مابعد الطبیعی فکر(میٹا فیزکس) اور اثبات خدا
ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ وضاحتی منطق کی بنیاد نسبتی حقائق پر قائم ہے، اوریہ علم اور تجربے کی بنیاد پر تمام مادی اور انسانی مظاہر کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس، مطلق حقائق اور جامع خیالات، جو مابعد الطبیعات کے زمرے میں آتے ہیں ،وضاحتی منطق میں وہ باطل سمجھے جاتے ہیں۔ جن پر ایسی معرفت کی بنیاد رکھنا ممکن نہیں جو انسان اور معاشرے کو ترقی اور پیش رفت کی جانب لے جائے، کیونکہ یہ محض اوہام، خرافات اور دیو مالائی قصے ہیں۔
وضاحتی منطق کی سب سے اہم تطبیق، جیسا کہ اس کے بانی آگسٹ کومٹ کا کہنا ہے، "تین مراحل کے قانون" میں ہے، جس پر جدید عمرانیات کی بنیاد رکھی گئی ہے۔فرانسیسی فلسفی آگسٹ کومٹ (1857ء) کے مطابق انسانیت تین مراحل سے گزرتی ہے
1۔ جذبات کی بنا پر خدا کے وجود کا عقیدہ
2۔ مابعد الطبیعات کا مرحلہ: (خدا کے وجود پر استدلال)۔
3۔ وضاحتی مرحلہ: (انسانیت کا مذہب)
ان مذکورہ تینوں مراحل کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنی ابتدائی حالت میں جذبات اور احساسات کی بنیاد پر ایک خیالی تصور کرتا ہے (یا تمنا کرتا ہے) کہ ایک ماورائی نجات دہندہ موجود ہے، جو زندگی کے دکھوں اور خطرات سے نجات دلانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور یہ نجات دہندہ خدا ہے۔ یہ پہلا مرحلہ ہے، اور اس مرحلے میں خدا کے ساتھ تعلق جذباتی بنیادوں پر ہوتا ہے، جو کسی دلیل یا ثبوت سے خالی ہوتا ہے۔یہ خیالی تصور آگے بڑھتا ہے، اور اس کے ماننے والے خدا کے وجود پر ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جو تجرباتی طور پر خرافات کے سوا کچھ نہیں ہے، اور مادّی طور پر ایسے جھوٹ ہیں، جنہیں نہ تو سائنسی حقائق تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی تجربات کی دنیامیں ان کی کوئی حیثیت ہے ۔ یہ دوسرا مرحلہ ہے، یعنی مابعد الطبیعات کا مرحلہ۔
تیسری مرحلے (وضاحتی مرحلہ) میں، انسانیت بتدریج اس بات کا شعور حاصل کرلے گی کہ جو کچھ بھی سائنسی تجربے کے ذریعے ثابت نہ ہو، وہ محض خیالات اور خرافات (مابعد الطبیعات) ہیں۔ اس شعور کے نتیجے میں انسان صرف ایک دین کو اپنائے گا، اور وہ ہوگا تجرباتی سائنسی حقائق کا دین۔جب انسان اس دین تک پہنچ جائے گا، تو وہ تمام خیالات اور خرافات سے نجات پا لے گا تو وہ ایسی زندگی گزارے گا جو کہ مجسم حقیقت پسندی ہے ۔ یہ وہ وضاحتی مرحلہ ہے جسے آگسٹ کومٹ نے "انسانیت کا مذہب" قرار دیا، جو کارل مارکس کی کمیونزم کے برابر ہے، اگرچہ دونوں میں اختلافات اور تضادات موجود ہیں۔
کومٹ کا ماننا ہے کہ معاشروں کے ارتقاء کا مطالعہ انہی اصولوں کے تحت ہونا چاہیے جو مادی سائنس اور تجرباتی قوانین پر مبنی ہوں۔ کسی بھی مشاہدے یا واقعے کی کوئی اہمیت نہیں، جب تک وہ معاشروں کی حرکت اور تبدیلی کے مادی حقائق کے ذریعے ثابت نہ ہو۔ یہ آگسٹ کومٹ کے عمرانی نظریے کا خلاصہ ہے، جو وضاحتی منطق اور وضاحتی فلسفے کی سب سے اہم تطبیق ہے۔ اس نظریے کی اہمیت کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ تمام یورپ اور امریکہ کی ریاستوں کی سماجی اور علمی بنیادیں اسی پر استوار ہیں۔اس نظریے کے اثرات کا ایک نمایاں پہلو مغربی الحاد کا واضح پھیلاؤ ہے، بلکہ یہ الحاد ارادی یا غیر ارادی طور پر دنیا کے ان ممالک میں بھی برآمد کیا گیا ہے جو زیادہ تر خدا کے وجود پر مطلق ایمان رکھتے ہیں، چاہے ان کے مذاہب مختلف ہوں، جیسے اسلام، یہودیت، عیسائیت، بدھ مت، مجوسیت، صابئیت، وغیرہ۔
