6 ربيع الثاني 1446 هـ   9 اکتوبر 2024 عيسوى 12:36 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-09-21   95

برائی کی جڑ: غیر مہذب الحادی فلسفی

شیخ مقدار ربیعی

آج جس فکر کا بہت شور ہے قرآن کریم میں اللہ تعالی اس موضوع کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: (وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا كَذَلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ)،(الأعراف: 58)

اور پاکیزہ زمین میں سبزہ اپنے رب کے حکم سے نکلتا ہے اور خراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے۔ یوں ہم شکر گزاروں کے لیے اپنی آیات کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔

اس آیت مجیدہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صاحب تربیت افراد سے ہی اچھےا ور نیک لوگ سامنے آتے ہیں۔اسی طرح بدبخت لوگوں سے بدبخت اور ذلیل لوگ ہی پیدا ہوتے ہیں۔یہ آیت کریمہ ایک واقعیت کو بیان کر رہی ہے اور ہم نے اپنے ایک اور مضمون میں اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔اس مضمون کا عنوان"جب الحاد بڑے پیمانے پر تباہی کا ہتھیار بنا"الحاد یقینا تباہی کا ہتھیار ہے اور انسانیت کا قاتل ہے۔ انسانی تباہی کا فلسفہ وبنیاد الحاد اور فاشسٹ نظام حکومت ہیں جو تاریک ذہنیت کی پیداوار ہیں،جو ان کے کج ارادوں اور پریشان نفسیاتی رجحانات کا نتیجہ ہے۔یہ روحانی مریض ہیں، ہماری یہ باتیں ان پر کسی قسم کا بہتان اور اہانت نہیں ہیں،یہ ان کی حقیقت ہے ہم آج اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔ہم بہت سے حقائق سےپردہ اٹھائیں گے اور ان کے بہت سے جھوٹوں کو بھی بے نقاب کریں گے۔ہم الحادی مفکرین کو  دیکھیں گے کہ ان کی حقیقت کیا ہے؟وہ لوگ جنہوں نے الحاد کی عمارت  کھڑی کی دراصل ان لوگوں نے عقلانیت کے نعرے کو حقیقت چھپانے کے لیے استعمال کیا۔اس نعرے کے پیچھے ان کی سرکشی اور جنون چھپا ہوا تھا۔اس انسانیت دشمنی کے باوجود ان لوگوں کی تحریریں فکری اور جذباتی گمراہی کا کام کرتی ہے اور ان کے پیروکار بڑی شدت سے الحادی فکر کے پیرو رہتے ہیں۔ہم الحادی فکر کے چند بڑی ستونوں اور ان کی فکر کاتعارف کراتے ہیں:

نطشے  : "سپر ہیومن" کا المیہ

نطشے (نیچہ) ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوا، اور یہ ایک پدری کا بیٹا تھا، جوانی میں اس نے مذہبی عقیدے کے اظہار کے لیے طویل نظمیں لکھیں۔وہ روحانی تربیت کے لیے ایک مسیحی دینی تربیتی ادارے میں رہا جہاں وہ ایک پادری بننا چاہتا تھا۔پھر اس نے مذہب اور اس کی تعلیمات کو ترک کر دیا۔ایک وقت آیا کہ وہ اسی عقیدے کا بہت بڑا مخالف بن گیا۔ دیکھ جائے تو اس کی زندگی اعتدال سے ہٹی ہوئی ہے اس میں حد سے زیادہ فریب ہے،اس کے خیالات خطرناک ہیں اور اس کی زندگی شدید  اتار چڑھاو کا شکار نظر آتی ہے۔

یہ الحاد سے فیورباخ کی تحریروں سے متاثر ہوا(انسان اس لیے راستہ تبدیل کر لیتا ہے کہ وہ فطری مسائل کا شکار ہوتا ہے ،شکست سے بچنا چاہتا ہے اور ایک آئیڈیل کی تلاش میں نکلتا ہے) یہ اس فکر کا بانی ہے جس میں مسیحیت پر شدید حملہ کیا گیا،اس نے ان تمام چیزوں کو تنقید کا ہدف قرار دیتے ہوئے حملہ کیا جن کا مسیحیت میں دفاع کیا جا تا ہے۔اس نے انسانی جذبہ رحم ،انسانی مساوات،اخلاقی نظام،ارادہ کی پختگی کی ستائش اور زندگی میں پسماندہ رہے جانے والے غریب و فقیر لوگوں کی تحقیر کی۔

نطشے نے مابعد الطبیعیات کی تمام صورتوں(وجود ثابت کا مفہوم، اچھائی، سچائی اور انسانی فطرت کے ہر طے شدہ تصور) کو رد کر دیا تاکہ اپنے غیر فطری نظریات کی ستائش کر سکے۔

