5 ذو القعدة 1445 هـ   13 مئی 2024 عيسوى 9:00 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  تتلی کے پر اوراعمال کا انجام
2024-04-28   219

تتلی کے پر اوراعمال کا انجام

گزشتہ صدی کے دوسرے نصف یعنی 1952 میں مشہور امریکی ادیب رائے براڈپیوری نے ایک مشہور کہانی "گرج کی آواز" کے عنوان سے تحریر کی۔ اس کہانی میں وہ ٹیکنالوجی کی ایسی پیشقدمی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جسے دنیا 2055 میں مشاہدہ کرے گی ۔ ٹیکنالوجی کی اس پیش قدمی کے ذریعے انسان اس قابل ہونگے کہ وہ زمانہ ماضی کی طرف سفر کرسکے، اس کہانی میں چند شکاری ماضی کا سفر کرتے ہوئے ڈائناسور کے زمانے میں پہنچ جاتے ہیں اور ان کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔

جب یہ گروہ ڈائناسور کے شکار میں ناکامی کے بعد واپس آتا ہے تو وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی دنیا میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں، لوگوں کا رہن سہن، ان کی زبان، ملک کی سیاسی قیادت سمیت ہر چیز تبدیل ہو چکی تھی، جب ان میں سے ایک نے اپنا جوتا اٹھایا تو اس نے دیکھا کہ اس نے اپنے سفر میں غلطی سے ایک تتلی کو مسل دیا تھا، ایک ایسی تتلی جو کئی ملین سالوں سے جی رہی تھی ۔

اس کہانی میں مصنف گویا یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ایک آزاد تتلی کی موت بھی اس قدر تبدیلی کا موجب بن سکتی ہے کہ لوگوں کی زبان اور رہن سہن سب بدل جائیں۔

اس کہانی میں رائی براڈپیوری اپنی بہترین ذھانت کے ذریعے صرف خیالی تصور پیش نہیں کر رہا بلکہ بعد میں سائنس نے اس خیال کی تصدیق کی، اور علم طبیعیات میں Chaos Theory کے لحاظ سے The Butterfly Effect کی اصطلاح باقاعدہ رائج ہوئی ،اس نظرئیے کو مشہور ریاضی دان ایدورڈ لارنس نے پیش کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے نظام میں رونما ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات بڑی تبدیلیوں میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایدورڈ نے بھی تتلی کی مثال کو استعمال کیا، وہ لکھتے ہیں کہ تتلی کے پروں کی حرکت سے طوفان تو نہیں آتے لیکن یہ فضا میں معمولی سی ارتعاش کا موجب بنتا ہے اور یہی معمولی ارتعاش طوفانوں کا رخ موڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس طریقے سے لورنس نے یہ نتیجہ نکالا کہ کہ ایسے واقعات کہ جو بظاہر ناچیز اور بے حیثیت نظر آتے ہیں وہ دنیا کے اس پیچیدہ نطام میں بہت بڑے واقعات کا سبب بن سکتے ہیں ۔

جس طرح انگریزی اور جاپانی محاورہ ہے کہ کیل نہ ہونے کی وجہ سے گھوڑے کی سم پر حٖفاظتی پٹی نہ چڑھائی جا سکی، اس پٹی کے نہ ہونے کی وجہ سے گھوڑا جنگ کے لئے تیار نہ ہو سکا ، گھوڑا نہ ہونے کی وجہ سے جنگجو آمادہ نہ ہو سکا، جنگجو نہ ہونے کی وجہ سے جنگ میں شکست ہوئی ،جنگ میں شکست کی وجہ سے ریاست ختم ہوئی، ان سب کے پیچھے جو چیز سبب بنی وہ ایک کیل کا نہ ہونا تھا ۔

بعض غیر اہم کام جو ہم یا دوسرے لوگ انجام دیتے ہیں اور ہماری نطر میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی اور نہ اس کا کوئی اثر دیکھائی دیتا ہے ،لیکن وہ بالاخر ہماری زندگی میں بہت اثر رکھتی ہیں، اس سلسلے میں ایک قرآنی مثال پر غور کرتے ہیں ، حضرت یوسف نے جب بادشاہ سے کہا کہ مجھے اپنی سلطنت کے خزانوں کا ذمہ دار بنائیں تو بادشاہ نے ان کی بات مان لی ، حالانکہ یہ ایک بہت بڑا عہدہ اور بہت بڑی ذمہ داری تھی جو یہ بادشاہ کے بعد دوسرا سب سے بڑا عہدہ شمار ہوتا تھا ، جیسے ہی یوسف نےکہا کہ )اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ( مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کریں کہ میں بلاشبہ خوب حفاظت کرنے والا، مہارت رکھنے والا ہوں ، بادشاہ نے بلا تردد یوسف کو اپنے خزانوں پر مقرر کیا ۔

