10 شوال 1445 هـ   19 اپریل 2024 عيسوى 11:24 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2021-11-05   975

فساد اور افساد کے باہمی تعلق کا قرآنی مطالعہ

اللہ تعالی نے وجود کو لا متناہی حیثیت میں خلق فرمایا ہے اور پھر اس نے تمام موجودات کو بہترین حالت میں منظر شہود پر لایا ہے یہی نہیں بلکہ اس نے ہر وجود میں کوئی نہ کوئی ایسی نشانی بھی رکھی ہے جو اس کی خلقت کی زیبا ئی اور وسیع کاریگری کو دکھاتی ہے انھیں (عظیم موجودات) میں سے ایک زمین ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ اس زمین کی گہرائی اور تفصیل میں ایسی حیران کن نشانیاں ہیں جو ہر دور میں(ہمیں) غور و فکر اور سوچنے کی دعوت دیتی رہی ہیں۔

باوجود اس کے کہ اللہ نےایک مثالی زندگی کے لئے اس زمین میں بے پناہ صلاحیتیں اور کمالات رکھے ہیں وہ ہم سے چاہتا ہے کہ ان کو پروان چڑھا ئیں۔جیسا کہ  اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ (هُوَ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا)( سورة هود ـ 61)

ترجمہ: "اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس میں تمہیں آباد کیا." (وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ)(سورة الأعراف ـ 129)

ترجمہ: "اور زمین میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔"

لیکن بنی آدم کی اس جاے سکونت(زمین) پر فساد پھیلانے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو خراب کرنے کے بعد حاصل کچھ اور ہوا۔ (ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ)(سورة الروم ـ 41)

ترجمہ: "لوگوں کے اپنے اعمال کے باعث خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا."

یہ(انسان کا زمین پر فساد پھیلانا) ملائکہ کا حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی نسل کے بارے میں اس عقیدے کے بہت زیادہ قریب ہے جس دن اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو خلق فرمایا تھا ۔(وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ)(البقرة ـ30))

ترجمہ: "اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا؟ جب کہ ہم تیری ثناء کی تسبیح اور تیری پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: (اسرار خلقت بشر کے بارے میں) میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔"

اس بنا پر(کہ زمین کو اللہ تعالی نے سکونت کے لئے بنا یاہے اوریہ زمین بے پناہ خصوصیات کی حامل ہے) اور اس بنا پر کہ (جب انسان اس میں فساد  برپا کرے)

پس جب تک انسان اس زمین میں فساد نہ پھیلاے تو  یہ اللہ کی مرضی کے مطابق اچھائی پر ہی رہے گی۔ اور جب انسان زمین میں فتنہ و فساد پھیلاے گا، اچھائی برائی میں تبدیل ہوگی اور برائی اچھائی میں تبدیل ہو گی تو اللہ اس وقت اپنے لطف و کرم سے اصلاح کرنے کے لئے انبیاء و مرسلین کو بطور مصلحین بھیج دیں۔کیونکہ ان کا پہلا اور سب سے اہم کام زمین کو آباد کرنا اور انسانی آبادی کو اپنے اصلاحاتی منصوبوں کے لئے کے لیے موزوں بنانا ہے تاکہ فساد کا خاتمہ ہو اور عام لوگوں کی طرف سے پیدا کی ہوئی خرابیاں ختم ہوں، انسانیت کی خوبیوں اور کمالات میں اضافہ ہو۔

یہاں فساد ہماری بحث کا موضوع ہے، لیکن یہ فساد کی عام شکل ہے، اور ہم اس سے زیادہ اس کی اخلاقی جزئیات میں نہیں جائیں گے، حالانکہ یہ سب سے خطرناک اور مشکل ترین فساد ہے۔ فساد سے مراد یہاں اعتدال کی حد سے کسی چیز کا نکلنا ہے جو کہ اصلاح کے خلاف ہے جو کہ قرآنی تعبیر کے مطابق سب سے اہم معنی ہے۔ لھذا یہ زمین کے فساد کے تصور کے تحت آتاہے اور زمین کا فساد بعض مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ زمین کا قحط زدہ اور خشک ہوجانا ۔

