26 شوال 1445 هـ   5 مئی 2024 عيسوى 12:01 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | عدالت |  انسانی آزادی اور تقدیر کا نظریہ... امر بین امرین
2024-04-23   197

انسانی آزادی اور تقدیر کا نظریہ... امر بین امرین

نویں صدی کے آخر میں جب شیخ محمد عبدہ اپنے استاد سید جمال الدین افغانی کے ساتھ پیرس میں رہ رہے تھے، اس وقت فرانس کے وزیر خارجہ ہانوتونےاسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کے عقیدہ قضا و قدر پر تنقید کی۔ فرانس کے وزیر خارجہ کے اس  تنقیدی بیان پر شیخ محمد عبدہ نے  صرف یہ کہہ کر جواب دیا کہ یہ عقیدہ صرف اسلام اور مسلمانوں کا نہیں ، بلکہ یہ تو تمام ادیان سماوی کے عقائد میں موجود ہے۔ ہم اس  مسئلے کو سمجھنے  اور اس کا حل ڈھونڈنے کے لئے یہاں تھوڑی دیر ٹھہر کر غور کرتے ہیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان اپنے خالق کے حکم سے ایک مقررہ  زندگی جی رہا ہے اور وہ اپنی اس زندگی کو جس طرح چاہے گزارنے کی آزادی بھی رکھتا ہے۔ لیکن یہ بات بظاہر عقیدہ "قضا و قدر" سے معارض ہے۔ قضا وقدر یعنی انسان کی زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے نصیب میں پہلے سے  لکھا ہوا ہے۔پس یہی بات انسان کو اس فکر تک پہنچاتی ہے کہ انسان اپنے کاموں میں مجبور ہے اور یہ کہ اس پر  اس کا اپنا کوئی اختیار نہیں۔اسی نکتے سے ہی  نظریہ جبر کے قائل مسلمانوں پر "ہانوتو" وغیرہ کا اشکال بھی واضح ہوجاتا ہے  کہ ان کے مطابق مسلمانوں کے ہاں عقیدہ "قدر" کا معنی یہ بنتا ہے کہ انسان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لکھ دیا گیا ہے اور اس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں۔  اور یہی نظریہ درحقیقت مسلمانوں کو بھی  سستی اور کاہلی میں مبتلا کرتا ہے  اور زندگی کی دوڑ میں عام لوگوں سے مسلمانوں کو پیچھے رکھنے  کا اہم سبب بھی یہی عقیدہ بنتا ہے۔!!

مسلمانوں کا ایک گروہ "اشاعرہ " درج ذیل بعض قرآنی آیات پر استناد کرتے ہوئے اپنی فہم  کے مطابق عقیدہ "قضا وقدر" کو پیش کرتا ہے:

(قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ)، التوبة: 51

کہدیجئے: اللہ نے جو ہمارے لیے مقدر فرمایا ہے اس کے سوا ہمیں کوئی حادثہ ہرگز پیش نہیں آتا وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنین کو چاہیے کہ اللہ پر بھروسہ کریں۔

(إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ) (القمر: 49)

ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے۔

پس! اللہ تعالیٰ ہی نے ہر چیز کو  ازل سے ہی مقدر میں لکھ دیا ہوا ہے۔

(سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا) (الأحزاب، آية 38).

جو (انبیاء) پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔

یعنی ہر کام کا فیصلہ ہوچکا ہوا ہے اور ہر حکم حتمی دیا ہوا ہے۔ جس کی  بہت سی مثالیں بھی  ہیں۔

