3 ذو الحجة 1446 هـ   31 مئی 2025 عيسوى 7:25 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | حضرت محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ایک نبی تھے |  نبی کریم ﷺ کے اخلاق اور ان کے انسانی تہذیب پر اثرات
2025-03-30   246

نبی کریم ﷺ کے اخلاق اور ان کے انسانی تہذیب پر اثرات

الشيخ معتصم السيد أحمد

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:(وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ) اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔) (القلم: 4)، اور رسول اللہ نے فرمایا: (إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق) (بے شک، میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں)۔

نبی کریم کے اخلاقِ حسنہ اور انسانی تہذیب میں ان کے کردار پر قلم اٹھاتے ہوئے سب سے پہلے اخلاق کے مفہوم کا جاننا ضروری ہے، کیونکہ بعض اوقات اخلاق کو صرف انفرادی رویوں تک محدود کر دیا جاتا ہے، حالانکہ حقیقت میں اخلاق ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔ایک باشعور انسان کی زندگی اس وقت تک صحیح معنوں پر استوار نہیں ہو سکتی جب تک وہ اخلاقی بنیادوں پر قائم نہ ہو۔ درحقیقت، اس کی حقیقی قدر و قیمت انہی اقدار میں پنہاں ہے جو وہ اپناتا ہے۔ انسانی وجود کا فلسفہ اسی بنیاد پر استوار ہے کہ انسان اخلاق سے معمور مخلوق ہے، لہذا کوئی بھی انسانی معاشرہ یا تہذیب تبھی تکمیل کے درجے تک پہنچ سکتی ہے جب وہ ایک مستحکم اخلاقی نظام پر قائم ہو۔

درحقیقت، انسان کا رویہ اس کے ثقافتی نظریات کا آئینہ دار ہوتا ہے، جبکہ خود ثقافت ان اقدار کا عکس ہے جو وہ اپنی زندگی میں اختیار کرتا ہے۔ یہ اقدار اس کے علمی نقطۂ نظر سے جنم لیتی ہیں اور اس کے طرزِ فکر و عمل کی تشکیل کرتی ہیں۔ یوں یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اخلاق صرف رویوں کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ ان اقدار پر مشتمل  ایک جامع نظام ہے جو انسان کو زندگی کی گہری بصیرت عطا کرتا ہے۔ دراصل، کائنات میں ہر چیز کی اہمیت کا تعین ان اقدار کے ساتھ اس کے تعلق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

جب اقدار زندگی کا سنگِ بنیاد ہیں، تو یہی دین کو سمجھنے کا ذریعہ بھی بنتی ہیں، کیونکہ دین درحقیقت انہی اعلیٰ اقدار کی یاددہانی اور تاکید ہے۔ دین وہ فریم ورک فراہم کرتا ہے جو انسانی شخصیت کی تکمیل کو یقینی بناتا ہے اور اسے فکری، روحانی اور عملی لحاظ سے سنوارنے میں مدد دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کو محض ایک ثقافتی ورثہ سمجھنے کے بجائے اسے ایک بامقصد اور متحرک اخلاقی نظام کے طور پر اپنانا ضروری ہے، تاکہ وہ انسان کی فکری بالیدگی اور اعلیٰ ترین امنگوں کی تکمیل میں معاون ثابت ہو سکے۔

