6 ربيع الثاني 1446 هـ   9 اکتوبر 2024 عيسوى 2:12 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-09-25   124

دعا: انسان کی خدا سے باتیں

شیخ مقداد ربیعی

ہر سال جیسے ہی اربعین حسینیؑ کی مشی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے، بہت سے ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں جن سے انسان کو روحانی تقویت حاصل ہوتی ہے اور دل ایمان کے نور سے منور ہو جاتا ہے۔ اس سال ایک دل موہ لینے والی داستان سننے میں آئی۔ ایک خاتون مشی کر رہی تھی، اور اسی دوران اس کی معذور والدہ، جو الیکٹرک چیئر پر تھیں، اور اس کا دودھ پیتا بچہ ہجوم میں گم ہو گئے۔

یہ خاتون بےحد پریشان ہو گئی اور اضطراب میں ادھر ادھر انہیں ڈھونڈنے لگی، سوچ رہی تھی کہ نہ جانے وہ کہاں چلے گئے ہیں اور اب وہ انہیں کہاں تلاش کرے؟ اس کے پاس اس وقت کوئی چارہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ سے دعا کرے اور اس کی رحمت کی امید رکھے۔ اسی مایوسی اور اضطراب کی حالت میں وہ حضرت عباس بن علیؑ کے روضہ مبارک پر پہنچ گئی، ان پر سلام کیا اور دل سے دعا مانگی۔

وہاں کا منظر دیکھ کر تو گویا اس کے دل نے دھڑکنا ہی بند کر دیا،کیا دیکھتی ہے کہ ضریح کے پاس ایک عورت بیٹھی ہے اور وہ اس کے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا،وہ بچے کی طرف ایسے بھاگی جیسے کوئی عاشق لمبی مدت کے بعد ملنے والے محبوب کو ملتا ہے۔جیسے  کسی بے آب گیاہ  صحرا میں پیاسی عورت کو پانی کا چشمہ نظر آئے تو اس کی طرح جاتی ہے۔اس نے بچے کو گلے لگا لیا اور اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل رہے تھے۔

ابھی وہ سانسیں بحال کر ہی رہی تھی کہ اس عورت نے اسے کہا بہن تین دن ہو گئے میں اس بچے کے گھر والوں کی تلاش میں ہوں،میں نے ابوالفضل ؑ  کو خواب میں دیکھا اور انہوں نے مجھے یہاں آنے کا حکم دیا اور کہا ایک نوجوان کو مدد کی ضرورت ہے۔پھر عورت نے ایک نوجوان کی طرف اشارہ کر کے کہا جو ساتھ کھڑا تھا اور پریشان تھا ایسا  لگ رہا تھا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہا ہوکہ وہ معذور عورت اور اس شیر خوار بچے کی دیکھ بھال کرے۔یوں میں ان کی دیکھ بھال کر رہی ہوں۔

دیکھیں اللہ نے کیسے انتظام فرما دیا اور اللہ کا ارادہ نافذ ہے۔اس عورت کا خواب سچ ہوا،اللہ نے اپنی مہربانی سے غمزدہ  دلوں کو ملا دیا۔یہ واقعہ اہلبیتؑ کی عظمت اور ایمان و دعا کی طاقت کا بتاتا ہے تاریک اور مشکل لمحات میں اللہ کا کرم ہوا۔

دعا  انسان کے دل سے اپنے خالق کے ساتھ سرگوشی میں کی گئی گفتگو ہے ایسے نہیں ہے کہ ہم اپنے الفاظ ہوا کے حوالے کر رہے ہوتے ہیں ۔

اصل دعا وہ ہے جو دل سے نکلتی ہے انسان زبا ن کے ذریعے اللہ سے حقیقی ضرورت طلب کرتا ہے۔فقط زبانی جمع خرچ نہیں کیا جا رہا ہوتا۔ہم دیکھتے ہیں کہ انسان جو بھی چیز اللہ  تعالی سے زبان  مانگتا ہے یہ خدا سے سوال شمار ہوتا ہے:

(وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ)، إبراهيم: 34

اور اسی نے تمہیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کر سکو گے، انسان یقینا بڑا ہی بے انصاف، ناشکرا ہے۔

دعا اللہ کی بے شمار نعمتوں میں سے ہے، صرف زبان سے نہیں  بلکہ اپنی حاجت کے حساب دعا مانگیں۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(يَسْأَلُهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ)، الرحمن: 29

۲۹۔ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی سے مانگتے ہیں، وہ ہر روز ایک (نئی) کرشمہ سازی میں ہے۔

ہر چیز جو کسی بھی مخلوق کو اللہ کی طرف سے عطا ہوئی ہے  یہاں تک کہ  جو جمادات کو بھی دیاگیا ہے وہ سب سوال و دعا کا نتیجہ ہے۔

حقیقی حاجت کو اللہ سے طلب کرنا دعا کہلاتا ہے،اس میں زبان سے  مانگنا شرط نہیں ہے۔

یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں:پہلا اگر دعا کی یہی حقیقت ہے تو  یہ تمام مخلوق میں ثابت ہے،مومن کافر ہر ایک طلب کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ دعا کیوں کی جاتی ہے؟دوسرا سوال یہ ہے :دعا کے اس معنی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی ضرورت اور حاجت کے وقت کی  ساری دعائیں قبول ہوتی ہیں۔اللہ تعالی  کسی بھی طرح سے بخیل نہیں ہے ۔جبکہ ہم عملی طور پر دیکھتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ بہت سے دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں۔

پہلے سوال کا  جواب یہ ہے کہ دعا فقر اور حاجت  حقیقی کے نتیجے میں مانگی جائے قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

((يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ) فاطر: 15

۱۵۔ اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے۔

مگر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر صورت میں ان کی فقر و حاجت کا مداوا ہو جائے کیونکہ اللہ تعالی نے دعا کی قبولیت کے لیے  خلوص کی قید لگائی ہے اور دل سے نکلنے والی ہونی چاہیے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ)، البقرة: 186

۱۸۶۔ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (کہدیں کہ) میں (ان سے) قریب ہوں، دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں۔

اللہ تعالی نے دعا میں شرط رکھی ہے کہ انسان صرف اللہ سے ہی مانگ رہا ہو۔جو لوگ اللہ سے مانگ رہے ہوتے ہیں اور ان کی نظر میں بنیاد اسباب پر ہوتی ہے یہ دعا ہوتی ہی نہیں ہے۔اصل میں ان لوگوں کی دعا ایک ایسے خدا سے ہوتی ہے جو اسباب کا محتاج ہوتا ہے،یہ محتاج الہ اللہ نہیں ہے اور  دعا مانگنے والا بھی اللہ کو نہیں پکار رہا ۔

دوسرے الفاظ میں کہیں تو اگر کوئی بیمار ہے اور اس کے لیے دعا کی جا رہی ہے اور یقین ڈاکٹر اور دوا پر ہے تو  ایسے میں اللہ کے اختیارات کو تو محدود مان لیا،دعا کرنےو الے نے خدا سے نہیں کسی اور مانگا ہے۔اس حقیقت کو قرآن مجید نے بڑے حکیمانہ انداز میں مختلف آیات میں بیان کیا ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ. قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ)، الأنعام: 63 ـ 64

۶۳۔ کہدیجئے: کون ہے جو تمہیں صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں نجات دیتا ہے؟ جس سے تم گڑگڑا کر اور چپکے چپکے التجا کرتے ہو کہ اگر اس (بلا) سے ہمیں بچا لیا تو ہم شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔۶۴۔کہدیجئے: تمہیں اس سے اور ہر مصیبت سے اللہ ہی نجات دیتا ہے پھر بھی تم شرک کرتے ہو۔