اس نے دینداروں پر تہمت لگائی کہ دین و مذہب اصل میں شکست خوردہ لوگوں کا راستہ ہے۔اس نے خود کو خدا قرار دیا،اس نے خود کو ہی ایک صاحب قدرت خالق کہا جو ہر چیز بنا سکتا ہے، وہ چاہتا تھا کہ نظریہ ارتقا کے اصولوں پر اخلاقیات اور معاشرت کی از سر نو تعمیر کی جائے، جس کا مقصد صرف بہترین اور کامل لوگوں کی تلاش تھا۔ تخلیق وسائل اور وقت کو نکموں اور نالائقوں پر ضائع نہ  کیا جائے۔ یہیں سے وہ اپنے سپر مین یعنی کہ فوق البشر کا بت تراشتا ہے۔

جب اس نے مسیحیت کے مخالف عقیدہ اختیار کر لیا تواس کی تحریریں اس کی کتاب" The Antichrist" میں سامنے آئیں اس میں وہ لکھتا ہے:کمزور اور شکست خوردہ لوگوں کو مرنے دو،ایسا کرنابنی نوع انسان سے محبت کا پہلا اصول ہے،آئے انہیں دنیا سے ختم کرنے میں مدد کریں۔

مسیحیت میں فرد کی بطور انسان بڑی اہمیت ہے،انسان اتنا انمول ہے کہ اسے قربان نہیں کیا جا سکتا۔ نطشے کہتا ہے کہ نسلیں فقط انسانی قربانی سے زندہ رہتی ہیں۔حقیقی خیرات یہ ہے کہ نسلوں کی بھلائی کے لیے قربانی دی جائے:مسیحیت اسے ظالمانہ کہتی ہے، کیونکہ اس کے لیے انسانی قربانی کی ضرورت ہے۔نطشے کہتا ہےیہ جھوٹی انسانیت، جو مسیحیت پیش کرتی ہے، خاص طور پر یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ کسی کی قربانی نہ دی جائے۔"

اپنی کتاب "Ecce Homo" میں اس نے زور دے کر کہا ہے کہ خواتین میں "نرم پن" "جسمانی انحطاط" کی علامت ہے۔

نطشے کے نفسیاتی مرض کو جاننے کے لیے یہ بھی دیکھ لیں کہ وہ کہتا ہے"بندر انسانوں سے بہت اچھے ہیں کیونکہ انسان ان سے پیدا نہیں ہوتے"

"صرف ایک ہی دنیا ہے اور وہ جھوٹی، ظالمانہ، متضاد، موہک اور بے معنی ہے۔"

زمین کی ایک جلد ہے اور اس جلد کی بیماریاں ہیں، ان میں سے ایک بیماری انسان کہلاتی ہے۔

"خودکشی کا خیال ایک زبردست تسلی دیتا ہے یہ ہمیں کئی بری راتیں گزارنے میں مدد کرتا ہے۔"

"ظلم زخمی غرور کا علاج ہے۔"

اس کی تحریریں تھرڈریخ(یہ جمہوریہ ایک پارلیمانی حکومت تھی جو پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں قائم ہوئی۔) کی حکومت کو بچانے کی حفاظتی تدابیر تھیں۔ہٹلر نے اعلانیہ اس بات کا اظہار کیا کہ وہ نطشے اور ویگز کے نظریات پر ہے۔اس کی یہ رائے "دی ول ٹو پاور" جو فلسفی کتاب ہے میں اور زیادہ وضاحت کے ساتھ "العصر الجدید" میں موجود ہے۔

عورتوں کے بارے میں اس کا نظریہ خوفناک اور ستم ظریفی پر مبنی ہے۔وہ اپنی کتاب Thus Spok Zarathustra میں لکھتا ہے"کیا تم عورتوں کو دیکھنے کے لیے جاو گے؟اپنا کوڑا دیکھنا نہ بھولنا!"

ابتدائے زمانہ سے ہی سچ سے زیادہ عجیب،گھناونی،بدتہذیب اور گھٹیا کوئی چیز نہیں رہی،جھوٹ ایک بڑا فن ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک سادہ اور ظاہری خوبصورت شکل ہے"

۱۸۸۹ کا زمانہ ایسا ہےجب نطشے تاریک وادیوں میں اتر گیا یہ ایک ہنگامہ خیز دور ہے وہ خود فریبیوں کے بھنور میں پھنس گیا۔اس نے خود کو جدید نپولین خیال کیا جو یورپ کا نجات دہندہ ہے،عظیم سیاستدان اور معمار قوم ہے۔یہاں تک کہ اس نے خودمیں ڈیونیسس اور مسیح کا عکس دیکھا۔اس طرح وہ مکمل طور پر جنون کی وادیوں میں چلا گیا۔

اس مشکل دور میں اس کے ابتدائی سال شدید مشکلات اور جدوجہد کے ہیں،ایسی جدوجہد جس میں انسان کو بیرونی دنیا کی خبر ہی  نہیں ہوتی،یہاں اس کی مونس فقط خاموشی اور اس کی اپنی ہلکی ہلکی بڑبڑاہٹ تھی یا اس کے چلتے ہوئے سانس۔یہاں تک کہ اس نے 25 اگست 1900 کو آخری سانسیں لیں۔

