ؟ اس لیے کہ ذکر، بظاہر سادہ نظر آنے کے باوجود، اپنے اندر ایک بھرپور طاقت اور انقلابی پہچان رکھتا ہے جو ظلم و استبداد کے نظاموں کو چیلنج کرتی ہے اور آزادی و انسانی وقار کی دعوت دیتی ہے۔
یہی بات ہمیں مغربی عربی میں فرانسیسی استعمار کے منصوبوں میں نظر آتی ہے۔ فرانسیسی استعمار نے عربی زبان کو ختم کرنے کے لیے تعلیم، ثقافت، اور عوامی زندگی میں عربی زبان کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔ لیکن اہلِ مغرب نے اس منصوبے کو شدید مزاحمت کے ساتھ مسترد کیا، حتیٰ کہ اپنی جانیں قربان کیں۔فرانسیسی استعمار کا منصوبہ صرف زبان کی تبدیلی نہیں تھا، بلکہ یہ ایک منظم حملہ تھا قومی عزت، ثقافت، اور شناخت پر۔ فرانسیسی استعمار جانتا تھا کہ مغربی عربوں کو مکمل طور پر غلام بنانا ممکن نہیں جب تک اس زبان کو ختم نہ کیا جائے جو قرآن کی زبان اور لوگ اُن کی تہذیبی شناخت کا جوہر ہے ۔
عربی زبان، مسلمانوں کے لیے، نہ صرف مذہبی شعور کا ذریعہ تھی بلکہ ایک تہذیبی وراثت اور شرف کی علامت بھی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ فرانسیسیوں نے اس زبان کو ہدف بنایا اور اہلِ مغرب عربوں نے اسے اپنی شناخت کی حفاظت سمجھتے ہوئے اپنی زندگیاں قربان کر دیں۔فرانسیسی استعمار کو بھی اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ عربوں کو ان کے ورثے سے جدا کرنا ان کے لئے کس قدر اہمیت کا حامل ہے، یہاں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مغرب، جہاں دیگر اقوام کو ان کی شناخت اور وراثت سے محروم کرنے کے لیے بے شمار وسائل خرچ کرنے سے نہیں ہچکچاتا، وہاں وہ خود اُن عربی، اسلامی یا ایشیائی مخطوطات اور علمی ذخائر کو حاصل کرنے کے لیے لاکھوں خرچ کرتا ہے جنہیں وہ بظاہر بے وقعت ظاہر کرتا ہے۔ مغرب کا یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ کسی قوم کے علمی ورثے پر قبضہ کرنا اُس قوم کی تہذیبی شناخت کو مٹانے کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذکرِ الٰہی اور زبانِ قرآن کو محفوظ رکھنا نہ صرف روحانی عمل ہے بلکہ ایک عظیم ثقافتی اور قومی جدوجہد بھی ہے۔
زبان اور ذکر: شناخت کی حفاظت کا استعارہ
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ مغربی عربوں نے فرانسیسی استعمار کے منصوبے کو دل و جان سے مسترد کر دیا، کیونکہ ان کے لیے زبان محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں تھی، بلکہ یہ ان کی خودمختاری، وقار، اور مقدس وراثت کی علامت تھی۔ جس طرح دنیا بھر کی جماعتیں اور تحریکیں اپنے نعرے اور جدوجہد کے لیے خاص علامات اپناتی ہیں، اسی طرح اہلِ مغرب کے لیے عربی زبان ان کی شناخت کا نشان اور ان کی مزاحمت کا شعار تھی، جس سے دستبرداری ممکن نہ تھی۔
یہ معاملہ فقط خاص الفاظ کے تکرار یابعض جملوں کے استعمال سے آگے کا تھا ۔ کیونکہ ذکر، جسے ادیان "شعار" کہتے ہیں، محض زبان کی حرکت یا غیر شعوری تکرار نہیں، بلکہ یہ ایک گہری تاریخی ورثے کا مظہر ہے۔ اگر یہ ورثہ نہ ہوتا تو قوموں کی کوئی پہچان باقی نہ رہتی۔یہ وہی شناخت تھی جس کے تحفظ کے لیے الجزائر میں دس لاکھ شہداء نے اپنی جانیں دیں۔ یہی وہ پہچان تھی جس کی خاطر ہزاروں مسیحیوں نے رومی سلطنت کے ظلم کے خلاف اپنی جانیں قربان کیں۔ اسی وجہ سے نمرود نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالنے کی کوشش کی۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر مشرکینِ مکہ نے رسول اکرمؐ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا، حالانکہ وہ ان کی صداقت اور امانت کے قائل تھے۔ اور یہی وہ شناخت تھی جس نے عباسی خلیفہ المتوکل کو امام حسینؑ کے زائرین پر سخت ترین پابندیاں لگانے پر مجبور کیا۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر ظالم سلطنت اور جابر قوت اس بات سے بخوبی واقف رہی ہے کہ کسی مذہب کو ختم کرنا، کسی قومی میراث چھیننا، یا اخلاقیات کو بگاڑنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ان کی اصل شناخت پر حملہ نہ کیا جائے۔ یہ شناخت یا تو ورثے کے ختم کرکے، یا اسے مسخ کرکے، یا پھر اس کی حقیقت کو تبدیل کر کے تباہ کی جاتی ہے۔
شناخت صرف ماضی کا ایک یادگار حصہ نہیں، بلکہ حال کے لیے حفاظتی ڈھال اور مستقبل کے لیے سمت متعین کرنے والا قطب نما ہے۔ یہ وہ جوہر ہے جو قوموں کی خصوصیات کو قائم رکھتا ہے اور انہیں مٹنے یا کسی دوسری تہذیب میں جذب ہونے سے بچاتا ہے۔ اسی لیے، شناخت کی حفاظت ہمیشہ ظلم و جبر کی قوتوں اور اپنے اصولوں سے وابستہ لوگوں کے درمیان ایک مستقل معرکہ رہی ہے ۔
شناخت کا تحفظ: اقوام کی بقا کا راز
الجزائر میں فرانسیسی استعمار کا منصوبہ عربی اور اسلامی شناخت کو مٹانے کا تھا، جس میں عوام کو اپنی زبان بولنے سے روکا گیا اور ان پر فرانسیسی زبان تھوپنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح بھارت اور عراق میں برطانیہ کے منصوبوں نے ان قوموں کو مغربی تہذیب میں ضم کرنے کی کوشش کی، جبکہ لیبیا میں اٹلی نے یہی تجربہ دھرایا۔ آج کچھ خلیجی ممالک میں "امریکہ اور اسرائیل کے زیر اثر "نورملائزیشن" اور "زائینائزیشن" کی کوششیں ہو رہی ہیں، جو کئی غافل قوموں کی شناخت کو مٹانے کا باعث بن سکتی ہیں۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آزاد قوموں نے ان منصوبوں کو ہمیشہ ناکام بنایا ہے۔ الجزائر کے شہداء نے اپنی زبان، مذہب، اور ثقافت کا تحفظ اپنی جانوں کے ذریعے کیا۔ ان کی قربانیوں نے فرانسیسی منصوبے کو شکست دی، اور ان کے خون نے وطن کی مٹی کو سیراب کرتے ہوئے آزادی کی فصل کو جنم دیا۔بھارت میں، گاندھی جی کے سادہ سفید لباس نے مقامی ثقافت اور معیشت کا استعارہ بن کر برطانوی منصوبوں کو ناکام بنایا۔ یہ لباس، بغیر کسی ہتھیار کے، ہندوستانی ورثے اور شناخت کا ایک ایسا مضبوط نشان تھا جو پوری قوم کو مغربی اثرات کے خلاف متحد کر گیا۔عراق میں، "ثورة العشرين" کے نعروں نے دجلہ و فرات کی تہذیبی وراثت کو ایک نئی زندگی دی اور برطانوی منصوبوں کو زمین بوس کر دیا۔ ان نعروں نے قوم کو اس کی جڑوں سے جوڑتے ہوئے اس کی اجتماعی طاقت کو اجاگر کیا، جو آسمانی تعلیمات اور انسانی اقدار پر مبنی تھی۔
تاریخ اس بات پر فخر کرتی ہے کہ بلال حبشیؓ کا نعرہ "احدٌ احدٌ" محض ایک تکرار نہ تھا بلکہ ایمان کی پختگی اور توحید کے پیغام کا اعلان تھا۔ یہی سادہ الفاظ مکہ کے شرک کے نظام کو ہلانے کے لیے کافی تھے اور اسی سادہ نعرے نے کئی غلاموں کے دلوں میں آزادی اور ایمان کی شمع روشن کر دی ۔یہ الفاظ، نعرے، اور زبانیں محض اظہار کے ذرائع نہیں ہیں؛ یہ قوموں کی شناخت، ان کے عقائد، اور ان کی بقا کے ضامن ہیں۔ یہ وہ ہتھیار ہیں جو ظاہری طور پر نرم اور سادہ نظر آتے ہیں، لیکن ان میں وہ طاقت پوشیدہ ہے جو قوموں کو مٹنے سے بچاتی اور ان کے مستقبل کو محفوظ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام کی آزادی اور ترقی کا پہلا قدم اپنی شناخت، زبان، اور ورثے کا تحفظ ہے ۔