یہ آیت کریمہ واضح انداز میں بتا رہی ہے کہ جب انسان ہر قسم کے مادی اسباب سے ناامید ہو کر اللہ تعالی سے دعا کرتا ہے ،اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اسے بچاتاہے۔جب عام حالات میں ہوتا ہے تو اسباب کی طرف رجوع کرتاہے،وہ اساب کو تاثیر میں شریک قرار دیتاہے۔ایسے کرتے ہوئے وہ اس بات سے غافل ہو جاتا ہے کہ  ہر طرح کی تاثیر اللہ کی طرف سے ہے ۔ہر طرح کی طاقت و قدرت اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔

قرآن کریم نے جس حقیقت کو واضح کیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ان تمام اسباب سے جاری ہونے والے فیض کا مالک و خالق ہے۔وہ جب چاہتا ہے جو ارادہ فرماتا ہے اس کے ارادے کے مطابق ہر صورت میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔جب اللہ تعالی ارادہ کرتا ہے کہ ان میں کوئی تاثیر نہ ہوتو ان میں کسی قسم کی کوئی  تاثیر نہ ہو گی۔

ہم یہاں اس بات کی وضاحت کر دیتے ہیں کہ عادی اسباب کو ترک نہیں کرنا،اصل چیز یہ ہے کہ اللہ کے ارادہ کے بغیر ان میں کسی قسم کی تاثیر کا قائل ہونا ہے کہ ہم اللہ کو پکار رہے ہوں اور ہمارے دل اسباب سے چمٹے ہوں۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ انسان  فطرت یا حاجت میں زبان حال دعا مانگے اللہ پر دعا کا قبول کرنا ضروری نہیں ہے۔وہ دعا قبول ہو گی  جس میں ہر طرح کی تاثیر اللہ سے ہی عقیدہ رکھ کر کی جائے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ۖ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا)، الفرقان: 77

۷۷۔ کہدیجئے: اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی نہ کرتا، اب تم نے تکذیب کی ہے اس لیے (سزا) لازمی ہو گی۔

اللہ تعالی دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:

 (وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ)، غافر: 60

اور تمہارا رب فرماتا ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ از راہ تکبر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں یقینا وہ ذلیل ہو کر عنقریب جہنم میں داخل ہوں گے۔

یہ آیات مجید ہ واضح انداز میں بتا رہی ہیں کہ اللہ تعالی وہی دعا قبول فرمائے گا جس میں اس کے ساتھ اسباب کو شریک نہ ٹھہرایا گیا ہو۔

یہیں سے دوسرے سوال کا جواب بھی واضح ہو جاتا ہے کہ دعا قبول نہ ہونے کے اسباب جن کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے وہ دو ہیں:

پہلا یہ ہے کہ یہاں کوئی حقیقی حاجت ہی نہیں ہوتی۔جس چیز کو انسان اللہ سے سوال کے طور پر مانگ رہا ہے  وہ حقیقت میں حاجت ہوتی ہی نہیں ہے جو حقیقی حاجت کے درجے تک پہنچے۔

دوسرا:دعا مانگنے والا اللہ کو پکارتا ہی نہیں ہے،بلکہ وہ ایسے خدا کو پکارتے ہے جو اسباب کے ساتھ  کام کرتا ہے۔بہت سےلوگ بظاہر اللہ سے مانگ رہے ہوتے ہیں مگر  دل میں وہ حاجت اسباب سے  جوڑ رہے ہوتے ہیں،ان کی دعا اللہ کے ساتھ خاص نہیں ہوتی۔نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:

"قال الله: ما من مخلوق يعتصم بمخلوق دوني إلا قطعت أسباب السموات وأسباب الأرض من دونه فإن سألني لم أعطه، وإن دعاني لم أجبه، وما من مخلوق يعتصم بي دون خلقي إلا ضمن السموات والأرض رزقه، فإن دعاني أجبته وإن سألني أعطيته وإن أستغفرني غفرت له"