لیکن اگر ہم حضرت یوسف کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات کی طرف توجہ کریں ،ان کے بھائیوں کا حسد میں مبتلاء ہونا ، یوسف کو کنویں میں پھیکنا ، ان کا مصر پہنچ جانا ، بازار میں فروخت کے لئے پیش کیا جانا ، عزیز مصر کا خریدنا ، عزیر مصر کے گھر یوسف کا بڑا ہو جانا، پھر عزیز مصر کی بیوی کا یوسف کے عشق میں مبتلاء ہو جانا ، یوں اس کے بعد کے سارے واقعات کا رونما ہونا جن کی وجہ سے حضرت یوسف کی پاکیزگی اور پاکدامنی کا سب کے سامنے واضح ہو جانا ، اگر بالترتیب انجام پانے والے یہ واقعات نہ ہوتے تو بادشاہ کے لئے یقینا بہت مشکل ہوتا کہ وہ اتنے بڑے عہدے کے لئے حضرت یوسف پر اعتماد کر سکے، حضرت یوسف کا علم و حکمت تو بادشاہ کے خواب کی تفسیر کے ذریعے سامنے آیا حلانکہ اس کی تعبیر سے بڑے بڑے علماء عاجز آچکے تھے ،جبکہ آپ کی پاکیزگی و پاکدامنی تب سب کے سامنے واضح ہوئی کہ جب حضرت یوسف نے زندان سے اس وقت تک باہر نکلنے سے انکار کیا کہ جب تک آپ کو زندان میں ڈالنے کا سبب بننے والی خواتین کو بلا کر ماجرا پوچھا نہ گیا ، تب ان خواتین نے یہ اعتراف کیا کہ ان کی غلطی تھی اور یوسف کا دامن مکمل طور پر صاف ہے ۔ یوں حضرت یوسف کی پاکدامنی اور بے گناہی سامنے آگئی ،

پھر دنیا نے دیکھا کہ یوسف کو خزانوں پر مقرر کرنے کے کتنے اچھے اثرات مرتب ہوئے، جس کے نتیجے میں آپ عزیز مصر قرار پائے ، یوں پورے مصر میں عظیم دینی تبدیلی پیدا ہوئی ، بادشاہ سے لیکر عام فرد تک ، مصر بت پرستی سے توحید کی طرف آگیا ۔ میرے خیال میں گر کھسوس پر طیبی بادشاہوں کا حملے نہ ہوتے تو مصر توحید کے تناور درخت کی چھاؤں میں باقی رہتا ، بہر حال یہ خدا کے فیصلے ہیں۔ 

ہم نے دیکھا کہ قرآن مجید نے حضرت یوسف کے جو واقعات بیان کئے ان میں سے ہر واقعہ آپ کی انفرادی زندگی کا ایک واقعہ ہے جس کے بارے میں کسی کا خیال یہ نہیں تھا کہ اس سے اتنی بری تبدیلیاں رونما ہو جائیں گی ۔ لیکن ان واقعات میں ہر واقعہ دوسرے واقعے کے رونما ہونے کا سبب بنا اور یہ واقعات ایک دوسرے سے جرے ہوئے ہیں۔

پس ہمیں گناہ کو کبھی چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے، کیونکہ معمولی گناہ بھی بالاخر بڑے گناہ کے لئے پیش خیمہ بنتے ہیں ، اللہ عز وجل فرماتا ہے: (وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا) اور پاکیزہ زمین میں سبزہ اپنے رب کے حکم سے نکلتا ہے اور خراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے، )الأعراف: 58(

تفسیر المیزان میں علامہ طباطبائی فرماتے ہیں : "ہر کام کے کرنے والے پر اس کام کا اثر ضرور ہوتا ہے ، اچھا کام ہے تو اچھا اثر اور برا کام ہے تو برا اثر، ارشاد باری تعالی ہے : (فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا

 وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ) ۔

اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا (الزلزال: 8)

علم تحلیل نفسی کے بانی کارل یونگ کہتے ہیں: "ہمارت اعمال ، افکار اور ہماری نیتیں ایک دن ضرور ہماری روحوں سے انتقام لیتی ہیں"

 (مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى)

جو ہدایت حاصل کرتا ہے وہ اپنے لیے ہدایت حاصل کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ اپنے ہی خلاف گمراہ ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا ، (الأسراء: 15)

بعض اوقات انسان اس مرحلے تک پہنچ جاتا ہے کہ انبیاء الہی جیسی ہستیوں کی جانب سے وعظ و نصیحت بھی اسے فائدہ نہیں دے سکتی ۔اللہ عزو جل کا فرمان ہے: (إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ)جب اسے ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے: یہ تو قصہ ہائے پارینہ ہیں۔ ( كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ) ہرگز نہیں! بلکہ ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ )المطففين: 13 ـ 14(

(فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ):پھر اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔ (أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ) یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے لہٰذا انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔(أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا) کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟ ،( محمد: 22 ـ 24)

پس ہمیں غفلت کی نیند سے بیدار ہونے اور خدا وند متعال کے حضور توبہ و استغفار کے ذریعے گزشتہ حالات کا کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ وہ دو امور ہیں جو نہ صرف ان برے اعمال کے اثر کو مٹا دیتے ہیں بلکہ ان برے اثرات کو کہ جن کے ہم مستحق ہو چکے ہوتے ہیں ، اچھے اثرات سے تبدیل بھی کر سکتے ہیں،جس طرح ارشاد باری تعالی ہے : (إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا)

مگر جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک عمل انجام دیا تو اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے اور اللہ تو بڑا غفور رحیم ہے۔ (الفرقان: 70)

شیخ مقداد الربیعی: محقق استاد حوزہ علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018