اقدار اپنی ذات میں ایک حقیقت ہے، یہ کوئی ایسی شے نہیں جو زمانے سے ماورا ہو، بلکہ یہ وقت کی حرکت اور تغیر کے ساتھ ہم آہنگ رہتی ہیں۔ جیسے حسن کو ہی لیجیے، یہ ایک مستقل قدر ہے، مگر اس کے مظاہر زمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر، آج اگر ہم کہیں کہ "یہ پھول خوبصورت ہے"، تو کل یہی بات کسی اور شے کے بارے میں کہی جا سکتی ہے، مگر حسن اپنی اصل حیثیت میں برقرار رہتا ہے اور ہر عہد میں نئے رنگوں اور صورتوں میں جلوہ گر ہوتا ہے۔یہی اصول عدل، وقار، رحمت اور آزادی جیسی اقدار پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ یہ اقدار محض نظری تصورات نہیں، بلکہ انسانی زندگی کی اساس ہیں جو وقت کی گردش اور تغیرات کے باوجود اپنی معنویت برقرار رکھتی ہیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں نبی کریم ﷺ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ اگر اقدار ہی دین اور زندگی کی بنیاد ہیں، تو  کیا انسان براہِ راست ان سے وابستہ نہیں ہو سکتا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اقدار محض مجرد تصورات کی حیثیت میں مکمل طور پر سمجھی نہیں جا سکتیں، جب تک کہ وہ کسی شخصیت یا عملی رویے میں مجسم نہ ہوں۔ عقل کی حقیقت تبھی سمجھ میں آتی ہے جب وہ کسی صاحبِ خرد میں جلوہ گر ہو، قدرت کا مفہوم تبھی واضح ہوتا ہے جب وہ کسی صاحبِ اختیار کے ذریعے ظاہر ہو، اور رحمت کا احساس تبھی دل پر اثر کرتا ہے جب وہ کسی رحم دل عمل میں ڈھل کر سامنے آئے۔ٹھیک اسی طرح، عدل، آزادی، رواداری، محبت اور حسن جیسی اعلیٰ اقدار بھی محض نظری مباحث نہیں، بلکہ حقیقی فہم کے لیے ضروری ہے کہ وہ عملی صورت میں سامنے آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایک ایسی ہستی کی ضرورت ہوتی ہے جو ان اقدار کو اپنے کردار اور عمل میں ڈھال کر ہمارے لیے مشعلِ راہ بنا دے۔

پس  اگر کوئی شخصیت کسی قدر کو کامل ترین صورت میں مجسم کر دے، تو وہ نہ صرف اس قدر کی علامت بن جاتی ہے بلکہ وہ ہمیشہ اس سے وابستہ بھی رہتی ہے، جب تک کہ کوئی اور اس سے بڑھ کر اس کا مظہر نہ بن جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی رحمت کا ذکر آتا ہے، تو بے ساختہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ گرامی یاد آتے ہیں ، اور جب عدل کی بات ہوتی ہے، تو امیر المؤمنین علیہ السلام کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، کیونکہ ہم ان اقدار کو حقیقی معنوں میں انہی ہستیوں کے ذریعے پہچانتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انبیاء اور اولیاء ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، کیونکہ وہی ان اعلیٰ اقدار کے کامل نمونے اور عملی پیکر ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ انبیاء اور طاقتور حکمرانوں کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ  اگرچہ دونوں انسانی سماج کے بلند مقام پر ہوتے ہیں، لیکن انبیاء زندگی عطا کرتے ہیں اور اس سے کچھ نہیں لیتے، جبکہ طاقتور افراد زیادہ تر دینے کی بجائے لینے والے ہوتے ہیں ۔ انبیاء دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں، جبکہ طاقتور لوگ صرف اجسام پر قابو رکھتے ہیں۔ انبیاء عوام کے ساتھ جیتے ہیں، جبکہ طاقتور افراد ان پر سوار ہو کر اپنی سلطنت قائم کرتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو انبیاء کی تہذیب اور طاقتوروں کی تہذیب کے درمیان موجود ہے—ایک رحمت پر مبنی ہوتی ہے، جبکہ دوسری محض طاقت کے زور پر قائم رہتی ہے۔

چنانچہ  اسی بنیاد پر، ہم دیکھتے ہیں کہ درجہ ذیل تین آیات رسول اللہ ﷺ سے ہمارے تعلق کی اساس بنتی ہیں:

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ) (الأنبیاء: 107)اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے)اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ) (القلم: 4)(اور بے شک، آپ بلند اخلاق پر فائز ہیں)۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيراً) (الأحزاب: 21)

(یقیناً، تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہے)

رحمت وہ بنیادی اصول ہے جس پر تمام انسانی اقدار قائم ہیں۔ علم ایک قدر ہے، کیونکہ اس کی اصل رحمت ہے، برخلاف جہالت کے جو ہر برائی کی جڑ ہے۔ قدرت بھی ایک قدر ہے، بشرطیکہ  وہ رحمت کے دائرے میں ہو، نہ کہ جبر و استبداد کے حصار میں۔ اسی طرح، محبت، احسان اور مروّت جیسی تمام اقدار بھی رحمت کے دائرے میں حرکت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اقدار میں تزاحم پیدا ہو جائے اور ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ کون سی قدر کو ترجیح دی جائے، تو اصول یہ ہے کہ اس قدر کو چنا جائے جو رحمت کے سب سے قریب ہو۔