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:جو بھی میرے علاوہ کسی مخلوق کا سہارا لیتا ہے میں اس کے اپنے  علاوہ زمین و آسمان کے سارے اسباب ختم کر دیتا ہوں،پھر اگر مجھ سے مانگے گا تو عطا نہیں کروں گا،مجھے پکارے گا تو جواب نہیں دوں گا۔جو کوئی مجھے میری مخلوق کے بغیر بلاتا ہے اس کے لیے زمین و آسمان کے رزق کھول دیتا ہوں پھر مجھے پکارتا ہے تو میں جواب دیتا ہوں،سوال کرتا ہے تو عطا کرتا ہوں  اور مغفرت  مانگتا ہے تو مغفرت عطا کرتا ہوں۔

عن محمد بن عبيد الله بن علي بن الحسين وہ اپنے  چچا امام صادقؑ سے وہ اپنے آباء سے اور وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں:اللہ نے کچھ  انبیاءؑ کو وحی میں ارشاد فرمایا ہے:مجھے عزت و جلالت کی قسم، میں ہر اس کی امید  ناامید ی سے توڑ دوں گا جو میرے علاوہ کسی پر امید رکھے گا،اسے لوگوں میں ذلت میں مبتلا کر دوں گا،اسے اپنی کشائش اور فضل سے دور کر دوں گا۔کیا میرا بندہ پریشانیوں میں میرے علاوہ کسی سے امید رکھتا ہے؟ اور تمام پریشانیوں کا حل میرے پاس ہے،میرے علاوہ کسی سے امید رکھتا ہے اور میں بے نیاز اور سخی ہوں۔میرے ہاتھوں میں دروازوں کی چابیاں ہیں اور یہ بند ہیں،یہ دروازے صرف اس کے لیے کھلیں گے جو مجھ سے دعا کرے گا۔ الحدیث

اس کے علاوہ بہت سی احادیث میں ان اسباب کو بیان کیا گیا ہے جن کی وجہ سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔امام جعفر صادقؑ کا فرمان ہے:

خدا غافل دل کے ساتھ کی گئی دعا کو قبول نہیں کرتااس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی دعا میں حقیقی ضرورت نہیں مانگی جا رہی ہوتی۔اس  پہلے کے نہ ہونے کی وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی۔

یا جیسا کہ الرواندی کی دعاوں میں مروی  ہے:تورات میں اللہ تعالی بندے سے کہتا ہے: جب بھی تم پر ظلم ہوتا ہے تو تم مجھے میرے کسی بندے کے خلاف بلاتے ہو کیونکہ اس نے تم پر ظلم کیا ہوتا ہے۔میرے بندوں میں سے کوئی ایسا ہے جس پر تم ظلم کرتےہو اور وہ مجھے پکارتا ہے،اگرچاہوں میں اس کی اور تیری دعا قبول کروں اور چاہوں تو اس کو قیامت  تک کی مہلت دے دوں۔

اگر تو چاہے تو میں تجھے جواب دوں گا اور تیرے بارے میں جواب دوں گا۔انسان کا کسی دوسرے مومن بھائی کے لیے سوال دراز کرنا اس کے نقصان میں ہوتا ہے اور وہ جانتا بھی نہیں ہے۔اب  ایسی صور ت میں اس کی دعا قبول  اس لیے نہیں ہوتی کیونکہ اس کی حاجت حقیقی نہیں ہوتی۔کیونکہ جس نے کسی چیز کا سوال کیا وہ اس سے راضی ہوا اورہر اس سے بھی راضی ہوا جو اس طرح کسی نے  بھی اپنے حق میں یا اس کے خلاف طلب کی۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(وَيَدْعُ الْإِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا)، الاسراء: 11

۱۱۔ اور انسان کو جس طرح خیر مانگنا چاہیے اسی انداز سے شر مانگتا ہے اور انسان بڑا جلد باز ہے۔

دعا کرنے والے یہ دو گروہ ایسے ہیں جن کی دعا دل سے خالص نہیں ہوتی اگرچہ یہ زبان سے دعا مانگ رہے ہوتے ہیں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018