4 جمادي الثاني 1446 هـ   6 دسمبر 2024 عيسوى 4:27 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | قیامت |  معاد کے اثبات کے دلائل
2023-01-05   921

معاد کے اثبات کے دلائل

کوئی سوال کرنے والا پوچھ سکتا ہے کہ وہ کون سے دلائل ہیں جن کے ذریعے معاد کو ثابت کیا جاسکتا ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے دلائل قطعیہ اور براہین محکمہ سے مسئلہ معاد اور انسانوں کو موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے مسئلے کو ثابت کیا ہے اور اسے ان واقعی حوادث اور واقعات میں سے قرار دیا ہے جن کا خلاف رونما نہیں ہوسکتا ۔ قرآن کریم نے اس مسئلے کو ثابت کرنے کے لئے درجہ ذیل طریقوں پر اعتماد کیا ہے ۔

معاد خلقت کا راز

وہ سوالات اور ہیجانات جو انسانی فکر کو جھنجوڑتے ہیں اور انسان کو زور دیتے ہیں ، اس کا ہمیشہ تعاقب کرتے ہیں ان میں سے ایک سوال اس کی اصل خلقت اور اس کے ہدف کا ہے اور یہ کہ اس کی خلقت میں کیا ارادہ کیا گیا ہے ؟ وہ چیز جو کائنات کی خلقت خاص طور سے انسان کی تخلیق کا مقصد اور اس کی غرض بتاسکتی ہے اور اس عالم کے لئے ہدف و غرض قرار دے سکتی ہے کہ جو عقلائی لحاظ سے قابل فہم بھی ہو وہ انسان اور کائنات کی ساری جزئی اور ذرات تک کے حوالے سے معاد پر عقیدے کا مسئلہ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ یہ کائنات ایک اور عالم میں بدل جائے گی جو اس سے کہیں زیادہ افضل اور کامل ہوگی ۔ تو پس انسان کی خلقت اور اس کا وجود اس عالم ارضی میں اسلئے ہے کہ وہ ایک اور مکمل تخلیق کے لئے مناسب زمینی صلاحیت تیار کرے جو انسان اور کائنات کی تخلیق کا ہدف ہے اور اگر عالم خلق کا یہ ہدف نہ ہو تو یہ عظیم کائنات کہ جس میں انسان بہت مختصر عمر اور چند سال جو گذار رہا ہے  یہ سب ایک عبث فعل کہلاتا ہے کہ جس کا کوئی فائدہ نہیں اور ایسے میں فعل خدا وند سبحانہ و تعالی کا حکمت سے خالی ہونا لازم آئے گا جو کہ عقلا باطل ہے ۔ لہذا ماننا پڑے گا کہ خدا کے اس فعل کا ایک ہدف اور غرض ہے اور وہ اس سے بھی کامل اور افضل عالم کا وجود ہے جو روز آخرت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں مسئلہ معاد کی وضاحت کائنات کی تخلیق کے ہدف کو دلیل بنا کر کی گئی ہے ۔ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق سے معاد کے مسئلے کو ہٹایا دیا جائے تو اس کا وہ طلائی صفحہ مٹ جاتا ہے اور ایسے میں یہ ایک بے کار کتاب کے مانند ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ وہ آیات جو کائنات کی تخلیق کے اس مقصد پر دلالت کرتی ہیں ان کو دو گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

پہلا گروہ : وہ آیا ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ معاد کے انکار کا لازمہ، تخلیق کا عبث ہونا ہے ۔

دوسرا گروہ : وہ آیات ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے یہ کائنات بالحق خلق اور ایجاد فرمایا ہے جس میں باطل کو کوئی راہ نہیں ملتی ۔

یہاں ہم پہلے گروہ کی آیات کے دو نمونے ذکر کرتے ہیں ۔

أ ۔ وہ آیات جو بتادیتی ہیں کہ انسان اور کائنات کی خلقت ایک عبث فعل نہیں ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوا :

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّما خَلَقْناكُمْ عَبَثاً وَأَنَّكُمْ إِلَيْنا لا تُرْجَعُونَ))(سورة المؤمنون ـ 115)

ترجمہ : تو کیا تم سمجھتے تھے کہ ہم نے تم کو بےکار پیدا کیا اور یہ کہ تم ہماری طرف پلٹ کر نہیں آؤگے

اور دوسری آیت میں قرآن کریم اللہ سبحانہ و تعالی کو ہر قسم کے نقص و عیب  سے منزہ بیان فرماتا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :

((فَتَعالَى اللّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لا إِلهَ إِلاّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَريمِ))( سورة المؤمنون ـ 116). ترجمہ:تو بلند ہے اللہ جو حقیقی سلطنت کا مالک ہے کوئی خدا نہیں سوا اس کے وہ جو بزرگ مرتبہ عرش کا مالک ہے ۔

کچھ اور آیات ہیں جن میں اللہ تعالی نے اسی گذشتہ حقیقت پر تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے :

 وَما خَلَقْنَا السَّماواتِ وَالأَرْضَ وَما بَيْنَهُما لاعِبينَ (38) ما خَلَقْناهُما إِلاّ بِالْحَقّ وَلكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لا يَعْلَمُونَ (29) إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعينَ(40))(سورة الدخان ـ 38 ـ 40)

ترجمہ: اور ہم نے نہیں  پیدا کیا آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو بے کار تفریحی طور پر ، ہم نے انہیں پیدا نہیں کیا مگر حق بجانب طور پر لیکن ان میں کے زیادہ لوگ علم نہیں رکھتے ، یقیقنا فیصلے کا دن ان سب کا مقرر شدہ وقت ہے ۔

ب ۔ حق مطلق کا لازمہ یہ ہے کہ فعل خدا کا ہدف ہے ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں آیا ہے کہ معاد تخلیق کا راز ہے اور معاد ہی سے فعل خدا کے حامل ہدف ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ یوں ایک اور انداز سے فعل خدا کے لغو ہونے سے خارج کیا ہے۔ اور وہ برہان یہ ہے:  بتحقیق اللہ سبحانہ و تعالی حق مطلق ہے اس کی ذات ، صفات اور افعال میں باطل کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ پس جو کوئی ایسی جامع صفات اور حق مطلق سے متصف ہو، لازمی ہے کہ اس کا فعل بھی ہدف رکھتا ہو اور اس نے اپنی مخلوق کی خلقت میں اپنی حکمت مطلقہ کے تحت ایک ہدف ضرور رکھا ہے اس حکیمانہ فعل کی غرض میں سے ایک اہم غرض معاد ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

((ذلِكَ بِأَنَّ اللّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّهُ يُحْيي الْمَوتى وَأَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْء قَدِيرٌ))(سورة الحج ـ 6).

