20 محرم 1446 هـ   27 جولائی 2024 عيسوى 9:07 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-05-17   264

یورپ سمیت دنیا میں اسلام پھیلنے کی وجوہات

نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم نے دعوت دین کا کام شروع کیا تو آپ صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کو جہالت کے بڑے آتش فشاں کا سامنا کرنا پڑا۔آپ صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لوگوں نے لبیک کہا اور اس جہالت کا مقابلہ کیا۔لوگ آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے ہاتھ پر دعوت دین کو قبول کر کے سفینہ نجات پر سوار ہوتے گئے۔لوگوں نے دل و جان سے آپ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔اسلام قبول کرنے کے بعد لوگوں نے اپنی جانیں قربان کیں مگر پیغام حق کو ترک نہیں کیا۔یہ پیغام اس قدر پھیلا کہ لوگ گروہ در گروہ اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔اسلام کی یہ خوبی تھی کہ اس کی دعوت بلا رنگ و نسل ہر ایک کے لیے تھی جوبھی اسلام قبول کرتا اسلام اسے قبول کر لیتا۔اسلام کا پیغام جہاں پہنچتا لوگ اس سے متعارف ہوتے اور اسلام قبول کر لیتے تھے۔

اس پوری تحریک کو ادیان کے پھیلنے کی تاریخ کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اسلام کا اس قدر تیزی سے پھیلنا ایک بڑا واقعہ ہے۔اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کی تاریخ دیکھی جائے تو مذاہب اتنی تیزی سے نہیں پھیلے۔اسلام کے تیز رفتار پھیلاو سے معاشرتی ماہرین اور تاریخ کے علماء حیران ہیں۔اسلام تمام مذاہب سے زیادہ تیزی سے دنیا میں پھیلا۔عالمی مرکز اعداد شمار کے مطابق 1900میں دنیا کے صرف پندرہ فیصد لوگ اسلام کے پیروکار تھے۔اکیسویں  صدی کے شروع میں یہ تعداد 21 اعشاریہ 6 فیصد ہو گئی۔2010میں مسلمانوں کی تعداد 23.4% ہو گئی۔بین الاقوامی مرکز اعداد شمار کا اندازہ ہے کہ 2030تک مسلمانوں کی آبادی 26.4 فیصد تک پہنچ جائے گی۔آئندہ چند دہائیوں میں یہ تعداد 30فیصد سے متجاوز ہو جائے گی۔ پیو سینٹر کی طرف سے 2011 میں شائع ہونے والی شماریاتی رپورٹ ان ویب سائٹ پر دستیاب ہے جس میں یہ اعداد شمار دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ مرکز دنیا میں مذاہب کا اہم شماریاتی مرکز ہے۔

برطانوی اخبار ٹائمز کی 3 نومبر 2006کی رپورٹ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اس کے مطابق  پادری رولینڈویسلبرگ نے جرمنی کے شہر ایرفرٹ کی آگسٹن خانقاہ میں خود کو آگ لگا لی تھی۔وہ اس وقت چیخ رہا تھا کہ مال کی وجہ سے یورپ مسلمان ہو رہا ہے۔

قرون وسطی کے مسیحی مذہبی مورخین کا بھی یہی رویہ رہا ہے وہ بھی اسلام کے پھیلاو کی ایسی وجوہات تراشتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔یہ لوگ اسلام قبول کرنے کی من چاہی وجوہات بیان کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اسلام قبول کرنےو الے کوئی زیادہ پڑھے لکھے لوگ نہیں تھے۔اسی طرح بہت سے لوگوں نے دنیا کی عیاشی اور مال کے لیے اسلام قبول کیا جس کی اسلام اجازت دیتا ہے۔

ایلن جان فوئیر، ڈرہم یونیورسٹی کے پروفیسر اور تاریخ کے ماہر ہیں وہ کہتے ہیں:اکثر مغربی مصنفیں بالخصوص مذہبی علما کسی بھی طورپر یہ قبول کرنے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتے کہ جن مسیحیوں نے اسلام قبول کیا اس کی وجہ اسلام کی اعلی تعلیمات  تھیں جن کی وجہ سے ان پر حقیقت واضح ہو گئی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی کوئی تعلیمات نہیں تھیں۔۔۔۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کمزور اور سادہ لوح لوگوں کو مذہب کی تبدیلی کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ جب پطرس نے بارہویں صدی کے وسط میں سینٹ برنارڈ سے کہا کہ وہ اسلام کی تردید کے لیے ایک منظم کتاب لکھے۔ اس نے نے لکھا کہ اگرچہ مسلمان جیت نہیں سکتے تاہم، یہ ضروری ہے کہ چرچ کے کمزور پیروکاروں کا خیال رکھا جائے۔انہیں جلد گمراہ کر لیا جاتا ہے،وہ لاشعوری طور پر اسلام کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں یا وہ کمزور دلائل سے متاثر ہو جاتے ہیں۔

