7 شوال 1445 هـ   16 اپریل 2024 عيسوى 3:23 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2022-09-07   556

جدید دنیا اور کربلا کا سبق

کچھ لوگ کربلا کو ایک تاریخی واقعہ سمجھ کر گذر جاتے ہیں ان کے خیال میں جیسے اور بہت سے تاریخی واقعات  وقت کی آندھیوں کی نذر ہو گئے واقعہ کربلا بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے۔یہ غلط فہمی ہے جو غلط نتائج کی طرف لے جاتی ہے۶۱ ہجری میں پیش آنے  والا یا  واقعہ مسلسل جاری ہے۔حسینیؑ کارواں مسلسل سفر میں ہے اور لوگ اس میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔کربلا ایک رواں چشمے کی طرح ہے جس کا صاف و شفاف پانی لوگوں کی پیاس بجھا کر انہیں راحت پہنچاتا ہے۔ جو بھی کربلا پہنچتا ہے اس کا ایمان سراب ہوتا ہے، اس کا قلب سکون پاتا ہے،اس کی روح چین پاتی ہے۔آج لوگ پتھر اور لوہے کی عمارتوں میں خود کو مقید پاتے ہیں انہیں روحانی تسکین چاہیے  کچھ ایسا چاہیے جو ان کے قلب مضطر کو سکون کی دولت سے مالا مال کر دے ایسے میں کربلا سامنے آتی ہے،وہ ریت کا چٹیل میدان،وہ فرات کا کنارا،وہ چند خیمے،دشمن کی کثرت،محبوں کی قلت،عشق الہی اپنے عروج پر ،عبادت کا شوق اپنی معراج پر،سرکٹانے اور جان قربان کرنے کے جذبے سے سرشار ساتھی یہ سب کربلا میں نظر آتا ہے۔پیاسوں کی پیاس ایمان کو سیراب کرتی ہے ان کی بھوک یقین میں اضافہ کرتی ہے ان کی جنگ خالق پر یقین بڑھاتی ہے ان کی شہادت دوبارہ جی اٹھنے پر یقین کامل عطا کرتی ہے۔

آج کی زندگی بہت بدل چکی ہے سہولیات کی بہتاب ہے آٖج سے  صرف دو صدیاں پہلے والے حکمران جن سہولیات کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ آج عام افراد کو میسر ہیں ۔ان تمام سہولیات کے باوجود اطمنان کی دولت سے محروم ہیں۔اطمنان کا تعلق مال،دولت،گھر یا گاڑی و عہدہ سے نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو جن کے پاس یہ سہولیات ہیں ان میں سب سے زیادہ اطمنان ہونا چاہیے تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ نیند کی گولیاں استعمال کرتے ہیں۔انہیں دن میں چین نہیں رات کو سکون نہیں۔ ان کے مدمقابل ایسے لوگ ہیں جن کے پاس ظاہری طور پر کوئی وسائل نہیں دنیا چھوڑ چکی ہے ،مشکل ترین صورتحال درپیش ہے  مگر  دولت اطمنان ایسی کہ دشمن پریشان ہیں۔حضرت خلیل ؑ کو جب آگ کی طرف پھینکا جا رہا تھا تو نمرود تخت پر پریشان تھا اور ابراہیم ؑ تختہ پر بھی دولت  اطمنان سے مالا مال تھے۔وہ چیز جس نے تختہ پر دولت اطمنان دی وہ خدا پر ایمان وبھروسہ تھا اور وہ چیز جس نے تختہ پر پریشان کیے رکھا خدا پر ایمان  نہ ہونا تھا۔اقبال نے کیا خوبصورت منظر کشی کی ہے:

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشہ لب بام ابھی

کربلا بھی اسی کی عکاس ہے جہاں شہید ہونے والے مطمئن ہیں اور جو قتل کرنے کے لیے آئے ہیں وہ اس نعمت سے محروم ہیں۔اسی لیے تو  سید الشہداء سے آپ کے فرزند نے کیا خوبصورت جملے ارشاد فرمائے تھے پوچھا تھا بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ سید الشہداء نے فرمایا بیٹا بالکل ہم حق پر ہیں ،اس پر بیٹے نے کہا تھا بابا جب ہم حق پر ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم موت پر جا پڑیں یا موت ہم پر آ پڑے؟یہی جذبہ صادقہ کربلا کو کربلا بناتا ہے۔یہی وہ خلوص تھا جس نے واقعہ کربلا کو کربلا میں دفن ہونے سے روک دیا ۔یہ اطمان  و یقین کی معراج ہے جہاں اہل سلوک  بھی انگشت بدندان نظر آتے ہیں۔