دوسری طرف ، فساد سے مراد لین دین میں خرابی ہے، گویا یہ کہا جاتا ہے کہ عقد خراب ہو گیا ہے، یعنی عقد باطل ہو گیا، کیونکہ اس کا مطلب مطلوبہ کام کے راستے سے ہٹنا ہے۔

قرآن میں، فساد کا لفظ (50)پچاس سے زائد موارد میں ذکر کیا گیا ہے۔خدا نے، فساد، فساد برپا کرنے اور فساد پیدا کرنے والوں کے خلاف خبردار کیا ہے اور ان کو اس طرح کے اعمال سے روکا گیا ہےکیونکہ وہ تخلیق کی اصل اور صحیح تربیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ کیونکہ ہر وہ (کام جو )الہی نقطہ نظر سے منہ موڑتا ہو فساد ہے اس (الہی نقطہ نظر) سے جوزمین کی صداقت اور اس کی تعمیر اور اس میں بندوں کے معاملات کی تنظیم کو تلاش کرتا ہے ۔، کیونکہ الہی راستے سے منہ موڑنا صرف حق سے جھوٹ کی طرف رخ کرنا ہے اور نفسانی خواہشات کو پورا کرنا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں فرمایا:

(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ (204)

ترجمہ: "اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جس کی گفتگو دنیا کی زندگی میں آپ کو پسند آئے گی اور جو اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ بنائے گا حالانکہ وہ سخت ترین دشمن ہے۔"

وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ (205)

ترجمہ: "اور جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو سرتوڑ کوشش کرتا پھرتا ہے کہ زمین میں فساد برپا کرے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کر دے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔"

وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ(206)) سورة البقرة ـ 204 ـ 206)

ترجمہ: "اور پھر جب اس سے کہا جائے: خوف خدا کرو تو نخوت اسے گناہ پر آمادہ کر دیتی ہے، پس اس کے لیے جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔"

وقوله تعالى ((وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ))(الأعراف ـ 56).

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ

ترجمہ: "اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو، اللہ کی رحمت یقینا نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔"

اور اگر لوگ زمین کی تعمیر میں مصلحین کے اقدامات کی پیروی کرتے تو ان کی زندگی درست ہو جاتی اور ان کی دنیاوی زندگی سیدھی ہو جاتی اور وہ زمین کو آباد کرنے والے بن جاتے اور وہ اس کی برکتیں اور اس کی بھلائی حاصل کر لیتے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ  نیکی کے ظہور کی شرط ہے کہ

(وَأَلَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاء غَدَقًا)(سورة الجن ـ 16)

ترجمہ: "اور (انہیں یہ بھی سمجھا دیں کہ) اگر یہ لوگ اسی راہ پر ثابت قدم رہتے تو ہم انہیں وافر پانی سے سیراب کرتے۔"

تاہم ، جو کچھ ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے صحیح راستے سے انحراف کیا ہے اور زمین کوجو فطری طور پرنیکی سے بھری ہوئی تھی جو کہ اس کی خلقت میں اسے عطا کی گئی تھی۔اس فساد کے ناگزیر نتیجے کے طور پر زمین رہائش کے قابل نہ رہی اور بقا کے مقابلے میں فنا کے قریب ہو گئی ، بشمول قدرتی اشیاء جیسے اس کی ہوا کی آلودگی ، اس کے پانی کی آلودگی ، اس کی مٹی کی خرابی ، اور یہاں تک کہ آسمان کے غلط استعمال اور اس کی فضا میں غلط تصرفات ۔

(دور حاضر میں )انسانیت کی فطری اقدار کے خاتمے کے ساتھ ساتھ نظریات اور متوازن اخلاقیات کا خاتمہ بھی ہو رہا ہے جوکہ عام طورپر ہر انسان  کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔جیسا کہ ہم جنس پرستی ، صنفی تبدیلی ، بڑے پیمانے پر قتل ، اور اسی طرح کے فتنے اور تباہی ، جس کا  لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں انسانی وجود کا خاتمہ ہو گا ، کیونکہ ایک محفوظ زندگی کی  لازمی شرط اس کی اصلاح ہے۔

(وَلاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِهَا....)(سورة الأعراف ـ 56).