وہ سمجھتا تھا کہ لوگ بس اسلام کی ظاہری دلکش صورت سے متاثر ہو جاتےہیں۔لہٰذا، تیرہویں صدی کے اوائل میں، جیمز آف ویتری نے زور دے کر کہا کہ کچھ عیسائیوں نے پیٹ، خلفشار اور دنیا لذتوں کے لیے اسلام قبول کیا، اسی صدی کے آخر میں، پدوا کے فرانسسکن ویڈینٹس نے دعویٰ کیا کہ کچھ صرف جسمانی لذت کے لیے اسلام کی طرف راغب ہوئے۔

ڈومینیکن آرڈر کے سربراہ ہمبرٹ آف رومانس نے مسیحیت کے سخت احکامات اور اسلام کی دنیاوی زندگی کی طرف آسانیوں کو مسیحیت سے اسلام کے قبول کی وجہ قرار دیا۔اس نے کہا کہ یہ احمق مسیحی تھے جنہوں نے محمد صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے دکھائے مسرتوں کے خوابوں کی وجہ سے اسلام قبول کیا۔

اسپین میں، تیرھویں صدی کے ٹولیڈو کے آرچ بشپ، روڈرک گیمنز ڈی راڈا نے  انہی کی طرح زور دے کر کہا کہ محمد صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کی دعوت ان لوگوں نے قبول کی جو حوس کے پجاری تھے۔کاسٹائل کے بادشاہ الفانسو ایکس نے دیکھا کہ کچھ لوگ اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کی چاہت میں مسلمان ہو گئے۔)لغربيون المتحولون الى الإسلام من أواخر القرن 11 الى أوائل القرن 15ترجمہ شدہ A. ڈاکٹر عبدالعزیز رمضان، کانز کے تاریخی میعاد میں شائع ہوا، سال 16، شمارہ 60، جون 2023، صفحہ 227-279۔(

آج تحقیق کریں تو پتہ چلے گا کہ مستشرقین کی بڑی تعداد کےذہنوں میں یہی شبہات ہیں اور بار بار ان کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اسلام ظلم و جبر کی بنیاد پر پھیلا۔مسلمانوں نے اسلام کے پھیلانے میں جبر سے کام لیا تاکہ لوگ اپنے مذہب کو چھوڑ کر مسلمان ہو جائیں۔یہ تک بھی کہا گیا کہ:اسلام تو تلوار کے ذریعے پھیلا ہے۔مستشرقین نے اسلام کے پھیلنے کی جووجوہات ذکر کی ہیں ان میں سے کوئی درست بھی یا نہیں؟اگر درست ہے تو کس حد تک درست ہے ہم اس مقالہ میں اس پر بات کریں گے۔

آج کی ترقی یافتہ دنیا میں یہ سب باتیں جھوٹ اور بہتان ثابت ہو چکی ہیں اور یہ ان کا جھوٹا ہونا واضح ہے۔ہم اسلام پھیلنے کے چند دلائل کا ذکر کریں گے پہلے ہم کچھ تاریخی شواہد ذکر کرتے ہیں:

اگر ہم لوگوں کے قبول اسلام کے مختلف واقعات کو تاریخ کی روشنی میں بیان کرنے لگیں تو بہت ہی دلچسپ مثالیں ہمارے سامنے آئیں گی۔جو بھی شام کے لوگوں کے قبول اسلام اور عیسائیت سے مذہب کی تبدیلی  کی وجہ جاننا چاہتا ہے۔اسے چاہیے کہ وہ صرف وہ ایک خط پڑھ لے جو حمص کے مسیحیوں نے عبیدۃ بن جراح کو لکھا تھا:آپ کی عادلانہ حکومت ہمیں ظلم و جبر کی حکومت سے زیادہ پسند ہے۔ہم آپ کے شہر پر حکمران کے ساتھ مل کر ہرقل سے مقابلہ کریں گے۔اس کے بعد ان مسیحیوں نے شہر کے دروازے اپنے رومی ہم عقیدہ مسیحی بھائیوں پر بند کر دیے۔البلاذري، فتوح البلدان، ص 187

