23 شوال 1445 هـ   2 مئی 2024 عيسوى 2:45 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | امامت |  لغت اور قرآن میں "امام" کا معنیٰ
2022-07-01   1513

لغت اور قرآن میں "امام" کا معنیٰ

یہ ممکن نہیں ہے کہ امام و امامت کے موضوع پر سیر حاصل بحث اور اس کی تحقیق ایک مقالہ یا چند صفحات کے اندر مکمل کی جاسکے۔ اس لئے کہ یہ  ایسی معرکۃ الآراء بحث ہے جو ہجرت کی ابتدائی صدیوں سے ہی مسلمانوں کے درمیان جاری و ساری رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں اور گروہوں نے اہل بیت علیھم السلام کے مذہب کی پیروی کرنے والوں کو "رافضہ" کا نام دیا ہے۔ اس لئے کہ اہل بیت کے ماننے والے ہر اس شخص کی امامت کو رد کردیتے اور ٹھکرادیتے ہیں جنہوں نے تاریخ اسلام میں ہجرت کی ابتدائی صدی سے لے کر ابھی تک اسلامی ممالک پر حکمراں بنے اور خلیفہ ہونے کا بھی دعوی کرتے رہے۔

امامت کے اس مفہوم کو سمجھانے اور اسلامی نظام کے نقطہ نگاہ سے اس کی تعریف کو واضح کرنے کے لئے ضروری کہ قرآن کریم میں اس لفظ کے استعمال کا مطالعہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ قرآن کریم میں یہ لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم لغوی اعتبار سے اس کی اساسی تحقیق کریں ۔اس طرح کے مطالعے کی ضرورت اس لئے ہے تاکہ ہم آیندہ معنائے امامت کے متعلق تفصیلی امور کو صحیح طرح سے پیش کر سکیں گے ۔

لغت میں امام کی تعریف

یہاں اس نقطے کی جانب اشارہ کرتے چلیں کہ جب ہم لغوی تعریف کی بات کرتے ہیں تو اس سے مقصود لفظ کے وہ معنی ہوتے ہیں جن کے لئے عربی زبان میں مذکورہ لفظ وضع کیا گیا ہے۔ لہذا لغوی تعریف کے ذریعے ہمارے لئے اس معنی کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے جس کے لئے وہ لفظ وضع کیا گیا ہے جس میں سے ایک لفظ "امام" بھی ہے اور اسی طرح سے دوسرے الفاظ بھی ہیں۔ اگرچہ کہ عرب نے ہر معنی کے لئے ایک خاص لفظ وضع کیا ہے لیکن اس کے باوجود زمانے کے گزرنے کے ساتھ  معارف کا دائرہ وسیع ہوتا گیا لہذا انہوں نے بعض الفاظ جو خاص معنی کے لئے وضع کئے گئے تھے ان کو  ایسے کچھ دوسرے معنی میں بھی استعمال کیا جن کا مذکورہ لفظ کے اصلی معنی کے ساتھ کسی طرح کا ربط پایا جاتا تھا ۔ اس لئے ہم پر لازم ہے کہ ایک لفظ کی لغوی تعریف اور اس کی اصطلاحی تعریف کے درمیا ن جو فرق ہے اس کا ملاحظہ کریں ۔

اس مطلب کے لئے ہم یہاں لفظ "الصلاۃ" کی مثال دیتے ہیں کہ اسے عربی زبان کے وضع کرنے والوں نے دعا کے معنی کے لئے وضع کیا تھا جبکہ یہی لفظ اسلام میں ایک خاص معنی میں استعمال ہوا جو عبارت ہے کچھ افعال و حرکات اور اقوال سے۔ جن کو ایک مسلمان ایک مخصوص اور معین طریقے سے انجام دیتا ہے تاکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالی کی بندگی کی حکایت کرے اور یہ "صلاۃ"، اقامت و تکبیرسے شروع ہوتی ہے اور تشہد و سلام پر ختم ہوتی ہے ۔