رسول اللہ ﷺ کی اخلاقیات اور انسانی تہذیب کی کنجیاں

کہا جاتا ہے کہ آٹھ بنیادی اصول ہر تہذیب کا جوہر تشکیل دیتے ہیں، اور کوئی بھی معاشرہ ان کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ اصول اعلیٰ اخلاق کی بنیاد ہیں جن پر تمام مہذب معاشرے استوار ہوتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہی اصول نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اور اعمال میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کی رسالت کا ایک بنیادی مقصد ایک عادل اور ترقی یافتہ معاشرہ قائم کرنا تھا۔

پہلا اصول: انسان کے بارے میں معاشرتی رویے۔

یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کسی معاشرے میں  انسان کو ایک ایسی کمتر اور شریر مخلوق سمجھا جاتا ہے جو عزت و احترام کے لائق نہیں، یا اسے محض انسان ہونے کی بنیاد پر ایک باوقار اور قدر و منزلت رکھنے والی مخلوق تصور کیا جاتا ہے؟ وہ معاشرے جو انسانی وقار کو تسلیم کرتے ہیں،وہ  افراد کو نشوونما اور ترقی کے مواقع فراہم کرتے ہیں، جبکہ وہ معاشرے جو انسانی عزت کو پامال کرتے ہیں،وہ  ایسے افراد پیدا کرتے ہیں جو اعتماد سے محروم، کمزور ارادے کے حامل اور تخلیقی و اصلاحی صلاحیتوں سے عاری ہوتے ہیں۔اس تناظر میں  جب ہم نبی کریم ﷺ کی سیرت پر غور کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی اخلاقیات دوسروں کے احترام میں جلوہ گر ہوتی تھیں، چاہے وہ آپ کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی حقیقت کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا: ( وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ) (الإسراء: 70) (اور بے شک، ہم نے بنی آدم کو عزت دی)۔

نبی کریم ﷺ نے کبھی کسی کی  عزت نفس کو مجروح نہیں کیا، حتیٰ کہ اپنے دشمنوں کی بھی ۔ آپ نے فرمایا: (ما من شيء أكرم على الله من ابن آدم) (اللہ کے نزدیک کوئی چیز ابن آدم سے زیادہ معزز نہیں)۔

ایک اور حدیث میں فرمایا: (الخلق عيال الله، فأحب الخلق إلى الله من نفع عيال الله) (تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کے کنبے کو فائدہ پہنچائے)۔ اسی طرح آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:(خير الناس من انتفع به الناس) (لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لیے نفع بخش ہو)۔ نیز فرمایا: (أذل الناس من أهان الناس) (سب سے زیادہ ذلیل وہ ہے جو دوسروں کو ذلیل کرے)۔

یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے "الناس" (لوگوں) کا لفظ مطلق طور پر استعمال کیا، بغیر کسی تخصیص کے کہ وہ مؤمن ہیں یا مسلمان، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کسی بھی انسان کی توہین، خواہ اس کا دین یا عقیدہ کچھ بھی ہو، اخلاقی اور دینی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔

دوسرا اصول: معاشرے میں دین کا کردار

دین اور اللہ و آخرت پر ایمان کو معاشرے میں کس طرح بروئے کار لایا جاتا ہے؟ کیا اسے انسان کو اخلاص اور احسان کی طرف مائل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے گھر، اسکول، فیکٹری اور کاروبار میں بہترین کارکردگی دکھائے؟ یا اسے اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ انسان کی فعالیت محدود ہو جائے اور اس کی اصلاح و اثر پذیری کی قوت ختم ہو جائے؟ وہ معاشرے جو دین کو ترقی اور نشوونما کے لیے استعمال کرتے ہیں، یقیناً ان معاشروں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ہیں جو انسان کے کردار کو محدود کرنے اور اس کی صلاحیتوں کو دبانے میں مددگار بنتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا(إِنَّ الله يُحِبُّ إذا عَمِلَ أَحَدُكُمْ عَمَلاً أَنْ يُتْقِنَهُ) (بے شک، اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی کام کرے تو اسے بہترین طریقے سے انجام دے)۔آپ ﷺ نے مزید فرمایا(كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ) (تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر شخص اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے)۔