کتنی عبرت ناک موت ہے؟اسے اس کی اپنی فطرت نے ہی اسے بتا دیا کہ تمہاری حد کیا ہے؟آزادی اور اس کا تخلیقی ذہن  جو اس کے بنیادی نظریات تھے یہ سب بھول جاتا ہے۔آزادی اور تخلیقی  صلاحیتیں درست سوچا جائے تو دینی ہیں۔

نطشے نے ۱۸۸۲ میں اپنی مشہور کتاب العالم المرح میں خدا کی موت کا اعلان کیا،اللہ کی قدرت ملاحظہ کریں جس خدا کی موت کا اس نے اعلان کیا تھا وہ تو زندہ اور موجود ہے مگر یہ خود خاک بن گیا۔

 فرائیڈاور اس کے انحرافات

آسٹریا کے طبیب اور سائنس دان سگمنڈ فرائیڈ (1856-1939) کو بہت بڑا نفسیاتی ماہر سمجھا جاتا ہے۔اس نے نفسیات پر غور فکر کرنے کے لیے دو نئی بنیادیں متعارف کرائیں:ایک طفلانہ جنسیت اور دوسرا لاشعور۔یہ دونوں باتیں مثبت اور علمی نہیں ہیں۔اس نے انسان کے جنسی تعلقات اور رویوں پر بہت کام کیا اور جنون کی حد تک کام کیا۔یہ اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ اس نے کہا عورتوں کی نفسیاتی مشکلات کی وجہ ان صلاحیتوں کا نہ ہونا ہے جو مرد میں ہوتی ہیں۔

یہ حقیقت بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اسے اور اس کے بھائیوں اور بہنوں کو اس کے والد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس نے اپنے ایک خط میں اس کی تصدیق کی ہے: "بدقسمتی سے، میرے والد ان منحرف لوگوں میں سے ایک تھے جو میرے چھوٹے بھائی اور بہنوں کے ہسٹیریا کے ذمہ دار ہیں۔" (فرائیڈ، ولہیم فلائیس کو سگمنڈ فرائیڈ کے مکمل خطوط 1887-1904، خطوط 8 اور 11 فروری 1897)۔

اس کا بچپن زخم خوردہ تھا جس کا یہ ذمہ دار نہیں ہے اور اس کا الزام اس پر نہیں لگایا جا سکتا۔اس نے طفلانہ جنسیت کا جو نظریہ پیش کیا اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے۔وہ بتاتا ہے کہ اس کے پاس کیسے ایک تحفہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے اعصابی مرض کو عام کر سکتا ہے۔

مسلو کے قول کے مطابق: "اگر آپ کے پاس واحد آلہ ہتھوڑا ہے، تو آپ ہر مسئلے کو کیل کی طرح دیکھتے ہیں۔"

اس نے مذہب کو "انسانیت کے لیے ایک دماغی مرض کے طورپر دیکھا،اس نے ایسا نظریہ پیش کیا کہ خود نفسیات کے ابتدائی  ماہرین کے لیے بھی اسے سمجھنا مشکل تھا،اس نظریہ نے دنیا بھر کے ماہرین نفسیات کو بہت متاثر کیا۔

اس کی فکر نے کئی نسلوں کو مکمل گمراہ کیا اور وہ کئی طرح کے انحرافات کا شکار ہوئے:یہ کوکین کا شوقین اور رواج دینےو الا تھا،اس نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو اس لت میں مبتلا کیا۔اس نے اپنی بہن اور بیوی دونوں کو دھوکہ دیا۔اس کی تحقیق جھوٹ پر مبنی ہے ۔ اس نے بہت سے دوسروں لوگوں کی تحقیقات کو اس نے چوری کیا۔اس نے اپنے پاس آنے والوں مریضوں کا استحصال کیا۔یہ بیچارے مزدورں کو حقیر سمجھتا تھا،بے تحاشہ فسیز وصول کرتا تھا،یہ ملی بھگت کر کے عطیات  کی  خورد برد کرتا تھا۔یہ ٹیکس چور تھا اور اپنے نفسیاتی فنڈ  میں بھی خورد برد کی۔اس نے ایک خط میں اعتراف کیا ہے کہ میرے لیے مال عیاشی کا سامان ہے۔

یہ  حالت جنون میں بھی شاہ خرچ تھا، اس نے کہا پہلے کوپرنیکس ہے پھر ڈارون ہے اور حق انسانیت کے ساتھ ہےتیسرا اس کے لیے نشہ تھا جس نے اسے بہت نقصان پہنچایا۔

تمباکو  نوشی کی لت نے اسے 1923 میں منہ کے کینسر میں مبتلا کر دیا، جس کے نتیجے میں اگلے 16 سالوں میں اس کی 33 سرجری ہوئیں، لیکن وہ مر گیا۔

شوپن ہاور، مایوس مجنون

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آرتھر شوپنہاؤر (1788-1860) کو ملحد دانشوروں میں  ایک بڑا دانشور سمجھا جاتا ہے۔اس نے اپنی تاریک  نفسیات اور مایوسی کے جنون سے اپنے خیال میں  انسانی اوہامات کو حل کرنے کی کوشش  کی ہے۔اس نے فلسفہ ،آرٹ اور فن پر گہرا اثر ڈالا۔اب یہ بات راز نہیں رہی کہ مایوسی اور الحاداس کی فکر کی دو اہم ترین بنیادیں ہیں۔