ہم چھوٹی چھوٹی مشکلات سے گھبرا جاتے ہیں اور قوم،ملک،مذہب ہر کسی کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں مگر کربلا کا پیمانہ ہی اور ہے یہاں کے اصحاب با وفا کا جذبہ یقین اس قدر بلند تھا کہ جب سید الشہیداء نے چراغ بجھا دیے تب بھی وہ اپنی جگہوں سے ہلے تک نہیں۔جب آپ نے زیادہ اصرار فرمایا تو کوئی اٹھا اور  تلوار گردن پر رکھ کر کہا مولا اذن دیں تو  ابھی گردن کاٹ لوں؟ کسی نے کہا مولایہ ایک زندگی ہے اگر اللہ ایک ہزار زندگیاں دے اور ہر زندگی میں آپ کی محبت میں شہید کیا جاوں او رمیری لاش کو جلا کر ہوا میں بکھیر دیا جائے اور پھر پوچھا تو بھی آپ کی محبت میں شہید ہونا چاہوں گا۔یہ جذبہ اطاعت امام حسینؑ کے اصحاب کو منفرد بناتا ہے اور ان کا یہ امتحان ضروری بھی تھا کیونکہ کل کربلا درپیش تھی جہاں لشکر حسین ؑ سے چلے جانا  بہت بڑا سوال چھوڑ جاتا  اس لیے پہلے ہی عشق کی بھٹی میں  ڈال کر نظریاتی طور پر کند بنا دیا گیا تاکہ پہاڑ اپنے جگہ چھوڑ دیں تو چھوڑ دیں کربلا  کا سپاہی اپنے نظریے سے دستبردار نہ ہو۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ نظریات کا دور ختم ہو چکا اس کی جگہ مفادات نے لے لی ہے جبکہ  کربلا  کا پیمانہ مفادات سے یکسر مختلف ہے وہ عقلی پیمانوں کو مسترد کرتے ہوئے  نطریات پر جان  لوٹانے کا نام ہے بقول خواجہ  ہند

سر داد نہ داد دست در دست یزید

حسینؑ نے سر دے دیا  ہاتھ نہیں دیا  کیونکہ حسینؑ ہاتھ دینے کی اہمیت سے آگاہ تھے ۔آج جب  دنیاقومی ریاست کی چادر تان کر خود کو بارڈرز میں محدود کر چکی ہے،جب ہر پالیسی کی بنیاد مفاد کو قرار دیا جا رہا ہے،آج جب مظلوم،حق پر ہونا،انصاف کا طالب ہونا جیسی اقدار کی بنیاد پر قوموں اورممالک کی حمایت قصہ پارینہ بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ہر ملک  کی خواہش چڑھتے ہوئے سورج کی پوجا کرنے کی ہے ایسے میں  کربلا ہمارے لیے  منارہ نور ہے کہ ہمیں کسی بھی صورت میں ان اقدار کو مٹنے نہیں دینا ان کے احیاء کی کوشش کرتے رہنا ہے۔

حالات جیسے بھی ہوں جبر سے ٹکرا جانا ہے، ظلم و بربریت کا سامنا کرنا ہے،تعداد کی فکر میں نہیں نظریہ کی بنیاد کو دیکھنا ہے۔کچھ بچانا نہیں سب کچھ لٹا دینا ہے،کسی بھی صورت میں نہ ظالم بننا ہے اور نہ ظالم کا مدد گار۔اس سے بڑھ کرکوئی   مشکل صورتحال پیدا نہیں ہو سکتی ؟کہ رشتہ دار، مہمان ،اصحاب اور تمام مدد گار شہید کر دیے جائیں اور انسان اپنے نظریے پرمضبوط چٹان کی طرح کھڑا ہو۔آج کربلا سے ہم نے یہی سیکھنا ہے کہ کیپٹلزم میں جب ہر چیز پروڈکٹ کی صورت اختیار کر رہی ہے ہم نے  نظریہ کی بات کرنی ہے حالات جتنے بھی سخت ہوں ہم نے مظلوم کی آواز بننا ہے۔

کربلا کا ایک سبق مشکل ترین حالات میں مایوس نہ ہونا اور امید کو باقی رکھنا ہے۔ایک خاتون گیارہ محرم کو  جلے خیموں،بکھرے لاشوں ،روتے بچوں اور پریشان حال عزت مآب بیبیوں کے پاس کھڑی ہے۔بھائی شہید ہو گئے ،بیٹوں کا درد کلیجہ چیر رہا ہے،بھتیجوں کی لاشیں بکھری ہیں،ان تمام کی لاشوں کو دفن کرنے کی اجازت بھی نہیں ملی او راس کے ساتھ اب قید ہو چکی ہیں۔کوفہ و شام کا سفر درپیش ہے جہاں اہل اقتدار جشن منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں ایسے میں خاتم الانبیاء کی نواسی کا جذبہ خیر دیکھیے لاشوں کے درمیان کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کرتی ہے۔ممکن ہے دیکھنے والے نے سمجھا ہو اللہ سے کوئی شکایت کر رہی ہے زمانے کی بے وفائی کا کوئی شکوہ ہو رہا ہے مگر محمد عربیﷺ کی نواسی نے دعا مانگی تو یہی کہ پروردگار ہماری  اس قلیل سی قربانی کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخش دے۔اطاعت کے اس جذبے پر رحمتِ خداوندی بھی جوش میں آئی ہوگی اور کہا ہو گا کہ  ہم نے نا صرف اس قربانی کو قبول کر لیا  بلکہ رہتی دنیا تک تمارے ذکر میں سکون رکھ دیا مومن دنیا  کے کسی کونے پر چلا جائے  اسے ذکر حسین ؑ سے سکون آتا ہے۔معمولی معمولی باتوں پر جذع فزع کرنے اور باطل کے سامنے سر جھکانے کی باتیں کرنے والوں کے لیے کربلا رہنمائی ہی رہنمائی ہے۔سر کٹ جائے کوئی بات نہیں مگر اسے جھکنانہیں چاہیے۔ 

ڈاکٹر ندیم عباس

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018