1 ذو القعدة 1445 هـ   9 مئی 2024 عيسوى 9:16 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-04-23   273

کتاب مقدس (بائبل) میں دنیا کی تصویر

دینی تعلیمات میں فکری تنقید کا دائرہ وسیع ہونے اور کلیسیا کی اجارہ داری محدود ہونے کے ساتھ  ہم نے علم آثار قدیمہ کے لئے بہت گنجائش نکلتے دیکھا ۔خصوصا کتاب مقدس کے بنیادی متون کی تحلیل و تحقیق ، اور آج کل کی اصلاح میں جو نقد اعلی یعنی گرینڈ کریٹیک کہ جس کا کام ہی دینی متون کی جڑیں تلاش کرنا اور ان کی تاریخ کے بارے میں جستجو کرنا ہے

اس علم کے لئے راستے کھلنے سے کتاب مقدس میں بشریت کے آغاز سے متعلق جو روایات مزکور ہیں ان کے حوالے سے جدید انکشافات کے راستے کھلتے گئے ۔

انہی رازوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تورات میں دنیا کے آغاز سے متعلق جو قصہ مزکور ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ مشرق وسطی میں آثار قدیمہ پر تحقیق سے ایسے ایسے حیران کن انکشافات ہوئے کہ جن کے بارے میں سائنسدانوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ مٹی کی تختیوں اور مختلف تاریخی نقوش نے یہ ثابت کیا کہ تورات کے قصوں میں کوئی چیز جدید نہیں ہے، بلکہ وہ پہلے سے موجود ان کہانیوں کی تشکیل نو تھیں کہ جو اس زمانے میں موجود بت پرستوں کی ثقافتوں میں رائج تھیں۔ خصوصا ما بین النہرین(جسے قدیم عراق کہا جاتا ہے ) میں آباد قومیں کہ جنہوں نے اس کائنات کے وجود کو بہت ہی سادہ اور ناقص طریقوں سے سمجھنے کی کوشش کہ تھی ۔

اشعار، قصوں اور دینی ترانوں کا جب مشاھدہ کیا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ ان قدیم قوموں کے ہاں رائج خرافات اور کتاب مقدس کے اسفار میں درج ان قصوں میں بہت حد تک مشابہت پائی جاتی ہے ۔

اسی لئے عہد قدیم میں زمیں کو مسطح ٹکیا سمجھا گیا جو کہ ستونوں پر قائم ہے، اس کے اوپر آسمانی قبہ ہے جو کہ ایک خیمے کی طرح ہے، کتاب مقدس میں جسے جلد سے تعبیر کی گئی ہے ۔ زمین ایک طرف سے کسی پہاڑ کا سہارہ لئے ہوئی ہے جبکہ دوسری طرف چاند کا سہارہ ہے، جیسا کہ شکل میں بھی دکھایا گیا ہے، اس آسمانی قبے کے اوپر پانی ہے جو کہ کبھی کبھار اس قبے سے رستا ہے اور بارش بن کر زمین پر گرتا ہے ،پس زمین پرجو بارش ہوتی ہے در اصل وہ آسمان کے اوپر موجود پانی کا رسنا ہے۔ اسی طرح زمین کے نیچے سمندر ہیں اور وہی سمندر اصل میں چشموں کے نکلنے کی وجہ ہے ،اور یہی زیر زمین سمندر شر کا منبع بھی ہے ۔

 

عہد قدیم نے اس مسئلے کی طرف کئی مقامات پر اشارہ کیا ہے (خدا نے کہا پانی کے درمیان جلد بن جاؤ اور مختلف پانیوں کو جدا جدا کر کے رکھو ، یوں اللہ نے جلد بنایا اور جلد کے اوپر والے پانیوں کو جلد کے نیچے والے پانیوں سے الگ رکھا ، اور ایسا ہی ہوا)

اس متن کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ خدا نے پانیوں کو جلد یعنی آسمان کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، جلد سے اوپر والا پانی اور نیچے والا پانی ۔ جون ھ، وولٹن اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ خلق کے ایام میں سے دوسرے دن کا آغاز ہوتا ہے ایک نئی باب سے ، یہ ان پانیوں کا باب ہے کہ جن میں سے جلد کے کچھ اوپر ہیں اور کچھ جلد کے نیچھے ہیں۔ زمانہ قدیم میں سب کا خیال یہی تھا کہ اوپر پانی ہیں، جو کہ کبھی نیچے گرتا بھی تھا ،اسی طرح ان کے نیچے بھی پانی ہے کہ جن سے ہم کنویں وغیرہ کھود کر پانی نکالتے ہیں ، اسی طرح چشمے بھی پھوٹتے ہیں۔

ان باتوں میں کوئی بھی جدید معلومات نہیں ہیں ، بلکہ اس نص میں قدیم دنیا کے لوگوں میں معروف انہی باتوں کی تکرار ہے ۔

The lost world of Adam and Eve .

