20 محرم 1446 هـ   27 جولائی 2024 عيسوى 9:07 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-06-06   336

گمراہی کی بنیاد...واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ کا تجزیاتی مطالعہ

وہ رات مدینہ منورہ کے آسمان پر سیاہ رات تھی،اہل مدینہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانے کے غم میں بے حال تھے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات گرامی حق کے جانے سے اہل وفا کی گویا سانسیں رک گئی تھیں۔اس اندھیرے میں حق و باطل کی کشمکش شروع ہوئی۔خلافت کس کا حق ہے ؟ یہ حکم آ چکا تھا، اس کے خلاف منصوبہ بندیاں ہونے لگیں۔سقیفہ بنی ساعدہ وہ مقام ہے جو اس بات کا شاہد ہے کہ یہاں ہونے والے فیصلے نے ملت اسلامیہ کے راستے کو تبدیل کر دیا۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت سے آپ کا خاندان غم سے نڈھال تھا گویا پوری گھر غموں کی چادر اوڑھ لی تھی۔حضرت علیؑ اور خاندان نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیگر افراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہو گئے۔اسی دوران سقیفہ بنی ساعدہ میں اقتدار کی بندر بانٹ شروع ہو گئی، جس میں سیاسی سودا بازی اور دھونس سے کام لیا جا رہا تھا۔

سقیفہ ہی وہ مقام ہے جہاں صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میت کو چھوڑ کر حکومت و ریاست کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے جمع ہوئے۔یہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میراث کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔اوس و خزرج کے انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے،یہ کھجور کے پتوں سے بنا ایک سادہ سا چبوترا تھا۔ جب کسان اور چرواہے شہر سے باہر جانور چرانے اور کھیتی کرنے جاتے تو یہ ان کو سایہ فراہم کرتا تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مسجد نبوی جیسی عظیم الشان جگہ موجود تھی جہاں بڑے اجتماعات ہوتے رہتے تھے تو مدینہ سے ہٹی اور دور جگہ کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ سقیفہ میں اتنی وسعت نہیں تھی کہ وہاں اس طرح کے اجتماعات ہوں جن میں لوگوں کا بڑا ہجوم شریک ہو۔یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ سقیفہ کا انتخاب بڑی احتیاط سے کیا گیا تھا اور اس میں شرکاء کو بھی بڑی رازداری سے چنا گیا تھا،یہ واضح رہے کہ تمام انصار کو بھی اس میٹنگ میں نہیں بلایا گیا تھا۔

اس پورے واقعے پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد انصار کے سرداروں نے بڑی تیزی سے قیادت کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی۔وہ کیا چیز تھی جس نے ان سرداروں کو واردار کیا کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تدفین سے پہلے اس طرح کا ہنگامی اجلاس کریں؟ویسے یہ بات بڑی تعجب والی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی یہ سب کچھ شروع ہو گیا۔یہ معمولی بات نہیں ہے بلکہ اس سے پورا معاشرہ ہی متزلزل ہو جاتا۔یہ موقع پرستی تھی کہ مہاجرین کو اقتدار سے دور کر دیا جائے اور اس کے لیے بہترین یہی ہے کہ اس طرح کا فوری اجتماع کیا جائے۔

مگر سب کچھ انصاری سرداروں کے منصوبے کے مطابق نہیں ہوا اور اس دن ہوا ن کے مخالف سمت چلی نکلی۔ عمر اور ابوبکر نے حالات پر نظر رکھی ہوئی تھی او رموقع کے منتظرتھے۔ جب انہیں اس اکٹھ کی ابوعبیدہ بن جراح کے ذریعے اطلاع ملتی ہے تو یہ بڑی تیزی سے حرکت میں آتے ہیں۔

ذرا غور کریں کہ صرف عمر اور ابوبکر کی ہی اس اجتماع کی اطلاع ملتی ہے دوسرے اس سے بے خبر رہتے ہیں!!۔ان دونوں کے اس اطلاع کے بعد کیے گئے اقدامات بتاتے ہیں کہ یہ سب کچھ اتفاقیہ نہیں ہو سکتا۔اس سب کے پیچھے کچھ سوچ پہلے سے موجود تھی۔