ذکرِ الٰہی کی الٰہی حکمت
ذکرِ الٰہی کا مقصد، اللہ تعالیٰ کے قرب اور بندگی کے ذریعے اعلیٰ روحانی مقام تک پہنچنا ہے، جو بلا شبہ ایک عظیم اور بنیادی مقصد ہے۔ تاہم، اس کے دائرے میں گہرے اور جامع اثرات بھی شامل ہیں۔ ذکر نہ صرف روحانی تعلق کا ذریعہ ہے بلکہ ایک مضبوط دفاعی نظام ہے جو ظالم سلطنتوں اور استبدادی قوتوں کے خلاف انسان کی آزادی، وقار، اور فطرت کے تحفظ کا ضامن ہے۔ اس مقصد کو تین اہم پہلوؤں میں سمجھا جا سکتا ہے ۔
1۔ شعار:
شعار کسی بھی دین کا ابتدائی اور بنیادی اظہار ہوتا ہے۔ اسلام میں سب سے سادہ اور جامع شعار کلمۂ شہادت ہے۔(أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدًا رسول الله) یہ بظاہر سادہ الفاظ ہیں مگرحقیقت میں یہ ایمان کے پورے نظام کی بنیاد ہیں، جو شعائرِ الٰہی کی تعظیم پر استوار ہیں، جیسا کہ قرآن کہتا ہے۔ (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ) اے ایمان والو! تم اللہ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو (المائدہ: 2)۔
لیکن شعار تب ہی مؤثر ہوتا ہے جب وہ ایک حقیقی ورثے سے جڑا ہو۔ جیسا کہ قرآن نے اعراب کے ایمان کو محض زبانی دعوے قرار دیا اور فرمایا (قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ) بدوی لوگ کہتے ہیں: ہم ایمان لائے ہیں۔ کہدیجئے: تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم یوں کہو: ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہو (الحجرات: 14)۔یہ واضح کرتا ہے کہ بغیر حقیقی ایمان کے، شعار صرف ایک خالی دعویٰ رہ جاتا ہے۔
2۔ ورثہ:
ورثہ شعار کی روح ہے، جو اس کی گہرائی اور اثرپذیری کو ممکن بناتا ہے۔ یہ وہ قلبی ایمان ہے جو اللہ، اس کے رسول، اور قرآن کے ساتھ گہری وابستگی پر مبنی ہے۔ اس ورثے میں مقدسات جیسے مکہ، کعبہ، مدینہ، اور مسجدِ نبوی کی تعظیم شامل ہے، اور نبی اکرمؐ اور ان کے اہلِ بیتؑ کی محبت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔قرآن میں شعائر کی تعظیم کو تقویٰ کا حصہ قرار دیا گیا (ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ) بات یہ ہے کہ جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔(الحج: 32)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ شعائرِ الٰہی کی تعظیم نہ صرف روحانی تقویٰ کی علامت ہے بلکہ اس کا تعلق مادی اور معنوی فوائد سے بھی ہے۔ورثہ، ماضی کی داستان نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جو قوم کی سمت اور مستقبل کی راہ متعین کرتی ہے۔ یہ وہ بنیاد ہے جو امت کو بکھرنے سے روکتی اور اس کی اصل شناخت کو محفوظ رکھتی ہے۔ذکرِ الٰہی کا یہ پہلو امت کو شعوری طور پر اپنے ایمان، شعار، اور ورثے سے جوڑ کر، ایک مضبوط اور بامقصد معاشرہ تشکیل دیتا ہے، جو نہ صرف اللہ کے قرب کو پا سکتا ہے بلکہ دنیا میں عزت اور آزادی کی زندگی بھی گزار سکتا ہے ۔
خلاصہ :
