28 شوال 1446 هـ   27 اپریل 2025 عيسوى 5:10 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-07-21   208

حسینی تحریک ارادہِ خدا یا انسانی منصوبہ بندی

الشيخ مقداد الربيعي

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد امت مسلمہ میں بڑے پیمانے پر سیاسی اور اجتماعی تبدیلیاں رونما ہوئی۔ بات یہاں تک جا پہنچی کہ معاویہ بن ابی سفیاں نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین بنا دیا۔ یزید اہل اسلام کے درمیان فاسق و فاجر معروف تھا، پھر کربلا کا انقلاب واقع ہوا جس نے تاریخ کا رخ تبدیل کر دیا۔

سید مرتضی علم الھدی اور ابوجعفر شیخ طوسی رحمھمااللہ کے زمانے سے امام حسین علیہ السلام کے خروج کے اسباب پر بحث جاری ہے کہ وہ اسباب کیا تھے ؟ انہیں تلاش کیا جائے۔اس معاملہ میں معتبر روایات سے رہنمائی لی جائے۔ پچھلی صدی کے نصف میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جب یہ سوال پیدا ہوا کہ بدعنوان اور کرپٹ حکومتوں کے خلاف قیام کب درست ہوتا ہے؟ تو فقہاء اور محققین نے امام حسین علیہ السلام کے خرورج کے مقاصد کو دیکھنا شروع کیا۔اس حوالے سے چند نظریات سامنے آئے ہیں ہم یہاں سب کو بیان نہیں کر سکتے مگر دو بڑے اسباب کا ذکرکریں گے:

پہلا سبب یہ ہے کہ یہ انسانی منصوبہ بندی تھی،امام حسینؑ نے خود اس کی منصوبہ بندی مادی حساب سے کی تھی کہ یزید کی حکومت کو ختم کر دیا جائے۔اور خود حاکم بن جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کرنا امام کا حق ہے۔

دوسرا سبب یہ ہے کہ اس کی منصوبہ بندی اللہ تعالی نے کی تھی۔امام حسینؑ اللہ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے نکلے تھے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے آپ کو ملا تھا۔ آپ اس حکم کی بجا آوری کے لیے نکلے تھے اور شہید ہو گئے۔

ہر نظریہ کے کئی قائلین ہیں شیخ حیدر حب اللہ نے پہلی رائے کو اختیار کیا ہے۔یہ فطری بات ہے اور اس نظریہ کو کئی قدیم اور عصر حاضر کے علماء نے بھی اختیار کیا ہے۔ دیکھا جائے تو شیخ حیدر حب اللہ نے جلد بازی سے کام لیا اور ان کی بات میں تحقیق کی کمی نظر آتی ہے یہ بات اہل علم کے طریقہ کار کے خلاف ہے۔ جب انہوں نے دوسرے نظریے کے قائلین کی بات کی ہے جو اسباب کی بجائے امر الہی کے تحت اس کے انجام پانے کے قائل ہیں  تو انہوں نے فقط ضعیف احادیث کا ذکر کر دیا ہے۔انہوں نے ان روایات کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا جو دوسرے نظریے کے قائلین کی اصل دلیل ہیں کہ وہ کون سی روایات ہیں؟ یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ طاہریں (ع) سے مستفیضہ روایات موجود ہیں جو دوسرے نظریہ پر دلالت کرتی ہیں۔ان میں سے چند روایات یہ ہیں:

ضریس کناسی کی صحیح روایت ہے وہ امام محمد باقر ؑ سے روایت کرتے ہیں جب ان سے حمران نے پوچھا:میری جان آپ پر قربان ہو،حضرت علیؑ،حسنؑ اور حسینؑ  نے قیام کیا اور ظالموں کے خلاف اللہ کے دین کے لیے قیام کیا، ظالموں نے انہیں شہید کردیا اور ان پر غلبہ پایا؟حضرت ابوجعفرؑ نے فرمایا:اے حمران اللہ تعالی نے یہ تقدیر فرما دیا تھا،اس کا فیصلہ کر دیا تھا اور یہ حتمی ہونا تھا پھر اس کو جاری کر دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے پہلے ہی وہ اسے جانتے تھے اس کے باجود حضرت علیؑ،حضرت حسنؑ اور حضرت حسین ؑ نے قیام کیا۔ ہم میں سے جو خاموش ہیں وہ جانتے ہوئے خاموش ہیں۔(الكافي، ج1، ص262)