ترجمہ:یہ اس لئے ہے کہ بس اللہ ایک برقرار نا بدلنے والی ذات ہے اور وہ بلا شبہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور یقینا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے آپ کو (ھو الحق ) کہہ کر توصیف فرمایا اس کے فورا بعد ارشاد فرمایا ؛(یحیی الموتیٰ) یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ حق مطلق مردوں کو زندہ کرنے اور روز قیامت ان کو اٹھانے سے خالی نہیں ہے۔ اس اشارہ کے بعد یہ بحث کرنا ضروری ہے کہ "اللہ سبحانہ و تعالی کے حق ہونے " اور " یوم القیامۃ کے معاد " کے درمیان کیا رابطہ ہے ؟

اس سوال کا جواب یہ ہے: کہ جب حق کے معنی پر توجہ مرکوز کی جائے تو اس کا مفہوم بالکل واضح ہوتا ہے کہ حق در حقیقت باطل کا بالکل متضاد نقطہ ہے اور بدیہی سی بات ہے کہ جو موجود حق ہو اس میں باطل کسی شکل اور کسی طرح سے نہیں آسکتا ۔ ضروری ہے کہ وہ حق ازلی بھی ہو اور سرمدی بھی ہر قسم کے کمال کا جامع ہو اور یہ وجود اپنی ذات میں ہر قسم کے کمال کا جامع ہو اور ہر طرح کے نقص و عیب سے منزہ ہو ورنہ یہ وجود حق مطلق ہونے سے خارج ہوجائے گا اور ایسے میں اس میں باطل کو راہ مل جائے گی اور یہ جس کو ہم نے حق مطلق فرض کیا تھا اس کے خلاف ہو گا اور یہ صحیح نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ حق مطلق اس کی صفات کی تجلی ہے اور صفات ذاتیہ اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات کی تجلی ہیں ، پس جب اللہ سبحانہ وتعالی حق مطلق ہے اور اس تک باطل کو کسی طرح اور کسی صورت راہ نہیں تو لازمی ہے کہ خدا تعالی کو "حکیم " کی صفت سے بھی متصف کیا جائے اور چونکہ وہ حکیم ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کا فعل بھی عبث نہ ہو اور ہمیشہ لغو سے منزہ ہو ۔

اس بیان کے تحت ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ: اللہ سبحانہ وتعالی کا "الحق " ہونا دلیل ہے کہ اس کا فعل حکمت اور ہدف کے تحت صادر ہوتا ہے اور ہم نے کہا کہ اس کافعل عبث اور لغویت سے خالی ہونا چاہئیے یہ صرف اس صورت میں پورا ہوتا ہے کہ جب ہم معاد اور اخروی زندگی پر عقیدہ رکھیں ۔

اس بیان کے ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ایک آیت میں ارشاد فرمایا:

 وَأَنَّ السّاعَةَ آتيَةٌ لا رَيْبَ فِيها وَأَنَّ اللّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ))(سورة ال

ترجمہ: اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے اور جس میں کسی شک کی گنجایش نہیں اور یقینا اللہ جو قبروں میں ہیں انہیں زندہ کرے گا ۔

صرف یہ ایک آیت نہیں ہے جو کہتی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی حق ہے یہ اکیلی دلیل نہیں بلکہ اور آیات بھی ہیں جو اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ چنانچہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

((ذلِكَ بِأَنَّ اللّهَ هُوَ الحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ وَأَنَّا للّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبيرُ))(سورة الحج ـ 62).

یہ معاد قطعی ہے اور قیامت کے دن بعث اور نشور یقینی ہے ۔)

ترجمہ: یہ اس بناء پر ہے کہ اللہ بس برقرار حقیقت ہے اور جس کی وہ اس کے سوا دہائی دیتے ہیں وہ سب بے حقیقت ہے  اور بلاشبہ اللہ ہی ہے جو بلند و بزرگ ہے ۔

اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالی نے بعد کی دو آیات میں انسان کی اخروی زندگی کے مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

وَهُوَ الّذي أَحْياكُمْ ثُمَّ يُميتُكُمْ ثُمَّ يُحْييكُمْ إِنَّ الإِنْسانَ لَكَفُورٌ))(سورة الحج ـ 66)،   

ترجمہ: اور وہ وہ  ہے جس نے تمہیں زندگی عطا کی پھر تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندگی دے گا یقینا آدمی بڑا ناشکرا ہے ۔

اس کے بعد ہم سورۃ لقمان کی آیت ۲۸  میں دیکھتے ہیں کہ یہ آیت معاد اور قیامت کے دن کا ذکر کرتی ہے ۔  ارشاد خداوندی ہے :

(( ... ما خَلْقُكُمْ وَما بَعْثُكُمْ إِلاّ كَنَفْس واحِدَة......))(سورة لقمان ـ 28)، 

ترجمہ:۔ تم سب کا پیدا کرنا اور تمہارا دوبارہ زندہ کرکے اٹھانا نہیں ہے مگر مثل ایک متنفس کے ) اس کے بعد آیت نمبر ۳۰ آتی ہے جو اللہ سبحانہ وتعالی کو  "الحق " سے متصف فرماتی ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوا :

((ذلِكَ بِأَنَّ اللّهَ هُوَ الحَقُّ... ))(سورة لقمان ـ 30)

ترجمہ: اللہ ہی بس حق ہے جو کچھ  وہ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ بے حقیقت ہے ۔ اس کے بعد آیت نمبر ۳۳  ہے جس میں معاد اور روز قیامت کے بارے میں ذکر ہوا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :

يا أَيُّهَا النّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْماً لا يَجْزي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَولُودٌ هُوَ جاز عَنْ والِدِه شَيْئاً إِنَّ وَعْدَ اللّهِ حَقٌّ  فَلا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا)

ترجمہ: اے انسانو اپنے پروردگار (کے غضب ) سے بچو اور ڈرو اس دن سے جب نہ کوئی باپ اپنے بیٹےکو فائدہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا باپ کو کوئی فائدہ پہنچانے والا ہوگا یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے تو تمہیں دنیوی زندگی فریب میں مبتلا نہ کرے ۔

قرآن کریم میں یہی آیات ہوتیں ان کے علاوہ دوسری آیات نہ بھی ہوتیں تو بھی ان  آیات کے خوبصورت نظم ، منطقی ترتیب اور بہترین صفت کی بناء پر ہم یقین کرتے کہ اس قرآن میں کوئی شک و ریب نہیں ہے یہ انسان کی فکر کا نتیجہ اور ثمرہ نہیں ہے بلکہ یہ من عنداللہ ہے ۔ لہذا جب ہم نزول قرآن کے زمانے کو دیکھتے ہیں کہ جزیرۃ العرب ہر لحاظ سے اس وقت علم و معرفت سے بالکل دور تھا ، ایسے ہی ہمارا یقین و عقیدہ ہے کہ اس قرآن کریم کی ہر سطر  بہت توجہ ، احتیاط  اور باریک حساب و کتاب  اور کتابت کے سارے احتیاطی موازین کو بروئے کار لاکر لکھا گیا ہے کہ اس میں کسی قسم کی تحریف کی گنجایش ہی نہیں تو اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ اس قرآن کی آیات اللہ سبحانہ و تعالی کو "الحق" سے توصیف کرتی ہیں تو ایسے میں اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حق مطلق نے کائنات اور انسان کی تخلیق میں ہدف  معاد وقیامت بھی رکھا ہے ۔ 

اس بناء پر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کبھی  اس نقطہ نگاہ سے دلیل دیتا ہے کہ "الحق" کا لازمہ معاد ہے ۔ دوسرے یہ کہ کائنات کے اس منظم نظام کا ہدف سے خالی ہونا ممکن نہیں ہے ۔ لہذا ضروری ہے کہ معاد اور اخروی زندگی پر عقیدہ رکھا جائے ۔

نتیجہ : یہ تمام آیات اشارہ کرتی ہیں کہ معاد کائنات کی تخلیق کے حامل ہدف ہونے کا راز ہے ۔ 

معاد عدل الہی کا مظہر:

