14 شوال 1445 هـ   23 اپریل 2024 عيسوى 9:57 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

2021-03-25   645

علي بن محمد صاحب الزنج ... العلوي

انقلابِ صاحبِ زنج نے قدیم منابع میں بڑی جگہ بنائی ہے اور اس پر بہت سی کتب تحریر کی گئی ہیں۔ اس کی تاریخی اہمیت کی وجہ سے جدید علماء کی دلچسپی پیدا ہوئی کیونکہ اس سے معاشرے میں فکری انقلاب برپا ہوا تھا ۔اس نے عباسی حکومت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور اس پر بہت زیادہ اثر ڈالا اسے قریب قریب ختم کر دیا تھا۔اگر عباسیوں کے طولونيين اور دیگر کے ساتھ معاہدے نہ ہوتے تو یہ نظریاتی جنگ آج بھی جاری ہوتی۔یہ جنگ اس لیے ختم نہیں ہوئی کہ مورخوں نے نسلا بعد نسل اس انقلاب کے خلاف لکھا اور اسے آگے منتقل کرتے رہے  ۔نئے آنے والے اس میں غور فکر نہیں کرتے بلکہ صرف یہ کہا جاتا کہ ہمارے اسلاف نے یوں لکھا ہے۔

زنج انقلاب کے بہت سے محور ہیں، اور اس کے تعارف میں بے انصافی کی گئی اسے مسخ کیا گیا اور اس میں دھوکہ  دہی کی گئی۔بدقسمتی سے سب سے پہلے انقلاب زنج کوطبری نے نقل کیا جو اس کا معاصر تھااب باقی تمام لکھنے والوں نے اسے طبری سے نقل کیا اور اپنی کتب میں علی بن محمد صاحب زنج کے بارے میں جو  لکھا وہ انتہائی نامناسب ہے۔ ہم طبری کے عین الفاظ نقل کرتے ہیں'اللہ کا دشمن،خبیث،خیانت کار،لعین،زندیق،فاسق' اسی طرح کے دیگر برے القاب بھی دیے۔ جدید مطالعات میں سے بیشتر نے ان داستانوں کو نقل کیا ، جن میں سے بیشتر ایک ڈاکٹر کے بیان سے بنائے گئے تھے ۔ جدید مورخین  نے  اپنے پیش رو کے اقوال پر عمل کیا جن کی بنیاد جذباتیت اور گھبراہٹ، مضحکہ خیزی اور وسوسے تھے۔

ہم یہاں پر سارے انقلاب کی تمام اطراف پر بات نہیں کریں گے کیونکہ یہ تو بہت طویل تحقیق کا متقاضی ہے۔یہ انقلاب چودہ سال،چار مہینے اور سات دن جاری رہا۔اس دوران فریقین میں بڑے معرکے برپا ہوئے ،بہت سی چیزیں وقوع پذیر ہوئیں جن کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں۔ہم یہاں  پر اپنی بحث کو فقط  اس انقلاب کے قائد تک محدود رکھیں گے جو علی بن محمد ہیں جن کےبارے میں قدیم زمانے سے مورخین کے بہت سے اقوال ہیں۔پھر بہت سی کتب میں ان کا تذکرہ ہوا جن میں باہم معارض اقوال نقل ہوئے ہیں۔ہم اس موضوع سے فقط اور فقط حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں۔

مورخیں کی نظر میں:

علی بن محمد ورزنین نامی گاوں میں پیدا ہوئے،یہ رے کا بہت بڑا گاوں ہے، رے آجکل کے طہران کو کہتے ہیں۔اسی میں ان کی پرورش ہوئی۔تاریخی مصادر میں علی بن محمد کے حوالے سے کئی اقوال پائے جاتے ہیں۔طبری،ابن اثیر اور ابی الحدید کہتے ہیں کہ صاحب زنج بصرہ میں ظاہر ہوا اور یہ مانا جاتا ہے کہ علي بن محمد بن أحمد بن عيسى بن زيد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب ہے۔ایک اور قول کے مطابق یہ سامراء کا آدمی ہے پھر بحرین منتقل ہوا اور کہا گیا کہ وہ علي بن محمد بن الفضل بن الحسن بن عبيد الله بن العباس بن علي بن أبي طالب ہے۔

پھر وہ  صحراء میں چلا گیا کچھ لوگوں نے گمان کیا کہ وہ يحيى بن عمر بن الحسين بن زيد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب الثائر الشهيد ہے پھر اس نے بصرہ پہنچنے پر خود کويحيى بن زيد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب بدلاً عن عيسى بن زيد سے نسبت دی۔

ابن ابی الحدید نے یہ کہتے ہوئے اس پر تبصرہ کیا: ہمارے دوست - یعنی علی بن محمد - نے حالات کے لحاظ سے اپنا نسب تبدیل کیا ، لہذا وہ احمد بن زید سے احمد بن محمد بن زیدہوئے اور پھر یحیی بن زید بن علی کی طرف چلے گئے ، اور جب سن 249 میں بحرین پہنچےتو اس نے دعوی کیا کہ وہ علی بن محمد بن الفضل بن الحسن بن عبید اللہ بن ال عباس بن علی بن ابی طالب ہے۔

لیکن ابن ابی الحدید نے ان حالات کی وضاحت نہیں کی جس کی وجہ سے صاحب زنج نے اپنا سلسلہ علوی سے تبدیل کرکے ایک اور علوی کردیا تھا۔ اس کا کیا فائدہ ؟عباسی بغیر کسی استثنا کے تمام علویوں کے ساتھ دشمنی رکھتے تھے۔

جیسا کہ یہ واضح ہے ، التبری ، ابن الاثیر اور ابن ابی الحدید نسب کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کو تسلیم نہیں کرتے تھے چونکہ انہوں نے متفقہ طور پر ان کا انکار کیا ۔انہوں نے اس قول پر اتفاق کیا کہ اس کا نام علی بن محمد بن عبد الرحیم اور اس کا عبد القیس میں نسب ملتا تھا۔ ، ان کی والدہ قرة ابنة علي بن رحيب بن محمد بن حكيم من بني أسد بن خزيمة تھیں جو رے کے ایک گاوں کی رہنے والی تھیں جسے ورزنين کہا جاتا تھا۔