اسی طرح امام جعفر صادق ؑ سے عمری نے روایت کی ہے،آپ ؑ فرماتے ہیں:اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان کی وفات سے پہلے ایک مکتوب نازل کیا۔اللہ نے فرمایا:اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں تمہاری اہلبیتؑ میں سے نجباء کو وصیت ہے۔ پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے حضرت علیؑ کے حوالے کیا، انہوں نے اس سربمہر خط کو کھولا اور اس کے مطابق عمل کیا،پھر یہ خط امام حسن ؑ کے حوالے کیا انہوں نے اس سربمہر خط کو کھولا اور اس کے مطابق عمل کیا۔ پھر اسے امام حسینؑ کے حوالے کر دیا انہوں نے اسے کھولا اور اس میں یہ حکم پایا:میں ایک گروہ کے ساتھ شہادت کے لیے نکلوں گا،ان کے لیے میرے ساتھ ہی شہادت ہے۔اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دوں۔ پھر یہ مکتوب حضرت علی بن حسین ؑ کے حوالے کر دیا۔(الكافي، ج1، ص280)

وہ احادیث جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے بیٹے کی شہادت سے متعلق ہیں اگر ہم انہیں متواتر نہ بھی کہیں کم از کم مستفیضہ درجہ کی ہیں اور یہ بات اہل اسلام جانتے ہیں۔روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو خطبہ دیا اور اس خطبہ میں انہیں امام حسین ؑ کی شہادت کی خبر دی،اس پر لوگ بہت زیادہ رونے لگے،اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:تم روتے ہو مگر تم اس کی مدد نہیں کرو گے؟ (مقتل الحسين للخوارزمي، ج1، ص163، والفتوح لابن أعثم، ج4، ص328، بحار الأنوار، ج44، ص248 )

ابن عباس رض سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک خطبے کا ذکر کیا ہے ،خطبہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے اتر آئے ،اس وقت مہاجرین اور انصار میں سے ہر ایک نے جان لیا کہ امام حسینؑ شہید ہوں گے۔ (مقتل الحسين للخوارزمي، ج1، ص164، والفتوح لابن أعثم، ج4، ص328)

اسی طرح ابن عباس سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:ہمیں اور اہلبیت میں سے کسی کو کوئی شک نہیں تھا کہ حسین بن علیؑ طف میں شہید ہوں گے۔(المستدرك على الصحيحين، ج3، ص179)

شیخ مفید رح نے فرمایا:عبداللہ بن شریک سے روایت ہے ، جب عمر بن سعد مسجد کے دروازے سے داخل ہوتا تو میں حضرت علیؑ کے اصحاب سے سنتا تھا وہ کہتے تھے:یہ حسین بن علی ؑ کا قاتل ہے،یہ ان کے قتل سے ایک مدت پہلے کی بات ہے۔(الإرشاد، ج2، ص131 )

اہل سنت کے ایک گروہ نے روایت کی ہے عمر بن سعد نے امام حسینؑ سے کہا:بے وقوفوں کا ایک گروہ یہ سمجھتا ہے کہ میں آپ کو قتل کروں گا۔ امام حسینؑ نے فرمایا:وہ بے وقوف نہیں بلکہ اہل حلم ہیں،پھر فرمایا:خدا کی قسم میرے لیے یہ واضح ہے کہ تم میرے بعد زیادہ دیر عراق کی گندم نہیں کھا سکو گے۔ (تاريخ دمشق، ج45، ص48، في ترجمة عمر بن سعد، تهذيب الكمال، ص359، تهذيب التهذيب، ج7، ص369، تاريخ الإسلام للذهبي، ج5، ص195) جو اس موضوع کو زیادہ تفصیل سے پڑھنا چاہتا ہے وہ وہ مرجع مرحوم سید محمد سعید الحکیم کی کتاب فاجعہ طف کا مطالعہ کرے۔