ایک اور حدیث میں فرمایا: (عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ) (ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے)۔ صحابہ نے عرض کیا: (فَإِنْ لَمْ يَجِدْ) (اگر وہ کچھ نہ پائے تو کیا کرے؟) تو آپ ﷺ نے فرمایا: (فَيَعْمَلُ بِيَدَيْهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُ) (وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے، خود کو نفع دے اور صدقہ کرے)۔ پھر مزید ارشاد فرمایا: (فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ) (اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے تو کیا کرے؟) تو فرمایا: (يُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ) (وہ کسی ضرورت مند پریشان حال کی مدد کرے)۔ صحابہ نے پوچھا: (إِنْ لَمْ يَفْعَلْ) (اگر وہ یہ بھی نہ کر سکے تو؟) آپ ﷺ نے فرمایا: (فَيَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ، وإذا لم يتمكن من ذلك، فَيُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّهُ لَهُ صَدَقَةٌ) (وہ نیکی کی تلقین کرے، اور اگر وہ اس کی بھی استطاعت نہ رکھے، تو کم از کم برائی سے باز رہے، کیونکہ یہی اس کے لیے صدقہ ہوگا)۔

اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا: (يا معشر القراء، خذوا طريق من كان قبلكم، وارفعوا رؤوسكم، ولا تكونوا عيالاً على المسلمين) (اے قرآن پڑھنے والو! اپنے سے پہلے گزرنے والوں کی راہ اختیار کرو، سربلند رہو، اور مسلمانوں پر بوجھ نہ بنو)۔اس پس منظر میں، اگر کوئی مومن کسی ایک بھلائی کا دروازہ بند پائے، تو اسے چاہیے کہ کسی دوسرے دروازے کی طرف متوجہ ہو، کیونکہ بھلائی کے دروازے بے شمار ہیں اور اللہ کی رضا کا راستہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔

تیسرا اصول: موجودات اور کائنات کے بارے میں نظریہ

کیا معاشرہ کائنات، زمین، آسمان، مادہ، جاندار اور دیگر موجودات کو تحقیق، سوال اور علم کے حصول کا میدان سمجھتا ہے؟ کیا ان چیزوں کو ایک کھلی کتاب کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جسے پڑھ کر اس کے اسرار دریافت کیے جائیں؟ یا پھر ان اشیاء کو محض بے مقصد اور بے وقعت سمجھا جاتا ہے؟ اگر کوئی معاشرہ کائنات کے ساتھ ایسا تعلق رکھتا ہے جو اسے سوال اور تحقیق پر آمادہ نہ کرے، تو وہ جمود اور پسماندگی کا شکار رہے گا۔ اس کے برعکس، وہ معاشرے جو جستجو، تحقیق اور دریافت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، وہ ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں، کیونکہ ہر دن ان کے لیے نئی ایجادات اور انکشافات لے کر آتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:(هُوَ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا) (هود: 61)

(اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور تمہیں اس میں آباد کیا)۔اسی طرح فرمایا: (أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً) (لقمان: 20)

(کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو تمہارے لیے مسخر کر دیا اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں مکمل کر دیں)۔اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں: (سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ) (فصلت: 53) (ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہی حق ہے)۔

قرآن مجید نے مختلف مقامات پر سوالات کے ذریعے غور و فکر کی دعوت دی، جیسے:

(أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ) (الغاشية: 17-20) کیا وہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیا گیا؟ اور آسمان کی طرف کہ کیسے بلند کیا گیا؟ اور پہاڑوں کی طرف کہ کیسے گاڑھے گئے؟ اور زمین کی طرف کہ کیسے بچھائی گئی؟

نبی کریم ﷺ نے بھی لوگوں کو کائنات کے راز سیکھنے کی ترغیب دی اور سوالات و مشاہدات کے ذریعے سوچنے کا دروازہ کھولا۔ آپ ﷺ نے ایسے متعدد ارشادات فرمائے جو فطرت کے قوانین، حکمت اور سائنسی حقائق کو سمجھنے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہی طرزِ فکر وہ بنیاد ہے جو تحقیق، دریافت اور علم کی ترقی کا راستہ ہموار کرتی ہے۔

چوتھا اصول : زندگی کے بارے میں نظریہ

کیا معاشرے کا فرد خود کو زندگی میں ایک متحرک عنصر سمجھتا ہے، جو اس کے دھارے پر اثر ڈال سکتا ہے اور اس کی ترقی میں حصہ لے سکتا ہے؟ یا وہ زندگی کو ایک جامد تصویر کے طور پر دیکھتا ہے، جو پہلے سے طے شدہ ہے اور جس میں انسان کا کوئی کردار نہیں؟ معاشرے میں کس قسم کی ثقافت رائج ہے؟وہ معاشرے ترقی کرتے ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ فرد زندگی کی تعمیر میں ایک اہم عنصر ہے اور اس پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہﷺ نے زندگی کے تمام پہلوؤں میں عمل اور سرگرمی پر زور دیا۔ آپﷺ نے فرمایا: "اگر قیامت قائم ہو جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں ایک پودا ہو، اور وہ اسے لگا سکتا ہو تو اسے لگا دینا چاہیے۔"یہ حدیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ سخت ترین حالات میں بھی کام اور حصہ ڈالنے کی اہمیت برقرار رہتی ہے۔ اسی طرح، آپﷺ نے فرمایا: "جو بھی مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے، اور اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کھاتا ہے، تو وہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔"