ترجمہ: " اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو، اللہ کی رحمت یقینا نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔"

زمین پرفساد پھیلانے کے بہت سارے طریقے اور بہت سی شکلیں ہیں ،جیسا کہ اللہ کی واضح کردہ سچائی کے راستے کو روکنا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان بطور ثبوت یہ ہے کہ:

(الَّذِينَ كَفَرُواْ وَصَدُّواْ عَن سَبِيلِ اللّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُواْ يُفْسِدُونَ)(سورة النحل ـ88)

ترجمہ: " جنہوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو ) راہ خدا سے روکا ان کے لیے ہم عذاب پر عذاب کا اضافہ کریں گے اس فساد کے عوض جو یہ پھیلاتے رہے۔"

کیونکہ اس طرح کا روکنا لوگوں کو گمراہ کرنے ، ان کے اپنے مذہب کے بارے میں شک میں ڈالنا ، انہیں سیدھے راستے سے ہٹانے اور اللہ کی معرفت  کے بعد اس سے منہ موڑنے کے ذریعے  ہوتا ہے۔

(إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ ۚ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (62) فَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ(63) (سورة آل عمران ـ 62 ـ63)

ترجمہ: "  یقینا یہ برحق واقعات ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک اللہ ہی کی ذات غالب آنے والی، باحکمت ہے۔  اگر یہ لوگ (قبول حق سے) پھر جائیں تو اللہ مفسدوں کو یقینا خوب جانتا ہے۔"

(وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (11)  أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ (12) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ (13) وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ (14) اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (15) أولئك الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بالهدى فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ(16))(سورة البقرة ـ 11 ـ16).

ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں: ہم تو بس اصلاح کرنے والے ہیں۔  اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دیگر لوگوں کی طرح تم بھی ایمان لے آؤ تو وہ کہتے ہیں: کیا ہم (بھی ان) بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟ یاد رہے! بیوقوف تو خود یہی لوگ ہیں لیکن یہ اس کا (بھی) علم نہیں رکھتے۔ اور جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تخلیے میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، (ان مسلمانوں کا تو) ہم صرف مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ بھی ان کے ساتھ تمسخر کرتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ یہ اپنی سرکشی میں سرگرداں رہیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے میں گمراہی خرید لی ہے، چنانچہ نہ تو ان کی تجارت سودمند رہی اور نہ ہی انہیں ہدایت حاصل ہوئی۔"

فساد کی دیگر اقسام میں قتل و غارت کاقانونی ہونا ہے ، تاکہ لوگوں کو کمزور کیا جائے اور ان کے قابل احترام خون کو جائز بنایا جائے ، جیسا کہ فرعون نے کیا ، اس پر اللہ کی لعنت ہو اور آج بھی اسی طرح بہت سارے مقامات پر ہوتا ہے۔

((إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ))(سورة القصص ـ 4).

 ترجمہ: " فرعون نے زمین میں سر اٹھا رکھا تھا اور اس کے باسیوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا، ان میں سے ایک گروہ کو اس نے بے بس کر رکھا تھا، وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی بیٹیوں کو زندہ چھوڑتا تھا اور وہ یقینا فسادیوں میں سے تھا ۔"

دوسری طرف ،ایک اور فساد ، ناپ تول میں کمی کرنا اور ترازو کو کم تر سمجھنا بھی ہے ، جیسا کہ بطور دلیل اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی شعیب علیہ السلام کی زبانی فرمایا۔

(وَيَا قَوْمِ أَوْفُواْ الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ)(سورة هود ـ 85)

ترجمہ: " اور اے میری قوم! انصاف کے ساتھ پورا ناپا اور تولا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں فساد کرتے نہ پھرو۔"

مزید یہ کہ لوگوں میں باہمی ہمدردی کو اہمیت دیتے ہوے خداتعالیٰ نے رشتہ داروں کے ساتھ تعلق قطع کرنے کو بھی فساد کی ایک شکل  قرار دیا ہے

(فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ))(سورة محمد ـ 22).

