ملحدین اور اخلاقیات:کیا الحاد میں اخلاق ممکن ہے؟
الحاد کی دنیا میں اخلاقیات کی تلاش ایک سراب کی پیروی کے مترادف ہے،کسی ما فوق طاقت پر ایمان رکھےبغیر اخلاق کی بنیادیںڈھونڈنا ایسا ہی ہے جیسے شدید دھندمیں سورج کی کرنیں تلاش کر رہے ہوں۔
اپنے تازہ ترین اور سب سے شاندار ناول (The Story of the Brothers Karamazov) میں فیوڈور دوستوفسکی کہتا ہے: ’’اگر خدا نہ ہو تو سب کچھ جائز ہے‘‘انگریز فلسفی اور مفکر جان نے اس سے پہلے یہی بات کی تھی۔جو لوگ خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں ان کے نزدیک وعدہ، عہد اور قسم وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں چونکہ یہ انسانی معاشرے کے بندھن اورا قدار ہیں اور ملحد کسی معاشرتی قدر کا پاسدار نہیں ہوتا!! خدا کے انکارکا خیال ہی تمام اقدار اور بندھنوں کو ختم کر دیتا ہے۔"(رسالة في التسامح، ص 57)
جان لاک کی باتوں کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں، ہم اپنی نجی زندگی میں کچھ چیزوں کے عادی ہوتے ہیں، ہم فلموں اور سیریز میں بھی دیکھتے ہیں جب جج کے سامنے کسی ملزم کو لایا جاتا ہے تو جج اس کی بات سننے سے پہلے حلف لیتے ہیں تاکہ وہ جو بات کرے وہ قابل اعتبار ٹھہرے۔اب یہاں ملحد اپنے آپ سے شرمندہ ہوتا ہے وہ کسی غیر مادی وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتا جس کی قسم اٹھائے۔اب اس وقت صورتحال یقینا بڑی عجیب ہو جائے گی جب ایک ملحد عدالت میں کھڑا ہوا اور اسے کہا جائے کہ حلف دو،تو ایسی صورت میں وہ کس چیز کا حلف اٹھائے گا اور جس کے بعد اگر وہ غلط کہے تو اس کی مذمت کی جا سکے یا کم از کم اسے ندامت محسوس ہو؟!!
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایک شخص مظلوم ہے اور اس پر ظلم ہو رہا ہے اب کونسی چیز ملحد کو واردار کرے گی کہ اس کی مدد کرے یا اگر یہ ظلم کرنے والا خود ملحد ہے تو پھر وہ کیونکر رکے گا؟؟یہ مظلوم یتیم،نابالغ او ربے سہارا بچی ہی کیوں نہ ہو؟یعنی کونسی قوت ہو گی جو کسی ملحد کو جرم سے چھٹکارا پانے میں مدد کرتی ہے؟
یہ ایسی صورتحال ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک ملحد کے سامنے اخلاق و امانت بے معنی چیزیں ہو جاتی ہیں اور اس کی جگہ شخصی مفاد لے لیتا ہے اور وہ مفاد پرستی کے چنگل میں پھنس جاتا ہے بس یہ دیکھتا ہے کہ کہاں سے زیادہ فائدہ مل رہا ہے؟
یہ بات ہو سکتی ہے کہ ممکن ہے کوئی مذہبی شخص بھی جھوٹی گواہی دے دے مگر یہاں بھی ایک ملحد اور ایک مذہبی شخص میں فرق رہے گا کہ مذہبی شخص کا ضمیر کم از کم اس کی مخالفت کرے گا اور اسے اس سے باز رکھنے کی کوشش کرے گا۔یہی ضمیر اس کے مذہبی خمیر کا نتیجہ ہے۔ایک مسلمان اللہ تعالی کی کتاب میں اللہ کا یہ قول پڑھتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا النساء: 58
۵۸۔بے شک اللہ تم لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کر دو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اللہ تمہیں مناسب ترین نصیحت کرتا ہے، یقینا اللہ تو ہر بات کو خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
ایک مسلمان جب یہ سنتا ہے کہ نبی اکرمﷺ جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر کے جانے لگے تو امیر المومنین حضرت علیؑ کو مکہ میں چھوڑا اور ارشاد فرمایا کہ لوگوں کی امانتیں انہیں واپس کر دو۔حالانکہ یہ امانتیں مشرکین کی تھیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اصل بات امانت کو واپس کرنا ہے۔امام زین العابدینؑ فرماتے ہیں:"تمہارے لیے ضروری ہے کہ امانت کو ادا کرو،اس کی قسم جس نے محمدﷺ کو حق کے ساتھ نبی بنایااگر میرے پاس میرے بابا حسین بن علیؑ کو قتل کرنے والا وہ تلوار امانت رکھے جس سے اس نے انہیں قتل کیا تھا تو میں اسے یہ واپس کروں گا" أمالي الصدوق، ص148 یہ پڑھنے کے بعد کسی اہل مذہب کا ضمیر اسے امانت میں خیانت کی اجازت نہیں دیتا۔ایسی احادیث بتاتی ہیں کہ ایک دینی شخص زندہ ضمیر رکھتا ہے اور برائی پر اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے۔
اس مثال میں بھی ذکر ہوا،اس کے علاوہ قرآن میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(يَا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا) النساء 135
۱۳۵۔ اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔
آیت کسی قسم کی شرح کی محتاج نہیں ہے۔ ہارورڈ لاء سکول کے منتظمین نے اسے انسانی تاریخ میں انصاف کے عظیم ترین بیانات میں سے ایک سمجھا!! انہوں نے اسے داخلی دروازے کی دیوار پر کندہ کاری کے لیے منتخب کیا۔