اس  کا ابتدائی کام، The World as Will and Idea، جو 1819 میں شائع ہوا، جسے وہ اپنے خیالات  کا مکمل اظہار سمجھتا تھا، یہ اس کی  سب سے مشہور  کتاب  ہے۔ اس کے  بعد اس  نے شاذ و نادر مواقع پر ہی  لکھا۔

اس کے تحقیقی کاموں میں سے بعض اقتباسات اس کی تحقیق کو سمجھنے میں معاون ہوں گے:" فطری جبلیتں جیسے شفقت و محبت انسانوں کو  عورتوں سے ملتی ہیں،حقیقت یہ ہے کہ وہ انصاف، راستبازی، اور دیانتداری وغیرہ جیسی صفات میں مردوں سے پیچھے ہیں۔۔۔ لہٰذا، ناانصافی، نسائی فطرت کا سب سے بڑا عیب ہے۔ یہ عقل اور استدلال کے فقدان کی وجہ سے ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے، اور جو چیز اس عیب کو مزید  بڑھاتی ہے وہ یہ ہے کہ قدرت نے ان کو طاقت ہی  عطا نہیں کی کہ اس کمزوری سے بچ جائیں۔انہیں چالاکی آتی ہے اس لیے ان میں جھوٹ بولنے اور چالاکی کا فن  آتا ہے جو ناقابل تسخیر ہے۔

یہ کہتا ہے"انسان بنیادی طور پر ایک جنگلی جانور ہے  اور بڑا زبردست جانور ہے اور ہم اسے یونہی جانتے ہیں۔اس تہذیب کو چھوڑ دیں جس میں انسان ریاست کا پالا ہوا ہے: لہذا ہم اس کی فطرت کے خلاف کام کرنے سے پہلے ہی خوف سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ قانونی نظام کے تالے اور زنجیریں کسی بھی طرح  اسے گرنے نہیں دیتے،  اسے چھوڑ دیں اور افراتفری پھیلنے دیں، تب ہی ہم دیکھیں گے کہ انسان اصل میں کیا ہے؟

اس مایوسی کی تاریخ ہے"انسان تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ کرامت والا ہے۔اس کی وجہ اس کا صاحب ارادہ  ہونا اور خواہشات کا حامل ہونا ہے،اس کی ضروریات ہزاروں ہیں،بلکہ یہ خواہشات کا مجموعہ ہے ان کے ساتھ اس زمین پر زندگی گزارتا ہے۔وہ اپنےلیے گمشدہ ہے اور کسی چیز پر یقین نہیں کرتا ،وہ صرف اپنی ضرورتوں کا غلام ہے۔اس کی ضرورتیں ہر روز بدلتی رہتی ہیں یہی اسے ہر روز مصروف رکھتی ہیں۔انسان کے  اپنے وجود کی بقا کی فکر متحرک رکھتی ہے۔جہاں کوئی بات انسان کو سکھ دے رہی ہوتی ہے کوئی دوسری جبلت اسے دکھ پہنچا رہی ہوتی ہے۔انسان میں نسل بڑھانے کی جبلت موجود ہے۔انسانی نسل کا بڑھنا کئی  اطراف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔انسان کی احتیاط اور چوکس رہنا ہی اس کی بقا کے لیے کافی نہیں ہے۔

انسان بے چینی سے سفر جاری رکھے ہوئے ہے،فکرمندی کے ساتھ اردگرد کا مشاہدہ کرتا  ہوا اپنے راستے چلا جا رہاہے۔اس راستے میں بہت سے اتفاقات کا سامنا کرتا ہےا ور اسی راستے میں بہت سے دشمنوں سے بھی دو ہاتھ کرتا ہے۔"

اس نے اپنی دیگر کتب میں بھی یہی کچھ لکھا ہے ان سے کچھ اقتباسات :

"انسان زمین کا شیطان ہے،جانور انسان سے اذیت پانے والی روحیں ہیں"

"اس عالم موجود میں کسی قسم کا استحکام نہیں ہے،کوئی مستقل حالت بھی نہیں ہے،ہر چیز تبدیلی کا شکار اور ہر وقت کی حرکت میں ہے۔ہر چیز مسلسل بھاگ رہی ہے اور  مسلسل آگے بڑھ رہی ہے جب ہر چیز ایسی متحرک ہے تو خود کو مستحکم رکھنا پڑتا ہے اور خوشی کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا" (Parerga and Paralipomena)

