19 رجب 1446 هـ   19 جنوری 2025 عيسوى 4:28 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-12-28   122

امت کی پسماندگی کا علاج:اسلام کا فہم جدید

معتصم السيد أحمد

تہذیبی ترقی معاشروں کی بیداری کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر لوگ ترقی کی سوچ رکھتے ہیں اور مستقبل میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو وہ ایک بہتر معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس، پسماندگی دراصل انسان کے ذہنی اور فکری افلاس کی پسماندگی کا نتیجہ ہوتی ہے۔آج امت جس پسماندگی کا شکار ہے اسے علمی اقدار اور ثقافتی بنیادوں سے الگ ہو کر نہیں دیکھا جا سکتا، یہی علمی اقدار اور ثقافتی بنیادیں ہی کسی معاشرے کے لیے ایک تہذیب یافتہ ڈھانچے کو تشکیل دیتی ہیں۔ جب ان جہتوں میں عدم توازن ہوتا ہے تو اس کا اثر براہ راست ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی طرز زندگی پر ہوتا ہے۔

اصل میں اسلام صرف عبادات یا قانون کے کچھ نکات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ علمی اوراقدار پر مبنی بنیادیں رکھتا ہے جس کا مقصد ایک جامع تہذیب کو تشکیل دینا ہے ۔ایسی تہذیب جو انسانی وقار کو بڑھائے اور اسے انصاف، بھلائی، فلاح و بہبود کے حصول کی طرف لے جائے، یوں اسلام ترقی کا علمبردار ہے۔ اسلام کا یہ تہذیبی پیغام روحانی اور علمی اقدار کے امتزاج، خود شناسی کی جستجو اور ایک متوازن اور خوشحال معاشرے کی تعمیر کی طرف واضح رہنمائی کرتا ہے۔تاہم، مسلمانوں کا اسلام سے تین معاملات میں تعلق انتہائی کمزور ہے: علمی تعلق،اقدار سے تعلق اور ثقافت سے تعلق۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں تک اسلام کی ان امور میں رہنمائی پہنچی ہی نہیں ہے۔ علمی سطح پر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان زیادہ تر سطحی ابحاث اور چھوٹے چھوٹے فقہی مباحث میں الجھے ہوئے ہیں، اسلام کے فلسفہ اور زندگی کے اس کے جامع نظام سے بہت دور ہیں۔ وہ بنیادی اقدار جو ایمان ومذہب کے ساتھ عمل کو جوڑتی ہیں اور مسلم معاشرے کی تعمیر میں عملی زندگی اور عبادت کے درمیان ایک بہترین تعلق جوڑتی ہیں وہ آج موجود ہی نہیں ہیں ۔

ثقافتی سطح پر دیکھیں تو زندہ اسلامی ثقافت جو کہ ایک جامع انسانی نظریہ کی حامل ہے، زوال پذیر ہو کر محدود روایتی ثقافتوں تک ہو کر رہ گئی ہے اور عصری چیلنجوں سے بالکل بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ اسلامی ثقافت تخلیقی صلاحیتوں اور ایجادات کے لیے تحریک کا ذریعہ بننے کی بجائےیہ ایک تقلیدی ثقافت بن گئی ہے جس میں ترقی کے ساتھ رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری حرکیات کا فقدان ہے۔ اس ثقافتی بگاڑ میں تہذیبی نظام کی عدم موجودگی نے اہم کردار ادا کیا جو اسلام کو ترقی کی جانب متحرک کرتا ہے۔

اس پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ان تینوں جہات میں اجتہاد کی ضرورت ہے جو اسلام کو اس کے تہذیبی کردار میں بحال کرے۔ اس کے لیے ایک نئی علمی بیداری کی بھی ضرورت ہے جو اسلام کو زندگی کے ایک جامع نظام کے طور پر دوبارہ سمجھےاور ان بنیادی اقدار کا احیاء کرے جو نیکی اور انصاف کے انسانی رویوں کو منظم کرتی ہیں۔ اسلامی ثقافت کی تجدید کرنا تاکہ یہ اعلی ، متحرک اور زندگی کی حقیقت کے تقاضوں سے مربوط ہو۔ملت اسلامیہ جس ثقافتی پسماندگی کا شکار ہے اس کی ایک اہم وجہ وہ تاریخی انحراف ہے جو پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے انتقال کے بعد پیش آیا تھا،یہ انحراف محض اختیارات کی شکل و صورت میں تبدیلی نہیں تھی بلکہ مذہب اور ریاست کے درمیان ،اسلام اور لوگوں کی زندگیوں کے درمیان تعلق کی نوعیت میں ایک بنیادی تبدیلی تھی۔

