

مذاہب کی تاریخ... عیسائیت پہلی صدی عیسوی میں
شیخ مقداد الربیعی:
قارئین کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ مسیحیت کی کہانی کو مختصر اور واضح طور پر بیان کرنا آسان نہیں ہے، خصوصاً اس کی ابتدا کے بارے میں۔ مسیحیت کی بابت پہلی صدی کے بارے میں جتنا مواد اور کتابیں لکھی گئی ہیں، وہ باقی صدیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ ہم قارئین سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم حقیقت حال کو کچھ ایسے انداز میں بیان کریں گے جو قرآن مجید کے بیانات سے متصادم نہ ہو، کیونکہ قرآن مجید ایک محفوظ اور قابل اعتماد ذریعہ ہے۔ جبکہ تفصیلات کے لیے ہم مسیحیت کے اہم ترین ذرائع، خاص طور پر موجودہ اناجیل اور "رسائل الرسل" پر انحصار کریں گے، جو عہد جدید کا حصہ ہیں۔ اگرچہ یہ تحریف سے محفوظ نہیں رہیں، لیکن پھر بھی یہ تاریخی لحاظ سے طاقتور ذرائع ہیں، کیونکہ ان پر تاریخ کی کسی اور کتاب کی نسبت مقتدر اذہاں نے تحقیق کی ہے۔ دراصل تاریخی تنقید پچھلے سو سالوں میں اس پر مرکوز رہی ہے اور انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مسیحیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل تعلیمات سے مختلف ہو گئی ہے، اگرچہ تحریف کی مقدار پر اختلافات موجود ہیں۔ ان کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی تعلیمات خود نہیں لکھی تھیں بلکہ اپنے شاگردوں پر انحصار کیا تھا جو ان کے رفع آسمانی (ان کے ادب کے مطابق موت کے بعد) کے بعد انہیں قلمبند کرتے تھے، جس میں ان کے اس وقت کے تاریخی حالات بھی شامل تھے۔ ہمیں ان تحریروں میں، جنہیں علمی تنقید کے ادب میں "وثائق" کہا جاتا ہے، ابتدائی مسیحیوں کے تعصبات کی جھلک بھی ملتی ہے جبکہ کئی اقوال حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے غلط طور پر منسوب بھی کیے گئے ہیں۔
یہ بات "متی" اور "لوقا" کی اناجیل میں واضح ہے، جنہوں نے بہت زیادہ زبانی مواد استعمال کیا۔ انہوں نے "مرقس" کی انجیل سے بھی بہت فائدہ اٹھایا، جو کہ سب سے قدیم انجیل ہے اور 66-70 عیسوی کے درمیان لکھی گئی، یعنی حضرت عیسیٰ کی وفات کے 35 سال بعد۔ جبکہ "یوحنا" کی انجیل پہلی صدی کے آخر تک نہیں لکھی گئی، جس میں پولس کی طرف سے دی گئی خطرناک اور بڑی الہیات شامل تھیں، جو آج کی مسیحیت کی تشکیل کا سبب بنی ہیں۔
حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے وقت فلسطین کی حالت
حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے جو کچھ عرصہ قبل ہی رومیوں کے زیر قبضہ آیا تھا۔ اس سے قبل یہودی بادشاہ "ہیرودوس اعظم" نے اس ملک کو اپنے تین بیٹوں کے درمیان تقسیم کر دیا تھا، جو کہ حضرت مسیح کی پیدائش سے چار سال قبل مر چکا تھا۔ رومیوں کے قبضے کے بعد، یہ ملک تین صوبوں میں تقسیم ہو گیا اور اس کے بیٹے جلدی روم گئے تاکہ اپنی وراثت کی تصدیق کر سکیں۔
جہاں تک گلیل کا تعلق ہے، جہاں حضرت عیسیٰ نے اپنی دعوت کا آغاز کیا، وہاں مختلف مذہبی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں، حالانکہ وہاں یہودی اکثریت میں نہیں تھے۔ ان تحریکوں میں "احامس" (جوشیلے) سب سے زیادہ خطرناک تھے کیونکہ وہ تشدد پر یقین رکھتے تھے۔ "یہوداہ الجلیلی" نے "صدوق" نامی ایک فریسی پیروکار کی مدد سے ایک فوج تشکیل دی اور رومیوں کے خلاف بغاوت کی۔ "سفوریہ" شہر پر حملے کے بعد، رومیوں نے دو دستے بھیجے اور بغاوت کو ختم کر دیا۔