"خود غرضی ایسی  آ چکی ہے کہ جس کا کوئی حساب نہیں ،ہر انسان کی یہ بڑی خواہش ہے کہ وہ اپنا تحفظ چاہتا ہے۔اپنے دکھوں اور محرومیوں سے آزادی چاہتا ہے۔وہ چاہتا ہے جتنا ممکن ہو عیش و عشرت کی زندگی گزارے،جس میں وہ تمام متصورہ لذتوں سے لطف اندوز ہو۔یہ لذتیں بھی مسلسل اور زیادہ ہوتی جائیں۔جو چیز بھی اس خودپسندی والی خواہشات کو روکنے کا باعث بنے گی اس پر  اسے غصہ آئے گا اور وہ قابل نفرت دشمن سمجھ کر اسے  کچل دے گا"(اخلاقیات کی بنیاد)

"ہر جگہ زمین پر قبضہ کرنا بہت ہی شاندار خیال ہے۔جب یہ کہا جاتا ہے الحاد یہ ہے کہ خدا معمولی چیز ہے"

مشہور ادیب اور ادبی نقاد، رولینڈ جیکارڈ کا تبصرہ ہے: آرتھر شوپنہاؤر اپنے گفتگو میں کہا کرتے تھے کہ کسی بھی فلسفے میں  آہ و زاری نہیں ہوتی،مصائب میں دانت پیسنا دنیا میں ہی موت کے قریب کر دیتا ہے اور یہ فلسفہ کہلانے کے قابل نہیں ہے۔یہ بائبل کے خدا کا ذکر  کرنے پر ہی غصے میں آجاتا تھا کہ کوئی کہے کہ میں نے اسے اچھا پایا ہے۔اس نے یہ کہا کہ  بائبل کے خدا نے بنایا کہنے سے بہتر یہ ہے کہ کہہ دیا جائے کہ شیطان نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔کسی کو اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے کوئی ایسا ہو جو اس مقام پر فائز ہو جہاں سے وہ ابدیت کا نظارہ کر سکتاہو۔شکسپئر کے لافانی الفاظ ہیں  حضرات محترم اچھا وقت گزاریں،مشعلیں بجھا دیں،بھیڑیوں کی لوٹ مار ختم ہو گئی ہے"

1831 میں، آرتھر شوپنہاؤر کی مشہور کتاب منظر عام پر آئی اس میں لکھتا ہے"ہمیشہ صحیح ہونے کی صلاحیت،اسی وقت ممکن ہے جب انسان چالباز ہو اور زبانی جوڑ و توڑ کا ماہر ہو۔یوں سمجھ لیجئے یہ دھوکہ دہی کرتا ہو اور ہر جگہ اسی کے ذریعے کام چلاتا ہو۔یہ کتاب جلد ہی  موقع پرست صحافیوں،منافق دانشوروں،بے ایمان سیاستدانوں اور ہر الفاظ کے گورکھ دھندسے کام نکالنے والوں کی پسندیدہ کتاب بن گئی۔

یہ بدگمانی کا شکار، ان لوگوں میں سے ایک تھا جنہیں فلسفی پال ریکوئر نے مارکس، فرائیڈ اور نطشے کے ساتھ "شک کا رہنما" کہا تھا۔ اس کی تحریروں میں ایک جملہ بہت مشہور ہے جو زندگی کے بارے میں  اس گمراہ گروہ   وژن کے بارے میں بتاتا ہے: "زندگی ایک پینڈولم کی طرح دکھ اور بوریت کے درمیان گھومتی ہے۔"

اس کی متضاد شخصیت کا پتہ اس کے بارے میں سنائی جانے والی کہانی سے بھی چلتا ہے جس میں  کہا جاتا ہے: ایک ایسے دور میں جب بہت سے جرمن انتہائی غربت کا شکار تھے، شوپن ہاور نے اپنی وصیت میں کہا کہ اس کی تمام وراثت اور دولت اس کے  آوارہ  ہوئے کتے کے پاس چلی جائے۔ ! کتنی ظالمانہ  بات اور ستم ظریفی ہے کہ زندگی کو ناقابل برداشت بوجھ سمجھنے والا یہ فلسفی انسانوں کے دکھوں کو مٹانے میں اپنا حصہ ڈالنے کے بجائے اپنی دولت کسی جانور کے لیے چھوڑنے کو ترجیح دیتا ہے۔

ماركس

مئی 1849 میں، اخبار Neue Rheinische Zeitung کے ایک اداریے میں مارکس نے بطور چیف ایڈیٹر  لکھا:"جون اور اکتوبر کے واقعات کے بعد سے بے مقصد قتل عام، فروری اور مارچ کے بعد کی تھکا دینے والی قربانیاں اور  انقلاب کو ختم کرنے  کے لیے نسل کشی،قوموں کو اس بات پر قائل کرے گا کہ پرانے معاشرے  کی قتل کرنے والی مشکلات اور نئے معاشرے کے خونی مصائب ، ان سب سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے اور ہے  خونی انقلاب ۔ ...ہمیں کوئی ہمدردی نہیں، اور ہم آپ سے کوئی ہمدردی نہیں مانگتے۔ جب ہماری باری آئے گی تو ہمیں دہشت گردی پھیلانے کے بہانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