اور ہم ابن ابی الحدید کے قول پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں، اس پر تبصرہ کیا جاتا ہےانہوں نے کہا: نسب بیان کرنے والوں  کی اکثریت اس بات پر متفق ہوگئی تھی کہ وہ عبد القیس کا ہے !!لیکن ابن ابی الحدید نے  ان لوگوں میں سے ایک کے سلسلے کا ذکر نہیں کیا جنہوں نے انہیں اسے عبدالقیس کا کہا تھا۔

اگرچہ وہ  صاحب زنج کا ہم عصر نہیں تھا ، لیکن اس نے صاحب زنج کے بارے میں طبری نے جو کچھ کہا اس کی تائید کی اور اس کی دستاویزی تصدیق کی ، لہذا اس نے وہی کہا جو  طبری نے صاحب زنج کے  بارے میں جو کچھ کہا ہے اس کا حوالہ دیا۔ : میرے نانا محمد بن حکیم ، کوفہ کے لوگوں میں سے  تھے جنہوں زید بن علی بن الحسین کے ساتھ ہشام بن عبد الملک کے خلاف خروج کیا تھا۔ زید شہید ہوگئے،  تووہ فرار ہو گئے اور زراعت کو بطور پیشہ اختیار کر لیا ، اور وارزنن میں پناہ مانگ لی۔ اس کے والد عبد الرحیم عبد القیس ،القیس کا آدمی تھا۔وہ  طالقان میں پیدا ہوا پھر عراق آ گیا یہاں ہی مقیم ہو گیا ایک سندھی کنیز خریدی جس سے محمد پیدا ہوئے جو  صاحب زنج کے والد تھے۔

یہ رائے، جوحکومتی رائے کی نمائندگی کرتی ہے، جسے الطبری نے اپنایا تھا، ابن الاثیر اور ابن ابی الحدید نے اس رائے کو مسلم حیثیت دی کہ بس یہی رائے ہے۔ ابن ابی الحدید نے اگرچہ اس کی توثیق کی ہےاور یہ کہتے ہوئے رائے دی ہے کہ جمہور اہل نسب کااس پر اتفاق ہے کہ وہ عبدالقیس میں سے تھے، انھوں نے اپنی رائے کی حمایت میں دوسرے گروہوں کو شامل کیا تاکہ اس سے دلیل کو مستحکم کیا جائے۔لوگوں کی اکثریت اس نسب کو نہیں مانتی۔ صاحبان علم اور جمہور اہل نسب  اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ صاحب زنج کا تعلق عبدالقیس سے تھا۔

یہاں جمہور اہل نسب کا تکرار ہوا ہے  اس کے ساتھ طالبین کا اضافہ ہو ہے در حالانکہ کسی ایک صاحب نسب  کا نام لے کر تذکرہ نہیں ہو ا کہ اس نے یہ کہا ہے۔

باقی اہل تاریخ کی رائے

باقی اہل تاریخ صاحب زنج کو علویت سے نکالنے پر ہی راضی نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے صاحب زنج کو بنی قیس سے ہی نکال دیا ہے ۔انہوں نے اس کے عرب ہونے کا ہی انکار کر دیاہے اور اسے فارسی قرار دیا ہے اس کے فارسی نام بنائے ہیں  اس طرح انہوں نے علوی اور عربی ہونے کی ایک ساتھ ہی نفی کر دی ہے ان میں مندرجہ ذیل تاریخ دان شامل ہیں:

المسعودي في مروج الذهب ج 2 ص 439.

وابن الوردي في تتمة المختصر ج 1 ص233.

وابن الجوزي في المنتظم ج 5 ص 69.

والسيوطي في تاريخ الخلفاء ص 242.

وأبو المحاسن ابن تغري بردي في النجوم الزاهرة في ملوك مصر والقاهرة ج 3 ص21.

والقيرواني في زهر الآداب ج 1 ص 298.

والأسفراييني في التبصر في الدين ص 76.

وابن كثير في البداية والنهاية ج 11 ص 29.

وابن الطقطقي في الفخري في الآداب السلطانية ص 183.

وابن حزم في جمهرة أنساب العرب ص 56.

وابن حوقل في صورة الأرض ج 1 ص 237.

مسعودی نے صاحب زنج کی علوی ہونے کی نسبت کی نفی کی ہے کیونکہ اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس نے آل ابی طالبؑ ہونے کا دعوی ہی کیا تھا۔پھر اسے مبیضہ کی طرف نسبت دی ہے جو فارس کے فرقہ باطنیہ سے تعلق رکھتا تھا جو ابو مسلم خراسانی کے قتل کے بعد ظاہر ہوا اسی رائے کو اسفرایینی نے بھی ذکر کیا ہے۔ابن جوزی او رسیوطی کہتے ہیں کہ صاحب زنج فارسی تھا اور اس کا نام بھبیود تھا۔

ابو المحاسن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کا نام نھیود تھا۔

ابن کثیر نے علی بن محمد کی عبد القیس سے وابستگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے، جہاں وہ کہتے ہیں: "علی بن محمد ایک نوکر تھا- عبد القیس سے تھا، اور اس کی والدہ، قرہ بنت علی بن رحیب بن محمد بن حکیم بنی اسد بن خوزیمہ سے تھیں۔ اس کی ماں کے نانا محمد بن حکیم، کوفہ سے تھے ، انہوں نے زید بن علی بن الحسین ؑ کے ساتھ اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے خلاف خروج کیا۔، جب وہ شہید ہو گئے تو اس کے نانا بھاگ کر الرائے آگئے تھے۔

ابن طقطقی کہتا ہے کہ صاحب زنج کا نسب ماہرین کے نزدیک ثابت نہیں ہے اور وہ ان تمام باتوں کو اس کے فقط دعوے قرار دیتے ہیں۔