جہاں تک مصر میں آرتھوڈوکس عیسائیوں کا تعلق ہے، انہوں نے اپنے رومن کیتھولک حکمرانوں سے اذیتوں اور بدسلوکیوں کو برداشت کیا۔مسیحی مورخین نے اسے بڑی تفصیل سے لکھا ہے سیوروس ابن المقفا نے اپنی کتاب (The History of Patriarchs) میں اس موضوع پر خوب لکھا ہے۔مصر کے لوگ بھی اس تحفظ اور انصاف سے بہت متاثر ہوئے جس کے سائے میں ان سے پہلے ان کے مسیحی بھائی شام میں آ چکے تھے۔ مسلمانوں نے ہی آرتھوڈوکس پوپ بنجمن کو اس کے اپنے ہم عقیدہ  کیتھولک مسیحیوں کے ظلم و ستم سے بچایا۔اس لیے وہ بھی مسلمانوں کی امان میں آ گئے اور ااپنے مسیحی بھائی کو ظلم و جبر سے انہوں نے نجات حاصل کر لی،یوں وہ اپنے چرچ میں عزت کے ساتھ رہنے لگے۔مسلمانوں کا یہی حسن سلوک تھا جس نے یروشلم کے گورنر کو نویں صدی میں قسطنطنیہ کے حاکم اپنے بھائی کو خط لکھنے پر واردار کیا۔اس خط میں اس نے عربوں کے بارے میں لکھا:وہ عدل میں ممتاز ہیں،ہم پر کسی صورت میں ظلم نہیں کرتے اور انہوں نے ہمارے خلاف کسی قسم  کا تشدد نہیں کیا۔)کتاب شمس العرب تسطع على الغرب، ص364.(

ایسا کیونکر نہ ہو،جب نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے:جس نے کسی معاہد(وہ مسیحی یا یہود جو مسلمانوں کے ملک میں رہتا ہے) پر ظلم کیا،اس کا حق چھینا،اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا،اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو میں قیامت کے دن اس کے حق میں فریاد کروں گا۔ ميزان الحكمة، ج ٣، ص٢١٤٧ یعنی میں روز محشر اس  مسلمان کا مخالفت ہوں گا۔

حضرت امیر المومنینؑ کا وہ فرمان بھی ضرب المثل ہے جو آپ نے  حاکم مصر کو لکھے گئے خط میں فرمایا تھا: رعایا کے لیے اپنے دل کے اندر رحم و رافت اور لطف و محبت کو جگہ دو۔ان کے لیے پھاڑ کھانے والا درندہ نہ بن جاؤ کہ انہیں نگل جانا غنیمت سمجھتے ہو۔اس لیے کہ رعایا میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک تو تمہارے دینی بھائی اور دوسرے تمہارے جیسی مخلوق خدا۔ ان کی لغزشیں بھی ہوں گی خطاؤں سے بھی انہیں سابقہ پڑے گا اور ان کے ہاتھوں سے جان بوجھ کریا بھولے چوکے سے غلطیاں بھی ہوں گی۔تم ان سے اسی طرح عفو و درگزر سے کام لینا۔ جس طرح اللہ سے اپنے لیے عفو و درگزر کو پسند کرتے ہو۔ اس لیے کہ تم ان پر حاکم ہو اور تمہارے اوپر تمہارا امام حاکم ہے۔اور جس امام نے تمہیں والی بنایا ہے اس کے اوپر اللہ ہے۔ نهج البلاغة، الرسالة: 53

اس طرح کے حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ اہل شام ومصر گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ان لوگوں نے اسلام کے نظام عدالت کو دیکھا اس سے پہلے ان لوگوں نے کسی قوم  کے پاس ایسے نظام عدالت کا مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ مؤرخ گستاو لی بون کہتے ہیں: بہت سے مسیحیوں نے اسلام کو قبول کر  لیا انہوں نے عربی کو بطور زبان اپنا لیا ۔اس کی وجہ اسلام کی انصاف پر مبنی اعلی اقدار تھیں جس کا مظاہرہ عرب فاتحین نے کیا اور یہ لوگ اس سے پہلے ایسے عدل انصاف سے واقف نہیں تھے۔ حضارة العرب، ص127