اسی طرح  حدیث نبوی میں بھی ارشاد ہوا ہے  (إن الله عزوجل قدر المقادير ودبر التدابير قبل أن يخلق آدم بألفي عام) (كتاب التوحيد، باب القضاء والقدر ح22، 386.) اللہ تعالیٰ نے  حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے ہزار وںسال پہلے ہی ساری تقدیریں طے کی ہوئی ہیں اور ساری تدبیریں بھی مکمل کی ہوئی ہیں۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد ہوا ہے: (قدر الله المقادير قبل ان يخلق السموات والأرض بخمسين الف سنة) (. كتاب التوحيد، باب القضاء والقدر ح22، 386.) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے سے تقدیریں  طے کی ہوئی ہیں۔ تاہم  جب  ہم  اسی عقیدے کو علم الٰہی کے مظہر اور  وحی الٰہی کے ترجمان اہلبیت اطہار علیہم السلام کے کلام کے ذریعے  سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،  تو ہمیں ان اشکالات کا کافی و شافی جواب ملتا ہے کہ دینی نصوص میں وارد ہونے والا عقیدہ قضا و قدر وہ نہیں جسے اشاعرہ کے عقیدہ جبر کے قائل علماء نے سمجھا ہے۔ حتیٰ کہ عقیدہ قضا و قدر کا یہ مفہوم انسان کے فاعل مختار ہونے سے بھی معارض نہیں۔ کیونکہ کلام اہلبیت علیہم السلام کی روشنی میں عقیدہ قضا و قدر کا معنی یہ ہے کہ " اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کامل کے ذریعے سے وہ سب کچھ  لکھ دیا ہے جو انسان بعد میں اپنے ارادے اور اختیار سے کرے گا۔" اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وسیع علم میں یہ سب کچھ ہے کہ اس کے بندے اپنی مرضی سے کیا کریں گے۔ پس اللہ تعالیٰ اپنے اس علم وسیع کے ذریعے سے انسان کی زندگی میں انجام پانے والے وہ سب کام پہلے سے لکھ دے تو اسے کوئی جبر نہیں کہہ سکتے۔  اس کی مثال بالکل ویسی ہے بالفرض  آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ اپنے بچے کے سامنے دو قسم کے کھلونے رکھیں گے تو وہ ان دونوں میں سے کسے لے گا۔ پس ایسے میں اگر  آپ لکھ دیں کہ میرا بیٹا یہ والا کھلونا لے لے گا تو آپ نے بعد میں اس کے اختیار پر کوئی جبر نہیں کیا۔بلکہ یہ صرف آپ کی پیشگوئی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔  اسی طرح، جب اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ مثلاً زید اپنے ارادہ و اختیار سے ہند سے شادی کر لے گا اور یہ چیز اللہ تعالیٰ پہلے سے اس کی تقدیر میں لکھ دے تو اس کی تقدیر میں یہ لکھ دینا اللہ تعالیٰ کے علم سے متاخر ہے۔ پس اللہ کی طرف سے لکھی گئی تقدیر انسان کی آزادی اور انتخاب کے ساتھ متصادم نہیں ہے، بلکہ اس کے عین  مطابق ہوتا ہے۔ اور یہی بات اہل بیت علیہم السلام کے کلام میں بھی موجود ہے، جیسا کہ حدیث کی  کتب میں آیا ہے کہ جنگ صفین سے واپسی کے بعد ایک شخص نے امیر المومنین علیہ السلام سے قضاء و قدر کے بارے میں سوال کیا تو امیر المومنین علیہ السلام نے ان سارے باریک  نقاط ادر مسائل کا  ایک ایسا جامع  جواب دیا، جو اس عقیدے کے بارے میں پائے جانے والے  تمام  غلط تشریحات اور ناقص توجیہات کو دور کرتا ہے۔

چنانچہ شیخ صدوق ؒنے اپنی کتاب "توحید" میں ذکر کیا ہے کہ ایک عراقی شخص   امیر المؤمنین علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا: "شامیوں  کی طرف ہمارے  جانے کے بارے میں بتائیں کہ کیا یہ سب اللہ تعالیٰ کے قضاو قدر کے مطابق تھا ؟" امیر المؤمنین علیہ السلام نے جواب دیا: "ہاں، اے شیخ، اللہ کا قضاء اور قدر ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ تم نے کسی بھی پہاڑی کی بلندی پر چڑھتے ہوئے یا کسی وادی کی گہرائی  میں اترتے ہوئے صرف اللہ کے حکم اور قدر کے مطابق کام کیا ہے۔" شیخ نےکہا: " یا امیر المؤمنین ، میں اللہ کی قدرت پر اعتماد کرتا ہوں۔" امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: " اے شیخ، ذرا رکو!شاید تم قضاء اور قدر کو حتمی اور لازمی سمجھ رہے ہو! اگر یہ مسئلہ ایسے ہی  ہوتا تو ثواب اور عذاب کی باتیں ختم ہوجاتیں، اور امر و نہی اور تنبیہ کا معنی مٹ جاتا، اور وعدہ اور وعید کا معنی ساقط ہوجاتا۔ بُرائی کرنے والے کی مذمت نہ ہوتی اور نیکی کرنے والے کی تعریف نہ ہوتی۔بلکہ نیکی کرنے والا گناہ گار سے زیادہ مذمت کا سزاوار ہوتا اور گناہ گار نیکی کرنے والے سے زیادہ تعریف کے لائق ہوتا۔ یہ بُت پرستوں اور خدا کے دشمنوں کا نظریہ ہے۔ جو اس امت کے قدریہ اور مجوس ہیں۔ پھر امیر المؤمنین علیہ السلام  نے اپنی بات کو وضاحت کے ساتھ  جاری رکھتے ہوئے فرمایا: "اے شیخ، اللہ نے تمہیں اختیار دیا ہے، اور  ساتھ انتباہ  بھی کیا ہے، اور تمہارے قلیل اعمال کے مقابلے میں بہت کچھ عطا فرمایاہے،اگر کوئی بے اختیار گناہ کرے تو وہ گناہ نہیں اور کوئی مجبور اطاعت بھی کرے تو وہ اطاعت ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کسی چیز کو بے معنی نہیں بنایا۔