یہی صورت ہے لفظ "الحج" میں بھی کہ یہ لفظ بھی شروع میں عربوں نے "ایک بڑی چیز کے قصد " کے لئے وضع کیا ۔ لیکن اسلام کے بعد عرب نے اسی لفظ "الحج" کو ایک  قسم کے قصد کے معنی پر استعمال کیا اور وہ عبارت ہے ہے مکہ مکرمہ کا قصد اور اس کے ساتھ وہاں جا کر جو شعائر انجام دیئے جاتے ہیں، اس سے۔

اب ہم اپنے مطلب کی طرف آتے ہوئے کہتے ہیں " لفظ "امام"، "کتاب" کے وزن پر اسم مصدر ہے اس کا مصدر "امّ" ہے۔ جس کا معنی قصد کے ہیں۔ جیسا کہ اہل لغت نے بھی اس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ پس جب ہم عربی لغت کے متعدد قوامیس کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ لفظ امام بھی متعدد مصادیق پر استعمال ہوا ہے۔ منجملہ ان میں سے المعلّم، المقدمۃ، السبیل، الشاقول الّذی یشید البناء وغیرہ میں استعمال ہوا ہے۔ یہ استعمالات درحقیقت معنی سے خارج کچھ ایسے مصادیق ہیں جو لفظ امام سے مترشح ہوتے ہیں۔ یہ مصادیق لفظ کا عین مفہوم اور جس کے لئے یہ لفظ وضع کیا گیا اس کے معنی نہیں ہیں ۔

لیکن یہاں یہ کہنا ممکن ہے کہ لغویین کے ان تمام الفاظ سے ان کے درمیان ایک مشترک معنی کو اخذ کرسکتے ہیں کہ اسی معنائے عام اور مشترک کی جانب لفظ امام کے سارے مختلف استعمالات پلٹتے ہیں ،اور وہ مشترک معنی " وہ شے ہے جس کے ضمن میں مقصد تک پہنچنے کا معنی تمام ہوتا ہے، اب یہ معنی و مقصد چاہے ان میں سے ہو جس کی لوگ اقتدا کرتے ہیں جیسے سردار یا کوئی اور۔ ۔یا وہ ہو جس کو لوگ اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے پیشوا، مددگار، دلیل و راہنما قرار دیتے ہیں۔ لغت کے ماہرین کی ایک جماعت نے تقریبا ایسا ہی معنی بیان کیا ہے ۔

 قران کریم میں امام کا معنی:

قرآن کریم میں لفظ امام بارہ مقامات پر آیا ہے ۔ پانچ مقامات پر جمع  (ائمہ) کی صورت میں اور سات جگہوں پر واحد (امام) کی صورت میں ۔ قرآن کریم میں  لفظ امام کا اس طرح سے آنا بعض محققین کے نزدیک ایک  خاص معین معنی کے لئے لطیف اشارہ ہے اور وہ ان ائمہ اور خلفاء کی تعداد ہے جن کا ذکر روایات و احادیث  نبوی میں ہوا ہے :

 يكون اثنا عَشرَ أميرًا، فقال [الرَّسول]: كلمة لم أسمعها، فقال أبي: إنَّه قال: كلُّهم من قريشٍ".•إنَّ هذا الأمر لا ينقضي حتَّى يمضي فيهم اثنا عشرَ خَليفة، قال [ الراوي]: ثم تكلَّم بكلامٍ خَفِي عَلَيَّ، قال [ الرَّاوي] فقلت لأبي: ما قال؟: قال: كلُّهم من قريشٍ"

ترجمہ: بارہ امیر ہوں گے ۔ اس کے بعد (رسول ) ایک جملہ فرمایا جس کو میں نے نہیں سنا ، تب میرے والد نے کہا : آنحضرت نے فرمایا: وہ سب قریش میں سے ہوں گے ۔