حضرت علی ؑنے اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی اور اسے پہچان لیا،اور فرمایا یہ میری زرہ ہے جو فلان دن گر گئی تھی،یہودی نے کہا کہ یہ میری زرہ ہے اور میرے قبضے میں ہے،لہذا میرا اور آپ کا فیصلہ مسلمانوں کا قاضی کر سکتا ہے،الغرض یہ دونوں قاضی شریح کی عدالت میں پہنچے،، اس یہودی کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا یہ میری زرہ ہے ! کیس کی شنوائی ہوئی اور فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا گیا۔اس کے بعد حضرت علیؑ نے زرہ یہودی کو دے دی ! اس یہودی نے کہا کہ آپ میرے کہنے سے قاضی کے پاس آئے اور اپنے خلاف فیصلے کو مان لیا،،یہ زرہ آپ کی ہے،آپ رکھ لیجئے،، اور میں اسلام قبول کرتا ہوں،، اس پر علیؑ نے کہا جب تم نے اسلام قبول کر لیا تو یہ زرہ بھی رکھ اور یہ گھوڑا بھی لے لو ! اور اس کا وظیفہ بھی مقرر کر دیا وہ آخرکار وہ جنگِ صفین میں شہید ہوا۔ موسوعة الإمام علي بن أبي طالب (ع) في الكتاب والسنة والتاريخ، ج ٤، ص٢٦٣، البداية والنهاية لابن كثير، ج8، ص5.

قتیبہ بن مسلم الباہلی کا اہل سمرقند کے ساتھ وہ قصہ بہت مشہور ہے یہ اس وقت کی بات ہے جب اہل سمر قند نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ قتیبہ بن مسلم الباہلی نے جب اسے فتح کرنے کا ارادہ کیا تو ان سے ایک معاہدہ کیا،ان سے جزیہ ادا کرنے پر صلح کی کہ وہ اپنے شہر کے دروازے ان پر کھول دیں وہ نماز پڑھیں گے اور نکل جائیں گے۔قتیبہ کا ارادہ کچھ اور تھا اور اس نے انہیں دھوکہ دیا اور شہر سے نہیں نکلا۔اس کی شکایت خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کوکی گئی اور اہل شہر نے خلیفہ سے انصاف اور اسلامی عدالت کے قیام کا مطالبہ کیا۔خلیفہ نے والی شہر سلیمان کے نام خط لکھا:اہل سمرقند نے قتیبہ کی ظلم و دھوکے کی شکایت کی ہے جو قتیبہ نے ان پر کیا اور ان کے شہر پر قبضہ کر لیا ہے۔جب تمہیں میرا خط ملےان کے لیے قاضی مقرر کرو،ان کا فیصلہ سنو،اگر قاضی اہل سمرقند کے حق میں فیصلہ کرے تو  عربوں کو  واپس چھاونی نکلنے کا حکم دو  جہاں وہ قتیبہ کے آنے سے پہلے تھے۔قاضی نے اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف فیصلہ دیا اور اسی شام غروب آفتاب سے پہلے مسلمانوں کا لشکر شہر سے نکل چکا تھا۔سمرقند کی فتح کا قصہ بہت مشہور ہے۔ )الكامل في التاريخ، ج4، ص327.(

یہاں تاریخ کچھ دیر کے لیے رک جاتی ہے اور پھٹی آنکھوں سے اس  دین کو دیکھتی ہے جس نے اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کیا۔یہ لوگ پروردگار کے اس قول کے مصداق ٹھہرے ارشاد پروردگار ہوتا ہے:

(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا  النساء: 13۵

۱۳۵۔ اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

اس ایک اسلامی  حکم کے عدالت سے نفاذ کا یہ اثر ہوا کہ اہل سمر قند گروہ درگروہ اسلام میں داخل ہو گئے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اسلام کی عدالت،انصاف اور حسن معاملہ کو دیکھاتھا۔

ٹومس ارنلڈ نے اپنی کتاب دعوت اسلامی میں اس طرح کے دسیوں واقعات لکھے ہیں۔اس نے برکہ خان جو کہ مشہور منگول  سردار تھا اس کے اسلام لانے کا قصہ لکھا ہے یہ تیرویں میلادی کا واقعہ ہے۔اس کے اسلام لانے کے سبب میں لکھا ہے کہ ایک دن اس کی ملاقات بخارا کے ایک تجارتی قافلے سے ہوئی۔اس نے دو تاجروں کو بلایا کہ ان سے وہ اسلام کی تعلیمات اور عقائد کے بارے میں پوچھ سکے۔انہوں نے زبردست اندا زمیں اسلام کی تفصیل بیان کی جس سے برکہ خان اسلام   قبول کرنےا ور اس کا جان نثار بننے پر مجبور ہو گیا۔عجیب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کے چھوٹے بھائی نے اسلام  قبول کرنے کا اعلان کیا۔برکہ خان نے بھی اس کی پیروی کو پسند کیا اور اسلام کو قبول کر لیا۔اس نے قبول اسلام کا اعلان کر دیا۔ الدعوة الى الإسلام، ص259