جبکہ دیگر یہودی مذہبی تحریکیں یا تو مسیحا کے انتظار کی وجہ سے اور یا پھر کسی حکمت عملی کے سبب عموماً امن پسند رہیں۔ان میں پہلا گروہ "فریسیوں" کا تھا، جنہیں "حاخامات" کی رہنمائی حاصل تھی، جبکہ دوسرا گروہ "اسینیوں" کا تھا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صحیح تاریخ پیدائش کو قطعی درستگی کے ساتھ نہیں بتایا جا سکتا۔کیونکہ انجیل "متی" (2:1) میں آیا ہے کہ وہ "ہیرودوس اعظم" کے دور میں پیدا ہوئے تھے، جبکہ تاریخی اعتبار سے ہیرودوس 4 قبل مسیح میں وفات پا چکا تھا۔ اسی طرح انجیل "لوقا" (3: 1-2 اور 23) میں ذکر ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے قیصر "طیبریوس" کے پندرھویں سال میں تبلیغ شروع کی، جو کہ چھبیسویں یا ستائیسویں صدی عیسوی کے درمیانی عرصہ تھا، اور اس وقت حضرت عیسیٰ کی عمر تقریباً تیس سال تھی کہ جب انہوں نے اپنی نبوی دعوت کا آغاز کیا۔ اس اعتبار سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش 4 یا 6 سال قبل مسیح کے درمیان ہوئی ہوگی۔
دوسری طرف، انجیل "لوقا" میں ایک اور جگہ (2: 1-4) آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی پیدائش اس وقت ہوئی جب قیصر "اگستس" نے مردم شماری کا حکم دیا تھا اور "کیریئنوس" شام کا حاکم تھا، جوچھے سے نویں صدی عیسوی کا دورمیانی عرصہ ہے۔
جہاں تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے مقام کا تعلق ہے، تو عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش "بیت لحم" میں ہوئی تھی، جو کہ انجیل "متی" اور "لوقا" میں بھی مذکور ہے۔ مگر بہت سے لوگوں نے اس بات پر شک ظاہر کیا ہے، کیونکہ یہ ممکن ہے کہ لکھنے والوں نے ابتدائی کلیسا کی خواہش کی بنا پر یہ بات کہی ہو تاکہ حضرت عیسیٰ کو داؤد علیہ السلام کی نسل سے ثابت کیا جا سکے۔ یہ بات اس وقت کے مسیحیوں اور یہودیوں کے درمیان ایک اہم اختلافی نقطہ تھا کیونکہ یہودیوں کے نزدیک مسیحا داؤد علیہ السلام کی نسل سے ہونا چاہیے تھا، اور بیت لحم حضرت داؤدعلیہ السلام کی رہائش گاہ تھی، اس لیے یہ بات ثابت کرنا آسان تھا۔
جہاں تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بچپن کا تعلق ہے، تو مسیحی ذرائع کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال "ناصرت" میں گزارے۔حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی کہانی قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کی ہے، لیکن یہاں ہمارا مقصد مسیحیت کی تاریخ بیان کرنا ہے، نہ کہ حضرت عیسیٰ کی زندگی کی تفصیلات۔
اناجیل میں ان کی تبلیغ اور دعوت کے آغاز کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، جہاں مذکور ہے کہ انہوں نے ابتدا میں کنیسوں میں تبلیغ شروع کی۔ جب لوگوں کی تعداد کنیسوں کی گنجائش سے بڑھ گئی تو انہوں نے بازاروں کی کھلی جگہوں میں وعظ کرنا شروع کیا۔
