4 جمادي الثاني 1446 هـ   6 دسمبر 2024 عيسوى 5:27 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-11-25   149

دولت اور طاقت، انسان کو بدل دیتی ہیں یا اس کی حقیقت کو آشکار کرتی ہیں؟

فلاں کو دولت نے بدل دیا، فلاں کو طاقت نے بدل دیا، اور فلاں لالچی، ظالم یا فاسق بن گیا... وغیرہ وغیرہ۔ تو کیا یہ چیزیں واقعی انسان کو بدل دیتی ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں انسان کو نہیں بدلتی ہیں، بلکہ وہ صرف اس کی اندرونی کیفیت کو نمایاں کر دیتی ہیں۔ بخیل زیادہ بخیل بن جاتا ہے جب وہ امیر ہو جاتا ہے، فاسق زیادہ فسق پر اتر آتا ہے، اور ظالم مزید ظلم کرنے لگتا ہے جب ان کے پاس طاقت یا دولت کی فراوانی ہو جاتی ہے ۔ اس کے برعکس، سخی مزید سخاوت کرنے لگتا ہے، صلہ رحمی کرنے والا اور زیادہ صلہ رحمی کرتا ہے، اور رحم دل اور زیادہ رحم دل بن جاتا ہے۔دولت، طاقت، منصب اور ان جیسی دوسری چیزیں ہماری اندرونی حقیقتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور انصاف کے تحت یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ہماری ان اندرونی حالتوں کا محاسبہ نہیں  کرے گا جب تک وہ کھل کر  ظاہر نہ ہو جائیں اور حقیقی اعمال میں تبدیل نہ ہو جائیں۔

اس سلسلے میں قرآن مجید سے کچھ شواہد پیش کرتے ہیں ۔

ابلیس یک دم متکبر نہیں بنا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ اس کے اندر موجود تکبر کو ظاہر کیا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ)

 نیز جس چیز کا تم اظہار کرتے ہو اور جو کچھ تم پوشیدہ رکھتے ہو، وہ سب جانتا ہوں (البقرہ: 33)۔

یہ تکبر اور بلندی کا احساس اس وقت ظاہر ہوا جب اسے آزمائش میں ڈالا گیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا۔

اگر یہ آزمائش نہ ہوتی تو یہ تکبر اور غرور چھپا رہتا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ)

سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا۔ (البقرہ: 34)

ایک اور جگہ ارشاد ہے: (فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ)

پس سب نے سجدہ کیا صرف ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا۔ (الأعراف: 11)۔

ابلیس نے اپنےسجدہ کرنے سے انکار کو کمزور دلائل کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی، جن کے پیچھے اس کا غرور اور تکبر چھپا ہوا تھا۔

جیسے کہ اس کا کہنا تھا: (أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ(

میں اس سے بہتر ہوں، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (الأعراف: 12)،

اور ایک اور جگہ کہا: (لَمْ أَكُن لِأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ)

 میں ایسے بشر کو سجدہ کرنے کا نہیں ہوں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا ہے۔(الحجر: 33) ۔ یہ ابلیس کی سب سے بڑی لغزش نہیں تھی۔ وہ معافی مانگ کر اور توبہ کرکے اپنی غلطی کی اصلاح کر سکتا تھا، جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کیا۔ آزمائشیں اور مصیبتیں ہماری خامیوں اور برائیوں کو ظاہر کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں، جن سے ہم غافل ہو سکتے ہیں۔ لیکن ابلیس کے غرور اور تکبر نے اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ اس نے اپنے رب سے ضد جاری رکھی اور اپنی نافرمانی میں بڑھتا چلا گیا۔ اس کا سارا زور اپنی رائے کو صحیح ثابت کرنے پر تھا، کہ وہ اس نئی مخلوق سے بہتر ہے اور وہ اس عزت کے لائق نہیں جس سے اللہ نے اسے نوازا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

)قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ(

بولا: جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی تیرے سیدھے راستے پر ان کی گھات میں ضرور بیٹھا رہوں گا ۔ (الأعراف: 16)۔

ابلیس کے اندر غرور اور تکبر سجدے سے انکار کے وقت پیدا نہیں ہوا تھا، بلکہ یہ پہلے سے اس کے اندر موجود تھا، جو امتحان اور آزمائش کے ذریعے ظاہر ہوا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:)فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ(

 پس جب آدم نے انہیں ان کے نام بتا دیے تو اللہ نے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں خوب جانتا ہوں نیز جس چیز کا تم اظہار کرتے ہو اور جو کچھ تم پوشیدہ رکھتے ہو، وہ سب جانتا ہوں۔ (البقرہ: 33)۔

لہٰذا ہمیں اپنی برائیوں کو بیرونی حالات پر نہیں ڈالنا چاہیے، کیونکہ یہ ہماری نفس کی پوشیدہ صفات ہیں۔

اسی بات کو سمجھتے ہوئے ہم قرآن مجید کی ان آیات کو بہتر طور پر جان سکتے ہیں، جو اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ ہمارے وجود کا مقصد آزمائش اور امتحان ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

(أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ(

کیا تم خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے؟ انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟(انہیں بشارت دے دی گئی کہ) دیکھو اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے۔ (البقرہ: 214)۔ یہ آیت بیان کرتی ہے کہ جنت میں داخلہ ممکن نہیں جب تک انسان آزمائشوں اور امتحانات سے نہ گزرے، جو اس کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں اور اسے برائیوں کی گندگی سے پاک کرتی ہیں۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :(أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ(

کیا تم (لوگ) یہ سمجھتے ہو کہ جنت میں یونہی چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد کرنے والے اور صبر کرنے والے کون ہیں؟ (آل عمران: 142)۔

یہ آیت بھی اسی سیاق میں ہے، مگر اس بات کو سب سے واضح انداز میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:

)الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ(

اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، بخشنے والا ہے۔(الملک: 2)

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو آزمائشیں اور مشکلات ہمیں درپیش ہوتی ہیں، ان کی بڑی حکمت یہی ہے کہ یہ ہمارے اندر چھپے ہوئے خیر یا شر کو ظاہر کرے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے)وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ(

 اور پاکیزہ زمین میں سبزہ اپنے رب کے حکم سے نکلتا ہے اور خراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے۔ یوں ہم شکر گزاروں کے لیے اپنی آیات کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ (الأعراف: 58)۔

اسی طرح فرمایا: )قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا(

 کہدیجئے: ہر شخص اپنے مزاج و طبیعت کے مطابق عمل کرتا ہے، پس تمہارا رب بہتر علم رکھتا ہے کہ کون بہترین راہ ہدایت پر ہے۔(الإسراء: 84)

سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب ہم اپنی نفس میں چھپی ہوئی حقیقتوں کو جان لیں، تو حضرت آدم علیہ السلام کی طرح توبہ کریں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول کی، انہیں اپنے قربِ خاص میں واپس لے لیا اور اپنے فضل و کرم سے نوازا۔

ہمیں اپنی خواہشات کے پیچھے نہیں  چلنا چاہیے اور نہ ہی گناہ پر اصرار کرنا چاہیے، جیسا کہ ابلیس نے کیا۔ نتیجتاً اللہ نے اسے اپنی رحمت سے نکال دیا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: )وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ(

 اور ہم انہیں بڑے عذاب کے علاوہ کمتر عذاب کا ذائقہ بھی ضرور چکھائیں گے، شاید وہ باز آ جائیں۔(السجدہ: 21)

امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی یہ وضاحت آزمائش کی حکمت کو سمجھنے میں مددگار ہوگی، بلکہ زندگی کے حقیقی مفہوم اور اس راز کو سمجھنے میں معاون ہوگی، جو کامل خوشی اور اس کمال تک پہنچنے کا ذریعہ ہے جس کی ہماری روحیں خواہاں ہیں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018