عدل کی بنیاد پر عمل "مسئلہ حسن و قبح عقلی " کے فروع میں سے ہے ۔ جو لوگ عقل عملی میں اس نظریے کے قائل ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ عقل جس چیز کو حسن کہے اس کے مطابق عمل کرنا اور اسی طرح سے جس چیز کو عقل  قبیح کہے اس سے پرہیز کرنا ان عام کلی اصولوں میں شمار ہوتا ہے جو انسان کے ساتھ مختص نہیں ہے اور یہ کہ عقل کہتی ہے کہ  "حسن "اور جمیل عمل، تمام حالات میں  ہر قسم کے شرائط میں اور جس مرید و مختار فاعل سے صادر ہوجائے وہ حسن اور جمیل ہے اور قبیح اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ اس عمل کو قبیح سمجھا جاتا ہے لہذا ایسا عمل جب بھی اور جس سے بھی جہاں کہیں بھی صادر ہوجائے وہ قبیح عمل ہی کہلائے گا۔ اس حکم میں عقلاء کوئی فرق کے قائل نہیں کہ فاعل ممکن ہو جیسے انسان یا واجب ہو جیسے اللہ سبحانہ و تعالی ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر سارے بندے اللہ کی اطاعت کریں اور وہ سب نیک اور صالح ہوجائیں تو یہ لازم نہیں ہے کہ خدا پر واجب ہوجائے کہ وہ ان کو ثواب دے ۔ اس لئے کہ وہ اپنی زندگی میں جو بھی نیک عمل اور اطاعت و احسان کرتے ہیں وہ یہ سب کام اللہ کی دی ہوئی توانائی اور قدرت کی وجہ سے کرتے ہیں ۔ یہ طاقت و توانائی تو اسی ذات حق تعالی کی ودیعت کی ہوئی ہے ۔ اس لئے کہ انسانوں کی تمام حرکات و سکنات، ان کی جسمانی سعی و کوشش اسی طرح سے ذہنی توانائیاں سب کچھ خدا ہی کی عنایت کی ہوئی ہیں ۔ یہ وہ نقطہ ہے جس میں کوئی بھی آدمی ذرہ بھر شک نہیں کرسکتا۔ اس پر اضافہ یہ کہ اللہ نے ہم کو جو بے شمار نعمتیں موہبت فرمائی ہیں جن کی نہ حد ہے اور ان کی گنتی ہوسکتی ہے ان پر غور کریں ۔ جن کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ تم ان کو نہ حصر کرسکتے ہو اور نہ گن سکتے ہو ۔ تو ایسی صورت میں اخروی ثواب کے استحقاق کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی ہے ۔ اس کے باوجود جب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ان نیک بندوں کو ثواب کا وعدہ فرمایا ہے تو اس کا صرف اور صرف احسان وکرم اور لطف کی وجہ سے ہے نہ کسی استحقاق کی بناء پر۔ امیر المؤمنین علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :

"ولكنّه سبحانه جعل حقّه على العباد أن يطيعوه، وجعل جزاءهم عليه مضاعفة الثواب تفضّلاً منه، وتوسّعاً بما هو من المزيد أهله".

ترجمہ : لیکن اللہ سبحانہ و تعالی نے بندوں کے اوپر اپنا یہ حق قرار دیا ہے کہ وہ اس کی اطاعت کریں اور ان کو اس کی جزا جو قرار دی ہے وہ ثواب کا دوگنا ہے اور یہ اس کی جانب سے تفضل اور جو اس میں مزید کے وہ اہل ہوئے اس میں وسعت دی ہے ۔ اس کے مقابلے میں اگر سارے بندے نافرمان ، خطا کار، منحرف اور گناہ گار ہوجائیں تو قیامت کے دن  خدا کے اوپر واجب نہیں ہوتا کہ وہ ان کو عقاب و عذاب دے۔ یہ اس لئے کہ عقاب و مؤاخذہ کرنا  بھی اللہ ہی کا حق ہے اور لازم نہیں ہے کہ خدا وند متعال ضرور یہ حق لے اس لئے کہ یہ ممکن ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے حق کو چھوڑ بھی دے ۔

اس بناء پر یہ بات واضح ہوئی کہ  خواہ سارے بندے صالح ہوں یا سارےبندے برے "عدل الٰہی " کی بنیاد پر خدا کی جانب سے ثواب یا عقاب کے مسئلے کو ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن خود لوگ دو قسم اور گروہ میں تقسیم ہوجاتے ہیں اور وہ دونوں :

۱ ۔ صالح  بندے

۲۔  برے بندے

اس مرحلے میں ضرورری ہے کہ اللہ کے ان دو قسم کے بندوں کے بارے میں عدل الٰہی کا تقاضا کیا ہے؟ اس پر غور  و فکر کیا جائے ۔ جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ دنیا میں لوگ اللہ کے احکام کے لحاظ سے دو گروہ میں منقسم ہوتے ہیں ، یہاں پر اب عقل کا کام ہے کہ اس سے اسی اصل کلی سے مدد لی جائے جو عبارت ہے حسن و قبح عقلی سے ۔ یہاں عقل حکم کرتی ہے کہ ان دونوں گروہوں کو برابر و یکسان قرار دینا قانون "عدل " کے خلاف ہے ، اسی وجہ سے اگر عقاب میں سب انسانوں کو یکساں قرار دیا گیا یعنی سب کو سزا دی گئی یا جزا میں سب کو یکساں قرارر دیا گیا یعنی سب کو بغیر کسی فرق کے ثواب دیا جائے  یا کم ترین فرض کے تحت اگر نیکوں کے نیک عمل کو مھمل چھوڑ دیا جس طرح سے مجرموں کی سزا کو مھمل چھوڑ دیا گیا  اور ان کے کسی عمل پر کوئی اثر مرتب نہ ہوجائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا کرنا عدل  نہیں کہلائے گا۔ پس جس طرح سے سب کو عقاب کرنا یا سب کو ثواب دینا  خلاف عدل الٰہی شمار ہوتا ہے اسی طرح  ان دو نیک و برے  گروہوں کے بارے میں غیر جانب داری ، بے حسی اور غفلت بھی اصل معاد کے خلاف ہے اور یہ بھی عدل الٰہی کے خلاف شمار ہوگا ۔ یہاں بحث اس مطلب سوم پر تمام ہوتی ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کی قرآن کریم بھی تاکید کرتا ہے ۔

دوسرے الفاظ میں: جب  دنیوی جزا میں ان دونوں گروہوں کے  درمیان فرق و امتیاز ہے تو یہ عدل الٰہی کا ایک مظہر ہے ، لیکن اگر ہم فرض کریں کہ  ان دونوں کا موقف ( بعض موارد کے استثناء کے) بالکل مساوی ہے  تو طبیعی اور واضح ہے کہ مفہوم عدل کے پورا اور مکمل صورت میں محقق ہونے کے لئے ایک اور عالم اور ایک دوسری زندگی کا ہونا ضروری ہے جو حق کی عدالت کا محل قرار پائے ۔ یہ وہ مرحلہ ہے کہ معاد ایک امر قطعی اور ضروری ہوجاتا ہے  کہ جو کسی صورت اور کسی حالت میں بھی تبدیل نہیں ہوسکتا ۔ اب یہاں پر ہم بعض ان آیات کا ذکر کریں گے جو اس اعتبار سے بھی معاد کو ثابت کرتی ہیں ۔ ان آیات کو دو گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

الف : ایک گروہ ہے جو گناہ گاروں اور نیک بندوں کے برابر ہونے کی نفی کرتا ہے ۔ اور اس انکار و نفی کو استفہام تعجبی کی صورت میں بتایا گیا ہے اور یہ کہ یہ عدل الٰہی کے ساتھ سازگار اور اس کے مناسب نہیں ہے ۔

 ب : دوسرا گروہ  کہتا ہے کہ ثواب و عقاب مسئلہ معاد کے امور میں سے ہے اور اخروی زندگی کی غایات میں سے ایک  عطا و اعطائے ثواب یا عقاب دینا ہے ۔

 وہ آیات جو پہلے گروہ سے متعلق ہیں :

 أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّالِحاتِ كَالْمُفْسِدينَ فِي الأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقينَ كَالْفُجّارِ))(سورة ص ـ 28)

ترجمہ: کیا ہم انہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے مثل زمین میں فساد پھیلانے والوں کے قراردیں یا پرہیزگاروں کو مثل فاسق و فاجر لوگوں کے قرار دیں ۔

((أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمينَ كَالْمُجْرِمينَ (35) ما لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ(36))(القلم ـ 35 ـ 36)،

ترجمہ: کیا ہم اطاعت گزاروں کو مثل گناہ گاروں کے کر دیں گے ، تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسے حکم لگاتے ہو

((أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّالِحاتِ سَواءً مَحْياهُمْ وَمَماتُهُمْ ساءَ ما يَحْكُمُونَ))(سورة الجاثية ـ 21)

ترجمہ:  کیا سمجھتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے جرائم کا ارتکاب کیا ہے کیا ہم انہیں قرار دیں مثل ان کے جنہوں نے ایمان اختیار کیا اور اچھے اعمال کرتے رہے ، یکساں ہو ان کی زندگی اور ان کی موت  کتنا برا ہے یہ فیصلہ جو وہ کرتےہیں ۔

پس جب ان آیات میں ثواب و عقاب میں نیک اور برے لوگوں کے درمیان مساوات کو سختی اور شدت کے ساتھ انکار و نفی کی گئی تو دوسری قسم کی آیات میں بتایا گیا ہے کہ معاد مقدمہ ہے گناہ گاروں اور مجرموں کو عذاب دینے اور نیکی اور اطاعت کرنے والوں کو ثواب دینے کا ۔

دوسرے الفاظ میں پہلی قسم کی آیات دلالت کرتی ہیں کہ محال ہے کہ خدا وند متعال نیک اور برے لوگوں کو برابر قرار دے ۔ بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کے درمیان عدل کرے ۔ لیکن یہ عدل کہاں اور کب ہوگا؟ یہ آیات اس کو بیان نہیں کرتی ہیں۔ جبکہ دوسری قسم کی آیات تاکید کرتی ہیں کہ یہ  اصل  " ثواب و عقاب کا"  ایک اور فضا اور ماحول میں وقوع پذیر ہوگی ۔ چناچہ اللہ سبحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا:

(إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعاً وَعْدَ اللّهِ حَقّاً إِنَّهُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّالِحاتِ بِالْقِسْطِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَميم وَعَذابٌ أَليمٌ بِما كانُوا يَكْفُرُونَ))(سورة يونس ـ 4)

ترجمہ: اسی کی طرف تم  کو پلٹ کر جانا ہے یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے بلا شبہ وہی پہلے پہل مخلوق کو پیدا کرتا ہے  پھر دوبارہ اسے زندہ کرے گا  تاکہ جزا دے انہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے عدالت کے ساتھ اور جنہوں نے کفر اختیار کیا انہیں کھولتا ہوا پانی پینے کو ہوگا اور دردناک عذاب  اس وجہ سے کہ وہ کفر کیا کرتے تھے ۔ )  نیز ارشاد فرمایا :

يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۖ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (48)  وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ (49) سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ النَّارُ (50) لِيَجْزِيَ اللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ (51))(سورة ابراهيم ـ 48 ـ 51۔ )  ترجمہ:وہ دن جب یہ زمین بدل کر دوسری زمین ہوجائے گی اور آسمان بھی اور وہ لوگ حاضر ہوں گے اللہ کے سامنے جو ایک اکیلا  ہے سب پر غالب ۔  اور دیکھو گے مجرموں کو اس دن جکڑا ہوا زنجیروں میں ، ان کے کرتے تارکول کے ہوں گے اور ان کے چہروں کو آگ ڈھانپے ہوئے ہوگی ، تاکہ اللہ سزا دے ہر ایک کو اس کی جو اس نے کیا ہے  یقینا اللہ تیزی سے حساب لینے والا ہے  

یہ آیات اگرچہ عدل الٰہی کے بارے میں گفتگو نہیں کرتیں لیکن پہلی قسم کی آیات کو بھی ان کے ساتھ ملاکر دیکھیں تو یہ کہنا ممکن ہوتا ہےکہ یہ عدل الٰہی کا تقاضا ہے ۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام کے فرمان میں اس معنی کی جانب اشارہ ملتا ہے چنانچہ فرمایا: "يَوْمَ يَجْمَعُ اللّهُ فِيهِ الأَوّلينَ وَالآخرينَ لِنِقاشِ الْحِسابِ وَجَزاءِ الأَعْمالِ"،

ترجمہ: قیامت کے دن اللہ اولین و آخرین کو اکٹھا فرمائے گا تاکہ ان سے دقیق حساب لے  اور ان کے اعمال کی جزا دے ،نیز ارشاد فرمایا :

"فَجَدَّدَهُمْ بَعْدَ إخْلاقِهِمْ، وَجَمَعَهُمْ بَعْدَ تَفَرُّقِهِمْ، ثُمَّ مَيَّزَهُمْ لِما يُريدُهُ مِنْ مَسألَتِهِمْ عَنْ خَفايَا الأَعْمالِ وَخَبايَا الأَفْعالِ وَجَعَلَهُمْ فَريقَين  أنْعَمَ عَلى هؤلاءِ وَانْتَقَمَ مِنْ هؤلاءِ...".

پھر ان کو پوسیدہ ہونے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا  اور ان کے جدا ہونے کے بعد پھر سے اکٹھا کرے گا ، پھر ان کے مابین تمیز دے گا تاکہ ان کے پوشیدہ اعمال  اور مکنون افعال  کے بارے میں ان سے پوچھے۔ یوں ان کے دو گروہ بنادئے ایک گروہ کو وہ نے انعام سے نوازے گا  اور دوسرے گروہ سے ان کے گناہ کا انتقام لے گا۔۔۔

معاد وعدہ الٰہی کی جلوہ گاہ:

یہاں ایک اور دلیل کے ذریعے معاد کے قطعی  اور اٹل ہونے کو ثابت کریں گے اور وہ ایک دفعہ شرعی بنیادوں پر قائم ہوگی اور ایک دفعہ عقلی بنیادوں پر قائم ہوگی ۔ اور وہ دلیل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے سابقہ آسمانی کتابوں میں وعدہ دیا اسی طرح قرآن کریم میں بھی  یہ وعدہ موجود ہے  کہ اللہ سبحانہ وتعالی قیامت کے دن نیکو کاروں  کو ثواب دے گا اور گناہ گاروں کو سزا دے گا تو بس اس وعدہ الٰہی کے ضمن میں قیامت کا مسئلہ بھی آجاتا ہے کہ یہ بھی وعدہ الٰہی کے جزئیات میں سے ہے ۔

اس بناء پر عقل قطعی طور پر حکم لگاتی ہے کہ وعدہ وفا کرنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ، عقلا حسن ہے اور خلاف وعدہ  کرنا  عقلا قبیح اور قطعا مردود و غیر جائز ہے ۔ اس سے عقل یہ نتیجہ بھی لیتی ہے کہ قیامت کے دن معاد کا وقوع پذیر ہونا اور  نیکو کاروں اور اطاعت گذاروں کو ثواب دینا ایک ایسا امر قطعی اور اٹل  ہے جس کا عکس ہونا ممکن نہیں ۔

قیامت کے دن کے لازمی ہونے کے بارے میں یہ اس قسم کا ستدلال  پہلے والے دونوں قسم کے استدلالوں سے بالکل مختلف ہے ۔ کیونکہ پہلے والے دونوں استدلالات عقلی بنیادوں پر مبتنی تھے ۔ یہاں جو آیات وارد ہوئی ہیں وہ معاد کے بارے میں حکم عقل کی جانب اشارہ کرتی ہیں ۔ چاہے مان لیں کہ " معاد کے بغیر کائنات کی تخلیق عبث ہے " یا ہم قائل ہوجائیں کہ " ثواب و عقاب میں بندوں کے درمیان برابری  رکھنا عدل الٰہی کے خلاف ہے "

