11 ربيع الاول 1446 هـ   15 ستمبر 2024 عيسوى 9:01 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-08-26   78

کیا اسلام ذمہ داری اور مسؤلیت کو حقوق کی نسبت زیادہ اہمیت دیتا ہے؟

الشيخ مقداد الربيعي:

(أَقِيمُوا الصَّلَاةَ. آتُوا الزَّكَاةَ.و ارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ(اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور (اللہ کے سامنے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔(کتب عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ) تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔(وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ) اور لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس گھر کا حج کرے۔(لَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ)اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔( الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ) شراب اور جوا اور مقدس تھان اور پانسے سب ناپاک شیطانی عمل ہیں پس اس سے پرہیز کرو۔ (لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ). جس جان کے قتل کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو (كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ) سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ۔ (وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا). اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو ۔ (وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر)اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے. اور ان جیسی دیگر بہت سی آیات کہ جن میں شرعی ذمہ داریوں کے حوالے سے بات ہوئی ہے ،اسی طرح سنت مطہرہ میں بھی ہمیں یہی صورت حال نظرآتی ہے کہ جا بجا انسان کی مسؤلیت اور ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا ہے ، تو کیا اسی طرح قرآن اور احادیث میں انسان کے حقوق کی بات ہوئی ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں شریعت میں حقوق کے بیان پر اس قسم کا اہتمام نظر نہیں آتا ۔ اس کی وجہ کیا ہے

کیا اسلام ذمہ داری اور مسؤلیت کو حقوق کی نسبت زیادہ اہمیت دیتا ہے؟

سوال کا جواب یہ ہے کہ : انسانی زندگی پر غورو فکر کرنے والا ہر شخص بآسانی اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ انسانی فطرت میں ایک خصوصیت موجود ہے کہ وہ انسان کو اپنی ضرورت کی ہر چیز کوحاصل کرنے کی طرف راغب کرتی ہے، یعنی انسان نہ ٖصرف اپنے حق کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، بلکہ بعض اوقات وہ اپنے حق سے زیادہ لینے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ اسی لئے انسان کو کسی اور محرک یا کسی اور راغب کرنے والے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ اپنا حق حاصل کرے ، البتہ اسی انسانی فطرت یا طبیعت کی وجہ سے اس چیز کی ضرورت رہتی ہے کہ اسے اپنے حقوق اور حدود کی طرف متوجہ کیا جائے اور ان حدود سے تجاوز کرنے کے مضمرات سے آگاہ کیا جائے ،یہاں سے ذمہ داری اور مسئولیت کا آغاز ہو تا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے: ( تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ)  یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان کے قریب نہ جاؤ، اس طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔ (البقرة: 187.) اور فرمایا: (تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ)، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کرتے ہیں پس وہی ظالم ہیں۔ (البقرة: 229)

واضح سی بات ہے کہ انسان کو جب اپنے حق کے حدود بتایا جاتا ہے تو گویا اسے دوسروں کے حقوق کی جانب توجہ بھی دلائی جا رہی ہے ، پس ایک کے لئے حدود کا بیان در اصل دوسرے کے حقوق کا بیان بھی ہے ۔ کیونکہ ذمہ داری اور تنبیہہ صرف اسی ایک شخص کے حوالے سے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ہوتی ہے ، پس کسی کو بھی اس شخص کے حقوق کو پامال کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ اور چونکہ دین کی ذمہ داری لوگوں کی ہدایت و تربیت ہے اس لئے زیادہ تر اہمیت زمہ داریوں اور مسئولیتوں کے بیان کو دی گئی ہے۔

مثال کے طور پر امام زین العابدین علیہ السلام کے رسالہ الحقوق کو ہی لیجئے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ امام علیہ السلام اس جملے سے اپنا کلام شروع فرماتے ہیں کہ (إعلم رحمك الله، إن لله عليك حقوقاً محيطة بك، في كل حركة تحركتها أو سكنة سكنتها أو منزلة نزلت بھا بعضاً أكبر من بعض..)پس جان لوـخدا کی رحمت ہو تمہارے اوپرـبتحقیق خدا کے کچھ حقوق تمہارے اوپر ہیں کہ جو تہمارے پورے وجود کو احاطہ کئے ہوئے ہیں ،تمہاری ہر حرکت ، تمہارا ہر سکون ،تمہاری ہر منزل، ان میں بعض حقوق بعض سے بڑے ہیں. پس امام سجاد علیہ السلام کی نظر میں انسان ہر طرف سے حقوق کے گھیرے میں ہے ۔