پہلے مرحلے میں اسلام نے افراد اور معاشروں کی زندگیوں میں جو بنیادی تبدیلیاں کیں ان میں اہم ترین انصاف، مساوات اور آزادی پر مبنی اقدارکے نظام کا قیام تھا۔ تاہم بعد آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں حکمرانی کا جو نظام سامنے آیا اس نے اپنی اتھارٹی کو مستحکم کرنے پر توجہ مرکوز کی، اس کے اثرات اسلام کے اقدار کے نظام پر بھی پڑے۔ مذہب کو سیاسی بالادستی کو بڑھانے کا ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ معاشرے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک جامع تہذیبی پیغام کے طور پر استعمال کیا جائے۔ لیکن انہوں نے یہ نعرہ بلند کیا کہ اسلام کو رسمی ڈھانچے تک محدود کر دیا جائے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسی عبادات کے رسمی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی جائے، جبکہ ان کے قدری پہلوؤں کو نظر انداز کیا جائے جو انصاف کے حصول، ناانصافی کے خلاف مزاحمت پر زور دیتے ہیں یعنی ایک ایسے معاشرے کی تعمیر جو انسانی وقار کو مستحکم کرے۔ اس نقطہ نظر نے اسلام کو ایک ایسے مذہب کی طرح لیا جو صرف آخرت کی زندگی کے لیے ہے،اس کا روز مرہ کی زندگی اور کسی تہذیبی نظام سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ہے۔اس کے علاوہ یہ تبدیلی اسلام کو اس کے انقلابی پیغام سے دور کرنے کا باعث بنی، جو ظلم و استبداد کے طوق سے انسانی آزادی کا مطالبہ کرتا ہے۔ مذہب اصلاح اور تبدیلی کا محرک بننے کی بجائے لوگوں کو کنٹرول کرنے اور حکمرانی کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ محراب و منبر جنہیں تخلیقی صلاحیتوں کو ترقی دینے کی بجائے حکمرانوں کی اطاعت کو فروغ دینے کا ذریعہ بن گئے۔

اس تاریخی انحراف نے ان اہم اقدار کے انہدام میں اہم کردار ادا کیا جن کی اسلام نمائندگی کرتا ہے جیسے آزادی، انصاف اور مساوات ایسی اقدار ہیں اگر موجود اور موثر رہتیں تو ایک متوازن اور خوشحال معاشرہ تشکیل پاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان انحرافات نے زور پکڑا یہاں تک کہ وہ لوگوں کی زندگیوں میں اسلام کے مروجہ تصور کا حصہ بن گئے، جس کی وجہ سے اس پسماندگی اور زوال کی کیفیت برقرار رہی جس کا آج قوم کو سامنا ہے۔

اگر ہم آج امت کی پسماندگی کی اصل وجوہات کو جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں اس تاریخی مرحلے کو دوبارہ دیکھنا پڑے گا اور بڑے غور سے اس تبدیلی کو دوبارہ سمجھنا ہو گا۔ان تاریخی انحرافات کے اثرات کو سمجھے بغیر حقیقی اصلاح نہیں کی جاسکتی جنہوں نے اسلام کو اس کے تہذیبی ورثے سے دور کر دیا اور اسے ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کے بنیادی ہداف سے بھی دور کر دیا جو انسانی وقار کا حامل تھا اور اس کی نشاۃ ثانیہ کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

مزید برآں، روایتی فقہ نے احکام کی حکمت اور قانون سازی میں اقدار پر تحقیق کو نظر انداز کیا ہے، جس کی وجہ سے فقہ میں نئے نظریات کی عدم موجودگی تھی جو زندگی کے مختلف پہلوؤں میں عصری انسانی ضروریات اور خواہشات کو ایڈجسٹ کرتی۔ جب کہ پہلے ادوار میں فقہ نے لوگوں کے معاملات کو اسلامی اقدار اور اصولوں کے دائرہ کار میں ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔اب یہ فقہ ایسی فقہی تفصیلات تک محدود ہو گئی ہے جو ان احکام کی بنیاد بننے والی وجوہات کو تلاش کرنے کی بجائے صرف ظاہری احکام تک ہی محدود ہیں۔ قانون سازی کی اس تنگ نظری نے انسانی معاشرے میں آنے والی مسلسل تبدیلیوں کے مطابق فقہ میں تبدیلیاں لانے کی صلاحیت کو کمزور کیا ہے یہ معاشی، سماجی اور سیاسی ہر سطح پر ہوا ہے۔