عہد قدیم میں اس نظرئے کو بار بار ذکر کیا گیا ہے

مثلا مزمور 3/104:( چھت کے اوپر پانی ہے جس کے لئے بادلوں کو سواری بنایا ہے جو کہ ہوا کے دوش پر چلتے ہیں )

مزمور 4/148:(ایسے آسمانوں کا آسمان اس کی تسبیح کرو ،اور تم بھی اے آسمانوں کے اوپر موجود پانی )

اسی سلسلے الخلیفہ التاریخیہ للکتاب المقدس : العہد القدیم کے مؤلفین نے لکھا سفر ایوب 11_6/26 میں جو کائنات کی شکل و صورت بتائی گئی ہے وہ قدیم مشرق بعید میں رائج صورت ہی ہے کہ جس میں آسمان ایک قبہ ہے جو کہ زمین کے اوپر ہے اور یہ زمین محیط بدائی پر قائم ہے، اس محیط بدائی کے نیچے عالم سفلی جو تقریبا زمیں کے اوپر والی صورت کا عکسں ہے۔ یوں یہ کائنات ایک گیند کی طرح ہے جو زمین کے درمیان رکھی گئی ہے

معروف ناقد کائل گرینورڈ نے لکھا ہے کہ "قديم بنی اسرائیلیوں نے اس وقت جغرافیائی اعتبار سے اپنے قریبی اقوام کے جیسے ماحول میں زندگی گزاری تھی ، اس لئے یہ عجیب بات نہیں یے کہ توارت میں کائنات کے حوالے سے موجود معلومات اس وقت کے مشرق بعید میں رائج تصور کائنات سے بہت مشابہت رکھتا ہے ، کتاب مقدس ، قدیم ادب اور مشرق بعید کے ایقونات میں زمین کو گول کی بجائے ایک مسطح ٹکیا کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو سطونوں پر قائم ہے ، جس میں زمین نسبتا چھوٹا سا ٹکڑا ہے ، شیول یا مسکن اموات زمین کے نیچے ، اسی طرح ارض لا عودہ (جہاں سے واپسی نہیں ہوتی) اس کائنات کی دوسری طرف ہے جیسے آسمان ہے ۔ پھر قبہ یا خیمہ جیسی چیز جسے جلد کہا گیا ہے ، کے ذریعے آسمان دنیا کو آسمان علیا سے الگ کیا گیا ہے ۔ نچلے والے آسمان میں پرندے ، ستارے اور کہکشانیں ہیں ، جبکہ اوپر والے آسمان خدا اور ملائکہ کے لئے ہیں ۔

یہ پوری کائنات پانیوں گرا ہوا ہے , آسمان کے اوپر بھی ان سمندروں کو بند کیا گیا ہے ، جہاں سے پانی بارشوں کی شکل میں گرتا ہے ، اسی طرح زمین کے نیچے بھی سمندر ہیں جنہیں عمق بھی کہا جاتا ہے انہی سے چشمے، کنویں اور نہریں نکلتی ہیں ، یہی سمندر طغیانی  یا کم از کم ممکنہ طغیانی کا بھی موجب ہیں، اگرچہ ان باتوں کی تفصیل میں مصر، ما بین النہرین اور سوریا میں کچھ اختلاف بھی پایا جاتا ہے مگر بنیادی طور پر یہی نظریہ کائنات پورے مشرق بعید بھی رائج تھا ۔

Scripture and cosmology, p101_102

جہاں تک آسمان کے ستونوں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں سب سے اہم نص وہی ہے جو سفر ایوب 11/36میں آیا ہے (اس کے غضب سے آسمان کے ستونوں میں لرزش پیدا ہوتی ہے اور اس کے غصے سے کانپنے لگتے ہیں ۔ کتاب مقدس میں اس بات پر یہ تعلیق ہے " آسمان کے ستونوں کی تعداد 11 ہیں جو وہی پہاڑ ہیں کہ جن پر آسمان قائم ہے ۔

Eerdmans commentary on the Bible .p348

یہی بات ہو بہو مصری ثقافت میں بھی رائج تھی ۔مثلا ہم مصری حماسی ترانہ 3 میں پڑھتے ہیں " میں پوری زمین پر تمہاری دھاگ اور تمہارے خوف کو دوبارہ بحال کروں گا ، میں تمہارے دھاگ کو اس وقت تک برقرار رکھوں گا جب تک آسمان اپنے چاروں ستونوں پر کھڑا ہے "

Ancient Near Eastern Texst Relating to the Old Testament, p374

اسی طرح تمسیس ثانی کی حملات الاسیویہ لکھا ہے " میں سورج کی طرح چمکتا ہوں ، اور جس طرح آسمان اپنے ستونوں پر قائم ہے " Ibid , p240

جبکہ قرآن مجید کی کئی آیات مجیدہ میں اس نظرئے کی شدت سے نفی کی گئی ہے کہ آسمان کسی ستون پر قائم ہو ۔ جس طرح ارشاد رب العزت ہے

اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّکُمۡ تُوۡقِنُوۡنَ﴿۲﴾

 اللہ وہ ذات ہے جس نے آسمانوں کو تمہیں نظر آنے والے ستونوں کے بغیر بلند کیا پھر اس نے عرش پر سلطنت استوار کی اور سورج اور چاند کو مسخر کیا، ان میں سے ہر ایک مقررہ مدت کے لیے چل رہا ہے، وہی امور کی تدبیر کرتا ہے وہی نشانیوں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے شاید تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرو۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا وَ اَلۡقٰی فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ بِکُمۡ وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ؕ وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍ کَرِیۡمٍ﴿۱۰﴾

اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر پیدا کیا جو تمہیں نظر آئیں اور اس نے زمین میں پہاڑ گاڑ دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈگمگا نہ جائے اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس (زمین) میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگائے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018