14 شوال 1445 هـ   23 اپریل 2024 عيسوى 10:04 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2022-05-20   472

ابن ھیثم۔ ۔ ۔ ۔ ۔عملی نفسیات اور فزیکس کا عالم

ابو علی الحسن بن الھیثم ۹۶۵ مطابق ۳۵۴ھ کو جنوبی عراق کے شہر بصرہ میں پیدا ہوئے اور ۱۰۴۰ ء مطابق ۴۳۰ھ کو قاہرہ میں وفات پاگئے۔ انہوں نے دو طرح کی حکومتوں کے ادوار دیکھے، بغداد میں عباسیوں کا دور اور مصر میں فاطمیوں کا دور۔ ابن ھیثم مرتے دم تک سلطنت فاطمیوں کے دارالخلافہ قاہرہ میں ہی زندگی گزاری ۔ البتہ اپنی زندگی کا کچھ عرصہ اندلس میں بھی بسر کیا ۔ بصرہ سے ہی ابن ھیثم کا اسلامی عقیدہ اور سائنسی تحقیق کی سفر کا آغاز ہوتا ہے ۔ بعد ازاں وہ آپٹیکس ، فزیکس، ریاضیات اور انجینئرنگ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں ۔ ایسے ہی انہوں نے فلسفہ، علم النفس کے علاوہ دوسرے علوم مانند علوم تطبیقیہ اور انسانی علوم بھی حاصل کئے ۔

عراق میں ان کا ایک مقولہ بڑا مشہور ہوا جس نےمصر میں ایک ہل چل مچادی اور وہ مشہور مقولہ یہ تھا:" اگر میں مصر میں ہوتا تو دریائے نیل پر ایک ایسا کام کرتا جس سے بغیر کسی نقصان کے ہر وقت فائدہ اٹھایا جاتا۔" جب اس مقولے کی آواز مصر پر حاکم فاطمی خلیفہ الحاکم لامراللہ کے کانوں سے ٹکرائی تو اس نے ابن ھیثم کو مصر طلب کیا تاکہ ان کے افکار کے ذریعے دریائے نیل کے پانی سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ابن ھیثم کی سوچ یہ تھی کہ "اسوان" نامی بند جو آج بھی موجود ہے اسی کی جگہ پر ایک اور بند بنایا جائے ۔ ابن ھیثم نے اپنے منصوبے پر کام تو شروع کیا لیکن وسائل کے نہ ہونے اور غلط تدبیر کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہو گیا جس کے نتیجے میں خلیفہ اس پر غضبناک ہوا ۔ ابن ھیثم نے خلیفے کے غصے اور سزا سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو دیوانہ ظاہر کیا ۔ اس پر خلیفہ نے ابن ھیثم کو اس کے اپنے گھر کے ایک  کمرے میں دس سال کے عرصے تک بند کردیا ۔ البتہ ابن ھیثم نے اس فرصت سے اپنے لئے بہتریں فائدہ اٹھایا اور وہ یہ کہ اس عرصے میں انہوں نے کتاب "المناظر" تالیف کی جو بعد میں بڑی مشہور ہوگئی ۔ اس کے علاوہ بھی ابن ھیثم نے اندلس کی جانب سفر کرنے سے پہلے  ہیئت، ریاضیات، فزیکس ، ہندسہ، علم النفس، علم نفس الحیوان جیسے علوم میں دسیوں کتابیں تالیف کیں ۔ تاکہ وہاں پر ھیئت و طب ، فزیکس اور  انجینئرنگ کے علوم کی تدریس کرسکے ۔

ابن ھیثم کا طریق کار

  ابن ھیثم علمی روش اور طریق کار میں جابر بن حیان کے پیروکار رہے ہیں ۔ جو کہتے تھے (یعنی ابن حیان):" ہم اپنی ان کتابوں میں صرف ان چیزوں کی خصوصیات بیان کرتے ہیں جن کو ہم نے دیکھا ہے ۔ نہ ان چیزوں کو جن کو ہم نے سنا ہے یا ہمیں بتایا گیا ہےیا پڑھایا گیا ہے، بلکہ ہم نے تو وہ چیزیں بیان کی ہیں جن کو ہم نے پرکھا اور تجربہ کیا اور ہمارے نزدیک ان کا نتیجہ صحیح نکلا ہے ۔ ان چیزوں کو ہم نے چھوڑ دیا ہے جو ہمارے نزدیک صحیح نہیں تھیں  اور جن چیزوں کا ہم نے استخراج کیا ہے  ان کا موازنہ و مقایسہ بھی ان دانشوروں کے اقوال کے ساتھ کیا ہے ۔ "