سقیفہ کا منظر دیکھیں تو یہاں کشیدگی ہے اور ہر طرف توقعات ہیں کہ طاقت اقتدار ہمیں ملے گا۔یہی جگہ ہے جہاں تاریخ کے گہرے سیاسی اختلاف کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ عام واقعات کی طرح نہیں تھا جیسے اس وقت اور بعد میں بھی بہت سے واقعات ہو رہے ہوتے ہیں اور کوئی ان کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔ یہ ایسا واقعہ تھا جس کے اثرات صدیوں تک باقی رہیں گے۔اس واقعہ کے اثرات ملت اسلامیہ کی کئی نسلوں پر فکری اور سیاسی نقوش چھوڑتے رہیں گے۔(طبری اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں ج2، ص455 ـ ص،460)

سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ نے یوں خطاب شروع کیا:اے گروہ انصار تم لوگوں کو اسلام لانے میں سبقت کی وجہ سے جو فضیلت حاصل ہے وہ عرب کے کسی قبیلے کو حاصل نہیں ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دس سال کے قریب اپنے قبیلے (قریش) میں اسلام کی تبلیغ کی۔انہوں نے انہیں رحمن کی بندگی کی طرف بلایا اور بت پرستی سے جان خلاصی کی دعوت دی۔ان کی قوم سے صرف تھوڑے سے لوگ ایمان لائے۔خدا کی قسم یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت پر قادر نہ تھے،نہ ہی یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دین کو جانتے تھے۔اللہ تعالی نے اس فضیلت کے لیے تمہارا انتخاب کیا۔اللہ تعالی نے تمہیں عزت بخشی،تمہیں خاص نعمتیں عطا کیں،تمہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان عطا کیا۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھیوں کی حفاظت کی اور اس کے دین کو عزت دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمنوں سے جہاد کیا۔جس نے نافرمانی کی تم ان سے شدت سے لڑے،جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمن تھے تم ان پر سب سےبھاری تھے۔یہ وقت آگیا کہ لوگوں نے چاہتے نا چاہتے ہوئے اللہ کے حکم پر عمل کیا۔دور نزدیک پر اللہ کا امر قائم ہو گیا اور تمہاری تلواریں عربوں کو نزدیک لے آئیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انتقال ہوا اور وہ تم سے راضی اور خوشنود تھے۔لہذا خلافت کے معاملات میں طاقت کو جمع کرو کیونکہ تم اس کے سب سے زیادہ حقدار ہو۔

انصار نے جواب دیا:تمہاری رائے درست ہے اور تمہاری بات حق ہے،تم اس کام کے لیے سب سے بہترین ہو۔اس طرح سعد بن عبادہ کے سربراہ بننے پر اوس وخزرج کا اتفاق ہو گیا۔

جب اس ساری کاروائی کی رپورٹ ابوبکر کو ہوئی کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں کیا چل رہا ہے؟ تو وہ اور عمر بھاگتے ہوئے نکلے اور سقیفہ کا رخ کیا۔اس وقت ان کے ساتھ ابوعبیدہ بن جراح بھی تھا۔ جیسے ہی وہ ان کے پاس پہنچے، ابوبکرؓ کھڑے ہوئے اور انصار سے مخاطب ہو کر ان کو اس بات پر آمادہ کرنے کے لیے کہا کہ وہ جو فیصلہ کر چکے ہیں، اس سے دستبردار ہو جائیں، اور انہیں یہ سمجھاتے ہوئے کہ کس طرح خلافت کے منصب کے سب سے زیادہ مستحق مہاجرین اور ان میں سے بھی خاص طور پر قریش ہیں۔ابوبکر نے کہا:اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی دعوت دی،اللہ تعالی نے ہمارے دلوں کو اس کی طرف موڑ دیا۔ہم مہاجرین وہ گروہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا،لوگوں نے ہماری پیروی کی۔ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خاندان ہیں۔ہم عربوں کا سب سے عالی نسب قبیلہ ہیں۔تم لوگ وہ ہو جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی۔تم دین میں ہمارے وزیر ہو اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وزیر ہو۔تم اللہ تعالی کی کتاب میں ہمارے بھائی ہو۔تم دین خدا میں ہمارے شریک ہو۔ہم دکھ سکھ کے ساتھی ہیں۔تم ہر طرح کی نیکی میں ہمارے ساتھ شریک ہو۔تم ہمیں لوگوں میں سب سے زیادہ پسند ہو۔تم ہمارے نزدیک سب سے زیادہ صاحب عزت ہو۔تم اللہ کی مرضی اور اس کے فیصلے پر سب سے زیادہ تسلیم خم کرنےو الے ہو۔ جو کچھ اللہ نے تمہیں اور تمہارے مہاجر بھائیوں کو دیا ہے اس کا تقاضا یہی ہے۔وہ لوگوں میں سب سے زیادہ مستحق ہیں، لہذا ان سے حسد نہ کرو. اور آپ وہ ہیں جو مشکل کے وقت اپنے آپ کو قربان کرتے آئےہو۔خدا کی قسم آپ آج بھی اپنے مہاجر بھائیوں پر سب سے زیادہ موثر ہیں۔یہ بات آپ کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ آپ کی وجہ سے کوئی اختلاف نہ ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ اپنے بھائیوں سے اس نیکی پر حسد کریں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو عطا ہوئی ہے۔