انجیل مرقس کے پہلے باب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پہلے سبت کے دن(یوم السبت) کا تفصیلی ذکر ہے، جو کفر ناحوم میں ہوا تھا کہ ایک پراثر خطبے کے بعد، جو سامعین کو حیران کر گیا تھا، ایک شیطان صفت شخص نے انہیں ٹوک کر کہا: "ہمیں تجھ سے کیا لینا ہے، اے یسوع ناصری؟ کیا تُو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟ میں تجھے جانتا ہوں کہ تُو کون ہے: تُو خدا کا مقدس ہے!تب " یسوع نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا: کہ "خاموش ہو جا اور یہاں سے باہر نکل جا!" اور ناپاک روح نے اسے جھٹک کر ایک بلند آواز کے ساتھ چھوڑ دیا۔ اس پر سامعین نے حیرانی سے کہا: "یہ کیا ہے؟ یہ نئی تعلیم ہے! کہ یہ بدروحوں کو بھی حکم دیتا ہے تو وہ اس کی مانتی ہیں۔" اور اس واقعہ کا چرچا فوراً ہر جگہ پھیل گیا۔
اس خطاب کے بعد حضرت عیسیٰ اپنے شاگرد سمعان پطرس کے گھر گئے، جہاں سمعان کی ساس بخار میں مبتلا اور بستر علالت پر تھی۔تب یسوع نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اٹھایا، "تو بخار فوراً اتر گیا اور وہ ان کی خدمت کرنے لگی۔"
" غروب آفتاب کے بعد، لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس بیماروں اور شیطان کے زیر اثر افراد کو لانا شروع کیا، یہاں تک کہ پورا شہر ان کے دروازے پر جمع ہو گیا۔اس وقت یسوع نے بہت سے بیماروں کو شفا دی اور بدروحوں کو نکالا۔" صبح سویرے، طلوع آفتاب سے پہلے، یسوع گھر چھوڑ کر ایک ویران جگہ پر گئے تاکہ دعا کر سکیں۔ سمعان اور دیگر شاگردوں نے انہیں تلاش کیا اور جب ملے تو کہا: "سب لوگ آپ کو تلاش کر رہے ہیں۔" یسوع نے جواب دیا: "آؤ، ہم کہیں اور چلیں، نزدیک کی بستیوں میں بھی، تاکہ میں وہاں بھی تبلیغ کر سکوں، کیونکہ میں اسی لیے آیا ہوں"
حضرت عیسیٰ کا تجربہ دیگر شہروں میں بھی ویسا ہی رہا جیسا کہ کفر ناحوم میں۔ کچھ دنوں تک وہ شہروں میں اعلانیہ داخل نہ ہو سکتے تھے بلکہ ویران جگہوں پر رہتے، اور لوگ ہر طرف سے ان کے پاس آتے۔ ان کی مقبولیت بے پناہ تھی اور لوگ ان کے پاس دوڑے چلے آتے تھے۔
اس کے بعد جب وہ دوبارہ کفر ناحوم لوٹے، تو ایک بڑا ہجوم جمع ہو گیا یہاں تک کہ دروازے کے ارد گرد کوئی جگہ باقی نہ رہی۔" ایک اور موقع پر، جب وہ جھیل کے کنارے پر تھے، تو اتنے زیادہ لوگ جمع ہو گئے کہ یسوع کو کشتی میں بیٹھنا پڑا۔
یہودیوں کی مخالفت:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے دلوں میں جو تحریک پیدا کی تھی ، اس کی وجہ سے فریسی (شریعت کے نگہبان) اور صدوقی (معبد کے نگہبان) ان کے خلاف فوری طور پر حرکت میں آ گئے۔ انہوں نے ان کے پیچھے لوگوں کو بھیجا تاکہ ان کی خبریں حاصل کر سکیں، اور پھر مذہبی دلائل کے ساتھ ان کی مخالفت کی، جیسا کہ ہفتہ کے دن بیماروں کوشفا دینا، جو ان کی شریعت میں ممنوع تھا۔ یعنی ان کی شریعت میں طبیبوں کےلئے ہفتے کے دن کام کرنا ممنوع تھا۔ سب سے زیادہ ان کی ناراضگی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے ان بیانات سے ہوتی تھی جو ان کی سابقہ شریعت سے مختلف تھے۔ اسی بنا پر انہوں نے یہ افواہیں پھیلائیں کہ حضرت عیسیٰ پر ایک ناپاک روح قابض ہے جو انہیں گمراہ کر رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی سازشیں کامیاب ہوئیں کیونکہ بہت سے لوگ شک اور مایوسی کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔
اس ماحول میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شمال مغرب کی طرف صیدا اور صور کے علاقے اور پھر جنوبی شام کی طرف گئے۔ ان حالات کے پیش نظر تبلیغ کے دوران حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگردوں کو اپنی موت کے بارے میں آگاہ کیا ، اور عید الفصح کے ایام میں یروشلم جانے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت یروشلم میں یہودی دور دور سے آئے ہوئے تھے، اور رومی گورنر "پیلطس" صورت حال کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے قیصریہ کے ساحلی علاقے میں آیا ہوا تھا تاکہ کوئی بغاوت نہ ہو۔ اسی طرح "ہیرودس انتیپاس" بھی تہواروں میں شرکت کر سکے اور یہودی رسوم کا مظاہرہ کر نےکےلئے گلیل سے آیا تھا ۔ الغرض شہر زائرین سے بھرا ہوا تھا اور مسافروں کے لیے کہیں جگہ باقی نہ رہی تھی۔ گلیل کے لوگ شہر اور زیتون کے پہاڑ کے درمیان خیموں میں رہائش پذیر تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جانتے تھے۔ جب وہ زیتون کے پہاڑ سے نیچے اترے تو لوگوں نے خوشی خوشی زیتون کی شاخوں کے ساتھ ان کا استقبال کیا، یہاں تک کہ یروشلم کے لوگ بھی انہیں پہچان گئے اور کہنے لگے: "یہ یسوع، ناصرت کا نبی ہے، جو گلیل سے آیا ہے"
اناجیل میں ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے معبد کے صحن سے صرافوں اور تاجروں کو نکال دیا اور کئی دن تک وہاں لوگوں کو وعظ و نصیحت کیا۔ ان دنوں یہودی مختلف مسائل پر ان سے الجھنے اور ان کی مخالفت کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ایک موقع پر جب انہوں نے قیصر کو خراج دینے کے خلاف بات کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے پوچھا: "کیا قیصر کو خراج دینا درست ہے یا نہیں؟" حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا: "قیصر کا حق قیصر کو اور خدا کا حق خدا کو دو۔ اس جواب نے یہودیوں کو ان سے دور کر دیا۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بستان "جتسمانی" میں تھے، تو "یہوداہ" نے ان کے ساتھ غداری کی اور رومی فوجی اور یہودی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا، کیونکہ وہ انہیں امن و امان کے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔
حضرت عیسیٰ کو یہودیوں کی عدالت "سنیڈرین" میں پیش کیا گیا، جہاں انہیں بغاوت اور روم سے دشمنی کے الزام میں مجرم قرار دیا گیا اور رومی گورنر "پیلطس" کے حوالے کر دیا گیا۔ پیلطس نے انہیں گلیل کے حکمران "ہیرودس انتیپاس" کے پاس بھیج دیا، مگر اس نے انہیں واپس بھیج دیا۔ پیلطس نے لوگوں کے سامنے انہیں آزاد کرنے کی پیشکش کی، مگر یہودی ہجوم نے ایک اور قیدی "برابا" کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا۔
چنانچہ اناجیل کے مطابق حضرت عیسیٰ مصلوب کیا گیا، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوا بلکہ انہیں ویسا دکھائی دیا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
"وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا (157) بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا" (النساء: 157-158).
اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح بن مریم کو قتل کیا ہے، جبکہ فی الحقیقت انہوں نے نہ انہیں قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا بلکہ( دوسرے کو) ان کے لیے شبیہ بنا دیا گیا تھا اور جن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا وہ اس میں شک میں مبتلا ہیں،ظن کی پیروی کے علاوہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں اور انہوں نے یقینا مسیح کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا اور بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔
عہد رسالت
اناجیل کے مطابق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری کے وقت، جب انہیں بستان "جتسمانی" میں پکڑا گیا، تو ان کے حواریوں نے بھاگنے میں عافیت جانی اور منتشر ہو گئے۔ ان میں سے کوئی بھی صلیب کے مقام تک پہنچنے کی ہمت نہیں کہ سوائے یوحنا کے، اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر مقدمہ چل رہا تھا اس وقت پطرس ان کے قریب میں تھا ، لیکن جب ایک نوکرانی نے انہیں پہچان لی، تو انہوں نے انکار کر دیا۔
اناجیل میں یہ بیاں کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قیامت، یعنی موت کے بعد کی زندگی میں واپسی، کی بشارت ان کے شاگردوں نے دی۔
انہوں نے بہت سے لوگوں کو اپنا ہم نوا بنایا، یہاں تک کہ یہودیوں نے پطرس اور یوحنا کو "سنهدرین" میں بلا کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بات کرنے سے روکنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے تبلیغ جاری رکھی۔ اس کے نتیجے میں انہیں اور ان کے ساتھیوں کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، لیکن ایک "سنهدرین" کے رکن کی تجویز پر انہیں رہا کر دیا گیا، جس نے کہا کہ مسیح موعود کے لیے پُرجوش تحریکیں اپنے بانی کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہیں، اس لیے انہیں اپنے حال پر چھوڑ دینا بہتر ہے۔ لہذا، حکام نے انہیں صرف کوڑے مارنے پر اکتفا کیا۔
یہودیوں نے ان کو چھوڑنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ یہودیوں کو یہ امید تھی کہ حضرت عیسیٰ کے پیروکار منتشر ہو جائیں گے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ کے پیروکار بنی اسرائیل کی شریعت پر عمل پیرا رہتے تھے، اور انہیں ایک یہودی فرقے کے طور پر دیکھا جاتا تھا، نہ کہ کسی نئی شریعت یا مذہب کے پیروکار کے طور پر ۔ یہ دونوں وجوہات مسیحی دعوت کے اس ابتدائی دور میں اس کے تحفظ کا سبب بنیں، باوجود اس کے کہ ان کے کچھ مخصوص عقائد بھی تھے، جیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسیح موعود ماننا اور یہ ایمان رکھنا کہ وہ دوبارہ بادلوں پر واپس آئیں گے۔ ان کے اجتماعات خاص گھروں میں ہوتے تھے، جیسا کہ یوحنا مرقس کی والدہ کا گھر یروشلم میں۔
البتہ حضرت عیسیٰ کے تمام پیروکار ایسے نہ تھے۔اور ان میں سے بعض نے ان کی شریعت میں دی گئی آسانیوں کو اپنانا شروع کر دیا تھا، جیسا کہ قرآن میں بھی آیا ہے). وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلِأُحِلَّ لَكُم بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ( (آل عمران: 50)۔
اور اپنے سے پیشتر آنے والی توریت کی تصدیق کرتا ہوں اور جو چیزیں تم پر حرام کر دی گئی تھیں ان میں سے بعض کو تمہارے لیے حلال کرنے آیا ہوں۔