ابن حوقل کہتا ہے صاحب زنج نے علوی ہونے کا دعوی کیا ہے اور درست بات یہ ہے کہ وہ علوی نہیں ہے۔

قیروانی کہتا ہے کہ صاحب زنج ابی لحا کا چچا زاد لحّا علي بن محمد بن عبد الرحمن بن رحيب تھا اور رحیب ایک عجمی آدمی تھاجس کا تعلق رے کے علاقے ورتین سے تھا۔

قیروانی نے گاوں کے نام میں غلطی کی ہے کیونکہ اس کا درست نام ورزنین ہے  کیونکہ ورتین نام کا کوئی علاقہ ایران میں نہیں ہے۔

البیرونی کی بات ہے تو اس نے علی بن محمد کی نسبت کے بارے میں گفتگو کی ، جب اس نے مسلم تہواروں کے بارے میں بات کی، جس میں وہ نسب کی تصدیق نہیں کرتا، بلکہ اس میں نئی معلومات کا اضافہ کرتے ہوئے یہ کہتا ہے:

شیعہ اب بھی 26 رمضان کو اس کی یاد منا تے ہیں کیونکہ اس روز بصرہ میں صاحب رنج نے خروج کیا تھا اس کے بعد کہا ہے کہ وہ علي بن محمد بن أحمد بن عيسى بن زيد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ كان علي بن محمد بن عبد الرحيم بن عبد القيس ہے۔اس کے بعد بیرونی کہتا ہے  کہ یہ حکایت کی جاتی ہے کہ حسن بن زید طبرستان کے والی نے جب اس نے بصرہ میں خروج کیا تو اس وقت اس نے  اس کی طرف خط لکھا اور پوچھا کہ تمہارا نسب کیا ہے؟ تاکہ ہم تمہارا حق ادا کریں۔اس پر  ابن رنج نے جواب دیا: میرے معاملات میں آپ مدد کریں، آپ سلامت رہیں۔

مستشرقین اور مصنفین

مستشرقین کی بات ہے تو وہ ان تمام اقوال کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ جذبات، مزاج کی نادرستگی  اور جنونیت کے ساتھ لکھے گئے تھے، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ان اقوال کو غلط بھی نہیں مانتے اس لیے وہ کہتے ہیں: صاحب زنج نے دعوی کیا کہ وہ نبی کی بیٹی حضرت  فاطمہؑ اور علی ؑ کی اولاد ہیں۔ شاید یہ سچ ہوکیونکہ اس وقت علیؑ کی اولاد ہزاروں میں تھی۔ایسا نہ تھا کہ ہر ایک کی کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ہو،ان کا نسب فقط ایک اختراع تھا۔ نولدكه نے اگرچہ صاحب زنج کے نسب کی تصدیق نہیں کی اور پہلے سے موجود اقوال میں کوئی اضافہ نہیں کیا بس یہ کہا کہ اس وقت اولاد علی کی تعداد ہزاروں میں تھی یہ اشارہ کرتا ہے  معاملہ کو نسب کے ماہرین کے اقوال کی روشنی میں دیکھنا چاہیے اور اسے مورخین کے حوالے نہیں کرنا چاہیے۔

مستشرق ماسینیون کہتا ہے کہ بعض اوقات  یہ لگتا ہے کہ صاحب رنج کی علویوں کی طرف نسبت درست ہو اس کی وجہ بیرونی کا  یہ کہنا ہے کہ شیعہ ابھی تک ۲۶ ماہ رمضان کواس کے لیے  محافل منعقد کرتے ہیں۔

جہاں تک ڈاکٹر فیصل السمر کی بات ہے تو ان کے پاس صرف یہ راستہ ہے کہ وہ موجود اقوال میں سے ہی کسی قول کو اختیار کرلیں۔ وہ کہتے ہیں عربی منابع تو اس کے عربی نسب ہونے سے خالی ہیں۔ہم صرف موجود نظریات میں سے ہی کسی کو اختیار کر سکتے ہیں جن کی ادلہ اور شواہد ہمارے لیے زیادہ ہواضح ہوں۔ وہ ان کا علوی نسب ہونا ہے جس کا یہ دعوی کرتے رہے ہیں او ریہ طویل زمانےسے اسلام کے دور وسطی میں ہوتا رہا ہے۔ایسا بارہا ہو ا کہ علویوں نے حکومتوں کے خلاف قیام کیا کیونکہ علوی انتقام لینے اور اس کو غاصب سمجھنے کے لئے مشہور تھے، جس کا ثبوت عباسی دور میں ان کے بہت سارے انقلابات سے ملتا ہے۔ علوی نسب سے صاحب زنج کو قانونی حیثیت مل جاتی ہے جو تحریک کی کامیابی کے لئے لازمی طور پر ہونا چاہئے اور عوام کی حمایت حاصل ہوتی ہےکیونکہ  عوام یہ سمجھتے ہیں اصلاح صرف علویوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔

تاہم السمر نے ان انقلابات میں سے کسی کا ذکر نہیں کیا جو علویت کی بنیاد پر واقع ہوئے ہوں (جیسا کہا کہ ایسا بار بار ہوا) ، لیکن ہمیں تاریخ میں ایسا کوئی انقلاب نہیں ملا جس میں علوی اور غیر علوی کا دعوی کیا گیاہو۔ احمد علبی ان اقوال پر عمل کرتے ہیں، اور ان میں سے کچھ کا  جائزہ لینے کے بعد ،وہ کہتے ہیں: علی بن محمد فارسی نژاد ہیں۔