ترجمہ: یہ امر اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک ان کے درمیان بارہ خلیفہ نہ گزریں۔ (راوی نے ) کہا: پھر آنحضرت ﷺ نے ایک اور کلام فرمایا جو مجھ پرپوشیدہ رہ گیا ، (راوی نے) کہا: میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ حضور ﷺ نے کیا فرمایا ؟ کہا: حضور ﷺ نے  فرمایا : وہ سب قریش میں سے ہیں ۔

وہ آیات جن میں لفظ  امام جمع کی صورت میں آیا ہے یہ ہیں:

(وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ))(التوبة ـ 12)

 ترجمہ: اور یہ عہد کے بعد بھی اپنے قسموں کو توڑ دیں اور دین میں طعنہ زنی کریں تو کفر کے سربراہوں سے کھل کر جہاد کرو کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ہے شاید اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔  ((وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ))

ترجمہ: اور ہم نے ان سب کو پیشوا قرار دیا  جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ان کی طرف کار خیر کرنے، نماز قائم کرنے اور زکوۃ  ادا کرنے کی وحی کی اور یہ سب کے سب ہمارے عبادت گزار بندے تھے ۔ (الأنبياء ـ73)

((وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً الْوَارِثِينَ)) ۔(القصص ـ 5)  

ترجمہ : اور ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا امام بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں ۔"  اور اسی طرح سورۃ القصص میں مزید ارشاد ہوتا ہے

((وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لا يُنصَرُونَ)) ۔(القصص ـ41)

ترجمہ: اور ہم نے ان لوگوں کو جہنم کی طرف دعوت دینے والے ائمہ قرار دیا ہے اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی ۔

اور سورۃ السجدہ میں ارشاد ہوتا ہے:

 ((وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآَيَاتِنَا يُوقِنُونَ))(السجدة ـ 24)

 ترجمہ: اور ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو ائمہ قرار دیا جو ہمارے امر سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا ہے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے ۔

وہ آیات جن میں لفظ امام مفرد آیا ہے وہ یہ ہیں:

 ((وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ))(البقرة ـ124)

ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا۔ اور سورۃ الھود میں آیا ہے

((أَفَمَن كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً))(هود ـ 17)

ترجمہ : کیا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل رکھتا ہے اور اس کے پیچھے اس کا گواہ بھی ہے اور اس کے پہلے موسی کی کتاب گواہی دے رہی ہے جو قوم کے لئے امام اور رحمت تھی ۔ نیز سورۃ الحجر میں ارشاد ہوتا ہے :

((وَإِنْ كَانَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ لَظَالِمِينَ (78) فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ وَإِنَّهُمَا لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ))(الحجر ـ 78-79)

اور اگرچہ ایکہ والے ظالم تھے۔ تو ہم نے ان سے بھی انتقام لیا اور یہ دونوں بستیاں واضح شاہراہ پر تھیں ۔اسی طرح سورۃ الاسراء

((يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا))

 ترجمہ : قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے اور اس کے بعد جن کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنے صحیفے کو پڑھیں گے اور ان پر ریشہ برابر ظلم نہیں ہوگا۔ (الإسراء ـ71)

سورۃ الفرقان میں ارشاد ہوتا ہے:

((وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا))(الفرقان ـ 74)

 ترجمہ: اور وہ لوگ برابر دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدا یا ہمیں ہماری ازواج اور اولاد کی طرف سے خنکی چشم عطا فرما اور ہمیں صاحبان تقوی  کا امام بنادے ۔ ایسے ہی سورہ یٰس میں ارشاد ہوتا ہے:

((إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ))

ترجمہ: بیشک ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ان کے گزشتہ اعمال اور ان کے آثار کو لکھتے جاتے ہیں اور ہم نے ہر شے کو ایک روشن امام میں جمع کردیا ہے ۔ (يس ـ12)

نیز سورۃ الاحقاف میں آیا ہے:

 ((وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً وَهَذَا كِتَابٌ مُصَدِّقٌ لِسَانًا عَرَبِيًّا لِيُنْذِرَ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَبُشْرَى لِلْمُحْسِنِينَ))(الأحقاف ـ 12)