 لندن میں ایک سال کے  بعد مارکس اور اینگلز نے لیگ آف کمیونسٹ کی مرکزی کمیٹی سے خطاب کیا: "سب سے پہلے، جنگ کے دوران اور اس کے فوراً بعد، محنت کشوں کو اپنی پوری طاقت کے ساتھ، انقلاب  کی تحریک کو مٹانے اور  بورژوازی کی مایوس کن کوششوں کو ناکام بنانا چاہیے۔ جمہوریت پسندوں کو اپنے سخت فیصلوں پر عمل کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ انہیں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ فتح کے بعد اچانک  آنے والا  انقلابی جوش ختم نہ ہو جائے۔ اس  جوش و جذبے کو زیادہ سے زیادہ دیر تک چلتے رہنا چاہیے۔ یہ ان نام نہاد زیادتیوں سے پرے ،ایسے نفرت پسند افراد یا  قوموں سے انتقام کے کی کاروائیاں جن کی دردناک یادیں ہیں۔لیبر پارٹیوں کو ان پر صرف تعزیتی بیان جاری نہیں کرنے چاہیں بلکے آگے بڑھ کر ایسی تحریکوں کی قیادت کرنی چاہیے۔

ماہر تعلیم اور مصنف سیموئیل گریگ نے زور دیا کہ  جوہمارے لیے مارکس اور اس کے پیروکاروں کی فکر کی  واضح تصویر کشی  کرتے ہیں وہ کہتے ہیں: "جنونی انقلابی کارکن، اپنے مطلوبہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے - جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، چوری کرنا، تباہ کرنا، تشدد کرنا، یہاں تک کہ قتل کرنا بھی ضروری ہو تو کر گزرتا ہے۔ "یہ زمینی جہنم کا راستہ بھی ہے، جیسا کہ 1970 کی دہائی  میں  سائبیرین حراستی کیمپوں اور کمبوڈیا میں ایسا ہوا۔" 

اسپارٹیکس اور پرومیتھیس (جس نے دیوتاؤں سے آگ چرائی!) کے اس مداح نے ہمیشہ مزدوروں کی اس حالت کو بیان کرنے سے  انکار کیا، اس دور  میں  روزی روٹی کو یقینی بنانے کے لیے مزدورں کو  سماجی مدد فراہم نہیں کی، اس نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے: برطانیہ میں جرمن سفارتخانہ اسے ان تمام انقلابیوں کے بارے میں رپورٹ کر رہا تھا جو اس کی ہدایات  پر عمل نہیں کرتے تھے اور وہ اپنی بیوی جینی کے  پیسوں پر زندگی گزار رہے تھے۔ جس کے ساتھ وہ بے شرمی سے دھوکہ کر  رہا تھا (اس نے اپنی نوکرانی  سے ایک "ناجائز" بچے کو جنم دیا، جسے اس نے تسلیم نہیں کیا)۔ وہ اسی  دو نمبر ی پر نہیں رکا بلکہ امریکی سرمایہ دار نیویارک ڈیلی ٹریبیون اخبار کے لیے مضامین  بھی لکھے!۔

اپنے انقلابی جذبے اور کام  کی وجہ سے، اس نے اپنے بچوں کو اس حد تک نظرانداز کیا کہ اس کے تین بچے  انتہائی غربت میں مر گئے۔ مارکس زوال کے وقت شراب نوشی کی بدترین حالت میں رہتا تھا اور 1883 میں انگلینڈ میں انتہائی غربت میں مر گیا۔

آگسٹ کومٹے

متعدد معاصر ملحدین اپنے نظریات کو درست ثابت کرنے کے لیے آگسٹ کومٹے اور اس کے "عقلی اور سائنسی" نقطہ نظر  سے رہنمائی لیتے ہیں۔: اس فرانسیسی فلسفی اور ماہر عمرانیات نے "مثبتیت پسندی" کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔ یہ  فرانسیسی انقلاب کی بنیاد بنی : زندگی بھر اس مشن کی تکمیل میں لگا رہا۔

وہ اپنی پوری زندگی میں ڈیمنشیا  سمیت  کئی بڑے عارضوں میں مبتلا رہے، یہ عارضے  طبی طور پر ثابت تھے۔ اس نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے "مثبت فلسفے پر لیکچرز" کے کچھ دنوں بعد ہی   اسے جنون کا آغاز ہوا، اور اسی دوران یہ کافی بڑھ گیا۔ کانٹ نے ملازم  کے گال میں کانٹا چبھایا۔ 1826 کے آخر میں، اس نے اپنی بیوی کے کہنے  پر سینیٹوریم چھوڑ دیا، لیکن پھر بھی  وہ مکمل   صحت یاب نہیں ہوا، پیرس جاتے ہوئے، اور آسٹرلٹز پل سے  گزرتے ہوئے اس کا مشاہدہ کیاتھا۔ قسطنطنیہ میں  اس کو  دوست ملے جنہوں  نے اسے دوسری بار قائل کرنے کی کوشش کی، مگر اس نے تشدد  کرتے ہوئےاسے تھپڑ رسید کیا۔اس کے ساتھ ہی اس نے خود کو دریائے سین میں گرا دیا جہاں خوش قسمتی سے ایک شاہی محافظ نے اسے بچا لیا۔