لیکن یہاں قیامت کے ضروری ہونے کا استدلال دو ارکان پر قائم ہے ایک شرعی ہے اور وہ یہ کہ اگر اللہ سبحانہ وتعالی قیامت کے دن کے بارے بشارت نہ دے اور ہر مطیع و عاصی اور صالح اور برے کو اس کے حق کو معین نہ کرے تو محال ہے کہ حکم عقل کا موضوع یعنی "وعدہ کی وفا کرنا جمیل اور خلاف وعدہ قبیح ہے۔ " محقق ہوسکے۔ لیکن جب یہ اصل یعنی قیامت کے واقع ہونے اور  ثواب و عقاب کے پورا ہونے کی بشارت خدا کی طرف سےتو ایسی صورت میں عقل قطعی طور پر حکم لگاتی ہے کہ قیامت کا دن واقع ہونے والا ہے اور ثواب و عقاب کا مسئلہ بھی پورا ہو کر رہے گا۔

یہ استدلال قرآن کریم کی بعض اور آیات کے ذریعے بھی ممکن ہے ۔ جس طرح سے ان آیات کو دو گروہ  میں تقسیم کرنا ممکن ہے :

۱ ۔ وہ آیات جو اشارہ کرتی ہیں کہ وقوع قیامت  اور ثواب و عقاب کے بارے میں وعدہ الٰہی پورا ہوگا۔

۲ ۔ وہ آٰیات جو کہتی ہیں کہ خدا کا یہ وعدہ ہر حال میں پورا ہو گا اس میں کوئی خلاف کا ہونا ممکن نہیں ۔

یہاں ان دو گروہوں کے نمونے ذکر کرتے ہیں:

قیامت وعدہ الٰہی ہے ۔  اللہ سبحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا :

((کمـا  بَدَأْنا أَوَّلَ خَلْق نُعِيدُهُ وَعْداً عَلَيْنا إِنّـا كُنّا فاعِلينَ))(سورة الأنبياء  ، ۱۰۴)  

ترجمہ : جس طرح ہم نےپہلے پہل  مخلوق کو پیدا کیا تھا اب ہم اسے پلٹائیں گے بھی  ۔ایک اور آیت میں ارشاد فرمایا

((فَذَرْهُمْ  يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتّى يُلاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ))(سورة الزخرف ـ 83)

ترجمہ:  تو انہیں چھوڑو کہ بحث کرتے رہیں  اور تفریح کرتے رہیں  تاکہ ان کے سامنے آئے  ان کا وہ روز بد جس کی انہیں خبر دی جارہی ہے ۔

ان آیات کے علاوہ بھی دیگر مقامات پر اشارہ ہوا ہے کہ قیامت اللہ کی بشارتوں میں سے ایک ہے جیسا کہ سورہ الذاریات ، سورہ المعارج اور سورہ الانبیاء  میں ذکر ہوا ہے ۔

 اعمال کی جزاء اللہ سبحانہ و تعالی  کا وعدہ :

قرآن کریم کی بعض آیات میں ثواب و عقاب کی بشارت دی گئی ہے ۔ جیسا کہ خدا وند منان نے خاص طور سے جنت کے بارے میں ارشاد فرمایا :

وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقينَ غَيْرَ بَعيد (31) هذا ما تُوعَدُونَ.....(32))    اور بہشت آراستہ کیا جائے گی پرہیزگاروں کے لئے بغیر دوری کے ۔ )  (سورة ق ـ 31 ـ 32)،نیز ارشاد فرمایا:

((وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوعِدُهُمْ أَجْمَعينَ))(سورة الحجر ـ 43) 

ترجمہ : اور جہنم ان سب کی وعدہ گا ہے ۔ ایک اور آیت میں  آیا ہے :

(( ... وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الأَحْزابِ فَالنّارُ مَوْعِدُهُ......))(سورة هود ـ 17) 

ترجمہ : اورجو  ان گروہوں میں سے اس کے ساتھ کے ساتھ کفر اختیار کرے گا تو اس سے قول قرار بس آتش دوزخ کا ہے ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔)

یہاں تک  اصل وعدہ الٰہی  قرآن حکیم کی آیات کی روشنی میں ثابت ہوا ۔اب ہم ان آیات کا مطالعہ کریں گے جن میں بتایا گیا ہے کہ وعدہ الٰہی کا پورا ہونا ایک امر قطعی اور یقینی ہے ۔ یعنی وہ آیات جو حکم عقل کی تأیید کرتی ہیں اور حسن اتفاق سے اس سلسلے میں آیات بہت ساری ہیں ۔ ہم ان میں سے بعض کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں:

رَبَّنا إِنَّكَ جامِعُ النّاسِ لِيَوْم لا رَيْبَ فِيهِ إِنَّ اللّهَ لا يُخْلِفُ الْمِيعادَ))(سورة آل عمران ـ (9)

ترجمہ : اے  ہمارے پروردگار بلاشبہ تو ہے سب لوگوں کو اکٹھا کرنے والا اس دن جس میں کوئی  شک نہیں ہے بلاشبہ اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ ایک اور آیت میں اللہ سبحانہ و تعالی ارشاد فرماتا ہے :

(وَلا تُخْزِنا يَوْمَ القِيامَةِ إِنَّكَ لا تُخْلِفُ الْمِيعادَ))

ترجمہ : اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ فرمانا بتحقیق تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ گویا مسلمان متکلمین نے انہی آیات کریمہ سے اس امر کو سمجھا ہے اور انہی آیات کی برکت سے حکم عقل سے واقف ہوئے ہیں اور قیامت اور وعدہ الٰہی کے ثبوت کے لئے اصل حکمت اور وجوب وفاء سے استدلال کیا ہے ۔ جیسا کہ محقق طوسی اس مقام پر فرماتے ہیں " اور وعدہ کی وفا  کا واجب ہونا اور حکمت کا تقاضا یہ کہ بعث (یعنی مرنے کے دوبارہ زندہ ہونا ) بھی واجب ہو ۔

معاد رحمت الٰہیہ کا مظہر :

وہ اہم نکات کہ جن کو قرآن کریم نے بھی خاص اہمیت دی ہے یہ ہیں کہ معاد اور رحمت الٰہیہ کے درمیان ایک مضبوط رابطہ ہے اور یہ کہ معاد رحمت الٰہیہ کے شجر کی ایک شاخ ہے ۔ قرآن کریم کی آیات اسی رحمت الٰہیہ کی تأکید کرتی ہیں کہ جس کو خود حق سبحانہ و تعالی نے اپنے اوپر لازم کیا ہے آیات بھی دلالت کرتی ہیں کہ خدا وند متعال اپنے بندوں کی جانب نظر رحمت سے دیکھتا ہے ۔ اسی وجہ سے ان کو قیامت میں محشور فرماتا ہے۔ ارشاد ربوبی ہوتا ہے :

))قُلْ لِمَنْ ما فِي السَّمواتِ وَالأَرْضِ قُل للّهِ كَتَبَ عَلى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلى يَوْمِ القِيامَةِ لا رَيْبَ فِيهِ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لا يُؤْمِنُونَ))(سورة الأنعام ـ 12)

ترجمہ : کہدیجئے ! جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ کس کا ہے  کہدیجئے کہ اللہ کا ہے اس نے اپنے ذمے رحمت کرنا عاید کرلیا ہے  وہ تم سب کو یقینا روز قیامت تک  جس میں کوئی شک نہیں اکٹھا کرتا رہے گا  جنہوں نے خود اپنا نقصان کیا تو وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔

 گویا مسلمان متکلمین نے انہی آیات کریمہ سے اس امر کو سمجھا ہے اور انہی آیات کی برکت سے حکم عقل سے واقف ہوئے ہیں اور قیامت  و وعدہ الٰہی کے ثبوت کے لئے اصل حکمت اور  وجوب وفاء سے استدلال کیا ہے ۔ جیسا کہ محقق طوسی اس مقام پر فرماتے ہیں " اور وعدہ کی وفا  کا واجب ہونا  اور حکمت کا تقاضا یہ کہ  بعث  (یعنی مرنے کے دوبارہ زندہ ہونا )  بھی واجب ہو ۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے: آپ کیسے سمجھتے ہیں کہ معاد رحمت الٰہیہ کا مظہر ہے ، جبکہ اس دن  تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد سخت عذاب الٰہی میں مبتلا ہوجائے گی ؟ اور کیا ایک دردناک عذاب اور جھنم اور بعض لوگوں کا آگ کے سب سے نچلے طبقے میں ہونا رحمت الٰہیہ کا مظہر ہوسکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب واضح ہے اس لئے کہ قیامت کے دن اٹھائے جانے اور حشر و نشر کا ہدف ہر ممکن کو اس کے مطلوبہ کمال تک پہنچانا اور اس کو رحمت الٰہیہ کے شامل حال بنانا ہے اور ہر ممکن کو اپنے اس مقصد اور غرض تک پہنچ جانا چاہئیے جس کو وہ دوست رکھتا اور اپنے اختیاری اعمال  اور اس استعداد و قابلیت کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ نے اس کو موہبت فرمایا ہے اور یہ کہ اس جہاں میں ایک پاکیزہ حیات سے سرفراز اور زندہ ہوجائے  اور یہ زندگی انسان کو نصیب ہوگی جو متکامل اور ہر نقص و عیب  سے خالی ہو۔

لیکن کافر آدمی وہ ہے جس نے گمراہی ،نافرمانی اور ضد کے ذریعے اپنے اوپر رحمت الٰہیہ  کے دریچے کو بند کردیا  اور خدا وند عالم نے اس جہاں میں اس کے لئے جو موہبتیں اور صلاحیتیں ودیعت فرمائی تھیں ان سے بھی صحیح استفادہ نہیں کیا بلکہ وہ راہ حق و طریق ہدایت سے منہ موڑا اور رحمت الٰہیہ کے سایہ سے بھی خارج ہوا ۔

اس بناء پر یقینا قیامت کے دن  حشر بھی رحمت الٰہیہ کے مطابق قائم ہوگا ۔ لیکن کافر اور معاندین خود ہی رحمت الٰہیہ سے دور ہو گئے اور اپنے سوء اختیار کی وجہ سے غلط راستے پر چلے گئے تو ان کا حشر بھی اسی حساب سے ہونا چاہئیے ۔ قیامت اور معاد کی مثال بھی امتحان کے مسئلے کی طرح ہے ۔ امتحان و آزمایش اس لئے رکھے جاتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے جس کا امتحان لیا گیا ہے اس کے اندر مخفی کمال وغیرہ کو اجاگر کیا جائے یوں اس کےاندر کی صلاحیات سامنے آتی ہیں اور اگر یہ امتحان نہ ہوتا تو خدا کی جانب سے دئے گئے وہ استعدادات اور کمالات  ظاہر نہ ہوتے بلکہ وہ قوت کی حد پر ہی  رہ جاتے ۔ لیکن کافر نے ان فرصتوں سے استفادہ نہیں کیا (کچھ خاص اسباب کی بناء پر) اور ان  مواقع سے صحیح فائدہ نہیں اٹھایا ۔ بلکہ اس نے ان سب طاقتوں کو ہلاک کنندہ اور نقصاندہ  میں صرف کیا۔

مذکورہ آیت میں دو مسئلوں پر خاص توجہ دلائی گئی ہے :

أ ۔  قیامت کے دن حاضر ہونا اور حشر  رحمت الہیہ کے فروعات میں سےایک فرع ہے ۔ ثواب و عقاب کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ خدا وند عالم نے ارشاد فرمایا :

((  ...لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلى يَوْمِ الْقِيامَةِ))  ۔

وہ ضرور تم کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا۔ گویا  اس دن حاضر ہونا ایک کامل ترین عالم اور بہترین زندگی کی جانب  چھلانگ مارنے کی طرح ہے ۔ جب کافر نے اس کمال کو اپنے سوء اختیار سے گنوا دیا اور اپنے آپ کو اس نعمت سے خود ہی محروم کردیا  تو  اس سے قیامت کے دن کا رحمت الٰہیہ کے ظاہر ہونے کو کوئی گزند نہیں پہنچاتا ۔

ب ۔ بتحقیق  جملہ ( ...الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ... )  اس سوال کے لئے جواب بن سکتا ہے جو پیش کیا گیا ہے ۔ نیز اس حیرانی کا بھی جواب بن سکتا ہے جو سوال اٹھایا گیا کہ منافقوں اور  کافروں  کا عذاب الہی  میں مبتلا ہونا اور ان کو قیامت کے دن اس طرح  حاضر ہونا کیسے  رحمت الٰہیہ کا مظہر ہوسکتا ہے ؟ اور کیسے حشر رحمت الٰہیہ کے فروعات میں سے ایک فرع ہے ؟ جبکہ قیامت کا دن تو کافروں اور منافقوں کے لئے کھلا نقصان کا دن شمار کیا گیا  ہے ؟

جواب اس لحاظ سے واضح اور روشن ہے کہ کافروں اور منافقوں پر عذاب ان کے برے اعمال کا نیچرل اور طبیعی نتیجہ ہے ۔ (خسروا انفسھم ) انہوں نے اپنا نقصان کیا ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو رحمت الٰہیہ  سے محروم کردیا ہے لہذا حشر اور قیامت کے دن اکٹھا ہونا  سب کے لئے کمال کا ایک درس کی منزل پر ہے۔ لیکن لوگوں کے ایک گروہ نے اپنے ماضی کے اعمال و افعال  کی ہی وجہ سے اپنے آپ کو اس درس کمال کے استفادہ سے محروم کر دیا ہے اور شاید ذیل کی آیت  اسی فکر کی جانب توجہ دلا رہی ہے کہ (معاد رحمت الٰہیہ کے فروع میں سے ایک فرع ہے ۔ )  اللہ سبحانہ و تعالی  ارشادفرماتا ہے :

(فَانْظُر إِلى آثارِ رَحْمَةِ اللّهِ كَيْفَ يُحْيِ الأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها إِنَّ ذلِكَ لَمُحْيِ الْمَوتى وَهُوَ عَلى كُلِّ شَيْء قَديرٌ))(سورة الروم ـ 50)

ترجمہ : تو دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کو کہ وہ کس طرح زندہ کرتا ہے  زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد یقینا وہی مردوں کو زندہ کرنے والا ہے  اور وہ تو ہر چیز پر قادر ہے ۔  

 یہ آیت کریمہ قیامت کے دن معاد کے یقینا واقع ہونے کے اوپر ہی آئی  ہے اور یہ بھی اسی آیت پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ  زمین کو مرنے کے بعد زندہ فرماتا ہے ۔ لیکن اسی وقت توجہ  اس نکتے کی جانب مبذول کرائی گئی ہے کہ جس طرح سے زمین کے مردہ ہونے کے بعد دوبارہ زندہ کرنا رحمت الٰہیہ کے تقاضے کے تحت ہے اور یہ اللہ سبحانہ و تعالی کی رحمت کے مظاہر میں سے ہے اسی طرح قیامت کے دن مردوں کا زندہ ہونا بھی اللہ کی رحمت واسعہ کے مظاہر میں سے ہے۔ زمین جب دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے اس پر سبزہ و نباتات نمو پاتے ہیں یعنی زمین کی صلاحیتیں ظاہر ہوتی ہیں اور اس کی استعدادیں مرحلہ قوت سے  نکل کر فعلیت کےمرحلے میں آجاتی ہیں ۔ اس کے اندرونی کمالات نکھر کر سامنے آتے ہیں، ایسے میں  زمین کی حرکت  برقرار رہنے  سے خوبصورت پھول کھلتے ہیں ، مزیدار پھل پکتے ہیں ، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب اللہ کی رحمت واسعہ کے مظاہر اور اس کے آثار میں سے ہے ۔ یہی بات مردوں کو زندہ کرنے  میں بھی ہے ،  مردوں کو زندہ کرنا بھی رحمت الٰہیہ کے تقاضوں میں سے ہے اور اعمال کا مجسم ہونا اور ثواب و عقاب کا ہونا بھی اسی رحمت الٰہیہ کے لوازم و ملازمات میں سے ہے ۔ یوں دونوں آیتیں ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔

۰معاد انسان کے سفر تکامل کی انتہاء:

فلاسفہ جب حرکت کی بحث کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ حرکت  چھ امور پر متوقف ہے ، ان میں سے چھٹا  امر علت غائی  ہے ، فلاسفہ نے حرکت کے لئے  ہدف غائی جو بتایا ہے وہ خود مفہوم حرکت کے تصور سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کی دلیل  سعی اور جھد دونوں ایک ہی حقیقت کو تشکیل دیتے ہیں اور یہ کہ سعی و جھد کی  ماہیت  میں ہی یہ حقیقت پائی جاتی کہ جو آدمی  سعی و حرکت کرتا ہے وہ ایسی چیز کی طرف بڑھتا ہے جو اس سےابھی ملی نہیں بلکہ اسے حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ ااس سعی و حرکت میں فرق نہیں ہے کہ یہ طبیعی حرکات ہوں یا ارادی ۔

اس بناء پر یہ بات ثابت ہے کہ انسان اپنی زندگی کی بالکل ابتدا میں "لااثبات "  اور "لااستقرار " کی حالت میں ہوتا ہے  اور یہ کہ اس حرکت کے ہر لمحہ میں خاص حالات اور زمینے فراہم ہوتے ہیں جو اسے کمال کی جانب  گامزن کرتے ہیں یوں ہمیشہ حرکت میں زندگی بسر کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک حالت کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور نئی حالت میں داخل ہوتا ہے ۔ پس  جب انسان کا نطفہ رحم میں ٹھرتا ہے تو مسلسل حرکت میں ہوتا ہے یعنی ایک حالت سے دوسری حالت میں اور ایک شکل سے دوسری شکل میں ، جمے ہوئے خون (علقہ)  کی شکل سے   چبائے ہوئے گوشت (مضغہ) کی صورت میں اسی طرح  ۔ ۔   کہ آخر میں ایک صحیح و سالم انسان  ہوکر دنیا میں آتا ہے جو حیران کن افعال انجام دیتا ہے  یعنی ایسے بڑے بڑے کرشمے دکھاتا ہے جن کو دوسری مخلوقات انجام دینے سے عاجز ہیں ۔ لیکن ان تمام کے ساتھ وہ ساکن نہیں رہتا بلکہ  ہر وقت اور ہر لمحہ تبدیل ہوتا ہے اور ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہوتا رہتا ہے ۔ اس کی زندگی میں ثبات و سکون نہیں بلکہ دائما حوادث کے نتیجے میں ایک حالت سے دوسری حالت میں کودتا چلا جاتا ہے ۔

قرآن کریم نے بھی اس فلسفی برہان کی جانب اشارہ کیا ہے کہ جس سے معاد کا قطعی اور یقینی ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ قرآن بھی اس حرکت  کی ایک "غرض غائی " بتارہا ہے ۔ انسان کی تخلیق کے جو مراحل آیات قرآنی میں ذکر ہوئے وہ اسی حرکت اور اس کی غرض غائی کو بیان کررہی ہیں ۔  قرآن کریم تو انتہائی باریکی اور دقت کے ساتھ ان حالات و مراحل کی جانب اشارہ فرمارہا ہے جن سے انسان اپنی مادی خلقت سےگذر  کر کامل انسان ہوجاتا ہے جس کی ابتدا نطفہ سے ہوتی ہے اور وہ آگے بڑھتے بڑھتے بلند مقامات تک پہنچ جاتا ہے ۔ وہ جب بھی ایک مرحلے کو ترک کرتا ہے تو وہ اس سے اگلے ایک بلند اور کامل مرتبے پر پہچ جاتا ہے یہاں تک کہ کمال کے اس درجے پر پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالی  یوں توصیف فرماتا ہے :

(( ..... ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبارَكَ اللّهُ أَحْسَنُ الْخالِقينَ))(سورة المؤمنون ـ 14)  

ترجمہ : پھر اسے ایک دوسری مخلوق بنادیا تو بڑا برکت والا ہے وہ جو خلق کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے ۔ 

اس کے بعد اللہ سبحانہ وتعالی انسان کے دو اور متکامل مرحلوں کی جانب اشارہ فرماتا ہے اور وہ دونوں  "موت " اور " حیات اخروی" ہیں ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا :

 ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذلِكَ لَمَيِّتُونَ (15) ترجمہ: پھر تم اس کے بعد مرجاؤگے۔( ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ تُبْعَثُونَ (16))(سورة المؤمنون ـ 15 ـ 16 )

 ترجمہ: اور اس کے بعد پھر تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤگے ۔ جب ہم ان آیات پر غور کرتے ہیں تو معلوم  ہوتا ہے کہ خدا وند منان نے ان تین جملوں کو حرف عطف "ثمّ" کے ذریعے عطف فرمایا ہے اور "ثمّ" پیچے اور متصل ہو کر آنے پر دلالت کرتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مراحل یکے بعد دیگرے  ترتیب سے رونما ہونے والے ہیں ۔ ان تمام کلمات و مطالب سے  یہ ظاہر ہوتا ہے کہ  نفس انسانی اور روح واحد  اپنے مرحلہ اول سے ہی ایک ہی قانون کے تحت چل رہے ہیں یہاں تک کہ یہ بعث و نشور اور اخروی حیات   کے  مرحلہ پر پہنچتے ہیں اور وہ قانون  منتقل ہونا ، تبدیل ہونا نقص سے کمال  اور "فقدان " کی حالت سے "وجدان" کی  جانب حرکت  کرنے کا ہے دوسرے الفاظ میں "قوۃ" سے "فعلیت " میں آنے کا قانون ہے ۔ نتیجہ یہ کہ انسان قیامت کے دن اور بعث و نشور کے وقت اپنے کمال مطلوب کے انتہائی درجے پر پہنچتا ہے ۔ یوں معاد انسان کی سیر تکاملی میں  آخری مرحلہ ہے ۔ یہ وہ معنی ہیں جس کی جانب اشارہ ہم قرآن کریم کی دوسری آیات میں دیکھتے ہیں ۔ جیسا کہ ارشاد ربوبی ہے :

((وأَنِّهُ خَلَقَ الزَّوجَينِ الذَّكَرَ وَالأُنْثى (45) مِنْ نُطْفَة إِذا تُمْنى (46) وَ أنَّ عَلَيْهِ النَّشأَة الأُخرى(47))(سورة النجم ـ 45 ـ 47).