جہاں تک ڈاکٹر صالح احمد الاعلی کی بات ہے، تو انہوں نے نسب کے معاملے میں سنگین تاریخی غلطیاں کیں اور جب وہ صاحب زنج اپنی دعوت کو پھیلانے میں ناکام رہا تو صحرا چلا گیا ، اس نے دعوی کیا کہ وہ یحیی بن عمر ابی الحسین کا پوتا تھا، جو کوفہ کے نزدیک میں مارا گیا تھا۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈاکٹر صالح علی جیسے آدمی کو یہ معلوم نہ ہو کہ یحیی بن عمر صاحب زنج کا ہم عصر تھا اور اس کو ۲۵۰ھ میں قتل کیا گیا۔اس کے غم میں ابن رومی نے ایک طویل قصیدہ لکھا جسے عربی شعر میں اعلی مقام حاصل ہے۔اسی طرح ابن رومی نے صاحب زنج کا انقلاب بھی دیکھا جو ۲۵۵ھ کو شروع ہوایعنی یحیی بن عمر کے قتل کے فقط پانچ سال بعد ہی۔ابن رومی کا اس پر بھی ایک طویل قصیدہ ہے اب صاحب زنج کیسے یحیی بن عمرو کا نواسہ ہو سکتا ہے؟

العلی ان میں سے کسی بھی قول کو ثابت نہیں کرتا ، بلکہ وہ صاحب زنج کے  نسب کو اس سے بھی  کم تر بنانے کی کوشش کرتا ہے جس کے بارے میں ہم نے مورخین اور مصنفین کے بیانات تحریر کیے ہیں۔ جہاں وہ ان بعض اقوال کا جائزہ لینے کے بعد کہتا ہے: ان کے سلسلہ نسب  کے بارے میں معلومات کا الجھاؤ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کے نسب کا  عرب میں کوئی خاص مقام نہیں جو عربی نسب کو اہمیت دیتا ہو۔

میں نہیں جانتا کہ کس طرح ایک شخص  جس کا نسب نمایاں حیثیت نہیں رکھتا تھا جد کے ندب کی عربوں میں کوئی اہمیت نہ تھی  اور اس نے ایک ملین جنگجوؤں کی فوج جمع  کر لی؟یہ مستند معلومات کی بنیاد پر ہے جو موجود ہیں۔توجناب  ڈاکٹر صاحب آپ نے ان معلوما ت کو تلاش ہی نہیں کیا۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ  ان لوگوں کے پاس علی بن محمد کی علویت کی نفی کرنے کی کوئی خاص دلیل نہیں ہے اگرچہ بعض کو بیرونی کے قول سے اس کا گمان ہوا ہے۔بیرونی نے  طبرستان کے بادشاہ کو جو خط صاحب زنج کے بارے میں لکھا  وہ علی بن محمد کی علویہ کی نفی پر دلیل نہیں بن سکتا۔

ان اقوال کی حقیقت

یہ تضاد مورخین اور مصنفین  کی کتب میں بہت زیادہ موجود ہے اور ایک آزاد تحقیق کرنے والاکسی ایک کو اختیار نہیں کر سکتا  یہ اقوال جن کی بنیاد لوگوں کے اقول،حکام کی باتیں  ہیں اس لیے انصاف پسند اور سنجیدہ مزاج محقق کے لیے اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔اس لیے کسی بھی قول کو اختیار کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ طبعی امر ہے  کہ لوگ  حیرت میں ہی رہیں گے اور  ظن سے باہر نہیں آ سکیں یہاں تک کہ جو تاریخ نے نقل کیا ہے  اس  تصدیق ہو جائے۔ یہ اہم سوال ہے کہ  تاریخ دان کیسے ایک ایسے شخص  کے نسب کے بارے میں  خاموش ہو سکتے ہیں جس نے عباسیوں کے خلاف پورے چودہ سال (255ــ270هـ/869ــ883م) انقلاب برپا کیے رکھا۔خلفاء پر اس کا دبدبہ رہا، عباسی خلافت کو اس  سے نقصانات اٹھانے پڑے،اس انقلاب نے عباسی خلافت کو جڑ سے اکھاڑ ہی دیا تھا۔اگر  اس کا علویوں میں ہونا ثابت ہو جاتا ہے  تو اور فائدہ ہو سکتا تھا کیونکہ علوی عباسیوں کے دشمن تھے۔

نسب کے بارے میں اتنا بڑا اختلاف اور تضاد  اس بات کی واضح دلیل ہے  اور اشارہ کر رہا ہے  کہ حکمران طبقے نے  اس کے نسب کو خراب کرنے میں اپنا اثر رسوخ استعمال کیا ہے۔ان لوگوں نے اس انقلاب کو ہر طرف  سے خراب کرنے کی کوشش کی اور ہر بری چیز کی ان کی طرف نسبت دے دی جو انہوں نے انجام نہیں دی تھی۔یہ  بات بھی محض اتفاق ہے ہی کہ اس میں اس  مورخ نے اہم کردار ادا کیا جو  اس انقلاب کا اہم عصر  تھا اور وہ طبری ہے۔یہ طبعی بات ہے کہ  اس وقت کے مورخین نے بادشاہ  کی وجہ سے  صاحب  زنج پر  تہمتیں لگائیں اور اس کے بعد جو بھی مورخین بعد آتے گئے وہ ان تہمتوں میں اضافہ کرتے گئے کہ اللہ کی  حمد ہے جس نے اس  خونی انقلاب  کے خلاف زمین پر عباسی خلیفہ کی مدد کی۔

یہ کہنا کہ علی بن محمد لوگوں کی نظروں سے چھپی ہوئی شخصیت تھی  اور پھر اس نے اتنا بڑا انقلاب بھی برپا کر لیا؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ تشیع کی ابتدا ابن سبا یہودی سے ہوئی۔ایک چھپے ہوئے غیر معروف شخص سے اس قدر عظیم انقلاب کیسے ممکن ہے؟ اور کیسے اس کے لشکر میں عرب کی بڑی شخصیات،عرب قبائل کے زعماء اور نامور لوگ شامل ہو گئے اور انہوں نے ایک بڑی سلطنت کے خلاف آواز بلند کی؟

