28 شوال 1446 هـ   27 اپریل 2025 عيسوى 4:28 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-07-12   631

کیا مذہب کو شعائر اور رسومات کی ضرورت ہے؟!

شیخ مقداد ربیعی

مذہبی رسومات و شعائر، چاہے قدیم مذاہب کے ہوں یا دورِجدید کے، یہ انسان کی روحانی اور مذہبی سرگرمیوں کا لازمی جز ہے، جو انسان کو مقدس بناتے ہیں، اور بعینہ ایک فرد کو جماعت، اور ماضی کو حال سے جوڑتے ہیں۔

کسی بھی قوم کے مراسم عزاء کو دیکھ کر مغرب پرست اور سیکولر قوتیں خود ساختہ اعتراضات کرنے لگتی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تہذیبوں کے یہ شعائر ختم ہو جائیں اور ان کی گہماگہمی کمزورپڑجائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ان رسوم سے تنگ آچکے ہیں اور ساتھ میں یہ دعوی بھی رکھتے ہیں کہ وہ آزاد سوچ کے حامل روشن خیال لوگ ہیں جوکسی تہذیب کو ضروری خیال نہیں کرتے۔ آج میں ان لوگوں کی بابت با ت کروں گا جو ان کا اثر قبول کرچکے ہیں لیکن یہ ان شعائر کے اصولوں سے آگاہ بھی نہیں ہیں اور نہ ان شعائر کی اہمیت اور فلسفہ کو جانتے  ہیں۔ انجانے میں ان شعائر کے خلاف موقف اختیار کیے ہوئے ہیں۔

ہم پہلے ایک مقالے میں اس بات کی تفصیل سے وضاحت کرچکے ہیں کہ عبادات جیسے نماز اور روزہ وغیرہ کا مقصد الہی کا حصول ہے۔ جب کسی انسان میں تقوی کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لیتا ہے گویا اس کی طرزِ زندگی اس کے مطابق ہو جاتا ہے۔ائمہ معصومین علیھم السلام کی عزاداری اور شعائر کو بجا لانا اور انہی کی پیروری کرنا ہی در حقیقت تقوی الہی کا ذریعہ ہے۔ جب انسان ائمہ معصومین علیھم السلام کا غم مناتا ہے تو اس کےدل میں ان کی محبت کا سمندر جوش مارتا ہے اور جو محبت کرتا ہے وہ ان کی پیروی بھی کرتا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

(قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ)، آل عمران: 31

کہدیجئے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور اللہ نہایت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

یہ مسئلہ انسانی جذبات کا ہے،اورجو ان شعائر کی اہمیت کا انکار کرتے ہیں وہ بھی اس کی بعض عقلی توضیحات کو تسلیم کرتے ہیں کہ شعائر اور رسومات کی اپنی جگہ ایک خاص اہمیت ہے۔اور یہ کہ جب کوئی انسان شعائر اور رسومات میں شریک ہوتا ہے تو اس پر ان افکار کا اثر ہوتا ہے۔ فراس سواح ایسے ہی ایک مصنف ہیں جنہوں نے اپنی کتاب (دين الإنسان، ص 58 ـ 60) میں بہت اہم باتیں لکھیں ہیں اور ہم ان کی بعض باتوں کو ذرا تفصیل سے ذکر کریں گے کیونکہ یہ اس موضوع پر بہت مفیدباتیں ہیں وہ لکھتے ہیں:

"انسان کا عقیدہ اس کے لیے جہانوں کی ایک واضح تصویر پیش کرتا ہے۔ صرف دینی افکار کو جان کر انسان اس منزل تک نہیں پہنچ سکتا جس تک وہ پہنچنا چاہتا ہے۔ افکار سے بڑھ کر یہ جس فلسفہ کو تشکیل دیتی ہیں یہ و  دینی فلسفہ ہوتا ہے۔ ہم یہاں پر جدید افلاطونی فلسفہ کی مثال پیش کرتے ہیں،جو مشرقی عرب میں تیسری صدی عیسوی میں پہنچا۔اس فلسفہ نے الہیات کو اپنا محور قرار دیا۔اس وقت اس فلسفہ نے مذہب کے افکار کی بنیادیں فراہم کی گئیں۔ مگر اس کے با وجود وہ اصل مقام حاصل نہ کرسکا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس کے پاس کوئی ایسا رسمی نظام موجود نہیں تھا جو اسے عالم تقدیس سے جوڑ دیتا اور ذہن عقیدے سے تشکیل پاتے۔اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں فقط نامکمل تصورات رہ گئے اور بات دلوں تک نہ پہنچی۔ ہم فلسفہ سے مذہب کی طرف نہیں جاتے (اور ہم یہاں فرض کرتے ہیں کہ تمام مستقل سوچ فلسفہ ہے) سوائے اس کے کہ جب عقیدہ ہمیں رویے اور عمل کی طرف لے آئے تو ہم غور و فکر سے عقیدے کی طرف بڑھتے ہیں۔ عالم تقدیس کی بابت سوچ سے لے کر اس پر کوئی عملی رائے قائم کرنے تک ہم فلسفہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اسی کی روشنی میں کوئی نظریہ بناتے ہیں۔اس کے ذریعے خود کو مطمئن کرتے ہیں۔اختیارات کو فائدے کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے قربت اختیار کرتے ہیں،اس کے ذریعے ہم اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہیں۔بالفرض اگر عقیدہ دماغ کی کسی حالت کا نام ہے تو رسم اس سے رابطہ قائم کرنے والے عمل کا نام ہے۔ اگر عقیدہ ان افکار کے مجموعے کا نام ہے جن کا تعلق مقدسات کے ساتھ ہے تو رسوم اور شعائر کا تعلق ان افعال سے ہے جو اس عالم سے رابطے کا کام کرتے ہیں اور انسان کے لیے مستقل رابطوں کی راہیں  کھولتے ہیں۔یہ بات یاد رہے کہ ہر وہ فکر جو عمل کی صورت اختیار نہیں کرتی اس کے مٹ جانے کا خطرہ رہتا ہے۔

آپ غور کریں کہ فوجیوں کی چھاونیوں میں ہر روز مشق کی جاتی ہے اور ان کے جذبہ حب الوطنی کو بیدار رکھا جاتا ہے۔پس ہر روز ایسے اعمال کا انجام دینا مذہبی رسومات ہی سے مشابہت رکھتا ہے، جس طرح  فوجی ہر روز صبح اور شام دو ٹائم ایک مخصوص طریقہ کار کے مطابق قومی پرچم کو سلامی دیتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام فوجی پرچم کے سامنے جمع ہوتے ہیں اور پرچم ان کے سامنے بلند کیا جاتا ہے اور شام کو ایک مخصوص انداز میں اسے نیچے اتارا جاتا ہے۔اس سارے عمل سے بہت سی اہم چیزیں سمجھ  میں آتی ہیں  کہ ہم جو رسوم انجام دے رہے ہوتے ہیں ان میں سے  بہت سی ہماری  روزہ مرہ زندگی میں ہم پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہیں۔اگر ملاحظہ کریں تو معاشرے کے عام فرد کے طور پر ایک شہید اور خود شہادت کے حوالےسے ایک خاص قسم کی تعظیم پائی جاتی ہے۔ہم اپنے دلوں میں شہداء کا خاص مقام رکھتے ہیں اور ان کی قدر دانی کی ہی بات کرتے ہیں۔ہم شہداء کے ساتھ مکمل انصاف نہیں کرسکتے۔ یہ اتنا اعلی جذبہ ہے کہ بعض مواقع پر ہم ایسے شہید فوجیوں کی قبروں پر بھی پھول چڑھاتے ہیں جنہیں ہم جانتے بھی نہیں ہیں۔اگر مزید سمجھنا چاہیں اور اس کی اہمیت جاننا چاہیں تو دیکھیں کہ جس قدر حب الوطنی کا جذبہ اس طرح کی رسومات کی انجام دہی سے پروان چڑھتا ہے ویسے ہی  کسی اور ذریعے سے ہمارے ذہن پر نقش نہیں ہو سکتا۔ ہم کتابوں اور میڈیا پر قومی شہریت وغیرہ پر بات کر سکتے ہیں مگر سوچیں ایک ایسا جشن جس میں قوم سڑکوں پر ہو،مل جل کر ترانے گائے جا رہے ہوں،سڑکوں پر جشن منایا جا رہا ہو،نعرے پر نعرے لگائے اور بھنگڑے وغیرہ  ڈالے جا رہے ہوں ان لہراتے جھنڈوں اور لگتے نعروں میں وطن کا تصوریقینا  زیادہ مضبوط ہو گا۔جبکہ اس کے مقابل میں کتب اور میڈیا کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔

قوم پرست اور فاشسٹ حکومتوں کی پالیسیوں کو دیکھیں کہ  انہوں نے اس کی اہمیت کو بہت پہلے سے سمجھ لیا ہے اس لیے وہ اس کا موثر استعمال کرتے ہیں۔ نازی جرمنی میں میڈیا کے ماہرین نے مختلف جوانوں کی ٹولیوں کو باقاعدہ تربیت دی تھی  جو مختلف رسومات انجام دیتی تھیں۔ان کے مخصوص لباس،بیجز،سلامی کے طریقے،ہاتھ اٹھانے کا انداز اور سب سے اہم یہ کہ جرمنی کی حب الوطنی کا جذبہ ابھارتے نعرے ہوتے تھے۔ وہ مخصوص ویگنز میں سوارہوتے گاتے اور پرجوش نعرے لگاتے تھے۔ان کی مخصوص موسیقی،مخصوص قومی لباس  ہوتا تھا،یہ لوگ رات کو آگ کے الاو بھڑکاتے تھے۔یہ رسومات اس قدر اثر انداز ہوئیں کہ ہم کہہ سکتے کہ نازی نظریہ کتابوں اور دیگر تبلیغاتی ذرائع سے اتنا نہیں پھیلا جتنا ان قومی رسومات کو ڈیزائن کرکے پھیلایا گیا جس میں مذہبی جنونیت بھی شامل تھی۔

مندرجہ بالا بحث سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ رسومات صرف چند سرگرمیوں کا نام نہیں جو ہمیں ظاہری طور پر نظر آرہی ہوتی ہیں یہ در اصل ایسا نظام ہے جو ہمارے عقیدے پر بھی اثر انداز ہو رہا ہوتا ہے۔اس کے ذریعے قومیں بڑے بڑے کام کرتی ہیں اور وہ نئے نئے نظریات لوگوں میں پھیلا دیتی ہیں۔رسومات کی وجہ سے نئے عقائد تشکیل پاتے ہیں اور عقائد ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ عقیدہ اور ایمان ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں۔اگرچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسم ایک عقیدے کے نتیجے میں ہی معرض وجود میں آتی ہے۔رسم کے ذریعے عقیدے کی خدمت ہوتی ہے۔بہت جلد رسم طاقتور ہوجاتی ہے اور یہ عقیدے پر اثر انداز ہونے لگتی ہے۔رسم اجتماعی ہوتی ہے اور فطرت سے قریب تر ہونے  کی وجہ سے اس کی طاقت اور اس کے پھیلاو میں اضافہ ہو جاتا ہے جس سے یہ اس قابل ہو جاتی ہے کہ اس کے ذریعے افراد کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔یہی کردار افراد میں جوش و خروش پیدا کرتا ہے اور ان میں ایمان اور عقیدے کی وحدت پیدا کرتا ہے۔ رسم پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے اور یہ مختلف سرگرمیوں کے مجموعے کا نام ہے۔ رسم کو بار بار انجام دیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی ہے کہ جب بھی کسی رسم کو گروہ کی شکل میں انجام دیا جاتا ہے تو مشترکہ کارکردگی کی وجہ سےوہ نئے  نئے نتائج دیتی ہے۔انہی بنیادوں پر رسم انجام دینے والوں کے مذہبی رجحان کو زیادہ بہتر انداز میں ڈھالتی ہے۔ رسم ہی پہلا معیار قرار پاتی ہے جس کے ذریعے کسی مذہبی رجحان کا پتہ کیا جاتا ہے۔اس کے ذریعے ہی لوگ دوسروں سے ممتا ز ہوتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی نظر میں مذہب ویسا لگتا نہیں ہے کیونکہ یہ خیالات،اعمال اور طرز عمل کا ایک نظام ہے۔ مومن وہ نہیں ہے جو صرف نئے افکار کو جان کر اپنی معلومات میں ہی اضافہ کرتا ہے مومن وہ انسان ہے جو اس راستے پر چل کر عمل کے ذریعے ان افکار کو عملی جامہ پہناتا ہے۔"

آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہبی رسومات مومنین اور مذہبی برادری کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مذہبی شناخت کو فروغ دینے، سماجی زندگی کو منظم کرنے، مقدسات کے ساتھ تعامل کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرنے، ثقافتی تسلسل کو برقرار رکھنے، اور روحانی تجربے کو فعال کرنے سے، رسم مذہب کی تفہیم میں ایک لازمی عنصر بنی ہوئی ہے۔ مذہبی رسومات کو سمجھنا اور ان کو جاننا مذہب اور انسانی زندگی میں اس کے کردار کی گہری تفہیم میں مدد کرتا ہے، اور افراد کی اپنے اور اپنے ارد گرد کی دنیا سے جڑنے کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018