ترجمہ : اور اس سے پہلے موسی کی کتاب تھی جو امام اور رحمت تھی اور یہ کتاب عربی زبان میں سب کی تصدیق کرنے والی ہے تاکہ ظلم کرنے والوں کو عذاب الہی سے ڈرائے اور یہ نیک کرداروں کے لئے مجسمہ بشارت ہے ۔

جب ایک دقیق محقق ان آیات پر تدبر کرتا ہے تو اسے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی کتاب قرآن میں لفظ امام درجہ ذیل معنی و مصادیق پر استعمال ہوا ہے: " موسی علیہ السلام کی کتاب، لوح محفوظ، نیکی اور ہدایت کے امام، کفر و ضلالت کے امام، اور راستے اور سبیل۔ جیسا کہ سورۃ الحجر میں آیا ہے ۔

ان مصادیق پر لفظ امام کا بطور اشارہ استعمال ہونا کہ جن کی ماہیت ایک دوسرے سے مختلف ہے سبب بنتا ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ ان مختلف مصادیق کے درمیان وہ کون سی قدر مشترک ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے اوپر لفظ امام استعمال کیا گیا ہے کہ جس کی وجہ سے ان سب میں مذکورہ لفظ کا استعمال صحیح کہلایا ہے ؟ پس گاہے ایسا ہوتا ہے کہ ایک لفظ ایک عام معنی کے لئے وضع ہوتا ہے۔ تاکہ اسے متعدد معانی و مصادیق پر بولا اور استعمال کیا جاسکے جن کی ماہیت اور حقیقت مختلف ہوتی ہے۔ البتہ اس طرح کے استعمال کی شرط یہ ہے کہ یہ سارے مختلف مصادیق کسی ایک جہت اور پہلو میں اشتراک رکھتے ہوں جو ان تمام مصادیق کو جمع کرے ۔ 

لہذا جب ہم وہ آیات قرآنی کہ جن میں لفظ امام آیا ہے اسی کے ساتھ ہی جن مصادیق پر یہ لفظ  امام استعمال ہوا ہے پر غور کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب ایسی صلاحیت پر مشتمل ہیں جن کی وجہ سے ان سب پر لفظ امام کا استعمال کرنا جائز ہوجاتا ہےاور ان میں سے ہر ایک پیروکاری کا ذریعہ اور لوگوں کے لئے راستے یا مقصد کی طرف راہنمائی کا وسیلہ ہونا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ مشترک عنصر جو ان تمام مصادیق کے درمیان پایا جاتا ہے جن کی وجہ سے لفظ امام کا ان پر استعمال صحیح ہوسکا وہ مجموعی حیثیت ہے جو ان سب میں پائی جاتی ہے اور وہ ان سب کا اپنے پیروکاروں کے لئے راہنما اور پیشوا بننے کی ہے ۔ اب اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ چیز ناطق ہو یا صامت ہو۔

یہ معنی ہمیں نیکی و صلاح کے ائمہ میں بھی نظر آتا ہے اور ایسے ہی گمراہی کے ائمہ میں بھی نظر آتا ہے، اسی طرح سے حق کی طرف ہدایت کرنے والی کتابوں میں بھی ہے اور باطل کی طرف دھکیل دینے والی کتب میں بھی پائی جاتی ہے۔ بلکہ یہ خصوصیت لوح محفوظ میں بھی جو چیز اس میں ہے اس حساب سے اس میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ چیز جس کے توسط سے کسی مقصد نہائی کی راہنمائی ہوتی ہے اور وہ راستہ کہ جس کی جانب ہر انسان متوجہ ہوتا ہے ان سب میں بھی وہی مشترک عنصر پایا جاتا ہے ۔یعنی کسی طرح منزل یا مقصد کی طرف راہنمائی کرنا۔ لہذا  یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ راستے اور سبیل کو بھی امام کہاجاسکتا ہے جو کسی سفر یا مقصد تک پہنچنے میں راہنما اور توجہ کرنے کا باعث ہو۔ 