ان دونوں تقریروں کو ملاحظہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر کوئی بڑی احتیاط کے ساتھ اپنے حق خلافت پر دلیلیں دے رہا ہے۔یوں لگ رہا ہے کہ ہر ایک نے پہلے سے ہی ان دلیلوں کو تیار کرکے پوری تیاری کرلی تھی۔انصار بتا رہے ہیں کہ وہ انتہائی سخت زمانہ تھا جب انہوں نے فتح کا جھنڈا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے بلند کیا۔جب کہ مہاجرین کی دلیل یہ ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قرابت دار ہیں اور نسب میں اعلی ہیں۔

ان دونوں تقریروں میں غور کریں تو واضح ہو جاتا ہے کہ کہیں بھی دین کو مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہے۔اسی لیے ابوبکر مہاجرین کو حسد سے ڈرا رہے ہیں کہ وہ اس بھلائی کی وجہ سے کہیں مہاجرین سے حسد جیسے جرم میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

اس پوری تقریر پر غور کریں اور دیکھیں کہ وہ کون سی دلیل ہے جس کی بنیاد پر ابوبکر نے مہاجرین کو انصار پر فوقیت دی کہ حق خلافت انصار کا نہیں بلکہ مہاجرین کا ہے؟یہاں ابوبکر نے کوئی قانونی،شرعی یا عقلی دلیل نہیں دی جس کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ خلافت کا حق مہاجرین کا ہے اور انصار کا نہیں ہے۔انصار یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشکل وقت میں مدد کر کے سب سے بہترین کام کیا ہے،اس وقت اس مدد کی اہمیت اور بھی زیادہ جاتی ہے کہ یہ مدد اس وقت کی جا رہی تھی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اپنی قوم کے لوگ انہیں جھٹلا رہے تھے،اس لیے خلاف انصار کا حق ہے۔انصار کی مشکل وقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مال و جان سے مدد کرنا اس میں   زیادہ وزن ہے کہ صرف یہ کہہ دیا جائے کیونکہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قبیلے سے ہیں اس لیے خلافت ہمیں دی جائے۔ یہ قبائلی اور نسل پرستانہ سوچ سے زیادہ کچھ نہیں ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔جب مہاجرین انصار کے پاس آئے تو ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔انصار نے ان مہاجرین کو گلے لگایا،انہیں کاروبار اور گھر تک میں شریک کیا۔انصار نے مہاجرین کی ہر طرح سے حفاظت کی یہاں تک کہ امن آ گیا۔انصار کا شہر مہاجرین اور تمام مسلمانوں کا دار الخلافہ بن گیا۔جب یہ ساری خدمات انجام دینے والے انصار ہیں تو پھر خلافت میں مہاجرین کا استحقاق کیسے زیادہ ہو گیا؟ابوبکر نے اپنی بات ختم کی اور فورا ہی یہ اعلان کر دیا کہ عمر یا ابوعبیدہ بن جراح میں سے کسی ایک کا بطور خلیفہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انتخاب کر لیں،یعنی اس نے انصار کو سوچنے سمجھنے کا موقع ہیں نہیں دیا۔

