24 شوال 1445 هـ   3 مئی 2024 عيسوى 5:03 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2024-04-18   82

پہاڑوں کی تشکیل سے متعلق قرآن کے بتائے گئے دو سائنسی حقائق

قرآن کریم کے حیرت انگیز معجزات میں سے ایک معجزہ ان دو الفاظ پر مشتمل ہے (نصب) و(ألقى) جو اگرچہ ایک ہی چیز سے مربوط ہیں تاہم مختلف مفہوم رکھتے ہیں، یعنی یہ دونوں الفاظ پہاڑوں کی تخلیق سے متعلق ہیں جیساکہ قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ میں: (وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ)، الغاشية: 19،"اور پہاڑوں کی طرف کہ وہ کیسے گاڑ دیے گئے ہیں؟ اور دوسری جگہ فرمایا : (وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ)، (النحل: 15.)اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو گاڑ دیا تاکہ زمین تمہیں لے کر ڈگمگ نہ جائے"

قرآنی اصطلاحات کا مطالعہ اور اس کا جدید سائنسی علوم سے موازنہ کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم میں الفاظ کا انتخاب کتنے بہتریں انداز میں ہوا ہے۔ جیساکہ علم ارضیات کے مطابق پہاڑوں کو ان کی ساخت کے طریقے کے مطابق تین اہم اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: ٹورسنل پہاڑ، بڑے اور پتھریلی پہاڑ، اور آتش فشاں پہاڑ۔ اور یہاں یہ بات واضح ہے کہ ٹورسنل اور بڑے پہاڑوں کی تشکیل (النصب) یعنی (گاڑنے) کے عمل ہوتی ہے، جبکہ آتش فشاں پہاڑ (الإلقاء) کے ذریعے بنتے ہیں۔

اونچے پہاڑوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔(أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ، وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ، وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ)، الغاشية: 18- 19 کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیے گئے ہیں؟ اور آسمان کی طرف کہ وہ کیسے اٹھایا گیا ہے ؟ اور پہاڑوں کی طرف کہ وہ کیسے گاڑ دیے گئے ہیں ؟ اس آیت مبارکہ میں ان پہاڑوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو ٹیکٹونک پلیٹوں کے ٹکرانے کے نتیجے میں یا فولٹ بلاکس کے بڑھنے کے نتیجے میں اونچے ہوجاتے ہیں۔(پس جیسے جیسے پلیٹیں آپس میں ٹکراتی رہیں گی، پہاڑ اونچے ہوتے جائیں گے)

جہاں تک آتش فشاں پہاڑوں کا تعلق ہے، تو جب کبھی آتش فشاں پھٹتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں زمین کے اندرونی حصے سےنکلنے والا مواد زمین کی تہہ میں جمع ہوجاتا ہے جو زمین کی بلندی کو بڑھانے کا سبب نبتاہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ)، (النحل: 15)اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو گاڑ دیا تاکہ زمین تمہیں لے کر ڈگمگا نہ جائے۔

ولیم کیمبل آتش فشاں پہاڑوں کی تشکیل کے بارے لکھتا ہے کہ : "آتش فشانی کے نیچے میں بننے والے پہاڑوں کی ایک اورقسم بھی ہے، جو زمین کے اندر سے لاوا اور راکھ پھینکتی ہے اور یہ زمیں کی سطح پرجمع ہوتی رہتی ہے جس سے ایک اونچا پہاڑ بن جاتا ہے۔" (The Quran and the Bible: In the Light of History and Science, p172)

قرآن کریم کی یہ اصطلاحات سائنسی تصورات کوان کی اس گہرائی اور درستگی کے ساتھ پیش کرنے کی مہارت کو ظاہر کرتی ہے جس کا تصور انسانی ذہن قرآن کے نزول کے دور میں بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اس علم تک رسائی انسان کی صدیوں تک تحقیق اور سائنسی ترقی کے  ذریعے ممکن ہوئی۔ لہٰذا اظہار کا یہ تنوع نہ صرف قرآن کریم کی معجزانہ نوعیت کا ثبوت ہے بلکہ لغت اور فطری حقیقت کے درمیان اس کے قطعی تعلق کا بھی ثبوت ہے جو اس وقت انسانی سمجھ سے بالاتر ہے۔