  ابن ھیثم نے اپنے زمانے کے بعض رائج فارمولے جو ارسطو ، بطلیموس اور اقلیدس کے نظریات پر مبنی تھے کی تصحیح کی ۔ جن میں سے ایک آنکھ سے اشیاء پر روشنی کے پڑنے کا  نظریہ تھا ۔ ابن ھیثم نے ثابت کیا کہ روشنی اجسام سے آنکھ کی طرف منتقل ہوتی ہے ۔ لہذا ان دانشوروں نے جو کہا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ ابن ھیثم تجربہ کے حوالے سے ایک نظم اور میتھڈالوجی کے قائل تھے ۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تحقیقات میں اسی سائنسی میتھڈالوجی پر عمل کیا ہے ۔ نیز یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ابن ھیثم کے تجربات کلاسیکل فزیکس اور ہندسہ دونوں کے جمع کرنے پر قائم تھے۔ یوں ان دونوں علوم کے سہارے سے اپنی علمی تحقیقات سے نتائج اخذ کرتے تھے ۔

Opticianry medical) میں ابن ھیثم کی بہت زیادہ خدمات ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کی خدمات کو ایک بنیادی حیثیت دی گئی ہے ۔ بلکہ بصریات کے نظری اور عملی دونوں میدانوں میں جدید تحقیقات کا سنگ میل قرارپاتا ہے ۔ ابن ھیثم کی تحقیق ایک ایسی منظم بصری ریسرچ پر مشتمل ہے جس میں کروی ، مقعر اور ترچھا کروی اور مسطح  شیشوں کو بھی بروئے کار لایا گیا ہے ۔ اس طرح سے ابن ھیثم نے یہ ثابت کیا کہ refractive اورfall angles کے دونوں زاویے مساوی نہیں ہوتے ۔

ابن ھیثم وہ پہلے دانشور ہیں جنہوں نے اپنی مشہور کتاب "المناظر" میں کہا ہےکہ بصارت دماغ میں دونوں آنکھوں کے توسط سے وجود میں آتی ہے خود آنکھوں میں نہیں۔ جیسا کہ اس کا مطالعہ قوس وقزح اور اس کے کثیف ہونے اور فضائی غلاف کے مرتفع ہونے کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی ابن ھیثم نے قدرتی ، فلکیاتی مظاہر جیسےچاند گرہن ،سورج گرہن ، شفق اور چاند کی روشنی پر بہت مطالعہ کیا۔ ابن ھیثم کے نظریات اور عمدہ ریسرچ سے مغرب کے قدیم و جدید سائنسدانوں نے بصریات، فزیکس اور ریاضیات وغیرہ کے میدان میں استفادہ کیا ۔

لیکن  خود ابن ھیثم نے ریاضیات و جیومیٹری کے باب میں اقلیدس اور ثابت بن قرہ کے طریقہ کار پر اعتماد کر کے نظریہ اعداد وضع کیا جو کہ تحلیلی جیومیٹری  کا قدیمی ترین نظریہ کہلاتا ہے ۔ ابن ھیثم نے مخروطی قطعات کے لئے ایک نظام وضع کیا اور الجبرا اور جیومیٹری  کے  درمیان ربط و تعلق ثابت کیا ۔ رینہ ڈکارٹ  نے تحلیلی جیومیٹری کی حد بندی میں ابن ھیثم کے نظریات سے استفادہ کیا ۔ اسی طرح نیوٹن نے  بھی نظریہ تفاضل و تکامل میں ابن ھیثم کی سائنسی خدمات سے استفادہ کیا ۔

ابن ھیثم کے مخطوطات ، جیسے حیوانات کی ارواح پر موسیقی کی تاثیر  کے حوالے سے قدیمی تریں مخطوطات شمار کئے گئے  ہیں ۔ ابن ھیثم کہتے ہیں کہ اونٹ کو گانا سنایا جائے تو اس کی رفتار بڑھ جاتی ہے ۔ جس کا تجربہ پرندوں ، گھوڑوں اور اونٹ وغیرہ پر کیا گیا ۔

مصر کا معاصر سوڈانی ماہر نفسیات عمر خلیفہ  کہتےہیں:" سزاوار ہے کہ ابن ھیثم کو تجربی نفسیات کا بانی سمجھا جائے اس لئے کہ انہوں نے ادراکی بصری نفسیات اور بصری دھوکے کے ادراک کے حوالے سے رہنما کارنامے انجام دئے ہیں ۔ اسی طرح فزیکل علم النفس میں بھی ابن ھیثم ہی مؤسس و بانی کہلاتے ہیں اور یہی جدید نفسیات کے مقدمات شمار ہوتے ہیں ۔

تحقیقی نمونے

۔ابن ھیثم نے پہلی مرتبہ انسانی آنکھ کی مفصل تشریح اور اس کے حصوں کے وظائف کو بیان کیا ہے ۔