ایک لیکچر  کے دوران اس نے کہا کہ اب  ایک سچے اور مکمل  دین کے بنانے کی ضرورت ہے۔جولائی ۱۸۴۸ء میں اس نے ہیمومنزم مذہب کی بنیاد رکھی  اس وقت وہ مثبتیت پر گفتگو کر رہا تھا۔۱۸۵۰ میں  یہ انسانیت کا  مبلغ  بن گیا،اس نے  اپنے آپ کو تین اہم سماجی  اختیارات کا مالک قرار دیا: پیدائش، شادی اور موت۔

اپنی نئی کتاب"  تعلیم مسیحی" میں اپنا تراشامذہب  انسانیت کی عبادت کو قرار دیا  جس میں " الہ" یا "کاہن عظیم" کہا جاتا ہے۔ اس عظیم ہستی یا دیوی کی پہچان "ماضی، حال اور مستقبل کی مخلوقات کا مجموعہ" کے طور پر کرائی  گئی ہے۔ مُردوں کا ایک فرقہ قائم کیا گیا ہے، جو اعلیٰ کاہن کے الفاظ میں، ’’زندوں پر حکومت کرتا ہے۔‘‘ اس نئے نظام میں، سیارہ زمین "تمیمہ عظیمہ،" "عظیم وسط" بن جاتا ہے، جو ریاضی دانوں کے لیے اہم موضوع  ہے۔

اس نے نئے دین کی تین بنیادی تحریر شدہ  عبادتیں  ہیں:شخصی عبادت، فطری مظاہر کی مذہبی اور مافوق الفطرت وضاحتوں کا غلبہ ہے۔ لوگ فرشتوں، روحوں یا دیگر مافوق الفطرت قوتوں کے اعمال کے ذریعے واقعات کی وضاحت کرتے ہیں۔گھریلو  اور عوامی عبادات یہ دعاوں کا ایک  نظام ہے (خود آگسٹ کومٹے کے الفاظ) اس عظیم پوپ کی مدد پہلے تو سات  اعلی افسران کریں گے۔ اُن کی تعداد بعد میں اُنتالیس ہو جائے گی، ’’جب نسلِ انسانی کی مکمل تجدید ہو جائے گی۔‘‘

اس کی نجی زندگی صوفیانہ زندگی کی  عکاسی کرتی  ہے، کیونکہ اس نے ایک طوائف، کیرولین میسین سے شادی کی تھی، جو ایک یتیم  تھی اور غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔ اس کے نزدیک، یہ عورت گری ہوئی  اور بھٹکی ہوئی انسانیت کی نمائندگی کرتی ہے، جس میں  وہ خود کو دیکھتا ہے۔ یہ شادی مکمل طور پر ناکام رہی۔ کیرولین میسن نے اپنی وصیت کو اس بنیاد پر منسوخ کرنے کے لیے کہا تھا کہ "عمل کرنے والا پاگل تھا" یعنی اس کا شوہر پاگل ہے۔ پھر اسے ایک اور عورت، کلوٹیلڈ ڈی ووکس سے محبت ہو گئی، جو ایک باوقار اور مہذب عورت تھی، جس نے اس بار اپنے عقلی منصوبوں سے، انسانیت کو نجات دلائی۔ وہ جلدی مر گیا۔

سارتر

ژاں پال سارتر (1905-1980)، فرانسیسی فلسفی، ملحد وجودی تحریک کے نمایاں افراد  میں سے ایک ہے۔ ایک مشہور مصنف اور میگزین ماڈرن ٹائمز (1945) کا بانی ہے، وہ اپنے ادبی کاموں اور انتہائی بائیں بازو کی سیاسی وابستگیوں  کی وجہ سے  جانا جاتا ہے۔ اس کا فلسفہ انسانی فطرت کے وجود سے انکار پر مبنی ہے اور آزادی کو ماورائی مطلق قرار  دیتا  ہے: اس کے مطابق انسان آزادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

سارتر نے ایک بڑے مکتب فکر کی بنیاد رکھی،اسی وجہ سے یہ اپنے عہد کے دانشوروں میں ممتاز مقام تک پہنچا ۔ان کے عصر کے بعض دانشور ایسے تھے جو بنیاد پرست فلسفہ وجود کے بانیوں میں سے تھے۔

انہوں نے 1950 کی دہائی کے اوائل میں جب  سٹالنسٹ کی  آمریت  اپنے  عروج پر تھی اس وقت  سوویت یونین کے دفاع میں کہا: "سوویت یونین میں تنقید کی مکمل آزادی ہے۔"

اگرچہ اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن حملے کے خلاف مزاحمت کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن اس کی شخصیت کا ایک بالکل مختلف پہلو  اس وقت سامنے آیا جب اس نے جرمن پروپیگنڈا کرنے والے میگزین کے لیے بے شمار مضامین لکھے، جب کہ اس کے ساتھی ڈی بیوویر نے ...ریڈیو وچی، جرمن حامی فرانسیسی حکومت سے وابستہ رہا۔