آگسٹ کومٹ کی یہ پیش بندی کہ مستقبل میں تمام انسانی معاشروں میں خدا کا تصور ختم ہو جائے گا، اور اس کی جگہ تجرباتی حقائق پر مبنی "انسانیت کا مذہب" لے لے گا، درحقیقت خود مابعد الطبیعات (میٹافزکس) کی ایک بڑی مثال ہے۔ انہوں نے اسے ایک مطلق اور جامع حقیقت کے طور پر فرض کر لیا، حالانکہ ان کے منطق وضاحتی کا بنیادی مقصد ہی مابعد الطبیعات کو رد کرنا تھا۔ یہی وہ نقطہ ہے جس پر لینن اور ان کے تمام پیروکاروں نے کومٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور اسے وہی مابعد الطبیعات قرار دیا، جس کے خاتمے کے لیے خود کومٹ نے اپنی منطق کی بنیاد رکھی تھی۔
کومٹ یہ بھول گئے یا جان بوجھ کر نظرانداز کیا کہ ان کا وضاحتی فلسفہ، جو خارجی حقیقتوں اور مادی معاشرتی تبدیلیوں کے گرد گھومتا ہے،خود خدا کے وجود کو ثابت کرتا ہے، چاہے کومٹ اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں۔
کومٹ نے خدا کے تصور کو محض خرافات قرار دے کر مسترد کرنے کی کتنی ہی کوشش کی ہو، لیکن تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانی تجربات اور معاشرتی تجربہ گاہوں میں یہ حقیقت ثابت اور برقرار رہی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ صرف قائم ہے بلکہ بڑھتی اور ترقی کر رہی ہے۔ کومٹ کے تمام سائنسی اور سماجی تجربات اس تصور کو ایک ختم شدہ خرافات قرار دینے میں ناکام رہے۔کم از کم یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں، کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور یہ اضافہ مستحکم اور جاری ہے، چاہے وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے، اور ان میں ریاضی، فزکس، بایولوجی، تاریخ اور عمرانیات کے کئی ماہرین شامل ہیں، ۔
وضاحتی منطق مطلق حقائق کو رد کرتی ہے اور صرف ان حقائق کو قبول کرتی ہے جو تجرباتی طور پر نسبتی ہوں اور جنہیں مادی حقائق کے قریب سمجھا جا سکے۔ اس پر علم اور معرفت کی ترقی کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
لیکن چاہے ہم کسی بھی چیز پر شک کریں، چاہے حقائق کی نسبیت کو تسلیم کریں، ان کی مطلقیت کا انکار کریں، اور چاہے ہم جس قدر بھی وضاحتی منطق اور فلسفے کے پابند ہوں، انسانی اور سماجی تجربہ گاہوں کے نتائج، شروع سے لے کر آج تک، بڑی شان سے اعلان کرتے ہیں کہ خدا کی حقیقت تاریخ میں راسخ ہے۔تاریخ کی تجربہ گاہوں میں ہمیں خدا کے تصور کے ختم ہونے یا مٹ جانے کا کوئی اشارہ نہیں ملا، بلکہ اس کے برعکس، یہ تصور مسلسل ترقی کر رہا ہے، ایک مستحکم اور پراعتماد راستے پر، مضبوظ بنیادوں پر قائم ترقی ۔ یہ حقیقت ہر قسم کی خرافات اور مابعد الطبیعات سے پاک ہے، جیسا کہ آگسٹ کومٹ نے اسے مابعد الطبیعات کا نام دینے کی خواہش ظاہر کی تھی
وضاحتی منطق دو راستوں کے درمیان کھڑا ہے، اور ان کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں:
پہلا راستہ: یہ کہ وہ مستقبل میں خدا کے وجود کا انکار کرے، اور ایسا کرنے کا واحد طریقہ پیشن گوئی ہے۔ یہ بالکل وہی مابعد الطبیعات ہے جسے وضاحتی منطق نے مسترد کرنے اور رد کرنے کے لیے اپنی بنیاد رکھی تھی۔ یہ آگسٹ کومٹ کی طرف سے ان کی اپنی وضاحتی فلسفہ کو وضاحتی منطق کی تلوار سے ختم کرنے کے مترادف ہے۔
دوسرا راستہ: یہ کہ وہ خدا کے وجود کو تسلیم کرے، کیونکہ انسانی تجربات اور تاریخ میں موجود معاشروں نے، جو ہمیشہ خدا کے وجود پر ایمان رکھنے والے رہے ہیں اور تعداد میں ملحدین کے مقابلے میں ہمیشہ غالب رہے ہیں، خدا کے وجود کو ثابت کیا ہے، اور وہ بھی بڑے سائنسی وقار کے ساتھ ۔
ان دونوں مفروضات میں سے کسی بھی صورت میں، خدا تاریخ کے تجرباتی میدان میں ایک زندہ، متحرک اور مسلسل بڑھتی ہوئی حقیقت کے طور پر ثابت ہوتا ہے، جو آج تک قائم و دائم ہے۔ اس کی حرمت پر حملہ صرف کومٹ کی پیش گوئی کے ذریعے کیا جا سکتا ہے، اور یہ پیش گوئی خود مابعد الطبیعات (یعنی خرافات) کے زمرے میں آتی ہے، جو وضاحتی فلسفے کی سب سے بڑی دشمن ہے۔