6 ربيع الثاني 1446 هـ   9 اکتوبر 2024 عيسوى 1:54 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-09-25   87

انبیاء علیھم السلام کی جدوجہد کا مقصد کیا تھا؟۔۔۔لوگوں کی ہدایت یا حکمرانی

شیخ مقداد ربیعی

کیا انبیاء علیہم السلام کا مقصد تمام انسانوں کی اصلاح اور ہدایت کرنا تھا؟ شاید اس سوال کا جواب حیران کن لگے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب "نفی" میں ہے۔ یہ بات انسان کی فطری صفات اور اس کے اصولوں کے خلاف ہے، کیونکہ اختلاف رائے، حق کی مخالفت، اور خواہشات کی پیروی انسان کے رویوں کا حصہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَإِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ( هود: 119.)

اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک امت بنا دیتا، لیکن وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے، سوائے ان کے جن پر آپ کا رب رحم فرمائے"

اللہ تعالیٰ نے ہدایت پانے والوں کی قلت اور گمراہی کے پھیلاؤ کو بھی واضح کیا ہے، جیسا کہ فرمایا: )وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ((يوسف103)"اور اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے چاہے آپ کتنی بھی کوشش کریں" اور فرمایا  (لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَى أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ)(يس7.)"بتحقیق ان میں سے اکثر پر بات ثابت ہو چکی ہے، سو وہ ایمان نہیں لائیں گے" (سورۃ یٰس: 7)۔

یہ آیات، اور اس جیسی دیگر آیات، واضح طور پر بتاتی ہیں کہ گمراہی غالب ہے اور ایمان لانے والے کم ہیں، اور یہ انسانی زندگی کا ایک ثابت شدہ اصول ہے۔

ہم تمام انسانوں کی ہدایت کی امید نہیں رکھ سکتے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن میں کئی مقامات پر تسلی دی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کے کفر پر باقی رہنے کی وجہ سے بہت غمگین ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا)،( الكهف: 6،)وقال أيضاً: (..فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ)، فاطر: 8.

 پس اگر یہ لوگ اس (قرآنی) مضمون پر ایمان نہ لائے تو ان کی وجہ سے شاید آپ اس رنج میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ (سورۃ الکہف: 6)۔ اور فرمایا:  لہٰذا ان لوگوں پر افسوس میں آپ کی جان نہ چلی جائے، یہ جو کچھ کر رہے ہیں یقینا اللہ کو اس کا خوب علم ہے۔ (سورۃ فاطر: 8)۔

اسلام اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس سنت سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف احادیث کے ذریعے اس حقیقت کی تصدیق فرمائی ہے۔ ان میں سے ایک حدیث یہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے 73 فرقوں میں تقسیم ہونے کی خبر دی اور فرمایا کہ وہ پچھلی امتوں کی پیروی قدم بہ قدم کریں گے۔ مزید برآں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ آپ کے بہت سے اصحاب کو حوضِ کوثر سے دور کر دیا جائے گا کیونکہ وہ دین سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ اس کے علاوہ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیگر نشانیوں کے ذریعے فتنوں کے پھیلاؤ اور امت کے بعض گروہوں  کی گمراہی کی پیشن گوئی بھی کی ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انبیاء کی ذمہ داری تمام انسانوں کی ہدایت نہیں ہے، تو ان کا اصل مقصد کیا تھا؟ انبیاء کے عظیم ترین اہداف اور ان کے پیغام کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ وحی کو لوگوں تک پہنچائیں اور دین کی نشانیوں کو واضح اور روشن انداز میں بیان کریں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:  (لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ) (الأنفال: 42.)  انبیاء کا فریضہ صرف پیغام پہنچانا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ (فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ) (النحل: 35) تو کیا رسولوں کے ذمے صرف کھول کر پیغام پہنچا دینا ہی نہیں ہے؟"

 اور اسی کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: (وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ) النور: 54"اور رسول کے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچانا ہے" (سورۃ النور: 54)۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی زبان سے فرمایا: (وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ)، يس: 17. "ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے"

ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انبیاء کا اصل مقصد صرف اللہ کا پیغام پہنچانا اور دین کے حقائق کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ہے، ہدایت دینا اللہ کا کام ہے۔

انبیاء نے باوجود اس کے کہ انہوں نے لوگوں کی ہدایت کے لیے اپنی بھرپور کوششیں کیں، بہترین انداز میں نصیحت اور وعظ و ارشاد کے طریقے اپنائے، اور اس راہ میں اپنی جانوں تک کی قربانی دی، پس انبیاء کی اصل ذمہ داری تمام لوگوں کو ہدایت دینا نہیں تھی بلکہ ان کی دعوت کا مقصد اللہ تعالی کا پیغام واضح انداز میں لوگوں تک پہنچانا تھا، اسی لئے انبیاء علیھم السلام نے کسی کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کیا۔ اوریہ کام صرف انبیاء تک محدود نہیں تھا، بلکہ ہر انسان کو اس عظیم فریضے کی انجام دہی کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ) ( فصلت 33) "اور اس شخص سے بہتر کس کا قول ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے، نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں" (سورۃ فصلت: 33)۔

اسی طرح فرمایا: ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ)، النحل(125

"اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے بہترین طریقے سے بحث کرو، بے شک تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کون اس کے راستے سے بھٹک چکا ہے اور وہی ہدایت پانے والوں کو جانتا ہے" (سورۃ النحل: 125)۔

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انبیاء کا کام پیغام پہنچانا تھا، اور کسی کو زبردستی ایمان لانے پر مجبور کرنا ان کا کام نہیں تھا۔ یہ ذمہ داری امت کے ہر فرد پر بھی عائد کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں۔

اللہ تعالی تمام انبیاء اور مؤمنین سے صرف یہ چاہتا ہے کہ وہ سچائی کے ساتھ، خلوص دل سے اور حکمت کے ساتھ حق کی دعوت دیں، جبکہ مطلق ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ کرتا ہے، اور وہ بہتر جانتا ہے کہ کون ہدایت کا مستحق ہے اور کون گمراہی پر اصرار کرتا ہے۔

اگرچہ انبیاء کرام نے یہ عظیم ذمہ داریاں نبھائیں، تاہم عدل و انصاف پر مبنی ریاست قائم کرنا ان کی بنیادی ذمہ داری نہیں تھی۔ اسی طرح، تمام انسانوں کو ہدایت دینا ان کی رسالت کا آخری مقصد نہیں تھا۔ دینی نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء نے ریاست یا حکومت قائم کرنے کی کوشش اسی وقت کی جب ان کے پاس کافی مددگار موجود تھے اور حالات سازگار تھے۔ اس حقیقت کی طرف امیرالمؤمنین علیہ السلام نے بھی واضح اشارہ کیا جیساکہ آپ نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور جاندار کو پیدا کیا، اگر حاضرین کی موجودگی اور مددگاروں کی وجہ سے حجت قائم نہ ہو جاتی، اور اللہ نے علماء سے یہ عہد نہ لیا ہوتا کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی بھوک پر خاموش نہ رہیں گے، تو میں خلافت کی رسی کو اس کی پیٹھ پر ڈال دیتا..." (نہج البلاغہ: ج1، ص26)۔

اس کے باوجود، یہ ذمہ داریاں، جیسے کہ عدل و انصاف کی ریاست قائم کرنا یا تمام انسانوں کو ہدایت دینا، مخصوص حالات پر منحصر تھیں اور ان کی رسالت کا بنیادی مقصد نہیں تھیں۔ انبیاء کا اصل فریضہ ہمیشہ سے اللہ کے پیغامات کو لوگوں تک پہنچانا اور انسانیت کو حق کی واضح نشاندہی کرنا تھا۔