جب ابوبکر نے عمر یا ابو عبیدہ بن جراح میں سے کسی ایک کوخلیفہ مان لینے کی بات کی تو بالکل جیسے پلان کے مطابق ہو رہا ہے انہوں نے فورا انکار کیا اور فورا ابوبکر کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کر لی۔اگر ان دونوں میں سے ایک خلیفہ کے لیے مان جاتا تو کہیں انصار کو شک گزرتا کہ یہ سب کچھ کسی پلان کا حصہ ہے ۔جب ابوبکر کے مرنے کا وقت آتا ہے تو وہ عمر کو خلیفہ نامزد کر دیتا ہے کہ میرے بعد یہ حکومت کرے گا۔ابوبکر کی اس نامزدگی پر بھی انصار نے اعتراض کیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟سقیفہ کا تیسرا کردار  ابوعبیدہ بن جراح ہے،اس کے بارے میں بھی سن لیں جب عمر کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے کہا"اگر آج ابوعبیدہ زندہ ہوتا تو میں اسے حکمران بنا دیتا"کڑیوں سے کڑیا ں ملا کر دیکھیں تو پوری تصویر واضح ہو جاتی ہے کہ عمر و ابوعبیدہ نے ابوبکر کو خلافت دی،بدلے میں ابوبکر نے عمر کو خلافت سے نوازا اور مرتے وقت بھی عمر اس کے تیسرے کردار کو یاد فرما رہے ہیں کہ اگر وہ زندہ ہوتا تو آج اسے تخت پر بٹھا دیتا۔سقیفہ کے یہ تینوں کردار واضح ہو جاتے ہیں ۔ابوبکر کو تو حکومت سب سے پہلے ملی،عمر کو دوسرے نمبر پر مل گئی اگر ابوعبیدہ زندہ رہتا تو حکومت اسے بھی مل جاتی۔

ابوبکر کی تقریر کے بعد ہی انصار کو اس بات کا خوف محسوس ہو رہا تھا کہ اب خلافت کو ہمیشہ کے لیے ہم سے دور کر دیا جائے گا اس لیے انہوں نے ایک اور تجویز پیش کی:خدا کی قسم اللہ نے جو فضیلت تمہیں عطا کی ہے ہم اس پر حسد نہیں کرتے۔جو آپ نے بیان کیں وہ فضیلیتں مہاجرین کے پاس ہیں۔خدا کی تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ مہاجرین ہمیں عزیز ہیں۔ہم اس تقسیم سے مطمئن نہیں ہیں اور جو کچھ آج کے بعد ہو گا وہ وہ خوفزدہ کر دینے والا ہے۔ہم ڈر رہے ہیں کہ یہ خلافت ایسے لوگوں کے ہاتھ چلی جائے گی جو مہاجرین و انصار دونوں میں سے نہیں ہوں گے۔اگر آج ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ ایک آدمی تم میں سے اور ایک آدمی ہم سے ہو اور ہم ان کی بیعت کر لیں۔ جب ان میں سے کسی ایک انتقال ہو جائے تو اس کی جگہ اس کی قوم میں سے کسی اور کو منتخب کر لیا جائے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے جب تک امت باقی رہے۔اس کے ذریعے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں انصاف قائم رہے گا۔اگر کوئی ایک حکمران ہو گا تو یہ مسئلہ ہو گا کہ قریشی پیچھے ہٹا تو انصاری قبضہ کر لے گا اور اور انصاری کی حکومت ہونے کی صورت میں قریش کو یہی پریشانی رہے گی۔