امیر المؤمنین کے جواب سے شیخ کی خوشی بہت ہی زیادہ ہو گئی اور قضاء و قدر کے اس دقیق مسئلے  کی تہہ سے پردہ اٹھانے پر امام علیہ السلام کی تعریف میں شعر کہہ دیا۔ امیر المؤمنین علیہ السلام نے واضح کیا کہ قضاء و قدر کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کے اعمال کو اس کے ارادہ یا انتخاب کے بغیر لکھ دیا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قدر کو اور قضاء کو اپنے علم کے مطابق لکھ دیا کہ انسان اس کو منتخب کرے گا۔ جب ہم آیات اور روایات کی طرف رجوع کرتے  ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی زیادہ توجہ سببیت کے نظام پر ہوتی ہے جو کہ تکوین کے نظام میں پھیلا ہوا ہے اور جس نے انسان ، کائنات، زندگی اور تمام عالم ممکنات سمیت  تمام موجودات  کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ یہ عمومی نظام یعنی "نظام سببیت" اللہ کی حکمت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔  جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث میں  بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: " أبى الله أن يجري الأشياء إلا بأسباب، فجعل لكل شئ سبباً.. الحديث "اللہ  تعالیٰ نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا  ہے کہ واقعات کو بغیر سبب کے ہونے دے، اُس نے ہر چیز کے لئے ایک سبب مختص کر دیا.."، تو وہ  ہرچیز اور ہر واقعہ کو جب بھی وجود میں لانا چاہتا ہے تو پہلے اس کا  ایک خاص سبب وجود میں لاتا ہے اور اس کے لئے اس سبب کی  ایک مخصوص تقدیر ہونا ضروری  ہے تاکہ اس کے وجود کا ثبوت ہو۔پس اس لحاظ سے  قدر کا مطلب ، کسی حادث معلول کے لئے سبب بننے والے ان اسباب کی حد معین کرنا  ہے۔ کہ جن اسباب کے حصول کے بعد لازمی طور پر اس حادث نے وجود میں آنا ہے۔ انسانی افعال کی طرح کسی بھی حادث کے وجود میں آنے کے بنیادی اسباب میں سے ایک فاعل"کام کرنے والے" کا ارادہ و اختیار ہے۔  پس جب انسان کسی کام کا ارادہ کرلیتا ہےتو وہ کام ہوجاتا ہے کہ  اللہ تعالیٰ  نے مطلوبہ اسباب کے پورا ہونے پر جس کے  واقع ہونے کو تقدیر میں لکھ دیا تھا۔

یہی نظریہ قضاء وقدر کی بنیاد ہے اور اسی بنیاد پر ہی  انسان کی آزادی و اختیار  مسٗلہ قضا وقدرکے درمیان  موجود تضاد کا مسئلہ حل ہوتا ہے ۔کیونکہ اس معنی میں قضا و قدر پر ایمان رکھنا اشاعرہ کے نظریے کی طرح،  انسانی افعال میں سستی اور لاچاری کا باعث نہیں بنتا، بلکہ اس سے تو انسان کو  فطری قوانین کے مطابق اپنی زندگی کے معاملات میں  مزید جدو جہد اور کوشش کرنے کی ہمت ملتی ہے۔

اس  حقیقت کو علماء نے بہت وضاحت اور صراحت  کے ساتھ بیان کیا ہے، جیسا کہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء فرماتے  ہیں: "اللہ تعالیٰ نے اپنے تختہ تکوین میں لکھ  دیا ہے کہ فلاں شخص اپنے اختیار سے فلاں  کام کرے گا، لیکن یہ تختہ تشریع میں نہیں لکھا نہ ہی اس کے اوپر لازم کیا کہ وہ ایسا کام ہر صورت کرے گا۔  ان دونوں باتوں میں فرق واضح ہے بلکہ آج کل تو علم نے اسے مزید آسان کر دیا ہے  اور یہ واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی چیز کا فقط  علم ہونا اس کے وجود میں آنے کے لئے کافی نہیں بلکہ اسے وجود میں لانے کے لئے اسباب و علل کا ایک سلسلہ درکار ہے ۔ پس صرف  عالم کے علم یا جاہل کے جہل کی وجہ سے کسی چیز کو وجود ملتا ہے نہ عدم"۔ (الدین والاسلام، ص 162)

شیخ مقداد ربیعی: استاد و محقق حوزہ علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018