21 شوال 1445 هـ   30 اپریل 2024 عيسوى 4:59 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اسلامک اثنولوجی (نسلیات) |  ایتھوپیا میں اسلام اور چرچ کا سیاسی جبر
2021-08-13   987

ایتھوپیا میں اسلام اور چرچ کا سیاسی جبر

ایتھوپیا زمانہ قدیم سے بلاد کوش کہلاتا تھا اسے عربوں نے اباسینیا کا نام دیا جسے اب ایتھوپیا کہا جاتا ہے۔ اس سرزمین کے لیے یونانی ایتھوپیا کا لفظ استعمال کرتے تھے۔یہ لفظ اہل حبشہ کے لیے اس لیے استعمال کرتے تھے کہ ان کے چہرے ایسے تھے جیسے جلے ہوئے ہوں کیونکہ اہل ایتھوپیا گہری بھوری رنگت کے حامل تھے بلکہ سیاہ رنگت ہی تھے۔ ایتھوپیا اباسیا خطے میں واقع ہے جہاں اس کے پڑوسیوں میں اریٹیریا اور اوگڈین ہیں۔ ایتھوپیا بر اعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ہے۔اس کا بڑاحصہ ہارن افریقہ نامی علاقے میں واقع ہے جو افریقہ کا مشرقی حصہ ہے۔ایتھوپیا کے مغرب اور شمال میں سوڈان اور اریٹیریا واقع ہیں، مشرق میں ریاست جبوتی واقع ہے، اس کے جنوب میں کینیا اور جنوب مشرق میں صومالیہ ہے ۔اس کا رقبہ (1.223.600) مربع کلومیٹر ہے جو (435071) مربع میل بنتا ہے۔یہ بین الاقوامی طور پر دنیا کا رقبے کے اعتبار سے ستائیسواں بڑا ملک ہے۔ خطہ استوا میں ایتھوپیا عرض ۱۵ درجہ اور ۳ درجہ شمال میں ہے اس کا طول بلد ۳۳ اور ۴۸ ہے۔

ایتھوپیا کئی وسیع ڈھلوانی علاقوں پر مشتمل ہے جس میں بڑے پہاڑ ہیں اس کے شمالی علاقوں میں بڑے ڈیم ہے دریا شمال سے مشرق، جنوب اور مغرب کی طرف بہتے ہیں۔ ایتھوپیا بنیادی طور پر ایک صحرائی علاقہ ہے۔ایتھوپیا کی سرزمین اور آب و ہوا بہت متنوع ہے یہاں کی زمین بنجر ہے جس میں زراعت کا فقدان ہے یہی اس کی آباد کاری سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔

ایتھوپیا ہر طرح سے متنوع ہے جیسے اس کے مشرق میں بہت بڑا صحرا ہے اور اس کے شمال،جنوب اور جنوب مغرب تک جنگلات پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے شمالی حصے میں بحیرہ تانا ہے اور یہی نیل جو فروانی لاتا ہے اس کا منبع ہے۔اس کی ڈیموگرافی کی بات کی جائے تو اس میں مسیحیت کے بعد اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔ایتھوپیا میں اسلام ۶۱۵ ء میں داخل ہوا یہاں مسلمانوں کی آبادی ۴۳ ملین افراد پر مشتمل ہےاس طرح مسلمان ایتھوپیا کی کل آبادی کا ۴۶ فیصد ہیں۔ایتھوپیا میں مسلمانوں کی اکثریت صومالی، عفاری، ارگوبی اور ھرری نسل کے لوگوں کی ہے۔

ایتھوپیا میں اسلام بعثت نبوی کے پانچویں سال اس وقت پہنچا جب مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا قافلہ قریش کے مظالم سے تنگ آکر یہاں پہنچا ۔وہ یہاں ایک عادل حکمران کی وجہ سے آئے اس کے ساتھ ساتھ یہ ان کا جغرافیائی اعتبار سے پڑوسی علاقہ بھی تھا۔ اسلام دوسری بار ایک نظریاتی اور تبلیغی تحریک کے طور ہجرت کے بیسویں سال بعد آیا مسلمان بحراحمر اور عدن کے راستے کا استعمال کرتے تھے اور تجارت بھی ہوتی تھی اس وقت اسلام طاقت ور ہو گیا اور اس کی شان و شوکت بڑھی گئی۔