تاریخ دانوں نے جان بوجھ کر غلط لکھا یا غلطی ہوئی؟

ممکنہ طور ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے ، کہ کیا ان تمام مورخین اور ادیبوں نے دھوکہ دہی کی راہ اختیار کی ہے اور حقیقت کو نظر انداز کیا ہے؟ ہمارا اس سوال سے مقصد انہیں زیر سوال لانا نہیں ہے بالخصوص اس معاملے میں۔ ، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے لوگوں کو گمراہ کیا۔ایسا کوئی نہ تھا جو ظلم کے خلاف بولتا،حقیقت کو بیان کرتا جس کی وجہ سے مورخین کی ایک غلط رائے نسل در نسل چلتی رہی اور اکثریت نے وہی اختیار کر لی۔انہوں نے وہ تحقیقات نہیں کیں جو انہیں کرنی چاہیں تھیں تاکہ حقیقت آشکار ہوتی انہوں نے موجود ذرائع کا استعمال نہیں کیا۔

مورخین میں سب سے پہلے طبری نے صاحب زنج کی علویت کا انکار کیا اور پھر باقی سب نے اسی کو اختیار کر لیا۔ انہوں نے کوئی تحقیق نہیں کی تاکہ ان پر حقیقت آشکار ہو جاتی ۔طبرستان کے بادشاہ کا جو خط صاحب زنج کی عدم علویت پر پیش کیا جاتا ہے وہ کسی بھی صورت میں ان کی عدم علویت پر دلیل نہیں بن سکتا۔اگر صاحب زنج کی علویت طبرستان کے بادشاہ کے نزدیک عدم علویت واضح ہوتی تو وہ اسے آشکار کرتا مگر اس خط میں وہ پوچھنا چاہ رہا ہے کہ صاحب زنج کا تعلق کس علوی سلسلے سے ہے؟یہ ایک طبعی امر ہے جیسا کہ نولڈکے نے کہا ہے  کہ علویوں کی تعداد ہزاروں میں ہو چکی تھی۔عباسی علویوں پر  مظالم ڈھا رہے تھے اور بربریت کا مظاہرہ کر رہے تھے  اس لیے علویوں کی ایک بڑی تعداد نے عباسی حکمرانوں کے خوف سے اپنا نسب چھپا لیا تھا۔یہاں پر بہت سے واقعات اور اقول ہیں جو اس حقیقت  کو بیان کرتے ہیں۔ ہم ان میں سے فقط ایک کو بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں تاکہ قاری کے نزدیک اصل صورتحال واضح ہو جائے اور اس مشہور نظریہ کی تردید ہو سکے۔ابن عنبہ الحسنی نے نقل کیا ہے بعینہ اس کے لفاظ میں' عیسیٰ بن زید شہید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب (109-169 ھ / 774-861 AD) - کوفہ میں رہتا تھا ، جو شیعوں کا گڑھ ہے ، اس سے حسن صاحب فخ نے کہا: ہم میں عیسیٰ بن زید سے بڑھ کر کوئی اور نہیں تھا  اور وہ امام صادق علیہ السلام کے صحابہ میں سے ہیں ، جب ابراہیم نے المنصور سے جنگ کی تو وہابراہیم کے دائیں لشکر کا انچارج تھا۔اس نےبخمری کو قتل کیا ، ابراہیم نے اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ عیسیٰ اس کے بعد ان کا قائد ہو گا۔ جب ابراہیم مارا گیا ،عیسیٰ کو المنصور کی طاقت سے خوف تھا ۔اسے خوف تھا کہ اسے منصورپکڑ لے گا یالوگ اسے منصور کے سپرد کر دیں گے اس لیے وہ منصور کے زمانے میں کوفہ میں حسن بن صالح بن حی کے گھر چھپ گیا۔

حسن کوفہ کے بزرگ شیعوں میں سے تھے،عیسی نے حسن کی بیٹی سے شادی کر لی ۔کوفہ میں چھپے رہنے کی مدت کافی زیادہ ہو گئی وہ اونٹ پر پانی پلاتا تھا۔ایک دن اس کے بھتیجے یحی بن حسین صاحب الدمعہ نے خواہش کی کہ اپنے چچا کو دیکھیں۔اس نے اپنے باپ سے اپنے چچا عیسی کے بارے میں سوال کیا اور کہا کہ وہ ان تک پہنچنے کا راستہ بتائے،تو حسین نے اس کو جواب دیا  جب تم کوفہ پہنچ جاو تو کسی سے بنی حی کا پوچھنا،جب وہاں تک پہنچ جاو  کسی شخص کا نام لیا کہ اس کا گھر  پوچھنا جس کے اوصاف یہ یہ ہیں،پھر تم ایک دروازہ دیکھو گے جس کے یہ یہ اوصاف ہیں پھر تم وہاں بیٹھ جانا۔جب مغرب کا وقت ہو گا تو ایک طویل قامت صاحب سنت کھلے چہرے والاآدمی آئے گا،اس کے ماتھے پر سجدوں کے نشان ہوں گے،بالوں کا جبہ پہنا ہوگا،وہ اونٹ پر پانی پلا رہا ہو گا۔وہ رکتا نہیں چلتا رہتا ہے  اور اس کے آنسو جاری رہتے ہیں،تم اسے جا کر سلام کرو وہ تم سے گھبرائے گا۔اس سے ملو اور بات چیت کرو،زیادہ اس کے ساتھ نہ رہو،اسے جانے دو وہ تمہیں آنے کا کہے گا جیسا وہ کہے ویسا کرو،کیونکہ ذرا سے غلطی پر بھی تم اسے نہیں پاو گے۔