 البتہ ہمیں امام علیہ السلام کے اسلوبِ کلام کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے، امام نے اپنے بیان حقوق میں یہ نہیں فرمایا کہ لوگوں پر تمہارے حقوق ہیں ، انہیں چاہئے کہ تمہارے حقوق کا احترام کریں، بلکہ فرمایا کہ تمہارے اوپر لوگوں کے حقوق ہیں جن کا احترام تمہارے اوپر واجب ہے۔

اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام کے کلمات میں نہایت اہمیت کے حامل نکتہ ہے کہ امام رسالہء حقوق میں حق اللہ کو تمام حقوق کی بنیاد اور اصل قرار دیتے ہیں ، کہ باقی تمام حقوق اسی سے نکلتے ہیں ۔ امام فرماتے ہیں کہ : (وهو أصل الحقوق ومنه تتفرع سائر الحقوق) اللہ کا حق ہی اصل اور بنیادی حق ہے ،اسی سے دیگر تمام حقوق متفرع ہوتے ہیں۔ امام علیہ السلام کے اس نورانی کلام کی وضاحت ضروری ہے ، اس بات پر کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا وہ یہ ہے کہ کسی بھی مال یا شئی میں تصرف کرنے کے لئے اس شئی کا تصرف کرنے کی ملکیت میں ہونا یا پھر مالک کی طرف سے اجازت ہونا ضروری ہے ،پس کسی شخص کو کسی چیز میں تصرف کا حق حاصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یا مالک ہے یا پھر وہ مالک کی طرف سے اجازت رکھتا ہے ، دوسری طرف عقلا یہ بات ثابت ہے کہ اس کائنات کا خالق اللہ تعالی کی ذات ہے لہذا کائنات کی ہر شئی اس کی مکیت ہے ، اور خدا کی ملکیت دوسروں کی ملکیت کی طرح نہیں ہے ، ہماری ملکیت قابل انتقال ہے جیسے فروخت وغیرہ کے ذریعے، کیونکہ یہ ملکیت حقیقی نہیں ہے اس لئے اس کا سلب کرنا بھی ممکن ہے ۔جبکہ اللہ کی ملکیت ثابت و مستقر ہے جو کبھی کسی طرقے سے زائل نہیں ہوتی، ارشاد باری تعالی ہے : (لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ)آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الأعراف: 54)

پس اللہ تعالی نے ہمیں سب کچھ عطا فرمایا،انہی خدا کی عطا کردہ نعمات میں سے ارادہ واختیار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں ارادہ و اختیار کے مالک بنا کر خلق فرمایا ،اب سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہم سے یہ تقاضا فرمائے کہ جو ارادہ واختیار میں نے تمہیں عطا کیا ہے اسے فلاں راستے پر اختیار کرو، فلاں راستے پر اختیار نہ کرو ،اسے جیسا میں کہتا ہوں ویسا استعمال کرو ، چونکہ اللہ نے ہمیں اس لئے اس دنیا میں بھیجا ہے کہ ہم کمال تک پہنچ سکیں اور کمال خود ذات الہی کے قربت کا حصول ہے ،پس اللہ نے ہم سے جب یہ چاہا ہے تو ہمیں ویسا ہی کرن اہے جیسا اللہ نے ہم سے چاہا ہے ،یہ ہمارے اوپر اللہ کے اس حق کا تقاضا ہے ۔

اسی طرح اللہ عزوجل نے معاشرے کی تشکیل اور نظام بھی اس قسم کا رکھنے کو پسند فرمایا ہے کہ جس میں انسان کو کمال و سعادت کی راہ پر چلتے ہوئے رب العالمین کے نزدیک ہونے کی زیادہ سے زیادہ سہولت موجود ہو ،اسی لئے فرمایا : (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ) اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں، (الذارايات: 56). معاشرے کے بارے میں اللہ عز وجل نے حکمرانوں اور معاشرے کے صاحبان اختیار سے یہ چاہا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے ایسا ماحول مہیا کرے کہ جس میں انہیں عبادت اور قرب الہی کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر ہوں ۔ پس یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے ، معاشرے میں اخلاقی برائیوں کے انتشار کا سد باب کریں اور معاشرے کی ترقی و تکامل کی راہیں کھول کر قرب الہی کی سبیل پیدا کرے ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018