اس بناء پر، یہ کہنا ممکن ہے کہ "امامت " کا مفہوم ایک ایسا مفہوم ہے کہ جس کے اندر معانی و مفاہیم کے ایک مجموع کو اس انداز سے اخذ کیا گیا ہے کہ یہ  ہر اس چیز پر صادق آتا ہے جس میں پیشوائی اور اتباع کی حیثیت پائی جاتی ہے اور لوگ اسے اپنی منزل اور اپنے مقصد تک پہنچنے کی خاطر مرجع اور ذریعہ قرار دیتے ہیں ۔ اسی لحاظ کے تحت ابراہیم علیہ السلام  امامت کی صفت سے متصف تھے اور اسی معنی کے مطابق نبی مکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بھی امام تھے اور دونوں ہی لوگوں کے لئے صراط مستقیم کی جانب پیشوا اور راہنما تھے ۔ اس لئے کہ دونوں پاک ہستیاں لوگوں کو  صحیح راستے کی طرف ہدایت فرماتے تھے اور لوگوں کے پیشوا تھے ۔ یہی سلسلہ ان میں بھی پایا جاتا ہے جن کو نبی مکرم حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنے بعد جانشین چھوڑا ہے۔ یہ جانشین رسول کی طرف سے تمام لوگوں کے پیشوا اور راہنما ہیں جو مؤمن ہیں اور لوگوں کو اسلام کی ان تعلیمات کی جانب راہنمائی کرتے ہیں جن کو اسلام نے سب لوگوں کے لئے بتایا ہے۔

اسلام نے انسانوں کے لئے جو اہداف معین کئے ہیں ان تک پہنچانا دو طرح سے ہوسکتا ہے یا کہیئے کہ دو خطوط کے تحت ممکن ہوسکتا ہے: پہلا یہ کہ اسلام کی رسالت کے بارے میں تفصیل سے جاننے کی صلاحیت و قدرت ہو، دوسرا یہ کہ اس صلاحیت کے ساتھ یہ قوت بھی ہونی چاہیئے کہ لوگوں کے امورو معاملات کو بالکل اسی طرح سے چلایا جائے اور انجام دیا جاسکے کہ جس کو اسلام نے معین کیا اور پیش کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ وہ امام کہ جن کو صاحب رسالت نے اپنا جانشین مقرر کیا ہے اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ رسالت کے تمام تعلیمات و احکام کے مکمل بیان وتشریح کے اعتبار سے مرکز و مرجع ہو اسی طرح اسے ان تعلیمات کی واقعی تنزیل میں بھی مرجع ہو تاکہ وہی لوگوں کے امور کی باگ ڈور سنبھالے اور لوگوں کو صحیح سمت گامزن کرے۔ البتہ یہاں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ لہذا انشاء اللہ  اگر خدا نے توفیق دی تو کسی اور مقالے میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کریں گے ۔

خلاصہ:

جب ہم عربی زبان کے قدیمی لغت کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسی طرح قرآن کریم میں اہم استعمالات پر بھی غور کرتے ہیں تو ان تمام استعمالات میں ایک مشترک معنی ہمیں نظر آتا ہے۔ یہ مشترک معنی وہ ہے جو اپنے اندر ان تمام مفاہیم کو لئے ہوئے ہے جو عبارت ہیں پیشوا، راہنمائی اور اس طرح کی مدد سے کہ وہ چیز جو ان امتیازات کی حامل ہو وہ دوسروں کے لئے ان کے مقصد و منزل تک پہنچنے میں مرجع اور مرکز کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ معنی اس انسان کے اندر منطبق ہوتا ہے جو حیات و تعقل کی صفت سے متصف ہو ، اسی طرح ان کتابوں اور راستوں وغیرہ پر بھی منطبق ہوتا ہے جو حیات و تعقل کی صفت نہیں رکھتے ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018