آرنلڈ نے  بڑی تفصیل سے یہ بات کی ہے کہ اسلام میں وجوب و فرائض کافی زیادہ ہیں۔اسلامی احکامات میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو لاپرواہ اور  غیر سنجیدہ لوگوں کے لیے انجام دینا بہت مشکل ہے۔اس حوالے سے اس نے سکاٹش نقاد تھامس کارلائل کا حوالہ دیا ہے وہ اسلام کے بارے میں کہتا ہے: یہ کوئی آسان مذہب نہیں ہے، کیونکہ اس میں مشکل روزے ، دقیق احکامات ہیں، پانچ وقت کی نماز، اور شراب نوشی سے پرہیز ہے، ان کافی ساری مشکلات کے ساتھ اسلام آسان مذہب نہیں بن سکتا۔آرنلڈ نے اس بارے میں تجزیہ کیا ہے کہ یہ اس نظریہ کی تردید کرتا ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہبی نظام ہے جو لوگوں کو اپنی ذاتی خوشیوں کی تسکین کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔لمصدر السابق، ص459

آرنلڈ ایک مسلمان قیدی کے ہاتھوں مشرقی یورپ میں اسلام کے پھیلاؤ کے بارے میں بتاتا ہے جسے بیڑیاں ڈال دی گئی تھیں۔اس نے بیڑیوں کا بوجھ اٹھا رکھا تھا اور ساتھ میں اسیری کی ذلت بھی تھی مگر یہ سب اسے تبلیغِ اسلام سے روک نہیں سکے: یہاں تک کہ ایک اسیر مسلمان بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے اغوا کاروں کو دعوت دیتا ہے وہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اصل میں یہ لوگ مذہب کی قید میں ہیں۔ مشرقی یورپ میں اسلام ابتدائی طور پر ایک مسلمان فقیہ کے اقدامات کی بدولت آیا جسے گیارہویں صدی کے آغاز میں اسیر کر کے پیچنیگ کے ملک میں لایا گیا تھا۔اس نے بہت سے لوگوں کو اسلام کی عظیم تعلیمات سے روشناس کرایا۔وہ لوگ  صدق دل سے مسلمان ہوئے،پھر اسلام ان لوگوں میں پھیلنے لگا۔المصدر السابق، ص453

یہی وجوہات ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے جب کوئی  منصف مزاج سچے دل سے اس بات کی تحقیق کرتا ہےکہ لوگوں نے قریہ قریہ شہر شہر اسلام کیوں قبول کیا تو اس کے سامنے اصلی اسباب کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔مشہور مؤرخ وال ڈیورنٹ نے درست کہا :ابتدائی دور کے مسلمانوں کی رواداری کی حکمت تھی جس وجہ سے وہاں کے مسیحیوں،تمام زرتشتیوں اور کافروں کی چھوٹی چھوٹی تعداد کو چھوڑ کر اکثریت نے اسلام قبول کر لیا۔اسلام نے سینکڑوں اقوام کے دلوں پر قبضہ کیا چین سے انڈونیشیا اور مراکش سے اندلس تک پھیل گیا۔اسلام نے ان لوگوں کی اخلاقیات کو تبدیل کیا اور ان کی زندگی  کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔اسلام ہی تھا جس نے ان کی زندگی سے مشکلات اور پریشانیوں کا خاتمہ کیا۔قصة الحضارة، ج13، ص133 

مشہور مفکر وال ڈیورنٹ اور دیگر کئی مفکرین نے اصل حقیقت کو درک کیا اور  اسلام کے بارے میں مسلسل پھیلائے گئے گمراہ کن پروپیگنڈے اور جھوٹ پر یقین نہیں کیا۔حقیقت میں اسلام فطرت سے ہم آہنگ مذہب ہے۔اسلام وہ مذہب جو دنیا  وآخرت میں کامیابی کی ضمانت دیتا ہے اس پر عمل کرنے سے ہی نعمتیں ملتی ہیں۔ارشاد ربانی ہوتا ہے:

(مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ)، النحل: 97

۹۷۔ جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے ۔

ان تمام حقائق کے روشن ہوجانے کے بعد بھی کوئی یہ کہے گا کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا؟یہ لوگ اس فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ سیاسی طور پر ملکوں کو فتح کر کے وہاں دین پہنچنے میں موجود رکاوٹیں دور کر دینے اور لوگوں کو جبرا ان کے دین  سے مسلمان کرنے میں فرق ہے۔مسلمان کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کو دین اسلام قبول کرنے پر جبر کر ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ قرآن مجید کے حکم کی واضح خلاف ورزی ہو گی۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

(لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)، البقرة: 256

۲۵۶۔ دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔

دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

(وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ)، يونس: 99

۹۹۔اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں؟

مصنف شیخ مقداد ربیعی ،محقق اور استاد حوزہ علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018