ترجمہ: " پھر اگر تم حکمران بن جاؤ تو تم سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم زمین میں فساد برپا کرو گے اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو گے۔"

کھانے پینے میں فضول خرچی اور اسراف کی صورت بھی فساد ہی کی ایک قسم  ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

(......... كُلُواْ وَاشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ)(سورة البقرة ـ 60).

ترجمہ: "۔۔۔ اللہ کے رزق سے کھاؤ اور پیو اور ملک میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔"

فساد کی واضح ترین صورت جو کہ آج کل کے عرفی معنی کے بھی قریب تر ہے وہ منکرات اور بے حیائی کا ارتکاب ہے ۔ چنانچہ یہ فساد کا حقیقی معنی ہے ، جیسا کہ خدا تعالی نے اپنے نبی لوط علیہ السلام کے ذریعے فرمایا:

(وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ (28) أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (29) قَالَ رَبِّ انصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ (30))(سورة العنكبوت ـ 28 ـ 30).

ترجمہ: " اور لوط کو بھی (رسول بنایا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: بلاشبہ تم اس بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جس کا تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے بھی ارتکاب نہیں کیا۔ کیا تم (شہوت رانی کے لیے) مردوں کے پاس جاتے ہو اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی محافل میں برے کام کرتے ہو؟ پس ان کی قوم کا جواب صرف یہ تھا کہ وہ کہیں: ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہو۔لوط نے کہا: میرے رب! ان مفسدوں کے خلاف میری مدد فرما۔"

یہ فساد کی چند شکلیں ہیں جنہوں نے زمین اور اس کے سکون کو متاثر کیا ، اور اس کے حالات کو بدلنے کا سبب  بنا۔چاہے یہ جانوں کے قتل میں فساد ہو یا جسم کی حرام کاری کے حرام کارناموں  سے۔ مثال کے طور پر شراب پینا ، یا پیسہ چوری کرنا، سود لینا ، یا مذہب شرک ، توہین مذہب ، بدعت اور یہاں تک کہ غلو کا پر چار کرنا ۔

جیسا کہ ہمارے امام علی ابن موسیٰ الرضا ، علیہ السلام نے ان دونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:

حرم الله قتل النفس لعلّة فساد الخلق في تحليله لو أحلّ، وفنائهم وفساد التدبير. وحرّم الله تعالى الزنا، لما فيه من الفساد من قتل الأنفس وذهاب الأنساب وترك التربية للأطفال وفساد المواريث، وما أشبه ذلك من وجوه الفساد؛ وحرّم الله عزَّ وجلَّ قذف المحصنات، لما فيه من فساد الأنساب ونفي الولد وإبطال المواريث وترك التربية وذهاب المعارف، وما فيه من الكبائر والعلل التي تؤدّي إلى فساد الخلق

"اللہ تعالی جانوں کو قتل کرنے سے منع کرتا ہے کیونکہ قتل سے( فساد میں) مزید اضافہ ہوتا جاے گا ، نسل کشی ہوگی اور نظام زندگی مفلوج ہو جاے گا۔ اللہ تعالی نے زنا کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ اس میں فساد ہے جیسا  کہ جانوں کا قتل ،نسب چھوڑنا ، بچوں کی پرورش چھوڑنا ، وراثت کی تباہی، اور اسی طرح کے دیگر فسادات ۔ اور خدا تعالی نے پاک عورتوں پر بہتان لگانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس میں بھی فسادات ہیں جیسے نسب کی فساد ، اولاد کی نفی،وراثتوں کا بطلان،تربیت کا ترک کرنا،پہچان کا رہ جانا، اور  اسی نوعیت کے دیگر بڑے بڑے گناہ اور برائیاں جومخلوقات میں فساد کا باعث بنتی ہیں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018