یہ احادیث اسلام کے اس فلسفے کو ظاہر کرتی ہیں جو تخلیقی صلاحیت اور مسلسل عمل کو ایمان کا ایک حصہ قرار دیتا ہے۔ اسی طرح، آپﷺ نے یہ دعا فرمائی: "اے اللہ! میری امت کے لیے اس کی صبح میں برکت عطا فرما"—یہ ایک ترغیب ہے کہ دن کے ابتدائی حصے میں کام کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ تاثیر حاصل ہو۔وہ معاشرے جو انفرادی اور اجتماعی کام کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کی منازل طے کرتے ہیں۔

پانچوا اصول: معاشرے میں انسان کے ساتھ برتاؤ

کیا معاشرے میں تمام افراد کو مساوی سمجھا جاتا ہے یا انہیں نسل، قبیلے یا طبقے کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے؟ ان دو رویوں میں بہت فرق ہے، کیونکہ مساوات پر مبنی معاشرے زیادہ ترقی یافتہ اور مستحکم ہوتے ہیں، جبکہ تفریق اور امتیاز پر مبنی معاشروں میں انتشار اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔ وہ معاشرے جہاں تمام افراد کو برابر کا درجہ دیا جاتا ہے، وہاں لوگ آزادی سے ترقی کرتے ہیں، جبکہ وہ معاشرے جہاں لوگوں کے درمیان امتیاز برتا جاتا ہے، وہاں ظلم اور ناانصافی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں، جو اختلافات اور تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے باہمی اخوت اور ہمدردی کی تعلیم دی اور فرمایا: "مومن آپس میں محبت، رحمت اور ہمدردی میں ایک جسم کی مانند ہیں، جب جسم کے کسی حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔"

یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ ایک معاشرے کے افراد ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں، اور اگر کسی ایک پر مصیبت آتی ہے تو پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔

اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے) قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: "اے ایمان والو! کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو اور نہ برے القاب سے پکارو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔" (الحجرات: 11)

یہ آیات اور احادیث اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ ایک متوازن اور ترقی یافتہ معاشرے کے لیے مساوات اور برابری ضروری ہے اور کسی بھی قسم کی نسلی، قبائلی یا سماجی تفریق سے بچنا لازم ہے۔

چھٹا  اصول: دوسرے معاشروں کے ساتھ تعلق

ہم دور دراز کے معاشروں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا ہم انہیں ایک موقع سمجھتے ہیں کہ ہم ان سے سیکھیں، ان کے ساتھ تعاون کریں اور باہمی ترقی کریں، یا ہم انہیں دشمن سمجھتے ہیں جو ہمیشہ ہمیں نقصان پہنچانے کے درپے ہیں؟ جو معاشرے دوسروں کو صرف دشمن سمجھتے ہیں، وہ بالآخر اسی رویے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جبکہ جو معاشرے دوسروں کا احترام کرتے ہیں اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:

"اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے" (الحجرات: 13)یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ انسانی معاشرے کا تنوع اختلاف کے بجائے تعارف اور سیکھنے کا ذریعہ ہونا چاہیے، نہ کہ دشمنی اور تعصب کا۔

رسول اللہ ﷺ کی سیرت میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے مختلف اقوام اور معاشروں کے ساتھ مثبت تعلقات استوار کیے۔ جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم بڑھا تو نبی کریم ﷺ نے اپنے کچھ صحابہ کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ وہاں پناہ حاصل کر سکیں۔ اسی طرح، نبی ﷺ نے بعض صحابہ کو یمن بھیجا تاکہ وہ وہاں جا کر تلوار سازی کی صنعت سیکھ سکیں۔یہ مثالیں ہمیں سکھاتی ہیں کہ دوسروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنا، ان کے علم و ہنر سے سیکھنا اور معاشرتی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا ہی کامیابی کی راہ ہے۔

