

آو عزاداری کی طرف ۔۔۔کیسے محبتِ حسین ؑ کوعمل اور سیر و سلوک میں بدل دیں؟
جو شخص تقویٰ کا درخت لگائے گا وہ ہدایت کا پھل کاٹے گا۔(امیر المومنین حضرت علیؑ)
شیخ مقداد ربیعی:
یہ بات تاریخ سے ثابت شدہ ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ ایسا تھا جب وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے تو پھر ضرورت کے وقت بھی اپنے گھرو ں میں دروازے سے داخل نہیں ہوتے تھے۔ان کا عقیدہ تھا کہ جب انہوں نے احرام باندھ لیا تو اب ان کے اور خدا کے درمیان کوئی نہ آئے۔وہ گھروں کی پچھلی طرف سے راستہ بنا کر ان سے داخل ہوتے تھے۔اسلام نے اس سے منع کیا اور گھروں میں انہی عادی دروازوں سے داخل ہونے کا حکم دیا۔ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
(يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ)، البقرة: 189
ترجمہ: "لوگ آپ سے چاند کے(گھٹنے بڑھنے کے) بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: یہ لوگوں کے لیے اور حج کے اوقات کے تعین کا ذریعہ ہے اور (ساتھ یہ بھی کہدیجئے کہ حج کے احرام باندھو تو) پشت خانہ سے داخل ہونا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے اور تم (اپنے) گھروں میں دروازوں سے ہی داخل ہوا کرو اور اللہ (کی ناراضگی) سے بچے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ"
یہ محاورہ ایسے اعمال کی ممانعت کےلیے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو ان مقاصد سے دور کر دیں جن کو حاصل کیا جانا ضروری تھا۔عبادت کا آغاز تقویٰ کے حصول کے لیے کیا گیا تھا۔ایک آدمی بہت عبادت کر رہا ہے مگر اس میں تقوی نہیں ہے تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص محض گھر کے پیچھے سے داخل ہو رہا ہے یا اپنے کھانے پینے میں کافی احتیاط کرتا ہے مگرجب وہ غصے میں آتا ہے تو آپ دیکھیں گے وہ ایک وحشی ہےوہ کسی مومن پر ظلم اور اس کی ہتک عزت بھی کر گزرتا ہے۔قرآن مجید عبادات کو مقصد نہیں وسیلہ قرار دیتا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
(وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ)، البقرة: 45
"اور صبر اور نماز کا سہارا لو اور یہ (نماز) بارگراں ہے، مگر خشوع رکھنے والوں پر نہیں"
ہم قرآن مجید کی بہت سے آیات کا مطالعہ کرتے ہیں یہاں تک کہ مسیحیوں کی کتاب مقدس اور دیگر دینی متون میں بھی یہی بات یہودیت اور مسیحیت میں آئی ہے کہ عبادت کا مقصد تقوی کا حصول ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)، البقرة: 21
"اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (خطرات سے) بچاؤ کرو"
بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ تورات کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:
(وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)، البقرة: 63
۶۳۔اور ( وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے اوپر (کوہ) طور کو بلند کیا (اور تمہیں حکم دیا کہ) جو (کتاب) ہم نے تمہیں دی ہے اسے پوری قوت سے پکڑ رکھو اور جو کچھ اس میں موجود ہے اسے یاد رکھو (اس طرح) شاید تم بچ سکو۔
عبادات تقوی کے حصول کا ذریعہ ہے۔
لہٰذا یہ انبیاء کا اپنی قوم سے مطالبہ تھا جسے اللہ تعالی نے قرآن میں بیان فرمایا ہے:
(إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ أَلَا تَتَّقُونَ)،) الشعراء: 106(۔ جب ان کی برادری کے نوح نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ہو؟
(إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَلَا تَتَّقُونَ)،) الشعراء: 124 (جب ان کی برادری کے ہود نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے؟
(إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَالِحٌ أَلَا تَتَّقُونَ)، )الشعراء: 142(جب ان کی برادری کے صالح نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ؟
(إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلَا تَتَّقُونَ)،) الشعراء: 161(جب ان کی برادری کے لوط نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے؟
(إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ)، )الشعراء: 177( جب شعیب نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ؟
(وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (123) إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ)، الصافات: 124
" اور الیاس بھی یقینا پیغمبروں میں سے تھے۔۱۲۴۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے؟
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو روزہ،نماز ،حج اور اس جیسی دیگر عبادات کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کا مقصد تقوی کو قرار دیا ہے۔تقوی یعنی وہ معنوی اور روحانی کیفیت جو ان افعال کے انجام دینے کےبعد حاصل ہوتی ہے۔عبادات سے انسان میں خدا کا خوف اور اس کی خشیت پیدا ہوتی ہے،یہ خوف اور خشیت انسان کے اعمال پر اثر انداز ہوتا ہے اور وہ شریعت کے راستے پر چلتا ہے۔واجب کو انجام دیتا ہے اور حرام کو چھوڑ دیتا ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ)، العنكبوت: 45
(اے نبی) آپ کی طرف کتاب کی جو وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور تم جو کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
امیرالمومنین ؑ کچھ ارشادات ہماری اس طرف بہتر رہنمائی کرتے ہیں:
«التقوى مفتاح الصلاح»
تقوی نیکی کی چابی ہے۔
«ما أصلح الدين كالتقوى»
دین میں سب سے اچھا تقوی ہے۔
«إن تقوى الله عمارة الدين وعماد اليقين، وإنها لمفتاح صلاح ومصباح نجاح»
اللہ کا تقوی دین کی بنیاد،یقین کا ستون،نیکی کی چاپی اور کامیابی کا چراغ ہے۔
«إن تقوى الله مفتاح سداد، وذخيرة معاد، وعتق من كل ملكة، ونجاة من كل هلكة، بها ينجح الطالب، وينجو الهارب، وتنال الرغائب»
اللہ کا تقوی حفاظت کی کنجی ہے، آخرت کے لیے خزانہ ہے، ہر عذاب سے آزادی اور ہر تباہی سے نجات ہے، اس کے ذریعےہر طالب کامیاب ہوتا ہے،(عذاب سے) بھاگنے والا نجات پاتا ہےاور اسی کے ذریعے خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے۔
«سبب صلاح الإيمان التقوى»
درست ایمان کا سبب تقوی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ شریعت کی بنیاد مصالح اور مفاسد پر ہے۔جو افعال پروردگار نے واجب کیے ہیں ان کے پیچھے کوئی نا کوئی ضروری مصلحت ہوتی ہے جس مصلحت کا ضایع ہونا درست نہیں ہوتا۔اسی طرح ہر فعل حرام کے پیچھے کوئی مفسدہ ہوتا ہے۔عبادت کا فائدہ خود انسان کو ہوتا ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ)، النحل: 90
۹۰۔ یقینا اللہ عدل اور احسان اور قرابتداروں کو (ان کا حق) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور برائی اور زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید تم نصیحت قبول کرو۔
ہم اسے ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ عبادات کا مقصد تقوی کا حصول ہے جو انسان کو واجبات کی انجام دہی اور منکرات کے ترک پر واردار کرتا ہے۔ہر وہ چیز جس میں انسان کے لیے مصلحت ہے اسے انجام دیا جائے اور ہر وہ چیز جس میں اس کے لیے نقصان ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔
یہاں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالی کو انسان کی عبادت کی ضرورت نہیں ہے،یہ مخلوق ہے جس کو عبادت کی ضرورت ہے۔قرآن مجید اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ایسے لوگوں کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے اطاعت کی یا نافرمانی سے رکے اور انسان کو ہی ان کی ضرورت و حاجت ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ)، فاطر: 15