سنی شیعہ دونوں مصادر میں ایسی تاریخی دلیلیں موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپؑ جان بچا سکتے تھے مگر آپؑ نے شہادت کے راستے کو چنا۔اس پر بہت سے شواہد ہیں صرف طرماح بن عدی الطائی کی ملاقات اور ہونے والی گفتگو ہی کافی رہے گی۔ طرماح بِن عدی نے بارگاہِ امام عالی مقام میں عرض کِیا حضور! حالات بہت نازک صورتِ حال اختیار کر گئے ہیں۔میں چاروں طرف نظر دوڑاتا ہوں مگر مجھے آپ کے ساتھ چند آدمیوں کے سِوا کوئی لشکر دکھائی نہیں دیتا۔اگر حر کے ساتھی جو آپ کے پیچھے لگے ہوئے ہیں آپ پر ٹوٹ پڑیں تو یہی کافی ہیں۔میں نے کوفہ سے روانگی سے پیشتر وہاں لوگوں کا اتنا جم غفیر دیکھا ہے کہ آج تک کسی ایک میدان میں نہیں دیکھا تھا۔ میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ لشکر کہاں جانے کے لیے جمع ہو رہا ہے؟ تو اس نے کہا کہ امام حسینؑ کے مقابلے کے لیے،اس لیے میں آپ کو اللّہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ اگر ہو سکے تو ایک قدم بھی اس طرف آگے نہ بڑھائیے۔اگر آپ کسی ایسے مقام پر جانا چاہتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ آپ کو حفاظت سے رکھے اور جو کچھ آپ کرنا چاہتے ہیں اس کے متعلق بھی کوئی رائے اور آخری فیصلہ کرلیں تو آپ میرے ساتھ چلیے میں آپ کو اپنے بلند پہاڑ پر جسے کوہ آجاہ کہتے ہیں لے چلوں۔ خدا کی قسم وہ پہاڑ ایسا ہے جس کی وجہ سے ہم سلاطین عنان و حمیرا نعمان بِن منذر اور ہر اسود و احمر اقوام سے محفوظ رہے ہیں۔واللّہ ہم کو کبھی کوئی مطیع نہیں کر سکتا،میں آپ کے ساتھ چل کر آپ کو وہاں پہنچا دوں گا۔اور پھر کوہ آجاہ و سلمی کے باشندوں میں آپ کی دعوت پہنچا دوں گا۔خدا کی قسم دس دن بھی نہ گزرنے پائیں گے آپ کے پاس قبیلہ طے کے سواروں اور پیادوں کا بیس ہزار کا لشکر آپ کے پاس جمع ہو جائے گا۔امام حسینؑ نے اسے اور اس کی قوم کی جزائے خیر کی دعا دی اور فرمایا:ہمارے اور اس گروہ کے درمیان یہ بات طے ہے کہ ہم ساتھ ساتھ رہیں گے۔چیزیں طے شدہ ہیں (تاريخ الطبري، ج4، ص50، البداية والنهاية، ج8، ص188، أنساب الأشراف ج3، ص383)

 جیسا کہ شیخ حبل اللہ کے الفاظ میں مذکور ہےکہ :جو نصوص مذکور ہیں تمام کی تمام یا ان کی اکثریت اس بات پر دلالت کرتی ہے اللہ کا ارادہ شہادت امام حسینؑ سے تعلق رکھتا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ  شہادت امام حسینؑ سے مخصوص ہو گئی بلکہ اس کا مدلول اعم ہے جو ہے اس اختصاص اور عدم اختصاص دونوں کو شامل ہے۔(دراسات في الفقه الإسلامي المعاصر، ج3، ص319 )

اس نظریہ میں احادیث کو سمجھنے میں غفلت کی گئی ہے۔احادیث صریح ہیں اور ان میں کسی قسم کا شک نہیں کیا جا سکتا کہ آپؑ کو خروج کا پہلے سے علم تھا یعنی شرعی ذمہ داری جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملی تھی۔یہ احادیث ایسی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام ؑ اپنی شہادت کا علم رکھتے تھے،بلکہ یہ بات صریح ادنداز میں  خروج کی وجہ سے معلوم تھی۔

شیخ حب اللہ نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے جن میں امام ؑ نے اپنے بعض مقاصد اور غایت کا ذکر کیا ہے ان سے سید حکیم (رح) نے اپنی کتاب فاجعہ طف ص ۵۰ پر جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:امام حسینؑ نے بہت سے صاحبان رائے اور معرفت سے ملاقاتیں کیں یہ سب ایسے لوگ تھے جو طاقت کے توازن پر یقین رکھتے تھے اور اسی کی منطق پر اعتماد کرتے تھے۔سب سے بڑی بات جو آپ ؑ نے مکے سے جانے کے متعلق کی وہ مکہ کی حرمت اور اس کی عزت تھی آپ کی جو گفتگو ایک گروہ سے ہوئی عبداللہ بن زبیر بھی ان میں شامل تھا آپ نے فرمایا: " خدا کی قسم مکہ سے ایک بالشت باہر قتل ہونا میرے لیے بہتر ہے بجائے اس کے کہ حرم خدا میں قتل کر دیا جاؤں خدا کی قسم ! اگر میں غاروں میں پناہ لے لوں پھر بھی یہ مجھے کھینچ نکالیں گے اور اپنے مقصد سے باز نہیں آئیں گے یہاں تک کہ میں ان کی ضرورت پوری نہ کر دوں۔خدا کی قسم  مجھ پر ویسے ہی تجاوز کریں گے جیسے یہود نے ہفتے والے دن پر کیا تھا۔