ساتواں اصول: علم اور معرفت کی اہمیت

کیا ہم علم کو ایک  ایسا وصف سمجھتے ہیں، جو سوالات کرنے اور تحقیق کرنے سے ترقی کرتا ہے؟ یا ہم سوالات سے گھبراتے ہیں اور علم کو ایک محدود دائرے میں قید کر دیتے ہیں جو نہ بڑھتا ہے اور نہ گھٹتا؟ جو معاشرے سوالات اور تحقیق کی راہیں مسدود کر دیتے ہیں، وہ جمود اور پسماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے معاشرے صرف ماضی کے علمی ورثے پر جیتے ہیں اور ترقی کے امکانات سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، وہ معاشرے جو سوالات کو فروغ دیتے ہیں، تحقیق کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور علم کے ارتقا کو تسلیم کرتے ہیں، وہ ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کا طریقہ یہی تھا کہ وہ خود صحابہ کو تعلیم دیتے اور روزانہ انہیں نئے علمی ابواب سے روشناس کراتے۔ وہ علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے اور ہر ممکن ذریعے سے سیکھنے کا حکم دیتے۔

آپ ﷺ نے فرمایا: "علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر تک۔ حکمت مؤمن کی گمشدہ متاع ہے اسے جہاں سے ملے لے لو"یہ تعلیمات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ علم کسی خاص سرزمین یا کسی مخصوص طبقے تک محدود نہیں بلکہ ایسے جہاں سے بھی میسر آئے، حاصل کرنا چاہیے۔ نبی اکرم ﷺ کا یہی پیغام ہے کہ جو معاشرہ علم کے لیے کھلا رہے، سوالات کرنے کی عادت اپنائے، اور ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کی جستجو رکھے، وہی کامیابی اور ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔

آٹھواں  اصول: وقت کے بارے میں رویہ

کیا ہمارا معاشرہ ماضی میں جیتا ہے یا مستقبل کی طرف دیکھتا ہے؟ کیا لوگ زیادہ وقت ماضی کے قصے دہرانے میں صرف کرتے ہیں یا آنے والے وقت کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں؟ کیا وقت کو ایک قیمتی سرمایہ سمجھا جاتا ہے جسے بہترین طریقے سے استعمال کیا جائے، یا اسے ضائع کرنے کی چیز سمجھا جاتا ہے؟ وہ معاشرے جو وقت کو ایک قیمتی وسیلہ سمجھ کر زیادہ سے زیادہ ترقی اور کامیابی کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہی ترقی کرتے ہیں۔ جبکہ وہ معاشرے جو وقت کو بوجھ سمجھ کر ضائع کرتے ہیں، وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔

نبی اکرم ﷺ نے وقت کی قدر کرنے کی تعلیم دی اور فرمایا:قیامت کے دن کسی بھی بندے کے قدم اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کر لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ کہاں گزاری؟ اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کتنا عمل کیا؟"

دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ نقصان میں رہتے ہیں: صحت اور فارغ وقت۔"

پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو: اپنی زندگی کو موت سے پہلے، اپنی صحت کو بیماری سے پہلے، اپنے فارغ وقت کو مصروفیت سے پہلے، اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، اور اپنی خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے۔"یہ احادیث ہمیں سکھاتی ہیں کہ جو معاشرہ وقت کی قدر کرے، اسے ضائع نہ کرے، اور اسے ترقی کے لیے استعمال کرے، وہی کامیابی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے

اختتامیہ

رسول اللہ ﷺ کی اخلاقیات کسی بھی معاشرے کی ترقی اور تہذیب کے لیے بنیادی اصولوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ ﷺ نے زندگی، علم، وقت اور معاشرت کے ساتھ ایک متوازن اور مثبت رویہ اختیار کیا، پس یہی رویہ کسی بھی قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔یہ آٹھ بنیادی اصول محض نظریاتی تصورات نہیں، بلکہ یہ وہ عملی اقدامات ہیں جو اگر سنجیدگی سے اپنائے جائیں، تو کسی بھی تہذیب کو عروج کی طرف لے جا سکتے ہیں اور اگر ہم ان اسلامی اصولوں کو اپنی روزمرہ زندگی میں اپنالیں، تو نہ صرف ہمارا معاشرہ کامیابی کی راہ پر گامزن ہوگا، بلکہ ہم بذات خودحقیقی اور پائیدار ترقی حاصل کر سکیں گے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018