۔ ابن ھیثم landscape  science  کے اولین مؤسس کہلاتے ہیں ۔

۔ اپٹیکل سسٹمز کے متعلق ابن ھیثم کی تحقیقات ہیں جن کو انہوں نے کروی، مقعراور ترچھے کروی آئینوں کے ذریعے انجام دی ہیں۔

۔ ابن ھیثم نے  refractive angles اور fall anglesکے درمیان مساوی نسبت کے نہ ہونے کو ثابت کیا ہے ۔

۔ یورپی سائنسدانوں کے بہت سارے نظریات جو  lenses magnifying powers سے مربوط تھے ان کو رد کردیا۔

۔   vision theoryکی یوں وضاحت کی کہ روشنی چیزوں سے آنکھ میں منعکس ہوتی ہے نہ آنکھ سے اشیاء کی طرف۔

۔ تفصیل کے ساتھ سیاہ کیمرے  کی کار کردگی کو بیان کیا۔

۔ ساتوں سیاروں کے بارے میں ابن ھیثم کے کچھ  مخطوطات ہیں ۔

۔ ابن ھیثم نے علم فلکیات اور علم نجوم کے درمیان فرق بھی بیان کیا ہے ۔

۔ لیکن زمین کے عالم وجود کا مرکز ہونے کے متعلق ان کا نظریہ کچھ اضطراب  کا شکار ہے ۔

سیاہ کیمرہ

حسن بن ھیثم نے سیاہ کیمرے یا pinhole کیمروں  کے بارے سب سے پہلے ایک واضح تحلیلی  خصوصیات بیان کیں ۔ ابن ھیثم کا یہ نظریہ ارسطو، وثیون اسکندری، الکندی اور چین کے فلسفی موزی نے جو بیان کیا تھا اس کے خلاف تھا ۔ ان سائنسدانوں اور فلسفیوں کا نظریہ تو یہ تھا کہ روشنی ان چھوٹے سوراخوں کے ذریعے کیمرے کے اندر تک پہنچتی ہے ۔ لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ  یہ روشنی کیمرے کے اندر موجود اسکرین پر جو ظاہر ہوتی ہے  یہ خارجی شے سے ان سوراخوں کے ذریعے تبدیل ہوکر کیمرے کےاندر آجاتی ہے ۔ یہ ابن ھیثم ہیں جنہوں نے چراغ پر تجربے کے ذریعے روشنی کا خارج سے کیمرے کے اندر داخل ہونے کو ثابت کیا ۔ لہذا ابن ھیثم ہی سیاہ کیمرے کے نظریے کا موجد کہلانے کے مستحق ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی سائنسدانوں نے بھی اس کا نام عربی زبان سے لیا اور انگریزی میں بھی اس کا نام camera obscura رکھا جس کا مطلب  تاریک کمرہ کہلاتا ہے ۔

تالیفات

۔ مشہور کتاب  المناظر

۔ شرح اصول اقیدس

۔ تصویبات علی المجسطی

۔ نماذج حرکۃ الکواکب السبعۃ

۔ نموذج الکون

۔ شکوک علی بطلیموس

۔ کیفیۃ الاظلال

۔ تاثیر اللحون الموسیقیۃ فی النفوس الحیوانیۃ

۔ان کے علاوہ بہت سارےعلمی ،سائنسی کتب و مقالات اور تحقیقات کہ جن کو اس مقالے کے اندر قلمبند نہیں کیا جاسکتا۔

تکریم و تمجید

ابن ھیثم کے بلند علمی مقام کی قدر دانی کرتے ہوئے ان کا نام چاند کی سطح پر موجود آتش فشاں گھڑوں میں سے ایک پر رکھا گیا ہے اور ۱۹۹۹میں جو جدید کوئبٹس ایجاد ہوئے ان میں سے ایک کو ابن ھیثم کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اور وہ (55239 Alhazen) ہے جبکہ  پاکستان میں آغا خان یونیورسٹی کے آنکھوں کے شعبے کا نام بھی ان کے نام سے ہے ۔ اسی طرح عراق میں ان کی تصویر پرانے دس دینار کےایک صفحے پر کندہ تھی  اس کے بعد نئے دس ہزار دینار کے صفحے پر کندہ ہے ۔

حسن بن الھیثم عالم اسلام اور عرب کے ایک بڑے دانشور تھے ۔ سب مسلمانوں کو حق حاصل ہے کہ ان کے نام پر فخر کریں اور ایسے دانشور کی تعریف و تمجید کریں ۔ اہل مشرق سے پہلے مغربیوں نے ابن ھیثم کی کتب اور ان کے دوسرے خطی نسخوں، مقالوں، تحقیقات اور تجربوں سے بھر پور استفادہ کیا ۔ بہت سارے مغربی دانشور جو ابن ھیثم کے بعد آئے انہوں نے ان کے علم سے استفادہ کیا جن میں ڈکارٹ ،اسحاق نیوٹن وغیرہ کا نام آتا ہے ۔ 

 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018