6 ربيع الثاني 1446 هـ   9 اکتوبر 2024 عيسوى 1:26 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-09-21   116

قرآنی مفاہیم کا سلسلہ: ۔۔مرد اور عورت کے مابین مساوات

شیخ مقداد ربیعی

خواتین کے حقوق کی تحریک ایک طویل تاریخی پس منظر رکھتی ہے، جس میں خواتین کے حقوق کی قانون سازی نے متعدد پیچیدہ مراحل طے کیے ہیں۔ اس جدوجہد کے دوران ظلم و استبداد، پسماندگی، شناخت اور بااختیار بنانے جیسے مسائل کے قانوں سازی میں کئی چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ جب ہم انسانی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اکثر انسانی معاشروں میں خواتین کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا اور انہیں دانستہ طور پر پسماندہ رکھا گیا۔ اس طویل سفر نے بالآخر مذہب کے تحت خواتین کے حقوق سے متعلق قانون سازی تک رسائی حاصل کی۔

بعض افراد مغربی فکر سے متاثر ہو چکے تھے، جب یہ مسائل ان کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے ہر معاملے میں مغربی دنیا کے نقطہ نظر کو فوقیت دی، گویا وہ کوئی الہامی حکم ہو۔ ان کا خیال تھا کہ صرف مغربی معاشرے میں پیدا ہونے والا انسان ہی انسانیت کی رہنمائی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ انہوں نے مذہبی قوانین کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا اور دعویٰ کیا کہ معاشرتی پسماندگی کی بنیادی وجہ مذہبی قوانین ہیں۔ یہاں تک کہ ایسی آوازیں بھی سننے میں آئیں کہ عصرِ حاضر میں مذہبی قوانین فرسودہ ہو چکے ہیں اور ہمیں ترقی یافتہ دنیا، یعنی مغرب کے قوانین کی ضرورت ہے، جو خاص طور پر خواتین کے حقوق سے متعلق قانون سازی پر زور دیتے ہیں۔

ہم اس مقالے میں کوشش کریں گے کہ ان کے اس دعوے کا تحقیقی جائزہ لیں اور یہ جانچنے کی کوشش کریں کہ اس میں کتنی صداقت پائی جاتی ہے۔ پہلی بات جس پر توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی قانون کی جانچ اس کے زمان و مکان کے تناظر میں کی جانی چاہیے، اس کے ماضی یا ہم عصر قوانین کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے، نہ کہ ان معیاروں کے ساتھ جو ہزاروں سال بعد وضع کیے گئے ہوں۔

ہم عصر فرانسیسی فلسفی لوئی مائیکل بلینک اپنی کتاب "The Black Book of Atheism" میں کہتے ہیں: "آئیے یہ مشاہدہ کریں کہ تاریخی نقطہ نظر سے تمام بڑے توحیدی مذاہب نے خواتین کی آزادی اور مساوات کی راہ میں ایک اہم اور بنیادی قدم اٹھایا۔ تاہم، بعض نام نہاد ماہرین اور کچھ پرجوش مفکرین اور اساتذہ آج اپنے تجزیوں میں عصری حقوق نسواں کی جدوجہد کا موازنہ ہزاروں سال قدیم تحریروں سے کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ بڑے مذاہب کی روایات خواتین کے کردار کی کمی کے ذمہ دار ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر درست اور صحیح تحقیق کرنا چاہتے ہیں تاریخ میں ابہام اور اس میں موجود تضاد سے بچنے کے لیے مذہبی تعلیمات کا موازنہ اسی دور کی غیر مذہبی تحریروں سے کیا جائے کہ وہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں کیا تعلیمات دیتی ہیں۔مثلا قدیم یہودی روایات کا موازنہ اسی دور کے قدیم معاشرے میں موجود روایا ت سے کیا جائے۔ابتدائی مسیحی معاشرے میں عورتوں کے حقوق کی صورتحال کا جائزہ اسی زمانے میں رومی سلطنت میں رائنج عورتوں کے حقوق سے کیا جائے۔اسلام میں عورتوں کے حقوق کا تقابل اسی جگہ موجود اسلام سے پہلے کی اقوام کے ساتھ کیا جائے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ قوانین در اصل سماجی اور ماحولیاتی عناصر کے ایک مجموعے کا نتیجہ ہوتے ہیں جیسے جیسے وہ بدلتے ہیں قوانین بھی ان کی اس تبدیلی کو فطرتا قبول کرتے ہیں اور اس تبدیلی کے تابع ہوتے ہیں۔