یحیی صاحب دمعہ کہتا ہے کہ جب میں کوفہ میں داخل ہوا میں نے سکہ بنی حی کا عصر کےبعد ارادہ کیا،جب سورج غروب ہو گیا تو میں نے دیکھا  آدمی اونٹ پر اسی طرح آیا ہے جیسا میرےو الد نے کہا تھا اور اس کی صفات بھی وہی ہیں۔میں نے اس پر سلام کیا اور تعارف کرایا،اس نے ایک ایک  عزیز کے بارے میں پوچھا میں نے سب کے بارے میں تفصیلا بتایا اور پھر جو کچھ ہوا تھا میں نے بتا دیا تو اس نے کہا میں  اس اونٹ پر پانی پلاتا ہوں،جو کماتا ہوں اس کا نصف اس کے مالک کو دے دیتا ہوں اور جو باقی ہے وہ میرے اخراجات کے لیے  ہے۔اس  سے اخراجات پورے نہیں ہوتے اس لیے میں کوفہ کے قریب کے علاقے میں چلا جاتا ہوں جو چیزیں لوگ پھینک دیتے ہیں ان  دالوں سے گزارا کرتا ہوں۔حسن نے اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دی ہے(وہ آج تک نہیں جانتا کہ میں کون ہوں)میری ایک بیٹی پیدا ہوئی ہے وہ بھی آج تک نہیں جانتی ،اس کی ماں کہتی ہے اے پانی پلانے والے صاحب جمل کی بیٹی۔میری بیوی کے پاس ایک رشتہ آیا  جس سے شادی شرعا درست نہ تھی میری بیوی نے اصرار کیا کہ میں  وہاں رشتہ کروں،میں اتنا مجبور تھا کہ یہ بھی نہیں بتا سکتا تھا کہ یہ جائز نہیں ہے یہاں تک کہ یہ بات مشہور ہو گئی۔یہ بات یونہی تھی کہ بچی کی موت ہو گئی۔میرے لیے اس سے غمناک کوئی چیز نہیں ہو گی کہ  میری بیٹی فوت ہو گئی اور وہ رسول اکرمﷺ سے اپنی نسبت کو نہیں جانتی تھی۔پھر اس نے مجھے قسم دی کہ چلے جاو او رپھر کبھی مت آنا ،مجھ سے وداع کیا اور چلا گیا ،اس کے بعد پھر میں  اسی جگہ گیا مگر اسے وہاں نہیں پایا۔

جب عیسی بن زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام کا یہ حال ہے  جن کا نسب قریب کا تھا اور جن کا مقام صاحب زنج سے واضح تھا جو امام زین العابدین ؑ کے پوتوں میں سےتھے،زید شہید بن علی  جو سید الشہد کے پوتے ہیں اور ان کا نسب  شیعہ رہنما بھی نہیں جانتے تھے اور اپنی بیٹی کی شادی ان سے کر دی تھی۔اب یہاں صاحب زنج کی تو بات ہی نہ کریں  جو ان کے ایک صدی بعد آئے ہیں اس زمانے میں علویوں کو قید کرنا قتل کرنا اور صعوبتیں دینا عام  رہا جس کی وجہ سے  عباسی بادشاہوں کے مظالم سے بچنے کے لیے خود کو چھپائے رکھا۔کیونکہ عباسیوں کا طریقہ ظلم،جبر اور ستبداد کا تھا۔

اہل نسب:

مورخین اور اہل نسب نے جعل سازی اور تضاد کا شکار ہو کر  صاحب زنج کے معاملے میں خود کو بند گلی میں پھنسا لیا کہ وہ علوی ہیں یا علوی نہیں ہیں؟بلکہ معاملہ اور آگے بڑھ گیا اور انہوں نے بحث کو  قوم پرستی کی طرف دھکیل دیا کہ وہ عرب تھے یا فارسی تھے؟کچھ اہل نسب نے تو ان معاملات سے آنکھیں چرائیں اور  اس معاملے کے تضادات کو دیکھتے ہوئے خاموشی اختیار کر لی اور اس میں پڑے ہیں نہیں ہیں۔وہ ان کتب و عبارات میں نہیں پڑے  جن سے تضاد ہی ملتا ہے اور کوئی چیز واضح نہیں ہوتی۔

صاحب زنج کی علوی نسبت:

سید ابن عنہ الحسنی نے ذکر کیا ہے کہ صاحب زنج باپ کے دادا عیسی بن زید بن علی تھے اور آپ کی نسبت انہیں کی طرف نسبت ہے ۔وہی جن کا ہم نے کوفہ کے تذکرہ میں اجمالی طور پر گم ہو جانے کا ذکر کیا تھا۔ جن کو موتم اشبال بھی کہا جاتا ہے۔ اس نے کہا: عیسیٰ کے بعد چار افراد تھے ، احمد المخطفی ، زید ، محمد ، اور الحسین ہمارے احمد المختفی (158 ھ / 240 ھ) مراد ہے ، جسے ابن عنبہ نے ایک عظیم اسکالر ، فقیہ اور سعادت مند بتایا ہے اور وہ رشید کی جیل میں قید تھے ، یہاں تک کہ انھیں غائب کہا گیا ۔وہ متوکل کے زمانے تک رہے جس نے ان سے اس لیے تعرض نہ کیا کہ آپ نابینا تھے اور اسی سال عمر پائی، بصرہ میں رہے۔

اس کے بعد احمد المخطفی کے محمد اور علی بیٹے تھے ، اور جو بات ہمیں یہاں ہماری محمد سے مراد وہ محمد جس کا ذکر ابن عنبہ نے ایک نیک رہنما کی حیثیت سے کیا کہ وہ وجیہ اور صاحب حیثیت شخصیت تھے۔ ابی نصر البخاری سے بہت سی روایات ذکر کی ہیں جو ان کے صاحب علم ،صاحب معلومات،ایام عرب،ایام قریش اور ادب کے بارے میں ان کے عالم ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔ابن عنبہ نے ذکر کیا ہے محمد بن احمد جو چھپے ہوئے تھے ان کے بیٹے علی بن محمد تھے اور وہی صاحب زنج ہیں۔اس طرح صاحب زنج کا شجرہ کچھ یوں ہے: علی بن محمد بن احمد بن عیسیٰ بن زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام اس کے دو بیٹے تھے  جن نام یحیی اور عبید اللہ ۔