یہاں سے مسیحیوں میں ایک نیا رجحان پیدا ہوا، جو تورات کے احکام میں نرمی برتنے کے طور پر جانا جاتا تھا، جس کی وجہ سے یہودیوں کی طرف سے ان پر مزید مظالم شروع ہو گئے۔پس اسی وقت سے فلسطین میں مسیحی تحریک میں دو دھڑے وجود میں آ گئے، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام پر تو متحد رہے، تاہم مسیحیت کی وضاحت میں مختلف نقطہ نظر رکھتے تھے۔ اناجیل کے مطابق، زیادہ تر حواری تورات کی شریعت پر سختی سے عمل کرنے والے دھڑے کی حمایت کرتے تھے، جن میں "یعقوب" پیش پیش تھے، جو یروشلم کے کلیسیا کے سربراہ بن گئے۔ ان کا ماننا تھا کہ حضرت عیسیٰ کی پیروی کافی نہیں ہے بلکہ موسیٰ کی شریعت پر بھی عمل ضروری ہے، جیسے ختنہ اور طہارت کی پابندیاں وغیرہ۔
تاہم حالات نرمی برتنے والوں کی طرف جھکنے لگے، یہاں تک کہ سختی سے عمل کرنے والے ایک محدود گروہ کی سی شکل اختیار کر گئے جنہیں "ایبیونی" یا "نصارى" یا "متهودين" کہا گیا۔
چنانچہ، نرمی برتنے والوں کو بالآخر غلبہ حاصل ہوا، اور انہوں نے مسیحیت کو اس طرح سے دوبارہ تشکیل دیا کہ وہ غیر یہودی اقوام میں تیزی سے پھیل گئی۔ اس دھڑے کا قائد طرسوس کا ایک شخص "شاؤل" (پولس) تھا۔
پولس اور یورپ میں مسیحیت کا پھیلاؤ
پولس کو اکثر "مسیحیت کا دوسرا بانی" کہا جاتا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اس کی بدولت مسیحیت کے قدامت پسند دھڑے، جو "متهودين" کہلاتے تھے، اپنی اہمیت کھو بیٹھے۔ پولس کی اہمیت اس میں پوشیدہ ہے کہ اس نے ایک ایسی فکری بنیاد قائم کی جو مسیحیت کو یورپ کے بت پرست معاشرے میں پھیلنے کے قابل بنا سکی۔ آخر پولس کون تھا؟
پولس درحقیقت فلسطینی نہ تھا بلکہ وہ یہاں کا آباد کار تھا ۔ ایک خوشحال خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اور امکان ہے کہ اس نے رومی شہریت خریدی تھی۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے قریبی زمانے میں طرسوس (ترکی کے ساحل سمندر پر واقع ایک بستی) میں پیدا ہوا تھا، جو اس وقت رواقیت اور کلّیت فلسفے کی تعلیم کا ایک اہم مرکز تھا۔ ان فلسفوں کے اصولوں میں دیوتاؤں کی مانند بننے کی کوشش شامل تھی، لہذا عین ممکن ہے کہ پولس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت کا تصور یہاں سےبھی اخذ کیا ہو۔
اگرچہ تاثر یہ بھی ملتا ہے کہ وہ یونانی ثقافت سے زیادہ متاثر نہیں تھا، بلکہوہ اپنے یہودی مذہب کے ساتھ مخلص رہا، اور یروشلم جا کر فریسیوں کے مدارس میں تعلیم حاصل کی، یہاں وہ ایک انتہا پسند یہودی بن گیا اور مسیحیوں کے ابتدائی ادوار میں ان پر ظلم و ستم میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
جب مسیحی شمال کی طرف دمشق اور اس سے آگے کی جانب فرار ہوئے تو پولس نے رئیس کاہن سے درخواست کی کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ انہیں پکڑ کر زنجیروں میں جکڑ کر واپس لائے۔ اعمال الرسل کے مطابق،اسی دوران راستے میں اسے ایک واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں وہ بینائی سے محروم ہو گیا، اور اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایک آواز سنی تھی جو کہہ رہی تھی: "شاؤل، کیوں مجھے ستا رہے ہو؟" (اعمال الرسل 9:4)۔ پس اسے سہارا دیکر کر دمشق لے جایا گیا، اور وہ تین دن تک نا فقط بصارت سے محروم رہا بلکہ وہ کھانے پینے کے قابل بھی نہ رہا۔