ابوبکر نے اس تجویز کو پسند نہیں کیا دو آدمیوں کو خلیفہ بنایا جائے کیونکہ اس سے اقتدار تقسیم ہو جاتا، ایسی صورت میں ایک مہاجر اور دوسرا انصاری نمائندہ ہوتا۔یہ شراکت اقتدار کا بہترین فامولا تھا،اس کی عملی صورت بھی نکالی جا سکتی تھی۔ مہاجرین کی فضیلت ،ان کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت،ان کا اسلام کے لیے اذیتیں برداشت کرنا کے مقابلے میں صرف خاندان اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرابت کا ہی ذکر کیا گیا۔پھر اس نے یہ تجویز دی کہ مہاجرین وزیر ہوں گے اور امیر مہاجرین ہوں گے۔کہا اللہ تعالی نے مہاجرین الاولین کو اپنے تصدیق کےلیے خاص کیا،اللہ پر ایمان لائے،اللہ کے لیے ہمدردی کی،قریش کی سختیوں،بہتانوں اور مظالم پر صبر کیا۔۔۔۔اے گروہ انصار تم وہ جن کی فضیلت کا انکار نہیں ہے اور نہ ہی اسلام جیسی نعمت کو قبول کرنے میں تمہیں حاصل فضیلت سے سے انکار ہے۔ہم امیر اور تم وزیر ہو۔ہم تمہارے مشورے کے بغیر حکومت نہیں کریں گے اور آپ کے بغیر معاملات ریاست کو نہیں چلائیں گے۔ الحباب بن المنذر نے خطرہ محسوس کیا اور اس پیشکش سے متاثر نہ ہوئے اور کھڑا ہو کر کہا: اے گروہ انصار! تم اپنی باگ ڈور دوسروں کے ہاتھ میں نہ دو۔ دنیا تمہارے سایہ میں بس رہی ہے۔ تم عزت و ثروت والے اور قبیلے جتھے والے ہو۔ اگر مہاجرین کو بعض چیزوں میں تم پر فضیلت ہے تو تمہیں بھی بعض چیزوں میں ان پر فوقیت حاصل ہے۔ تم نے انہیں اپنے گھروں میں پناہ دی، تم اسلام کے بازوئے شمشیر زن ہو، تمہاری وجہ سے اسلام اپنے پیروں پر کھڑا ہوا، تمہارے شہروں میں آزادی سے اللہ کی نمازیں قائم ہوئیں، تم تفرقہ و انتشار سے اپنے کو بچاؤ اور اپنے حق پر یکجہتی سے جمے رہو اور اگر مہاجرین تمہارا حق تسلیم نہ کریں تو پھر ان سے کہو کہ: ایک امیر تم میں سے ہوگا اور ایک امیر ہم میں سے ہوگا۔

یہاں پر عمر نے حالات کی سنگینی کو محسوس کیا اور اگر انصار اسی شدت کے ساتھ اقتدار کی تقسیم پر اصرار کرتے رہے تو وہ قریش کے لیے خالصتاً خلافت حاصل نہیں کر سکیں گے، چنانچہ انھوں نے مزید سختی سے کہا: ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک زمانہ میں دو (حکمران) جمع ہو جائیں۔ خدا کی قسم! عرب اس پر کبھی راضی نہ ہوں گے کہ تمہیں امیر بنائیں۔ جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تم میں سے نہیں ہے۔ البتہ عرب کو اس میں ذرا پس و پیش نہ ہو گا کہ وہ خلافت اس کے حوالے کریں کہ جس کے گھرانے میں نبوت ہو اور صاحبِ امر بھی انہی میں سے ہو اور انکار کرنے والے کے سامنے اس سے ہمارے حق میں کھلم کھلا دلیل اور واضح برہان لائی جا سکتی ہے۔ جو ہم سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سلطنت و امارت میں ٹکرائے گا، وہ باطل کی طرف جھکنے والا، گناہ کا مرتکب ہونے والا اور ورطۂ ہلاکت میں گرنے والا ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سارا جھگڑا طاقت و اختیار کے حصول کا تھا اصل میں یہ میراث لینا چاہتے تھے۔خلافت و حکومت کی بنیاد اسلام پر نہیں تھی بلکہ اس بات پر آ گئی تھی جو زمانہ جاہلیت میں عربوں کا رواج تھا۔مہاجرین نے اسلام میں اپنے جتنے فضائل بیان کیے ان کی حیثیت ہی کچھ نہ تھی۔عمر نے کہا اللہ کی قسم عرب اس بات پر راضی نہیں ہوں گے کہ خلافت انصار کو دے دیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے قبیلے سے نہیں تھے۔عمر کی یہ بات درست ہےعربوں کا زمانہ جالیت سے یہ رواج تھا کہ قبیلے کا سربراہ قبیلے سے باہر کا آدمی نہیں ہو سکتا تھا۔عمر نے جاہلیت کے دستور کے مطابق عمل کیا اور خلافت کو قبائیلی بنیاد پر قریش کی میراث بنا دیا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے قبیلے سے تھے اس لیے اب خلافت بھی ان کی ہو گی۔ یہی سقیفہ سے شروع ہونے والا وہ انحراف ہے جس نے قریش کے لیے مسلمانوں پر نو صدیوں تک حکومت کرنے کا دروازہ کھولا، جس میں غاصب، کتاب خدا کی غلط تفسیر کرنے والے، انبیاء کے بچوں کے قاتل، کعبہ کو تباہ کرنے والے، اور عورتوں کی بے حرمتی کرنے والے خلیفہ حکمران بنے۔انصار نے حباب بن منذر کی بات کو نہیں مانا،انہوں نے سب سےپہلے اس کی طرف متوجہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ اگر اس انحراف کو نہ روکا گیا تو بات اسلام سے پہلے والی جاہلیت کی طرف پلٹ جائے گی۔بار بار پکارا تھا کہ انصار کو خلافت میں اپنا حصہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ مہاجرین کو ان مدینہ بدر کیا جاتا ہے اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا جاتا ہے۔اس سے سقیفہ کے حقیقی منصوبہ سازوں کی نیت سامنے آتی ہے۔اگر بات دین کی اور اسلام کے تحفظ اور اس پر عمل کرنے کی خواہش کی تھی تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آگاہ کیا تھا کہ اس سے تمام امور زمانہ جاہلیت کی طرف پلٹ جائیں گے۔انہوں نے کہا تھا"یہ جاہلیت کو دوبارہ زندہ کریں گے" ہم حباب کی تمام گفتگو کو نقل کرتے ہیں" اے جماعت انصار ! حکومت کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھ میں لے لو۔ اس کی اوس کے ساتھی کی بات کو نہ سنو۔خلافت میں اپنا حصہ وصول کرو،اگر یہ تمہارے حصے کا انکار کریں تو انہیں ان کی جگہ واپس بھیج دو۔ان پر حکومت کو ہاتھ میں لے لو۔ہماری تلوارو نے جو کام کیا ہے اس کی وجہ سے ہم ان سے زیادہ سزوار ہیں۔اگر ہمیں ہمارا حق نہیں ملتا تو ہم بزور طاقت اسے لے سکتے ہیں۔