صاحب زنج کو علوی قرار دینے میں  ابن عنبہ  تنہا نہیں ہے بلکہ  علمائے نسب کا ایک گروہ اس میں ان کے ساتھ ہے۔ابن عنبہ نے  جو کچھ کہ ہے اہل نسب نے اس کا ذکر کی ہے جیسے شیخ الشراف ابی الحسن محمد بن ابی جعفر العبیدلی ، ابو الحسن علی بن محمد العماری اور شریف ابی عبد اللہ الحسین ابن تبتابہ الحسانی اور کچھ دیگر علما بھی اس میں شامل ہیں۔

پھر انہوں نے ایک اور جماعت کا ذکر کیا ہے جن کا نظریہ تھا کہ صاحب زنج علوی ہیں بریہ الہاشمی ہیں جو ابراہیم بن محمد بن اسماعیل بن جعفر بن سلیمان الہاشمی ماہر نسب ہیں، ابو الحسن زید بن کتیلہ الحسینی انہوں نے کہا کہ : علی بن محمد صاحب زنج آل ابی طالب ؑ میں سے ہیں ۔

ابن عنبہ نے ابن مسکویہ کی کتاب تجارب الامم سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے میں نے آل ابی طالبؑ کے ایک گروہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ صاحب زنج صحیح  النسب  آل ابی طالب ؑ میں سے ہے۔

صاحب زنج کا نسب درست اور صحیح ہے اس میں کسی قسم کے شک اور احتمال کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اس نسب کی تائید ماہر اہل نسب نے کی ہے بلکہ اس کی تائید علوی ماہرین نسب نے کی ہے جو قابل اعتماد ہیں اور ان پر بعد میں آنے والوں نے اعتماد کیا ہے۔گھر والے ہی گھر والوں کے بارے میں بہتر جانتے ہیں ہم بعض اہل ماہرین کا تذکرہ کرتے ہیں:

۱۔شیخ صاحب فضیلت،عالم،شاعر،ماہر اہل نسب، أبو الحسن محمد بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن إبراهيم بن علي بن عبيد الله الأعرج بن الحسين الأصغر بن الإمام علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب عليه السّلام۔آپ ابی الحسین بن ابی جعفر العبیدلی 338ــ 435 ھ کے نام سے معروف ہیں۔یہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے سادات کے شجروں کو جمع کیا،آپ سید مرتضی،سید رضی اور ابی الحسن العمری کے استاد ہیں۔آپ کی کتاب نسب پر تھی جسے کتب نسب میں ذکر کیا جاتا ہے۔آپ نے نساب پر کافی کتب تالیف کیں جیسے نھایۃ الاعقاب ہے۔اس نے عجمی ممالک کا بھی دورہ کیا جہاں سے نسب اور اس سے متعلقہ اخبار کو جمع کیا ،اس سے بہت سے اہل نسب نے علم حاصل کیا۔مجدی میں علوی نے کہا ہے کہ وہ عراق کا سب سےماہر  نسب شناس تھا۔اس بزرگ سے بہت کچھ پوچھا گیا اور اس سے بہت کچھ نقل کیا گیا۔

۲۔ شریف نجم الدین ابی الحسن علی علوی العمری الاطرفی جو ابن صوفی کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ سید نجم الدین ابو الحسن علی بن ابی الغنائم محمد ماہرنسب بن ابی الحسین علی ماہر نسب ابن ابی طیب محمد الاحور بن ابی عبداللہ محمد ملقطہ بن ابی الحسین احمد الاصغر  کوفی بن ابی القاسم علی بن ابی علی محمد صوفی بن ابی الحسین یحی الصالح بن ابی محمد عبداللہ بن ابی عمر محمد بن عمر الاطرف بن امام امیر المومنین علی بن ابی طالب علیھم السلام ۔انساب میں ان کی کتاب المجدی ہے علامہ سید صدرالدین مدنی شیرازی نے اپنی کتاب الدرجات رفیعہ میں ص ۴۷۵ میں ابوالغنائم کے حالات میں  یہ کہا ہے:ان کے باپ بھی اسی طرح ماہر نسب تھے،نسب کے امام تھے، آپ نے دور دراز کے شہروں کا سفر کر کے نسب کی تحقیق کیا کرتے تھے جس نے بھی  نسب پر لکھنا ہے وہ ان پر اعتماد کرتا ہے اور ان کے لکھے کے خلاف نہیں جاتا۔انہوں نے اور ان کے بیٹے ابولحسن العمری نے اس فن میں مہارت حاصل کی کسی اور نے علم فن میں ان دونوں کے علاوہ اتنی مہارت حاصل نہ کی۔

علوی نے اپنی کتاب المجدی ص ۳۹۰ میں صاحب زنج کے نسب کے بارے میں لکھا ہے کہ ہمارے استاد ابوعبداللہ بن طباطبا کہتے تھے: علی بن محمد بن احمد بن عیسی کے نسب کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے یہ درست ہے اس کی کنیت ابالحسن ہے۔یہاں شیخ سے مراد شیخ عبیدلی ہیں۔

پھر وہ کہتے ہیں کہ میں نے صاحب شرف شیخ ابی الحسین زید بن محمد بن قاسم بن علی بن کتیلہ سے کہا جب میں ان سے حسین بن زید اور ان کے بیٹوں کو نسب پڑھ رہا تھا کہ آپ کی علی بن محمد جو بصرہ والے ہیں ان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ بھی ان کے بیٹے ہیں؟تو انہوں نے جواب دیا:وہ علوی ہے میں نے اپنی اساتذہ کو اسی طرح پایا کہ وہ اسے علوی ہی سمجھتے تھے۔جنہوں نے اس کےعلوی ہونے کی نفی کی ہے وہ ماہر نہیں ہے۔میں نے کہا: علی بن محمد نامی کے الورزینی کی نسل  سے ہونے کا کہا جاتا ہے وہ ہنسے اور کہا: مجھے آپ  سے تعلیم لینی چاہیے اگر میں نہیں جانتا کہ یہ شخص علوی ہے۔یعنی وہ علوی ہی ہے۔