اس واقعے کے بعد، وہ جزیرہ نما عرب میں غور و فکر کے لیے گیا، پھر دمشق واپس آیا اور وہاں کا مسیحی رہنما بن گیا، اس وقت نہ صرف دمشق میں بلکہ انطاکیہ میں بھی، جو تیسرا بڑا رومی شہر تھا۔ مسیحیت نے اس کے ہاتھوں ایک بڑی تحریک حاصل کی جو بت پرستوں میں پھیل گئی۔پھر تین سال بعد، وہ یروشلم گیا، جہاں اس کی ملاقات حضرت عیسی کے دو شاگردوں - یعقوب اور پطرس - سے ہوئی، اور اس کے بعد وہ اپنے مشہور تبلیغی سفر پر روانہ ہوا، جس میں "برنابا اور یوحنا مرقس" بھی شامل تھے۔
اپنے پہلے سفر میں، وہ جزیرہ قبرص گیا، پھر ایشیائے کوچک (موجودہ ترکی) کی طرف بڑھا اور وہاں "برجہ، انطاکیہ، ایکونیم، لسترا، دربہ" میں مسیحی جماعتیں قائم کیں۔ اپنے دوسرے سفر میں، اس نے ان کلیساؤں کا دوبارہ دورہ کیا، اور پھر طرواس (طروادہ) کی طرف بڑھا، جہاں سے مقدونیہ (یورپ کی براعظمی) کی طرف بحری سفر کیا، پھر جنوب کی طرف ایتھنز اور پھر کورنتھ گیا۔ واپسی پر وہ یونان کے افسس شہر پہنچا اور پھر وطن واپس آیا۔ اس کے بعد اس نے ایک تیسرا سفر بھی اسی راستے پر کیا۔
بولس، ربوبیتِ مسیح اور ان کے تبلیغی مقاصد
بولس کے تبلیغاتی سفر میں اس کی دو بنیادی مسائل پر توجہ تھی: مسیح کی ربوبیت اور روح کی آزادی، جن کے بارے میں وہ ان نظریات کو پیش کرتا رہا جو ان کے دور میں آئے ہوئے نئے مسیحی مجتمع کے لئے اہم تھے۔ بولس کی آمد پر، مسیحیت میں یہ تصورات عموماً محفوظ نہیں رہے، جہاں یہ پرانے یہودیانہ شریعت کی تعلیمات کو پورا کرنے پر ہی مشتمل ہوتے تھے۔
بولس کی نوے مسیحیتی تعلیمات میں تساہل کی روایت موجود ہے، کہ جس میں نئے مسیحیوں کو یہ پیغام بھیجا جاتا تھا کہ وہ یہودی شریعت کے ہر پہلو کو پورا نہیں کرنے کے باوجود بھی ایمان لائیں۔ اس کے خیال میں ، اصلی مسیحی وہ ہے جو اپنے عمل سے یہ احساس کرتا ہے کہ وہ درست ہے، چاہے وہ یہودی شریعت کے مطابق ہو یا نہ ہو۔
بولس کی اس بات کے باعث مختلف مسیحی فرقے کے درمیان جھگڑا ہوا، جہاں ایک گروہ نے شریعت کے پابند ہونے کی ضرورت کو لازم جانا، جبکہ دوسرے نے اس دعوت کو آزادی کے نقطہ نظر سے دیکھا۔ بولس کا مخاصمہ پطرس، یعقوب، اور یوحنا کے ساتھ یروشلم میں ہوا، جہاں ان کے درمیاں اس مسئلے پر بحث ہوئی کہ آیا یہودی شریعت کیا طاعت اب مسئلہ معقول ہے یا نہیں۔
دوسرا بنیادی موضوع بولس کی تبلیغ میں "مسیح کی ربوبیت" کا تھا، جو ان کی تبلیغات میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ انہوں نے مسیح کی موت اور اُس کی برگزیدگی کے بارے میں ایک نیا تفسیر پیش کیا، جس کے مطابق، مسیح ایک مقدس وجود تھے جس میں خدا کی طبیعت تھی، لیکن انہوں نے خود کو زمینی شخصیت کے روپ میں اتار کر انسانوں کے بچاؤ کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔
بولس کے اس تصور نے لوگوں میں مسیح کو اُن کے نجات دہندہ ہونے کی نئی سوچ عطا کی ، جو نہ صرف ان کے معتقدات کو دینیاتی طور پر منوانے بلکہ فلسفی و سیاسی حوالوں میں بھی موثرثابت ہوئی۔
ان تعلیمات کا اثر، ان کے بعد بھی مسیحی جماعتوں پر رہا، جہاں دیگر رہنماؤں نے بھی اپنی تعلیمات کی روشنی میں جدجہد کی۔ بولس، برنابا، سمعان النیجری، لوسیوس البرقی، منئین، اور اپولس جیسے لوگ بھی مسیحیت کی تبلیغاتی خدمات میں مصروف رہے، جو شرقی ساحل سمندر کے ممالک سے لے کر دجلہ اور فرات کے دریاؤں تک، اور بعد میں اثیوپیا تک جاپہنچے۔