فقیہ اور فلسفی علامہ محمد حسین طباطبائی اس سلسلے میں کہتے ہیں: "اگر ہم ہر انسانی معاشرے میں رائج قوانین اور رسم و رواج کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ قدرتی عوامل اور حالات جیسے ماحولیاتی اور جغرافیائی تقاضوں (پانی، ہوا، خطہ، سمندر) اور سابقہ پس منظر سے پیدا ہوتے ہیں جو معاشرے کی زندگی کو منظم کرتے ہیں تاکہ سماجی نظام کو ایک طرح سے دیکھا جا سکے۔ایک بچہ جو ایک لمحہ پہلے  پیدا ہوا، وہ تبدیلی اور انضمام کے قانون کے تابع ہے جو فطرت میں اس پر لاگو ہوتی ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ تبدیلی کا یہ قانون ہر جگہ نافذ ہوتا ہے اور سماجی فیصلے بھی اس نظام سے متاثر ہوتے ہیں انہیں کسی قسم کا استثنی نہیں ہے۔معاشرتی اور سماجی تبدیلی میں خواتین کا مقام ومرتبہ اور ان کی زندگی کے معاملات کو منظم کرنے والی روایات بھی اسی تبدیلی میں  شامل ہیں۔ " اسلامی فکر میں بنیادی مضامین، (جلد 2، صفحہ 10)

علامہ طباطبائی نے بھی اپنی تفسیر میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ شریعتیں بھی ان قوانین کے مطابق تبدیل ہوتی رہی ہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ)، المائدة: 48

اور (اے رسول) ہم نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جو حق پر مبنی ہے اور اپنے سے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان پر نگران و حاکم ہے، لہٰذا آپ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کریں اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اسے چھوڑ کر آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، ہم نے تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ایک دستور اور طرز عمل اختیار کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا لیکن اللہ نے تمہیں جو حکم دیا ہے اس میں تمہیں آزمانا چاہتا ہے، لہٰذا نیک کاموں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرو، تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں ان حقائق کی خبر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے ۔

یہاں اللہ تعالی کا یہ فرمان قابل توجہ ہے:

(لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا)

ہم نے تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ایک دستور اور طرز عمل اختیار کیا ہے

 شریعتوں کے اختلاف کی وجہ اللہ تعالی نے ان الفاظ میں بتا دی ہے:

 (وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ)

لیکن اللہ نے تمہیں جو حکم دیا ہے اس میں تمہیں آزمانا چاہتا ہے

اللہ تعالی نے انسانوں کے لیے ایک شریعت نہیں بنائی بلکہ مختلف شریعتیں بنائیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو مختلف نعمتیں عطا کیں وہ ہر قوم و ملت کی مختلف تھیں،ہر ایک کے رہن سہن کے اجتماعی اور انفرادی طریقے مختلف تھے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً)

اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا

یہاں پر شرط کی علت کو خود شرط قرار دیا ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ یہ جزاء کا معنی دے رہی ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(وَلَكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ)

لیکن اللہ نے تمہیں جو حکم دیا ہے اس میں تمہیں آزمانا چاہتا ہے

یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے، اس میں آپ کو آزمانے کے لیے لامحالہ ان آیات میں ذکر کردہ شریعتیں قوموں کے درمیان مختلف ہیں۔ یہ اختلافات گھروں، زبانوں اور رنگوں کے اعتبار سے نہیں ہیں، کیونکہ خدا کبھی بھی یہ فرق نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ شریعتیں نہیں بناتا۔ یہ اختلافات انسانی استعداد اور ترقی کے ارتقاء کی بنیاد پر ہیں۔ (الميزان، ج5، ص352)

خواتین سے متعلق قانون سازی کے بارے میں لکھتے ہیں: اس نقطہ نظر سے اگر ہم انسانی معاشروں میں عورت کے حقوق کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ بھی دیگر سماجی نظاموں اور رسوم و رواج کی طرح ہے، جن میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی ہیں۔ انسانی زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اس میں بھی مسلسل ارتقاء جاری ہے، البتہ ایک فرق یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی ترقی کچھ سست رفتار ہو رہی ہے۔ (اسلامی فکر میں بنیادی مضامین، جلد 2، صفحہ 10)

خواتین سے متعلق قانون سازی اور اس قانون کا تکامل مختلف عناصر کے زیر اثر ہوتا ہے۔ یہ کئی مراحل میں مکمل ہوا ہے، جن میں سے چند اہم مراحل کا ذکر ہم کریں گے:

 

ابتدائی مرحلہ : پسماندگی کا دور

اس ابتدائی زمانے میں عورت کو انسانوں کا حصہ ہی نہیں سمجھاجاتا تھا۔دیگر جانوروں کی طرح اس کے تکامل کا سفر جاری رہا۔مرد جیسے چاہتا اس سے استفادہ کرتا تھا۔ بدقسمتی سے قحط کے دور میں عورت کے بال اور گوشت تک استعمال کیے جاتے تھے۔

اس کے سرے سے کوئی مستقل حقوق نہیں تھے۔یہ خاندان اور مرد کی ملکیت تھی۔عورت کے لیے کسی قسم کے مالی اور روحانی حقوق نہیں تھے،اصل میں عورت کو مکمل انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا۔

بتدریج تبدیلی: انسانی حقوق کی آگاہی کا آغاز

یہ دور اس وقت شروع ہوا جب شہر بن گئے اور منظم حکومتیں تشکیل پا گئیں۔اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کو کچھ حقوق ملنا شروع ہوئے اس وقت کے مجموعہ ہائے قوانین جن میں حمورابی، بابلی، یونانی اور قدیم رومی قوانین اور اسی طرح مصر،ایران اور چین کے قوانین میں یہ تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔اس وقت کے قوانین کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو آج کے بچے کی طرح کے حقوق حاصل تھے۔اس کے کچھ حقوق تھے لیکن یہ بہت کمزور تھی اوران کے نتیجے میں اپنے کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی۔اس تصور کی بنیاد پر عورتیں مردوں کے تابع تھیں اور انہیں زندگی میں انتخاب کا حق حاصل نہیں تھا اور نہ ہی انہیں اپنی تنخواہ اور کام کی ادائیگی کا حق حاصل تھا۔ عدالتوں میں گواہی دینے یا درخواست دینے کا کوئی حق نہیں تھا،ان کو وراثت کا حق بھی نہیں تھا اور خاندان کے دیگر حقوق سے بھی محروم تھیں۔

قدیم ایرانی معاشرے میں محرم رشتہ داروں سے بھی نکاح درست تھا۔چین میں بچہ ماں کی شناخت سے پہچانا جاتا تھا کیونکہ اس کا باپ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کیونکہ ایک عورت کے ساتھ کئی مرد تعلقات قائم کرتے تھے۔مرد کو عورت کو سزا دینے کا حق حاصل تھا اگرچہ اس سزا کے دوران وہ قتل ہی کیوں ہو جائے۔

جب اس وقت کی حکمران قوموں کی یہ حالت تھی تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہود و نصاری میں بھی عورت مرد کے برابر نہیں پہنچتی۔اگر ہم تورات و  انجیل کا ملاحظہ کریں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی عورت کو وہی حقوق دیے گئے ہیں جو اس وقت کے دیگر قوانین میں دیے گئے ۔جن کا ہم نے ذکر کیا  ہے۔اس قسم کے احکام بھی  پائے جاتے ہیں جس میں عورت کے ساتھ نرمی اور اچھائے برتاو کا کہا گیا ہے لیکن اس سب کے باوجود معاشرے میں  عورت کا مرتبہ مرد تک نہیں پہنچتا۔

اسلامی قانون:انقلابی تبدیلیاں

اسلام عورت کے حقوق کے لیے انقلابی تبدیلیاں لے کر آیا سب سے پہلے تو اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق دیے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى)، آل عمران: 195

میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت،

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

 (يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ)، الحجرات: 13

اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک یقینا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، اللہ یقینا خوب جاننے والا، باخبر ہے۔

اسی بنیاد پر ہم دیکھتے ہیں کہ شریعت اسلامی میں عورت کا وہی مقام ہے جو مرد کا مقام ہے۔دونوں انسانی معاشرے کے کامل حصے ہیں۔یہ معاشرے کی تعمیر میں برابر کے شریک ہیں۔اسلامی قوانین میں دونوں برابر ہیں اور مرد وعورت دونوں کوئی بھی ارادہ اور کام کرنے میں آزاد ہیں۔

یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ برابری یہ تقاضا نہیں کرتی کہ جو کچھ دونوں کے لیے الگ الگ قانون میں ہے وہ ایک سا ہو جائے۔اس برابری سے مراد یہ ہے کہ دونوں قانون کے سامنے ایک جیسے ہیں۔عدالت کے فیصلے مرد و عورت دونوں پر برابری کی بنیاد پر نافذہوتے ہیں۔وہ قانونی حدود قیود جو معاشرے نے مرد و عورت دونوں کے کے لیے اپنے حساب سے رکھی ہیں یہ قانون سازی میں بنیادی بات ہے۔یہ ایسے ہی جیسے مرد بھی اپنی اپنی مختلف حیثیتوں کے مطابق معاشرے میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ایک عالم استاد ایک جاہل کے برابر تو نہیں ہوتا۔ شرعی قوانین کو چھوڑ دیں آج کے معاصر قوانین میں بھی عالم استاد کو ایک جاہل پر ترجیح حاصل ہو گی۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

(أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ)،( الزمر: 9)

 (مشرک بہتر ہے) یا وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدے اور قیام کی حالت میں عبادت کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگائے رکھتا ہے، کہدیجئے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے یکساں ہو سکتے ہیں؟ بے شک نصیحت تو صرف عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔

اسی طرح عورتوں اور مردوں کے لیے قوانین بھی ان کی معاشرتی حیثیت کے مطابق مختلف ہوتے ہیں۔

درست بات یہ ہے کہ قوانین کے نفاذ میں مساوات ہے۔جہاں تک حقوق اور اختیارات کی بات ہے تو یہ کسی بھی انسان کے معاشرتی مقام کے مطابق ہوتے ہیں کہ وہ معاشرے میں کتنا کردار ادا کر رہا ہے۔عالم جاہل،بادشاہ رعایا اور بچے بزرگ کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔معاشرتی بقاء اور استحکام کے لیے  ان اختلافات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔سماجی انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا خیال رکھا جائے۔

مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں ہمیں دو چیزوں کے درمیاں فرق کرنا چاہیے:جنس و نسل کی تفریق کے بغیر معاشرے کے تمام لوگوں پر قانون کا برابر نفاذ ہو اور سب قانون کے سامنے برابر ہیں  اس کے اور انسان کی قابلیت اور اس کی معاشرے میں اہمیت اور اثرانگیزی کے درمیان فرق کرنا ہو گا۔

اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی شریعت میں مرد اور عورت کےد رمیان جنسی فرق کی وجہ سے امتیازنہیں پایا جاتا اور سب برابر ہیں۔عورت کے کام کی اجرت مرد کی اجرت کے برابر ہے ایسا نہیں ہوتا کہ اگر عورت ڈاکٹر ہے تو کم اجرت اور اگر مرد ڈاکٹر ہے تو اجرت زیادہ ہو گئی۔اسی طرح یہ دونوں اپنے معاملات کو قاضی کے پاس لے جانے میں بھی برابر ہیں۔

بعض مقامات پر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیں فرق نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر مقامات پر مرد کا سماجی مقام و مرتبہ زیادہ ہوتا ہے ۔یہاں مرد کو فائدہ پہنچنے کی وجہ مرد ہونا یا عورت نہ ہونا نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہی مقام ہوتاہے۔اس لیے ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ یہاں مرد کو عورت پر ترجیح دی گئی ہے۔اب وراثت کے معاملے کو ہی لے لیں یہاں مرد کو عورت کی نسبت زیادہ ملتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں خاندان کی کفالت کا زیادہ کام مرد کے ذمے ہوتا ہے اگر صرف عورت ہونے کی وجہ سے اس پر میراث کے معاملے میں مرد کو ترجیح دی جا رہی ہوتی تو ہر جگہ ایسا ہوتا۔اب دیکھیں اگر بھائی اور بیٹی موجود ہے تو یہاں بھائی جو مرد ہے اس کی جگہ بیٹی جو عورت ہے اسے ترجیح حاصل ہوتی ہے اور میت کے بھائی کو وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا۔

اسی طرح آپ بچوں کی کفالت کے معاملے کو دیکھ لیں اگر طلاق ہو جاتی ہے تو بڑھتے ہوئی عمر کے بچوں کی تربیت اکثر  باپ ماں سے بہتر انداز میں کر سکتا ہے۔

اگر کوئی استثنائی جگہ ہو جہاں بچے کی مصلحت ماں کے پاس رہنے میں ہو تو ایسے میں شریعت نے قاضی کو اختیار دیا ہے کہ وہ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری ماں کو دے سکتاہے اور وہ  ماں کو باپ  پر ترجیح دے دے گا۔اگر باپ نہ ہو تو ایسی صورت میں بچے ماں کے پاس رہیں گے۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فیصلے کا معیار بچے کا نفع نقصان ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018