ایک اور سائنسی حقیقت جس کا تذکرہ سائنس سے پہلے قرآن کریم نے کیا وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے پہاڑوں کو بعض اوقات میخوں(أوتاد) سے متصف کیا (أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا) (النبأ: 6-7.) ترجمہ: ۔ کیا ہم نے زمین کو گہوارہ نہیں بنایا؟ اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا؟

بعض جگہوں پر "راسیہ" سے متصف کیا : (وَجَعَلْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ شَامِخَاتٍ)، (المرسلات: 27) ترجمہ: "اور ہم نے اس میں بلند پہاڑ گاڑ دیے اور ہم نے تمہیں شیرین پانی پلایا" اسی طرح اللہ تعالی فرماتا ہے: (وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ..)، الرعد:3 ترجمہ:" اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے"

 اور یہ ساری صفات ایک ہی معنی پر دلالت کرتی ہیں۔مثال کے طور پر جب جہاز پانی کے اوپر ہوتا ہے تو اس کا کچھ حصہ پانی کے نیچے اترتا ہے تاکہ استحکام کے لیے ضروری توازن حاصل کیا جا سکے۔ اسی طرح پہاڑ زمین کے اندر ایک ایسا کھونٹی ہے جو زمین کی سطح کے نیچے اپنے نچلے حصے کو سرایت کر کے خود کو مستحکم کرتی ہے۔

آج جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ زمین پر موجود پہاڑوں کی ایک خاص اہمیت ہے اور یہ زمین کی سطح میں بالکل میخوں یعنی کیلوں کی طرح گڑے ہوئے ہیں، یہ دریافت حیرت انگیز طور پر قرآنی وضاحت اور اصطلاحات کی درستگی کی گواہی دیتی ہے۔، ماہر ارضیات سائمن لیمب کہتا ہے کہ : ”یہ دریافت کہ پہاڑ زمین میں گہری جڑیں رکھتے ہیں، انیسویں صدی کی سب سے بڑی ارضیاتی دریافتوں میں سے ایک تھی"Violent Earth, p46

امریکی ماہر ارضیات ایلڈریج، ایم۔ مورز، اور رابرٹ جے. Twiss نے اپنی کتاب (Tectonics) میں زمین کی جڑوں کی تشکیل کے عنوان سے لکھا ہے کہ: "پہاڑ کی جڑیں زمین کی پرت کی عام موٹائی سے بڑی ہیں جو دنیا کے تمام براعظمی پہاڑی پٹیوں کو سہارا دیتی ہیں۔ درحقیقت، پہاڑوں کی اونچی شکل زمین کی پرت کی موٹائی میں دستیاب آئیسوسٹیٹک سپورٹ کی وجہ سے موجود ہے، ۔ Tectonics, p234

 پہاڑوں کی جڑوں کے بارے میں ایک حقیقت کا انکشاف ماہر فلکیات جارج ایری نے کیا، وہ کہتا ہے کہ پہاڑ کی جڑیں زمین کے بھیلاؤ اور اپنی لمبی جڑوں کو مینٹل کی تہہ میں سرایت کر کے خود کو مستحکم کرتی ہے جو ان کی اونچائی کے براہ راست متناسب ہو۔ زمین کی اس پرت کو سائنسی طور پر isostasy کے نام سے جانا جاتا ہے۔

 

اوپر بیان کردہ سانسی حقائق نے یہ واضح کردیا کہ قرآن کریم کے بارے میں امیر المومنین علیہ ٰالسلام کا یہ قول کس قدر سچا تھا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: "اصْطَفَى اللَّه تَعَالَى مَنْهَجَه وبَيَّنَ حُجَجَه - مِنْ ظَاهِرِ عِلْمٍ وبَاطِنِ حُكْمٍ - لَا تَفْنَى غَرَائِبُه ولَا تَنْقَضِي عَجَائِبُه. (نهج البلاغة، ص، 212، ترجمہ:اس کی راہ کو اللہ نے تمہارے لئے چن لیا ہے اور اس کے کھلے ہوئے احکام اور چھپی ہوئی حکمتوں سے اس کے دلائل واضح کر دئیے ہیں۔ نہ اس کے عجائبات مٹنے والے ہیں

شیخ مقداد الربیعی – مدرس و محقق حوزہ علمیہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018