17 شوال 1445 هـ   26 اپریل 2024 عيسوى 10:42 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2023-02-20   643

(دلیل تمانع) یعنی ربوبیت میں اللہ کا کوئی شریک نہیں

خدا کے وجود کا انکار کرنے والوں کے علاوہ تمام مواحدین اور دیگر اقوام و ملل کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ کائنات کے ایک صاحب قدرت خالق کا وجود ہے اس لحاظ سےقرآن کریم کی آیات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اختلاف فقط اس اعتقاد میں پوشیدہ ہے کہ کائنات کے حقیقی خالق اور مصنوعی معبودوں کے درمیان جنکا یہ اعتقاد رکھتے ہیں شراکت موجو د ہے یا نہیں ؟

اور اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ لوگ اللہ کے وجود کے مطلقا انکاری ہیں اس لئے قرآن کریم میں صرف مسئلہ توحید کو بیان کیا گیا اور اسی پر ادلہ پیش کی گئی (یعنی قرآن نے وجود صانع کی بجائے وحدانیت پر زور دیا ہے ) اور قرآن مجید میں غور و فکر کرنے والا وحدانیت پر دلیلوں کے مختلف اسلوب پاتا ہے اور جن دلیلوں پر قرآن نے اعتماد کیا ہے ان میں سے ایک دلیل تمانع یا تَغَالُب ہے اور اس دلیل کا تذکرہ مسلمانوں کے تمام شعبہ جات میں کیا گیا ہے کیونکہ یہ انکی کتب تفسیری اور اسلامی فلسفہ میں پائی جاتی ہے ۔

ابتدا میں ہی اس بات کی طرف اشارہ کر دیں کہ تمانع کا مطلب ہے منع کرنا یا روکنا جو عطا کرنے کے مقابل ہے پس کہا جاتا ہے کہ میں نے اسکو فلاں شی سے روکا یعنی میں اس فرد اور اسکے ارادوں کے درمیان حائل ہوگیا یا رکاوٹ بن گیا یہاں سے لغوی اور اصطلاحی معنی میں مناسبت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کہ تمانع یعنی رکاوٹ دو خداؤں کے ارادوں کے درمیان حاصل ہوتی ہے اور اسکا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک کے درمیان حائل ہو کر دونوں کو انکے ارادے تک پہنچنے سے مانع بن سکے ۔

مثلا فرض کریں کہ صاحب ارادہ اور قادر خالق ہیں تو انکی ذات میں اختلاف اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دونوں اپنے ارادوں میں بھی مختلف ہیں اور جب ہم یہ فرض کریں کہ انکا اختلاف  ایک شی کو عدم سے وجود میں لانے میں ہے تو یہاں  تمانع حاصل ہو گا  کیونکہ معاملہ تین حال سے خالی نہیں ہو گا

یا تو دونوں کا ارادہ  وجود میں آئے گا اس طرح کہ ایک اس شی کو وجود دینے کا ارادہ  کرتا ہے اور دوسرا  اسکے عدم کا ارادہ کرتا ہے یہاں دو نقیضوں کا اجتماع لازم آئے گا  کیونکہ ایک ہی وقت میں ایک عدم سے وجود چاہتا ہے اور دوسرا عدم

یا دونوں کاارادہ  حاصل نہ ہو گا اس صورت میں  ارتفاع نقیضین لازم آئے گا  کیونکہ واقع میں  وجود و عدم میں کسی ایک کا ہونا ضروری ہے ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہو بھی اور نہ بھی ہو

یا دونوں میں سے ایک کا ارادہ وجود میں آئے دوسرے کا نہیں تو اس صورت میں خلف لازم آئے گا یعنی فرض ہی کیا گیا تھا کہ دونوں صاحب ارادہ اور قادر ہیں جبکہ ارادہ ایک کا حاصل ہوا جس سے دونوں میں ایک کا عاجز ہونا ظاہر ہوا

اور اس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ  متعدد معبودوں کو فرض کرنا نا ممکن ہے ۔

اور یہ یہ فرض کیا جائے کہ قادر و صاحب ارادہ خدا ہوں اور دونوں ایک جیسا ارادہ کریں تو پہلی نظر میں یہ بڑی معقول بات لگتی ہے لیکن اس میں بھی مناقشہ ہے اور اس کے رد میں فقط دلیل تمانع ہی کافی ہے کیونکہ ان دونوں کا اختلاف ضروری ہے چاہئے ایک حالت کے متعلق ہی ہو

یہاں ایک اور سوال جنم لینا ہے کہ دو قادر و مرید خداؤں جو ایک دوسرے سے سو فیصد موافق ہوں انکے وجود کی کیا ضرورت ہے ؟ اس چیز کو فرض کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟

حقیقت یہ ہے کہ یہ دلیل علماء نے  قرآن مجید کے ارشادات ربانی سے لی ہے جس کا مضمون  بہت ساری آیات میں پایا جاتا ہے

 اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہر معبود اپنی مخلوقات کو لے کر جدا ہو جاتا اور ایک دوسرے پر چڑھائی کر دیتا، اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔(مومنون/91)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں دو معبودوں کے وجود کو فرض کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو اس کے لیے مخصوص کیا جائے اور اس طرح ان کے درمیان تصادم ہوتا ہے یہاں تک کہ ان میں سے ایک دوسرے سے برتر ہو جاتا ہے۔ شاید سب سے واضح قرآنی نصوص میں اس ثبوت کا مواد موجود ہے  وہ یہ ہے

( لوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلاَّ اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ)

 اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا معبود ہوتے تو دونوں (کے نظام) درہم برہم ہو جاتے، پس پاک ہے اللہ، رب عرش ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں (انبیاء /22)

اس آیت پر غور کرنے والا یہ دیکھے گا کہ یہ دو مسائل کا مرکب ہے: پہلا: یہ کہ خداؤں کی کثرت سے فساد کا ہونا ضروری ہے، اور دوسرا: زمین و آسمان میں کوئی فساد نہیں ہے، اور یہی وہ چیز ہے۔ جب ہم کائنات میں غور و فکر کی طرف لوٹتے ہیں تو ہم دیکھتے کہ ہمیں اس کی حرکت میں ایک نازک توازن اور ہم آہنگی نظر آتی ہے (اور یہی نظم و ضبط اور فساد کا نہ ہونا دلیل ہے کہ خدا ایک ہے )

اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ کائاتی نظام سے حاصل ہوا ہے اس میں قرآن مجید نے عوام الناس کے مشاہدات پر اعتماد کیا ہے اور ان مشاہدات کی بجائے انکی ملزوم کو ذکر کیا ہے  اس بنا پر دلیل کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس بات کا اقرار کرنے کے بعد کہ کائناتی نظام میں فساد نہیں ہے لہذا اللہ ایک ہے وگرنہ اگر متعدد ہوتے تو ہر گز یہ توازن اور تمام اجزاء میں ہم آہنگی نہ ہوتی۔

مزید اس استدلال تو کامل کرنے کے لئے درج ذیل نکات پر غور کرتے ہیں :

اولا:اللہ کی کتاب لوگوں کے درمیان معروف مسئلہ کی حکایت کرتی ہے کہ وہ لوگ ربوبیت میں اللہ کا شریک قرار دیتے تھے اس سے ان اعترضات کا جواب بھی ہو جاتا ہے کہ ( بعض کہتے ہیں کہ )یہ دلیل (تمانع) اللہ کو واجب الوجود ثابت نہیں کرتی او ریہ دلیل  اللہ کی ذات پر برہان  کو تام نہیں کرتی  (انکا جواب بھی یہاں واضح ہو جاتا ہے )کیونکہ  اسکی زیادہ سے زیادہ دلالت اس بات پر ہے کہ ربوبیت میں اسکا کوئی شریک نہیں اور اسکی کے ذیل میں یہ بات بھی جیساکہ علم کلام میں معروف ہے کہ ربوبیت میں شریک کی نفی یعنی اس کائنات میں مدبر فقط ایک ذات ہے اور تدبیر اسی میں منحصر ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں

ثانیا: آیت کریمہ میں جس فساد اور عدم توازن کا ذکر کیا گیا ہے اس کا وہ مطلب یہ نہیں ہے جسے قدرتی برائیاں کہا جاتا ہے، جیسے زلزلے اور آتش فشاں،یہاں تک کہ یہ کہا جائے  کہ زمین میں فساد ہونا بدیھی ہے ، کیونکہ دلیل تمانع اس موضوع پر اصلا گفتگو ہی نہیں کرتی نہ یہ اسکا محل کلام ہے ۔

ثالثا: اس موضوع کی تفصیل علم الٰہیات اور اسلامی فلسفہ کی کتابوں میں  دیکھی جا سکتی ہے جب ان میں یہ بیان سامنے آتا ہے کہ وجود کا بنانے والا  ایک ہے، یا یہ بحث کہ اس کا کوئی شریک نہیں، مزید سورہ انبیاء کی اسی آیت کے متعلق مکتلف تفاسیر کا جائزہ لیں۔

ممکن ہو تو شیخ طوسی کی التبیان ، شیخ طبرسی کی مجمع البیان ،فخر الدین رازی کی تفسیر الکبیر،اور دیگر تفاسیر جن میں کلامی پہلو سے گفتگو کی گئی ہے نیز تفسیر میزان طباطبائی اور روح المعانی آلوسی کی کچھ حد تک فلسفی تفاسیر کو دیکھیں ،علم النحو کی کتب میں حرف استثناء کی بحثوں میں اس کا ذکر ملے گا او ربلاغت کی کتب میں سعد الدین تفتازانی کی شرح مختصر المعانی جیسے شرح عروس الافراح یہ سب دیکھی جا سکتی ہیں ۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ دلیل تمانع  کی اصل قرآنی ہے اس علوم کے ماہرین نے اپنی تحقیقات میں اس پر اعتماد کیا ہے اس کا خلاصہ یہ بنتا کہ ہے متعدد خدا ہونا  ممتنع ہے۔ قرآن نے بھی اس دلیل کو بیان کرنے میں دو مقدمات پر اعتماد کیا ہے اول یہ کہ زمین و آسان میں اختلال جیسا کوئی فساد نہیں پایا جاتا دوسرا یہ کہ اس سے یہ کشف ہوتا ہے کہ خدا ایک ہی ہے اگر متعدد ہوتے تو ارداوں کے تعارض اور تدبیر میں اختلاف جیسے امور کی وجہ ہے نظام درہم برہم ہو جاتا ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018