 ترجمہ : اور یہ کہ وہی ہے جس نے مرد اور عورت کے جوڑے پیدا کئے ۔  ایک خاص نطفے سے جب وہ بہایا جاتا ہے ۔ اور یہ کہ اس کے ذمے ہے دوسری دفعہ کا پیدا کرنا ۔

ایسے ہی اس حقیقت کو  ان آیات سے بھی سمجھ سکتے ہیں جن میں قیامت کے اوصاف بیان ہوئے ہیں جیسے : "المنتھیٰ" ، "المستقر" اور "المساق"  گویا یہ آیات اشارہ کررہی ہیں کہ قیامت اور معاد  حرکت و سعی کی انتہاء ہے اور انسان کی دشوار حالات  واضطرابات پر مشتمل  دنیا کے  بحر متلاطم  میں تھپیڑے کھاتی زندگی  ایک دن ثبات و سکون کے مرحلے پر پہنچ جائے گی اور اس قافلہ  کی حرکت کا  راستہ اسی بتائی ہوئی  غایت پر پہنچ کر ختم ہوتا ہے اور یہ اخروی حیات کا مرحلہ ہے ۔   یوں اس سعی کی انتہاء  بھی  پروردگار کی جانب ہوگی ۔ ہم یہاں ہر ان آیات کا ذکر کریں گے جن کی بناء ہی اس حقیقت کو بیان کرنا ہے ۔ چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا :

((وَأَنْ لَيْسَ لِلإِنْسانِ إِلاّ ما سَعى (39)

ترجمہ : اور یہ کسی آدمی  کے لئے نتیجہ خیز نہیں ہے  مگر وہی کوشش جو وہ کرے ۔  وأنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى (40) اور پھر اسی کے مطابق اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ ثُمَّ يُجْزيهُ الْجَزاءَ الأَوفى (41) اور یہ کہ اس کی کوشش عنقریب (قیامت ) میں دیکھی جائے  گی وَ أنَّ  إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى(42)) ۔ اور یہ کہ آخر میں پہنچنا اللہ ہی تک ہے ۔ (سورة النجم ـ 39 ـ 42).نیز ارشاد فرمایا: ((إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذ الْمُسْتَقَرّ))(سورة القيامة ـ 12) ترجمہ: آج کے دن صرف تیرے پروردگار کی طرف پہنچ کر ٹھرنا ہے اور ارشاد فرمایا: ((إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذ الْمَساقُ))(سورة القيامة ـ 30). ترجمہ: تو تمہارے پروردگار ہی کی طرف کھنچ کر جانا ہوگا ۔" اور غور فکر کرنے والے کے  لئے امیر المؤمنین علیہ السلام کے کلمات میں بھی اسی برہان کی جھلکیاں اور اشارات مل جاتے ہیں چنانچہ ارشاد فرمایا :

وَإِنَّ الْخَلْقَ لا مَقْصرَ لَهُمْ عَنِ القِيامة مُرقِلينَ في مِضْمارِها إِلَى الْغايَةِ القُصْوى

ترجمہ:  اور یہ کہ تخلیق قیامت سے کم نہیں ہوگی وہ اپنے راستے میں آخری مقصد کی طرف بڑھیں گے ۔

 معاد اللہ کی ربوبیت کا مظہر:

لغت میں "رب " صاحب کے معنی میں ہے ، جیسے گھر اور سامان کے مالک یا باغ کے مالک کو   "رب الدار" اور  "رب الضیعۃ" کہا جاتا ہے ۔ حقیقت میں مقام ربوبی  مربوب کی تدبیر کرنے اور اس کو کمال تک پہنچانے  کا مقام ہے ۔ جس طرح سے مقام خالقیت ایجاد و انشاء کے  مرحلے سے مربوط ہے ۔ اس لئے کہ موجود ممکن جب ایجاد و انشاء کے لباس میں آتا ہے تو اس کے بعد  یہ حاجت باقی رہتی ہے  کہ اس کو مطلوبہ کمال کی جانب لیجانے کی تدبیر کی جائے اور اس کو اپنے حال پر چھوڑ نہ دیا جائے ۔ یہی مرحلہ مقام ربوبی کا ہے ۔ جیساکہ لفظ " الرب" اشارہ کرتا ہے کہ حقیقت " ربوبیت مربوبیت " اسمیں متجلی ہوتے ہیں کہ انسان اللہ کا بندہ ہے اور اللہ اس کا مالک مطلق اور اس کا صاحب ہے اور بندہ پروردگار کا مملوک ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بندے کی شان یہ ہے کہ وہ تمام اوامر میں اپنے ولا کی اطاعت ور پیروی کرے ۔ اس طرح ےسے کہ اس کی سارے حرکات و سکنات مولا کے اوامر و نواہی کے مطابق ہوں ۔ یہ وہ مقام  ہے کہ بندے اطاعت کے لحاظ سے دو گروہ میں  تقسیم ہوتے ہیں اطاعت کرنے والے اور نافرمانی کرنے والے ۔ اس کا تقاضا  یہ ہے کہ ایک دن ہو جس میں سب ایک ہی جگہ جمع کئے جائیں جہاں پر ان کا حساب  و کتاب ہو  جس کے بعد نافرمان بندوں کو ان  کی مخالفت پر عقاب اور اطاعت گذار بندوں کو اطاعت کرنے پر ثواب دیا جائے ۔

دوسرے الفاظ میں ، ربوبیت کا لازمہ عبودیت ہے ، در اصل حقیقت عبودیت میں مسئولیت اور ذمہ داری پوشیدہ ہے اس لئے اعمال کے بارے میں  سوال وجواب اور حساب و کتاب کی بات آتی ہے ورنہ مؤاخذہ کے بغیر ذمہ داری کوئی معنی نہیں رکھتی ، اور کوئی شک نہیں کہ یہ سب اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک کوئی ایسا دن مقرر نہ ہو جس میں حساب و کتاب لیا جائے ، یہی وجہ اور دلیل ہے کہ قیامت کا دن ہونا چاہئیے جس میں اللہ سبحانہ و تعالی کی ربوبیت  متجلی ہوجائے ۔ شاید اسی مطلب کی خاطر مذکورہ آیت میں "اللہ"  یا "خالق"  یا اس کے مانند الفاظ  کے بجائے  لفظ " الرب"  آیا ہے ۔  ارشاد فرمایا : ((يا أَيُّهَا الإِنْسانُ إِنَّكَ كادِحٌ إِلى رَبِّكَ  كَدْحاً فَمُلاقيهِ))(سورة الانشقاق ـ 6) شاید یہ نکتہ ہو  کہ جس کی بناء پر ایک اور آیت میں معاد کے انکار کرنے کو ربوبیت کے انکار کرنے کے مترادف اور اس کا لازمہ قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ((وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَولهُمْ ءَإِذا كُنّا تُراباً  ءَ إِنّا لَفي خَلْق جَديد  أُولئِكَ الَّذينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ......))(سورة الرعد ـ 5)

ترجمہ : اور اگر تعجب کرو تو قابل تعجب ان کا یہ کہنا ہے کہ کیا جب ہم خاک ہوجائیں گے تو ہم از سر نو پیدا ہوں گے ؟ یہ وہ ہیں جنہوں نے کفر اختیار کیا اپنے پروردگار کے ساتھ ۔ نیز بیان سابق سے بھی انکار معاد اور انکار ربوبیت کے درمیان کا ملازمہ واضح ہوتا ہے اور وہ اسطرح سے کہ جب انسان مانتا ہے کہ اس کاایک رب ہے اور وہ خود رب کا مملوک ہے تو وہ کسی حال میں بھی اپنے رب اور مالک  کے سامنے کھڑے ہوکر حساب دینے اور اس کے سوال کا جواب دنیے سے انکار نہیں کرے گا ۔ اگر اس کو نہ مانا جائے تو مالکیت و ربوبیت کا تصور ممکن نہیں ہوگا اور عبودیت محاسبہ  سے جدا ہوجائے گی اور بندے اور مملوک سے پورا پورا مؤاخذہ کا معنی ممکن نہیں بنے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان جب قرآن کے نظم طبیعی کو دیکھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ قرآن کریم نے کتنے عمدہ انداز اور دقیق و باریک موازنہ کے ساتھ ان امور کو بیان کیا ہے کہ اس کے بیان سےایک لفظ کو بھی ادھر ادھر  یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا  اس لئے کہ ذرا سی بھی تغییرو تبدیلی معنی کے بالکل الٹ جانے کا سبب بن سکتی ہے  ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018