اسی طرح آپؑ نے بہت سے مقامات پر اپنے خروج کے ارادے کو ظاہر کیا اور مشورے دینے والوں کے مشوروں کو قابل اعتنا نہیں جانا۔بعض اوقات مشورہ دینے والوں کے جواب میں کہا کہ میں معاملے کو دیکھوں گا،یہ بھی کہا کہ اللہ سے اس معاملے میں طلب خیر کرتا ہوں،کبھی ان کی نصیحت پر شکریہ ادا کیا اور ان کی آٓراء پر کوئی بحث نہیں کی۔آپؑ کسی بھی صورت میں اپنے ارادہ سے پیچھے نہیں ہٹے۔جیسا کہ اوپر ابن عباس کے معاملے اور ان کے علاوہ دیگر کے ساتھ  آپ  ویسے ہی کیا۔

دوسرا:آپؑ نے ان کی رائے کے بہتر ہونے کا اعتراف کیا مگر اس کا جواب دیا جیسے بنی عکرمہ سے کہا جو کچھ توں نے کہا ہے یہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن اللہ تعالی کبھی کسی معاملے میں مغلوب نہیں ہوتا۔(تاريخ الطبري، ج4، ص301 )

تیسرا:آپ نے کچھ لوگوں کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے اور انہوں نے جانے کا حکم دیا ہے۔ابن اثیر کہتا ہے:ایک گروہ نے آپؑ کو منع کیا ان میں آپ کا بھائی محمد بن حنفیہ،ابن عمر،ابن عباس اور کچھ دیگر لوگ موجود تھے ۔آپ نے ان سے کہا:میں نے خواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر عمل کرو ں گا۔(أُسد الغابة، ج2، ص21 )

جب آپؑ سے خواب کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا:میں نے اس بارے میں کسی کو نہیں بتایا اور نہ ہی میں کسی کو بتاوں گا یہاں تک میں اپنے رب سے ملاقات کر لوں۔اسی طرح کی آپؑ کی گفتگو عبداللہ بن جعفر،یحیی بن سعید بن عاص کے ساتھ مکے سے نکلنے کے بعد بھی مروی ہے جب یہ لوگ آپؑ کو راستے میں جا کر ملے تھے۔ (الكامل في التاريخ، ج4، ص41 )

انبیاء کرام اور ائمہ طاہرین علیھم السلام کو ایسے احکام اللہ طرف سے ملتے رہتے ہیں ان مقاصد کوعام لوگ اس وقت تک نہیں جان سکتے جب تک انہیں بتا نہ دیا جائے ایسا قرآن مجید میں بھی بہت سے مقامات پر ہوا ہے۔ حضرت موسیؑ اور حضرت خضرؑ کا قصہ،اسی طرح حضرت ابراہیمؑ کا حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح کرنا اور حضرت نوحؑ کا ایسی سرزمین پر کشتی بنانا جہاں پانی ہی نہیں تھا۔

سید الشہداءؑ کے معاملے میں آپؑ نے اس کی دعا نہیں کی بلکہ یہ تو اللہ تعالی کے حکم کو تسلیم کرنا اور اس کو ادا کرنا ہے اور اسی کے ذریعے  اللہ کی اعلی ترین فرمانبرداری کی جاتی ہے۔

اختتام

کربلا کا واقعہ تحقیق کے لیے کھلا ہے اس کے راز  قابل تحقیق ہیں۔اس موضوع پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ امام علیہ السلام کی عصمت کے مرتبے کو سمجھتے ہوں اسی طرح وہ امام علیہ السلام کو اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ علم غیب پر ایمان رکھتے ہوں اگر ایسا نہ ہوتو غلطی میں پڑ جائیں گے۔اس حوالے سے میں ایک نصیحت سب کو کرنا چاہوں گا جو مجھے علما نے کی تھی کہ اجتہاد اور فقاہت بلکہ مطلق علم  کا راز شواہد کی مکمل تحقیق اور جلدی نہ کرنے میں ہے۔امیر المومنینؑ نے فرمایا:علم اسی وقت فائدہ دے گا جب اس کے ساتھ حلم بھی ہوگا۔(غرر الحكم: 7411)

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018