اسلام میں ذکر کی حیثیت محض انفرادی عبادت تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل منصوبہ ہے جو شعائر، ورثہ، اور شناخت پر مبنی ایک مضبوط نظام کو تشکیل دیتا ہے۔ یہ نظام انسان کو ثقافتی غلامی اور انحصار سے محفوظ رکھتا ہے۔ شعار، ورثہ، اور شناخت وہ اسلحہ ہیں جو قوموں کو مٹنے سے بچاتے ہیں، انہیں آزادی اور اصالت کے ساتھ اپنی انسانیت سے جڑے رہنے کا موقع دیتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ امام حسینؑ کا یزید پر، حضرت عیسیٰؑ کا رومیوں پر، حضرت ابراہیمؑ کا نمرود پر، حضرت موسیٰؑ کا فرعون پر، حضرت علیؑ کا معاویہ پر،اسی طرح ماضی قریب میں گاندھی کا انگریزوں پر فتح کا راز مادی ہتھیار نہیں تھا بلکہ ایمان، تراث، اور وہ شناخت تھی جو ایک ناقابلِ شکست ورثے سے جڑی ہوئی تھی۔اسی حقیقت کے تناظر میں حضرت زینبؑ نے کربلا کے پیغام کو ان الفاظ میں ابدی بنا دیا۔(فَكِدْ كَيْدَكَ، وَاسْعَ سَعْيَكَ، وَنَاصِبْ جُهْدَكَ، فَوَاللهِ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا، وَلَا تُـمِيتُ وَحْيَنَا، وَلَا تُدْرِكُ أَمَدَنَا) اے یذید: تم اپنی چال چلو، اپنی کوشش کرو، اور اپنی پوری طاقت لگا لو، لیکن خدا کی قسم! تم ہمارے ذکر کو مٹا نہیں سکتے، نہ ہی ہماری وحی کو ختم کر سکتے ہو، اور نہ ہی ہماری عظمت کی انتہا تک پہنچ سکتے ہو۔
یہ الفاظ محض ایک چیلنج نہیں تھے بلکہ ایک اٹل حقیقت کا اعلان تھے کہ ایک عظیم ورثے اور روشن شناخت پر مبنی شعار، وقت کی کسی بھی جابر سلطنت کو عبرت بنا سکتا ہے۔یہی ورثہ، جو امام حسینؑ کے ذکر میں زندہ رہا، ہر طاغوتی سلطنت کو زوال پذیر کرتا رہا۔ ذکرِ الٰہی اورامام حسین ع کے غیرمتزلزل ایمان و شعور نے انسان کی فطرت اور کرامت کو زندہ رکھا، اور ثابت کیا کہ ظلم چاہے جتنا بڑا ہو، اس کا انجام نابودی ہے۔یہ ذکر، ایک شعار ہے جو وحی کی روح کو لیے ہوئے ہے، ایک ورثہ ہے جو آسمانی بلندیوں کو چھوتا ہے، اور ایک شناخت ہے جو انسان کو اس کی اصل فطرت اور کرامت سے جوڑتی ہے۔ یہ محمدؐ، علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ، اور حسینؑ کا شعار ہے۔ یہ وحی کا تسلسل، ایک ایسا تراث ہے جو وقت کی حدود سے بلند ہے، اور ایک ایسی شناخت ہے جو قیامت تک انسانیت اور اس کی عزت کو محفوظ رکھے گی ۔
نتیجہ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ جب فرماتا ہے : (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا، وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا) اے ایمان والو! اللہ کو بہت کثرت سے یاد کیا کرو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔ (الأحزاب: 41-42) تو اس کا مقصد صرف آخرت کی سعادت حاصل کرنا نہیں بلکہ ایک ایسی مسلمان شخصیت کی تعمیر بھی ہے جو ذکرِ الٰہی کا شعار، حضرت محمدؐ اور قرآن کریم کا ورثہ، اور شناخت کا اسلحہ لیے ہوئے ہو۔یہ شخصیت ایسی قوت رکھتی ہو جو اسے ہر دور کے طاغوتی اور استکباری نظاموں کے سامنے ثابت قدم رکھ سکے، چاہے وہ ماضی کی "فرنسیّت" ہو، یا آج کی "امریکیت" اور "صہیونیت"۔ یہ ذکر اور ایمان کا اسلحہ، چاہے وہ صرف ایک کلمہ یا اصول ہی کیوں نہ ہو، انسان کو ہر طاقت کے سامنے سربلند رکھتا ہے اور اسے اس کی حقیقی فطرت اور کرامت سے جڑے رہنے کا ہنر سکھاتا ہے ۔