سارتر نے ایک ماورائی طاقت کے خیال کو مسترد کر دیا جو انسان سے پہلے ہے اور اسے وجود دینے کے قابل ہے۔ اس طرح اس کے مطابق، انسان اخلاقیات یا کمپاس کے بغیر ایک عصبیت  کےسوا کچھ نہیں ہے، ایک ایسی عصبیت جس کی ایجاد اور اسے خالص آزادی اور امکان کی دنیا میں پیش کیا جانا چاہیے۔

اپنی کتاب Existentialism is Humanism میں ہم   اس کے یہ  الفاظ پڑھ سکتے ہیں: "دوستوئیفسکی نے لکھا: 'اگر خدا موجود نہ ہوتا تو سب کچھ جائز ہوتا۔

 یہ وجودیت کا نقطہ آغاز ہے۔ درحقیقت سب کچھ جائز ہے بشرطیکہ خدا موجود نہ ہو،اور اس لیے انسان چھوڑ دیا جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنے اندر یا اپنے باہر کسی چیز کو تھامے رکھنے کا امکان نہیں پاتا۔" یہ وجودیت کا نقطہ آغاز ہے۔ درحقیقت سب کچھ جائز ہے بشرطیکہ خدا موجود نہ ہو۔انسان خود میں اور باہر کوئی ایسی چیز نہیں دیکھتا جس سے تمسک کرے۔

وہ اپنی کتاب شطان اور الہہ صالح میں لکھتا ہے: "خدا انسانوں کی تنہائی ہے، اگر خدا ہے تو انسان کچھ بھی نہیں ہے۔"

اس وجودیت پسند ملحد مفکر نے اپنے آپ کو " بدمعاش، یونیورسٹی سیڈسٹ اور کام چور  ملازم   کے طور پر اپنا تعارف کرانے میں  کسی قسم کی  ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ (یہ الفاظ اس کے ساتھی سیمون ڈی بیوائر نے اپنی کتاب "Leters to Castor" میں نقل کیے ہیں۔ ”)۔

اس نے اسے 1940 یونہی  تعارف کرایا: "جب میں پاگل تھا کبھی اتنا بے چین نہیں ہوا...  میں مکمل پاگل نہیں تھاکسی حد تک ایسے افکار نے مجھ پر قبضہ کرلیا۔ (کیسٹر کو خطوط)

ان انتہا پسندانہ خیالات نے اس پورے دور کی فکر پر بہت ہی خطرناک اثرات مرتب کیے اور اس دور کے اہم ترین مفکرین  میں سارتر کا شمار بھی ہوتا ہے۔

اس نے  اپنے زعم میںکمال رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوا کہا :" ہر کیمونسٹ مخالف کتا ہے"!!!

سیمون ڈی بیوویر اور دیگر جنسی آزادی کے بڑے پرچارکوں کے ساتھ یہ بھی جنسی آزادی کی تحریک کا بڑا ستون تھا۔ اسے اپنی ایک طالبہ کو کوٹھے  پر لے جانے کی عادت تھی، سیمون ڈی بیوویر نے اپنے کئی طالب علموں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے اور اس کے  کئی سکینڈل منظر عام پر آئے۔

سارتر اور ڈی بیوویر پر مشتمل جوڑے نے نظریاتی پاگل پن کی اس تحریک میں  بھرپور حصہ لیا۔اس وقت کی نفسیاتی اور فلسفیانہ نظریات کی تحریک سے بہت سے لوگوں نے ۱۹۷۰ کی دہائی میں نکلنے کی کوشش کی۔انہوں نے لی مونڈے یا لبریشن جیسے اخبارات میں بچوں کے جنسی استحصال کو کو جرم قرار دینے کی درخواستوں پر دستخط کیے اور اس تحریک میں بڑے بڑے لوگوں نے دستخط کیے جن میں فرانکوئس ڈولٹو، آندرے گلکس مین، مشیل فوکو، لوئس آراگون، جیک لینگ، برنارڈ کوشنر، لوئس التھوسر، فلپ سولرز، اور گیبریل میٹزنیف جیسی شخصیات شامل تھیں۔

اپنی ملحدانہ سوچ اور سرگرمیوں کے باوجود  ژاں پال سارتر نے لکھا:وجودیت کا یہ  خیال انتہائی پریشان کن ہے کہ خدا کا  کوئی وجود نہیں ہے، کیونکہ اگر خدا کا وجود نہیں ہے تو  معقول آسمانی  اقدار کی تلاش کے تمام امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ اب یہاں کوئی  بھلائی نہیں ہے، کیونکہ یہ سوچنے کے لیے کوئی لامحدود اور مکمل شعور  مووجود ہی نہیں ہے۔ درحقیقت اگر خدا موجود نہ ہو، سب کچھ جائز ہے ۔جب انسان آزاد مطلق ہو جاتا ہے تو وہ خود میں اور باہر کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے رہنمائی لے سکے۔

 اس نے اپنی مشہور کتاب "الفاظ" میں اعتراف کیا: "الحاد ایک ظالمانہ اور طویل مدتی  عمل  ہے۔"

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018