دو طرفہ تقاریر سے ماحول کشیدہ ہو گیا اور گرما گرمی پیدا ہوگئی۔انصار نے اپنے حق کے حصول کے لیے بڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور اپنا حصہ لینے کی بات کرتے رہے اور اس سے پیچھے نہیں ہٹے۔عمر نے یہ محسوس کیا کہ اس طرح حالات بے قابو ہو جائیں گے اور ان کا منصوبہ ناکامی کا شکار ہو جائے گا۔اس نے دوبارہ ماحول کو ٹھنڈا کیا اور  سفارتکارانہ اسلوب کو استعمال کرتے ہوئے کہا:مجھے جواب حباب نے دیا ہے اور میں حباب سے بات چیت نہیں کرتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں ہی میرا جھگڑا ہوا تھا۔مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جھگڑے سے روکا تھا۔اس وقت میں نے یہ فیصلہ کیا تو کہ میں اس سے کبھی بھی ایسے بات چیت نہیں کروں گا جس سے یہ ناراض ہو جائے۔

عجیب بات یہ ہے کہ عمر اس سے پہلے حباب کی بات کو رد کر چکا تھا جب اس نے کہا تھا:ہرگز نہیں ایک نیام میں دو تلواریں جمع نہیں ہو سکتیں۔۔۔ہمارے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میراث کے بارے میں کون جھگڑا کر سکتا ہے در حالانکہ ہم اس کے قبیلے کے لوگ اور ان کے وارث ہیں،اس کے بعد بھی جو ہمارے ساتھ جھگڑا کرے گا وہ گمراہ اور حق سے دور ہے،گناہ میں مبتلا ہے وہ اس طرح کی گمراہی میں مبتلا ہو گا جس میں تباہی ہے۔اب یہاں پر عمر کیسے کہہ رہا ہے کہ اس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے قسم اٹھائی تھی کہ میں حباب سے لڑائی والی بات ہی نہیں کروں گا۔یہ سیاسی داو پیچ ہیں جس میں سیاستدان یہ جانتا ہے کہ کب آگے بڑھنا ہے؟ کب ہمدردی کا اظہار کرنا ہے اور کب پرسکوں رہنا ہے؟

ابو عبیدہ جو ساری گفتگو کے دوران خاموش تھا پہلی بار اس سیاسی بحث میں آتا ہے اور کہتا ہے:اے گروہ انصار تم سب سے پہلے اسلام کی نصرت کرنے والے او راسے پناہ دینے والے ہو،اب سب سے پہلے پھرنےو الے اور تبدیل ہونے والے نہ بنو۔