روایتی فقہ پر پڑنے والے جمود سے اس کی تخلیقیت اور اختراع کی صلاحیت بھی ختم ہو جاتی ہے جو مذہبی متون کو سمجھنے ،اسے موجودہ دور کی ترقی کی روشنی میں استعمال کرنے اور ان کی تشریح کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔اسی طرح جو میراث ہمیں ملی وہ بھی ایک جامع اسلامی نظام فراہم نہیں کر سکی جس سے انسان دنیا و آخرت کی زندگی کو ساتھ ساتھ  بہتر بناسکتا۔اس کے علاوہ، اسلامی دنیا میں اندرونی صف بندی اور فرقہ واریت نے اس منفی رجحان کو مزید گہرا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسلامی فرقوں کے درمیان تقسیم فکری افق کو تنگ کرنے کا باعث بنی ہےکیونکہ اسلام ان اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک متحد تہذیبی نظریہ بننے کی بجائے متضاد فرقہ وارانہ محور میں تبدیل ہو گیا ہے۔ چنانچہ یہ تقسیم ان عوامل میں سے ایک تھی جو فکری اتحاد اور ایک مشترکہ  نظام کی عدم موجودگی کا باعث بنی جو قوم کی ترقی میں معاون ثابت ہو سکے۔

نتیجے کے طور پر دیکھیں تو وراثت میں ملنے والی اسلامی علمی میراث اسلام کی ایسی اہم تشریح فراہم کرنے میں شاذ و نادر ہی کامیاب ہوئی ہے جو موجودہ دور کے چیلنجوں کا جواب دے سکے۔ درحقیقت، بہت سے معاملات میں اس میراث نے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کو تقویت دی اور مذہب کو اس کی حقیقت سے الگ کر دیا، جس کی وجہ سے اسلام دور جدید کے تقاضوں اور جدید زندگی کی تبدیلیوں سے بہت دور دکھائی دیتا ہے۔آج قوم کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی فکر کی اصلاح کی جائے اور اسے یوں بدلا جائے کہ وہ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور دین کی صحیح اور جامع تفہیم کی عکاسی کرتی ہو تاکہ انسانی ترقی اور فہم کا لازمی حصہ بن جائے۔ یہ تشکیل صرف زبان یا گفتگو کے انداز کو جدید بنانے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے لیے روایتی تصورات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو قوم کی ترقی کی صلاحیت کو محدود کرتے ہیں۔ ہمیں مذہبی فکر اور قانون سازی کی اقدار پر ایسے زاویے سے نظر ثانی کرنی چاہیے جو تاریخی جمود اور سطحی تشریح سے بالاتر ہو جس نے نشاۃ ثانیہ کے حصول میں انسان کے کردار کو پسماندہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہمیں جدید تناظر میں قرآنی نصوص اور احادیث مبارکہ کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جو قوم کے عصری چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہیں۔

اس نئے نظام میں مرکزی نقطہ خود انسان ہونا چاہیے۔ اسلام اپنے جوہر میں انسان کی عزت کرتا ہے، اسے کائنات میں اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے اور اسے اپنا، اپنے معاشرے اور دنیا کا  حکمران بناتا ہے۔ اگر اس نئی فکر میں انسانی وقار کو بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے تو یہ ہمیں اسلام کی مطلوبہ تہذیبی اقدار جیسے انصاف، مساوات، آزادی اور ترقی کو بحال کرنے کے قابل بنائے گا، جس سے معاشروں کو ایک بہتر اور روشن مستقبل کی طرف بڑھنے کا موقع ملے گا۔

اس فکر کا مرکزی نقطہ انسانی عظمت عظمت ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:( وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا) (الإسراء: 70) اور بتحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت و تکریم سے نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی۔

خداوند تعالیٰ نے اس آیت میں وضاحت فرمائی ہے کہ انسان کی عزت کرنا خلقت کا لازمی حصہ ہے اور یہ کہ زمین کی ترقی اور حفاظت کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے اسے دوسری مخلوقات پر فضیلت دی گئی ہے۔ اگر اس قدر کو عصری اسلامی فکر میں لاگو کیا جائے تو یہ انسان کو اس کے تہذیبی کردار سے زیادہ واقف کرے گی  اور  ایسا کرنا  معاشرے کو سنوارنے اور تعمیر نو کی طرف  لے جائے گا۔

نتیجہ

قوم جس پسماندگی سے دوچار ہے وہ کوئی الہی فیصلہ نہیں ہے بلکہ اسلام کی مسخ شدہ تفہیم کا نتیجہ ہے جو زندگی کی حقیقت سے الگ تھلگ ہے۔ آج اسلامی مکالمے کی ضرورت ہے جو تہذیب کی تعمیر میں انسان کو اس کے اہم مقام پر بحال کرے اور روحانیت کو اسلام کے اعلی اہداف کے ساتھ جوڑ دے جو انسانیت کے مستقبل کے لائق ہو۔ اس گفتگو کا بنیادی مقصدیہ ہے کہ انسان کو اسلام میں ایک مرکزی قدر کے طور پر زندہ کیا جائے، مذہبی تصورات کو زندگی کی حقیقت سے جوڑ ا جائے تاکہ  مختلف سطحوں پر ترقی کے حصول کے میں فعال کردار ادا  کرے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018