۳۔شریف ابی عبداللہ الحسین بن طباطبا الحسنی ان سے خطیب بغداد ی نے نقل کیا ہے کہ  ابن طباطبا وہ نسب کے ماہر معروف تھے لوگ انہیں پہچانتے تھے۔آپ ادیب،شاعر تھے مجالس علم میں کثرت سے شریک ہوتے تھے آپ سےاشعار اور حکایات نقل ہوئی ہیں آپ کا انتقال ۴۴ہھ میں ہوا۔

۴۔ابرہیم بن محمد بن اسماعیل بن جعفر بن سلیمان  الہاشمی ماہر نسب ہیں آپ  بریہ ہاشمی کے لقت سے معروف ہیں ان کی زیادہ تفصیلات میسر نہیں آ سکیں۔

۵۔ابولحسن زید بن کتیلہ الحسینی  ماہر علم نسب ہیں  انہیں  ابو الحسین زید  کہا جاتا ہے جو ابن کتیلہ الحسینی بن محمد بن قاسم بن علی بن یحیی بن یحیی بن حسین بن زید بن علی بن حسین  بن علی بن ابی طالب علیھم السلام کے نام سے مشہور ہیں۔

دوبارہ اہل تاریخ کی طرف:

ہم ان مورخین کا تذکرہ کرتے ہیں جنہوں نے صاحب زنج کو علوی کہا ہے ان میں صفدی،ابن مسکویہ،ابن خلدون شامل ہیں۔صفدی صاحب زنج کے حالات میں لکھتا ہے صاحب زنج کی والدہ کا نام  قرہ بنت عبدالواحد بن محمد شامی ہے ۔یہ اہل رے میں سے تھیں ان کے  والد ہر سال حج پر جاتے تھے ایک بار مدینہ میں علویوں کے گھر میں آئے  وہاں دیکھا کہ  ایک علوی فوت ہو گیا ہے اور ایک گیارہ سال کے محمد نام کے بچے کو چھوڑا ہے۔  شامی اس بچے کو اپنے ساتھ رے لے آیا تاکہ اپنی علوی دوست سے حق دوستی ادا کر سکے۔ہوا یہ کہ محمد کی بہن اور ماں نے اسے لے جانے کی اجازت نہ دی کہ ہم جدائی برداشت نہیں کر سکتے۔شامی جب اگلے سال آئے تو اب کوئی روکنے والا نہیں تھا کیونکہ محمد کی والدہ اور بہن دونوں کا انتقال ہو چکا تھا۔اس طرح محمد ورزنیین نامی گاوں میں پہنچ گئے،جب  جوانی کا مرحلہ آیا تو  اس شامی نے اپنی بیٹی کی شادی ان سے کر دی۔ان کی دو بیٹیاں پیدا ہوئی جن کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا اور ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام علی تھا اور وہی صاحب زنج ہے۔

صفدی ایک قصہ کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:محمد کی قرہ سے شادی زیادہ دیر نہ چلی اور ان کے درمیان  جدائی ہو گئی جس کی وجہ حد سے بڑھی سخاوت بیان کی جاتی ہے۔محمد نے ایک  عورت سے شادی کی  اور علی  کو اپنے ساتھ لے  لیا مگر علی  ساتھ نہیں رہا اور چند  سال بعد ہی روزنیین واپس آ گیا اور اپنی ماں کے  ساتھ رہا  اس کے والد کا انتقال ہو گیا ،پھر کچھ سال کے لیے خراسان چلا گیا ،پھر کچھ عرصے کے لیے روزنیین آیا پھر ہمیشہ کے لیے ماں سے جدا ہو گیا اور اس نے انقلاب کا اعلان کر دیا۔اس نے ماں کو کہلا بھیجا کہ وہ اس کے پاس بصرہ آجائے جو اس کی حکومت کا مرکز تھا مگر اس نے بصرہ آنے سے انکار کر دیا اور یہیں روزنیین میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

اس قصہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس وقت شہر کی مالی حالت انتہائی خراب تھی اسی لیے شامی نے محمد کو ریے لانے کا فیصلہ کیا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مصیبتیں بہت زیادہ ہو گئی تھیں کیونکہ جب شامی دوبارہ آتا ہے تو ایک ہی سال میں محمد کی ماں اور اس کی بہن دونوں کا انتقال ہو جاتا ہے۔

ابن مسکویہ نے یہ تاکید کی ہے کہ احمد بن محمد بن یعقوب صاحب زنج علوی کے نسب کے بارے میں کہتے ہیں اس کی پیدائش رے کے ایک گاوں میں ہوئی جسے رزنین کہا جاتا ہے ۔ایک جماعت نے ان کے نسب کے بارے میں شک کیا ہے وہ علی بن محمد بن احمد بن علی بن عیسی بن زید بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام ہے۔

ابن خلدون نے بھی ان کے علوی نسب کی تاکید کرتے ہوئے کہا ہے اکثر لوگ جو معتصم کے خلاف عراق سے اٹھے وہ زیدیہ تھے یعنی حضرت زید ؑ کی اولاد میں سے تھے۔ان کے اماموں میں سے علی بن محمد بن احمد بن عیسی بن زید شہید ہیں۔یہاں زیدیہ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا نسب حضرت زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام سے ملتا ہے۔

ان کے علوی ہونے پر یہ بات بھی دلیل ہے کہ ان کے لشکر کے اکثر قائدین عرب تھے جیسے علی بن ابان المھلبی،سلیمان بن موسی الشعروانی،سلیمان بن جامع ،احمد بن بن مہدی الجبائی،یحیی بن محمد البحرانی،محمد بن سمعان اور بہت سے لوگ بھی ہیں۔بلکہ ان کے انقلاب میں عرب افراد ہی شامل نہیں تھے بڑے عرب قبائل بھی شامل تھے جیسے ھمدان،تمیم اور اسد وغیرہ۔

محمد طاهر الصفار

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018