مصر کو فتح کرنے کے بعد اسلام کی فوجیں حبشہ میں بڑی تعداد میں آئیں بالخصوص جب قبیلہ نجاہ نے اپنی زمینوں کو وسعت دینا شروع کی اور وہ جنوبی مصر سے حبشہ کی زمینوں تک پہنچ گئے انہوں نے یہاں اسلام بھی پہنچایا۔ اہل مصر کے نیک سلوک اور اچھے کردار اور معاملات میں اعلی معیارات نے پورے حبشہ میں اسلام پھیلایا۔ اسی طرح عرب کے تاجر اور بڑے قبائل جن میں جھینہ ،قیس، ربیعہ او رعیلان شامل ہیں انہوں نے بھی اسلام کو پھیلانے کی سعی کی۔ اس طرح ساحلی طرف مشرقی حبشہ میں اسلام غالب آگیا جو اب اریتریا کہلاتا ہے۔ اسی طرح جنوب کی طرف بھی پھیلا یہاں تک کہ وسط حبشہ میں پہنچ گیا۔ اسلام پھیلا رہا تھا  یہاں تک کہ گیارویں صدی میں شہنشاہ جان کے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ شہنشاہ الجلہ کا اقتدار مسلمانوں کےلیے بڑا اچھا ثابت ہوا بالخصوص ایتھوپیا کے شمال میں آباد ٹگری قبائل کے لیے جو مسلمان ہوئے۔ انیسویں صدی کے نصف میں شہنشاہ تھیورڈ نے دوسری بار مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم کیا۔

آج ایتھوپیا کے تمام صوبوں میں اسلام موجود ہے اسی طرح ایتھوپیا کے تمام نسلی گروہوں میں اسلام موجود ہے۔مشرقی،جنوب مشرقی اور شمال مغربی علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے۔ایتھوپیا میں گیارویں نمبر پر دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ایتھوپیا میں مسلمانوں کی تعداد سعودی عرب،سوڈان،عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ مسلمان ایتھوپیا کی کل آبادی کا ۴۶ فیصد ہیں تقریبا ۴۳ ملین افراد ایتھوپیا کی کل آبادی ۱۰۳ ملین افراد پر مشتمل ہے۔اس طرح ایتھوپیا میں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے اس کے باوجود مورخین اسے ایک مسیحی ملک قرار دیتے رہے ہیں۔اگر وہ دقت کریں تو یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ یہاں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اس طرح سے دقت نظر کا نہ ہونے سے مسیحیوں کے لیے سیاسی قوت کا باعث ہے۔

سیاسی حالات: ایتھوپیا کا آئین ۱۹۹۴ ء میں منظور کیا گیا ہے جس میں مسلمانوں کو بعض حقوق دیے گئے ہیں۔اس آئین میں مذہب سے ریاست کو الگ کر دیا گیا ہے اس طرح مسلمانوں پر کچھ ستم کم ہوئے ہیں۔اس میں طے کیا گیا ہے کہ ریاست ایتھوپیا کا کوئی مذہب نہیں ہے اور ریاست مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہے اور مذہب بھی ریاست کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔اسی لیے چرچ کا کردار محدود ہو گیا ہے اور اس وجہ سے مسلمانوں کو تھوڑی نظریاتی آزادی ملی ہے۔

ایتھوپیا کے دار الحکومت ادیس بابا میں اسلامی مدارس قائم ہوئے ہیں اسی طرح دوسرے شہروں میں بھی کچھ مدارس موجود ہیں۔ان کا مقصد مسلمان بچوں کو اسلام اور عربی زبان کی تعلیم دینا اور ان کی اسلامی تربیت کرنا ہے۔ان مدارس کا بنیادی مقصد تو بچوں کو دین کی تعلیم دینا ہے اس لیے یہاں کے طلبہ قرآن کو یا د کرتے ہیں فہم قرآن پر کم توجہ دی جاتی ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018