یہ جملہ اگرچہ مختصر تھا مگر اس نے انصار پر بڑا اثر کیا،سب سے پہلے بشیر بن سعد  انصاری نے اختلاف کیا اور انصار کے اتحاد کو توڑ کر ان میں تفریق پیدا کر دی۔یہ مہاجرین کے اس گروہ کی طرف ہو گیا اس کے بعد ابوبکر آگے بڑھ کر ابو عبیدہ اور عمر میں سے کسی ایک کی بیعت کی دعوت دیتا ہے۔ اور کہتا ہے:جن فضائل کا تم نے ذکر کیا وہ سب تم میں موجود ہیں۔عرب خلافت کو فقط  قریش میں دیکھ کر ہی قبول کریں گے۔وہ تمام عربوں کے نسب اور قرابت میں قریب ہیں۔ان دونوں میں سے جس کی چاہوں بیعت کر لو۔

یہاں عمر بات کو پھر قبائلی بنا کر پیش کر رہے ہیں کہ عرب قریش کے علاوہ کسی کو قبول نہیں کریں گے۔اس سے وہ یہ بات مضبوط کرنا چاہتے ہیں کہ مہاجرین تو انصار کے دشمن نہیں ہیں بس اس وجہ سے انہیں خلافت نہیں دے سکتے کیونکہ ان کا تعلق قریش سے نہیں ہے۔ان کے یہ دلیل وہاں رد ہو گیا جب ان کا معاملہ حضرت علیؑ سے ہوا۔جب ان لوگوں نے حضرت علیؑ سے بیعت طلب کی تو حضرت علیؑ نےفرمایا:میں خلافت کا تم سے زیادہ حقدار ہوں۔میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا بلکہ یہ بات زیادہ سزاوار ہے کہ تم میری بیعت کرو۔تم نے خلافت کو انصار سے اس دلیل کی بنیاد پر چھین لیا کہ تم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زیادہ قریب اور رشتہ دار ہو۔انہوں نے تمہاری بات مان لی اور خلافت کو تمہارے حوالے کر دیا۔میں تم پر تمہاری دلیل کے ذریعے سے ہی حجت لاتا ہوں یعنی میں تم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب ہوں۔تم انصاف سے کام لو اگر اللہ کا خوف رکھتے ہو۔تم ہمارے حق خلافت پر اس دلیل کو مانو جیسے انصار نے تمہاری دلیل کو مانا تھا۔ظلم سے بچو در حالانکہ تم جانتے ہو۔عمر نے کہا:ہم تمہیں اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک تم بیعت نہ کر لو۔حضرت علیؑ نے ایک مثال ذکر کی جس کامطلب یہ ہے کہ اتنا کہو جتنا کر سکتے ہو اور پھر فرمایا خدا کی قسم میں تمہاری بات کو قبول نہیں کروں گا اور نہ ہی تمہاری پیروی کروں گا۔ شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد: ج2 ص2ـ5

جب ابوبکر نے کہا کہ میں راضی ہوں تم ان دونوں میں سے جس کی چاہو بیعت کر لو۔عمر بولا :بہت بگاڑ پیدا ہو گیا ہے،شور شرابہ ہو گیا اور مجھے خوف ہوا کہ کہیں  اختلاف نہ ہو جائے۔میں نے ابوبکر سے کہا ہاتھ نکالو،اس نے ہاتھ نکالا اور میں نے اس کی بیعت کرلی۔اس کے بعد مہاجرین نے بیعت کر لی اور پھر انصار نے سعد بن عبادہ کو کچلتے ہوئے بیعت کرلی۔ابن قتیبہ اس اپنی کتاب االامامہ و السیاسہ میں اس پر مزید اضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں جب ابوعبیدہ بن جراح ابوبکر کی بیعت کرنا چاہتا تھا اس وقت بشیر بن سعد انصاری آگے بڑھا اور پہلے بیعت کرلی۔حباب بن منذر نے اسے بلایا اور کہا اے بشیر بن سعد تمہیں بیعت پر کس نے مجبور کیا تھا؟تم نے اپنے کزن سے حسد کی وجہ سے یہ بیعت کی؟

بشیر نے جواب دیا نہیں خدا کی قسم ایسا نہیں ہے،میں یہ بات ناپسند کرتا ہوں کہ ایک ایسی چیز میں جھگڑا کروں جو ان کا حق تھا۔