یہ بات امام باقر علیہ السلام سے مروی روایت کے ساتھ ہم آہنگ ہے، جس میں آپ نے فرمایا: "جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور آپ سے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ دنیا میں واپس جانا چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، میں اپنے رب کے پیغامات پہنچا چکا ہوں۔ پھر جبرائیل نے دوبارہ پوچھا: یا رسول اللہ! کیا آپ دنیا میں واپس آنا چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ میں اعلیٰ رفیق (اللہ) کے پاس جانا چاہتا ہوں" (أمالي الشيخ المفيد، ص53)۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء کا بنیادی کردار اپنے رب کے پیغامات کو صدق و اخلاص کے ساتھ ادا کرنا تھا، نہ کہ ریاستوں کی تشکیل یا مکمل ہدایت کو یقینی بنانا۔ انبیاء کی اصل ذمہ داری اپنے پیغام کی تبلیغ کرنا تھی، جبکہ دنیاوی امور جیسے ریاستوں کا قیام یا لوگوں کی ہدایت کا عمل، مختلف حالات اور شرائط پر منحصر تھا، جو ان کی بنیادی ذمہ داری سے مختلف ہیں۔

اس بنیادی نقطہ نظر سے، ہم کئی اہم مسائل کو گہرائی سے سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ ان مسائل میں سے ایک انبیاء، رسولوں اور ان کے اوصیاء یعنی ائمہ علیہم السلام کی کامیابی کا پیمانہ طے کرنے سے متعلق ہے  ۔ بعض لوگ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ انبیاء کامیاب نہیں ہوئے، کیونکہ زیادہ تر لوگوں نے ان کی دعوت کو رد کیا اور حق سے دور ہو گئے۔ لیکن اس کا جواب وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی ذمہ داری لوگوں کی ہدایت کی ضمانت دینا نہیں تھی، بلکہ ان کا کردار اللہ کے پیغامات کو پوری سچائی اور امانت کے ساتھ پہنچانا تھا، چاہے لوگ ان کی بات مانیں یا نہ مانیں۔

انبیاء کی اس ذمہ داری کی کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ لوگوں کی ہدایت یا تعداد نہیں ہے، بلکہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام ویسا ہی پہنچایا جیسا انہیں حکم دیا گیا تھا۔ اس لیے، انبیاء کی کامیابی کو ان کی "تبلیغِ رسالت" کی تکمیل کے عمل سے پرکھا جانا چاہیے، نہ کہ لوگوں کے ایمان لانے یا نہ لانے سے۔

اسی تصور کی بنیاد پر ہم امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے مقصد کو بھی سمجھ سکتے ہیں، اور عمومی طور پر ائمہ علیہم السلام کی جدوجہد کے راستے کو بھی بہتر طریقے سے جان سکتے ہیں۔ ان کی غرض کبھی بھی صرف ایک حکومت قائم کرنا یا ریاست کی تشکیل نہیں تھی، بلکہ یہ مقصد ایک بنیادی شرط کے ساتھ مشروط تھا، اور وہ شرط تھی "ناصر کا موجود ہونا" یعنی کافی تعداد اور وسائل کی دستیابی۔ اگر یہ شرط پوری نہ ہو، تو اس سے ان کے کردار کی عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی، بلکہ یہ صور حال واضح کرتی ہے کہ ان کا اصل فریضہ ہمیشہ حق کی دعوت دینا اور اپنے رب کی طرف سے عائد ہونے والے ذمہ داریوں کو ہر حال میں پورا کرنا تھا، چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔

یہ نقطۂ نظر ہمارے لیے نبوی اور امامی تاریخ کو ایک نئے زاویے سے سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے کہ انبیاء اور ائمہ کی جدوجہد کو دنیاوی کامیابیوں یا ناکامیوں کے پیمانے سے نہیں پرکھنا چاہیے، بلکہ ان کی محنت اور اخلاص کو سراہنا چاہیے، جو انہوں نے اپنے رب کی طرف سے عائد کردہ فریضے کو پورا کرنے میں بروئے کار لانے چاہے اس کا نتیجہ دنیاوی طور پر کیسا ہی نظر کیوں نہ آئے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018