۱۵۔ اے لوگو ! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو اپنے حق میں غربت،تکلیف اور نقصان مانگنے سے منع کیا ہے۔اللہ تعالی ہر طرح کے نقص و عیب سے پاک ہے۔اللہ تعالی عبادت کرنے والے کو اچھا نتیجہ دیتا ہے جو بھی عبادت ہو اور اس کاجو بھی اچھا اثر ہو وہ انسان کی طرف ہی آتا ہے اور اللہ تعالی کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ گناہ اور اس کے اثرات بھی ایسے ہی ہیں۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(إِنْ أَحْسَنْتُمْ أَحْسَنْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ ۖ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا ۚ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيرًا)، الإسراء: 7
۷۔ اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے نیکی کی اور اگر تم نے برائی کی تو بھی اپنے حق میں کی پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا۔ (تو ہم نے ایسے دشمنوں کو مسلط کیا ) وہ تمہارے چہرے بدنما کر دیں اور مسجد (اقصیٰ) میں اس طرح داخل ہو جائیں جس طرح اس میں پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے اسے بالکل تباہ کر دیں۔
ہم روزہ کی آیت کی مثال دیں گے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)، البقرة: 183
۱۸۳۔ اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
ہر انسان اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ وہ پاکیزگی اور بلندی چاہتا ہے۔وہ کمال اور روحانیت کے راستوں میں ترقی کرنا چاہتا ہے۔سب سے پہلے اسے یہ کام کرنا ہو گا کہ دنیاوی لذتوں سے خود کو دور کرے۔جسمانی شہوتوں سے خود کو بچائے اور زمین کو آرام و ہمیشہ کی آسائش کے لیے نہ سمجھے۔انسان کو ہر صورت میں اس طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ کوئی بھی کام اسے اس کے رب سے دور نہ کر دے۔یہ تقوی روزہ رکھنے،خواہشات کی پیروی سے رکنے ،جب اسے محرمات سے بچنے اور وہ ان سے اجتناب کرنے اور اسے اس پر تسلط مل جائے کہ وہ گناہوں سے بچے اور اللہ کی قربت حاصل کرے تو حاصل ہو گا۔جو انسان مباح امور کو اللہ کی مرضی کے مطابق انجام دیتا ہے،اللہ کے احکام کو سنتا اور اس کی مانتا ہے وہ گناہوں سے اللہ کی امان میں ہے اور وہ اللہ کی سنتا اور اس کی ہی مانتا ہے۔
ماہ محرم شروع ہوا چاہتا ہے اب امام حسینؑ کے ذکر کی محافل برپا ہوں گی۔ہم امام حسین ؑ کی خدمت کے لیے تیار ہیں اوراللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس خدمت کی توفیق دے۔ عزاداری ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعے ہم امام حسینؑ کے اسوہ اور تعلیمات کو جانتے ہیں۔اصل چیز یہ ہے کہ ہم امام حسینؑ کی پیروی کریں ۔بنیادی اصول یہ ہے کہ آپ کے راستے میں چلتے ہوئے قیمتی ترین چیزوں کی قربانی بھی دینی پڑتے تو دے دیں چاہے وہ بھائی،بیٹے اور دوست ہی کی کیوں نا ہو۔
جو امام کی پیروی کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ شعائر حسینہؑ کو برپا کرے،مجالس امام حسین ؑ میں حاضری دے اور امام ؑپر روئے۔یہ وہ حقیقت ہے جس کا ادراک ہر انسان کرتا ہے۔غور کرو کہ بہت زیادہ رونے والے،عزاداری کو برپا کرنے والے،امام بارگاہوں کو آباد کرنے والے وہ لوگ ہیں جو سید الشہداء ؑ سے زیادہ محبت کرتے ہیں،ان کے دل نرم ہیں،اور وہ دل میں سب سے زیادہ خوف رکھتے ہیں۔جب انسان سید الشہداء ؑ سے اس قدر محبت کرتا ہے تو عمل میں امام حسینؑ کی پیروی کر کے اس کا عملی اظہار بھی کرے۔