ابن قتیبہ کہتے ہیں :اوس نے قیس بن سعد کو دیکھا جو اوس کے سرداروں میں سے  تھا اس نے کیا کیا۔وہ مہاجرین کی بات کی طرف مائل ہو گیا۔خزرج  سعد بن عبادہ کی امارت چاہتے تھے۔وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے اور ان میں اسید بن حضیر  بھی تھا:اگر تم نے ایک بار سعد کو امیر بنا لیا  تو وہ اسے  تمہارے اوپر فضیلت کے طورپر قائم کر لیتا اور اسے کبھی نہ چھوڑتا۔کبھی بھی تمہیں امارت میں سے حصہ نہ دیتا،اس لیے اٹھو اور ابوبکر کی بیعت کر لو،وہ اٹھے اور انہوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی۔ (الامامة والسياسة، تحقيق الدكتور طه محمد الزيني، الناشر مؤسسة الحلبي، ج1 ص 17)

انہوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی۔سعد بن عبادہ اور خزرج تنہا رہ گئے اور انہیں اپنے مقصد میں کامیابی نہ ملی جس کے لیے انہوں نے یہ اجتماع کیا تھا۔۔۔۔لوگ ابوبکر کی بیعت کرنے کے لیے ہر طرف سے دوڑ پڑے یوں لگتا تھا کہ سعد بن عبادہ کو روند ڈالیں گے۔

سعد کے ساتھیوں نے کہا :سعد کو بچاو،اسے مت روندو۔

عمر نے کہا:اسے قتل کر دو،اللہ سے قتل کرے۔پھر کھڑا ہوا اور کہا میں تمہیں ہر صورت میں پچھاڑنے والا تھا۔

اس پر قیس بن  سعد نے عمر کی  داڑھی کو پکڑا اور  کہا :خدا کی   قسم یہ کاٹ دوں گا۔

ابوبکر نے کہا:ٹھہر جاو،اے عمر نرمی کرو،یہ زیادہ مناسب ہے۔

 سعد نے کہا: خدا کی قسم، اگر مجھ میں کھڑے ہونے کی طاقت ہوتی تو تم مجھ سے ایسی گرج سنتے جو تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو  یہاں سے فرار ہونے پر مجبور کر دیتی ،۔ہم  تمہیں  اس قوم میں بھیج دیتے جن میں سے تم ہو اور جن کی پیروی کرتے ہو۔۔مجھے اس جگہ سے لے جاو،لوگ انہیں اٹھا کر ان کے گھر لے گئے۔

اس طرح اوس اور خزرج کے درمیان قدیم قبائلی دشمنی ایک بار پھر منظر عام پر آگئی۔اس کی بنیاد  پر قریش  نے یہ دعوی کر دیا ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فطری وارث ہیں۔ چونکہ معاملہ قبائلی حق اور نسبتی دشمنی کا تھا، اس لیے اوس سعد بن عبادہ جو خزرج کا سردار تھا، کی تقرری کو کیسے قبول کر سکتے تھے؟ اور اس طرح انصار کی رائے بٹ  گئی اور ان کی صفوں میں تقسیم پیدا ہو گئی۔ حباب بن المنذر کے سامنے مسلح  مخالفت کے سوا کوئی چارہ  باقی نہ رہا کہ وہ کوئی نئی تدبیر کرتے۔چنانچہ حباب نے تلوار نکال لی اور ان کی طرف دوڑے انہوں نے تلوار چھین لی اور انہیں مارنے لگے ،ان کے چہرے پر ضربیں لگانے لگے اور اس وقت تک مارتے رہے جب تک انہوں نے بیعت نہیں کر لی۔

سقیفہ بنی ساعدہ سے صراط مستقیم سے جو انحراف شروع ہوا یہ تاریخ کا اہم موڑ ہی نہیں بلکہ اس نے امت مسلمہ کو آج بھی راہ حق سے بھٹکا رکھا ہے اور اس سے دراصل صراط مستقیم سے ہٹنے کا آغاز ہوا۔سیاسی طاقت کو مذہبی اصولوں کی بجائے ذاتی مفادات کی بنیاد پر غلبے کے ذریعے حاصل کیا گا۔یہ واقعات امت مسلمہ کو زخمی کر گئے اور ان کی رواح تک پر اثر ڈال گئے۔انہی کے ذریعے سےا مت اس راستے سے ہٹ گئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس امت کے لیے طے کیا تھا۔

الشيخ مقداد الربيعي - محقق و استاد حوزہ علمیہ


جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018