19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 7:38 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | حضرت محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ایک نبی تھے |  مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت ِتبلیغ
2019-03-05   20619

مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت ِتبلیغ

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اپنی تبلیغ کا آغاز اپنے اہل وعیال سے فرمایا، اور سب سے پہلےآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زوجہ حضرت خدیجہ ؑ کو اپنی رسالت کی دعوت دی، اور آپ علیہا السلام نے فورَا دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیا، کیونکہ آپ ؑ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو بہت ہی قریب سے جانتی تھیں اور آپ علیھا السلام انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طوروو اطوار، رفتاروگفتار، سیرت طیبہ، اخلاق کریمہ اور عظیم ملکوتی صفات سے باخبر تھیں۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی اور اپنی زیرِ تربیت شخصیت حضرت علی ابن ابی طالب ؑ کو اسلام کی دعوت دی، کہ جنہوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی کفر وشرک کا ارتکاب نہیں کیا تھا اور نہ ہی کبھی  کسی بت کے سامنے سر بسجود ہوئے تھے۔ آپ ؑ نے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی برحق ہونے کی تصدیق فرمائی اور اس طرح سب سے پہلےاسلام لانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کرنے کا شرف حاصل کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں علی ابن ابی طالب کو بہت بڑی منزلت اور مرتبہ حاصل تھا، آپؑ رسول اللہ کے مطیع وفرمانبردار تھے اور شجاعت وبہادری میں بے مثل تھے، جبکہ یہی وہ چیزیں تھیں کہ جن کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی دعوت اسلامی کے ابتدائی مرحلے میں اشد ضرورت تھی۔ اور انہیں صفات کی وجہ سے حضرت علیؑ کی شخصیت باقی شخصیات سے منفرد  تھی۔

جن ہستیوں نے سب سے پہلے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی وہ حضرت خدیجہ ؑ اور حضرت علیؑ ہی تھے۔ آپ دونوں رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غار حرا ء میں قیام کے دوران طعام اور دیگر لوازمات زندگی پہنچاتے تھے۔ پھر آپ دونوں کے ساتھ کاروان توحید میں حضرت زید بن حارثہ بھی شریک ہوئے۔ اس ابتدائی مرحلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعلانیہ  طور پر عبادات الٰہی بجا نہ لاتے تھے، اور مومنین سے بھی اعلانیہ رابطہ نہ کرتے تھے۔ ابتداء میں آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے والے مومنین کو کفار اور مشرکین قریش نےسخت اذیتیں پہنچائیں۔ جب حلقہ اسلام میں لوگوں کی آمد شروع ہوئی تو بالآخر وہ انتظار کے لمحات بھی آن پہنچے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے  وحی ہوئی : (وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ،) (الشعرا: ۲۱۴) اور اپنے قریب ترین رشتے داروں کو تنبیہ کیجیے۔

 اس حکم الٰہی کے بعد  آپ نے  اعلانیہ طور پر اپنی رسالت کی طرف لوگوں کو بلانا شروع کیا اور سب سے پہلے حکم الٰہی کا امتثال کرتے ہوئے اپنے خاندان کے معززین کی دعوت کا اہتمام کیا۔ سب سے پہلے اپنے خاندان کے معززین کو دعوت دینے کی وجہ یہ تھی، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ امید تھی کہ خاندانی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی ناروا رویہ اختیار نہیں کریں گے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت در حقیقت زمانہ جاہلیت میں  بنے ہوئے تمام باطل اور ظالمانہ قوانین کے خلاف ایک اعلان جنگ تھا اس وجہ سے اس کی مزاحمت بھی ہوئی اور اسے مسترد بھی کر دیا گیا اور جس شخص نے سب سے پہلے اس کی مخالفت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو مسترد کردیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ابولہب تھا۔

کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت مکمل ہوئی؟

روایات دعوتِ ذی العشیرہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: جب رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم ہوا کہ دعوت اور تبلیغ کے سلسلے کو اب اعلانہ طور  پر کریں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے علی ابن ابی طالب ؑ کو حکم دیا کہ خاندان قریش کے معززین اور سرکردگان کے لیے دعوتِ طعام کا اہتمام کریں، اور حضرت علی ؑ نے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے حکم پر دعوت طعام کا اہتمام کیا اور قریش کے چالیس اشخاص نے اس دعوت میں شرکت کی، اس دعوت کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جو پیغام آپ لیکر آئے تھے وہ لوگ اس کو جانیں جبکہ قریش آپ کو صادق اور امین  کے لقب سے پکارا کرتے تھےلیکن جاہلیت کے تعصب آڑے آئے اور جیسے ہی آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطاب کرنے کا ارادہ کیا تو ابولہب کھڑا ہو گیا اور لوگوں کو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی دعوت سے دور رہنے اور بچنے کا حکم دیا چنانچہ وہ  لوگ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پیغام کو سنے بغیر  چلے گئے اور یوں یہ مجلس کسی مقصد کے حصول کے بغیر ہی برخاست ہوگئی۔

دوسرے روز پھر پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حضرت  علی ابن ابی طالب ؑ کو حکم دیا کہ چالیس افراد کے لیے دعوت کا اہتمام کریں اور حضرت  علی ابن ابی طالب ؑ نے پھر سے اپنے خاندان کے معززین کو دعوت دی، اور جیسے ہی وہ لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے فرزندان عبدالمطلب ! میرا خیال نہيں ہے کہ عرب میں کوئی جوان  اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر چیز لایا ہو جو میں تمہارے لئے لے کر ٓایا ہوں۔ میں تمہارے لئے دنیا اور آخرت  کا بہترین تحفہ لے کر آیا ہوں۔ اللہ تعالی ٰ  نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں دنیا اور آخرت کی بہترین چیز کی طرف دعوت دوں، پس تم میں سے کون ہے  جو مجھ پر ایمان لائے اور اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ اور جانشین ہو؟۔ سب لوگ  خاموش رہے اور حضرت علی(ع) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اے رسول خدا! میں آپ کا وزیر بنوں گا ۔ رسول اللہؐ نے فرمایا:  اے  علی بیٹھ جائیں، رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے چند مرتبہ اس دعوت کو دہرایا لیکن سوائے حضرت علی علیہ السلام  کے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، اور حضرت علی ابن ابی طالبؑ نے ہر بار کھڑے ہوکر اپنی مدد اور نصرت کا یقین دلایا ، تو آخر میں آپ ؑ کے  بے حداصرار پر  رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاضرین سے مخاطب ہوئے اور کہا: یہ (علی) میرے بھائی او ر تمہارے درمیان  میرے وصی اور جانشین ہیں ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ یہ باتیں سن کر وہ لوگ مذاق کرتے اور جنابِ ابو طالب (ع) سے یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے، کہ اس نے تمہیں اپنے بیٹے کی بات سننے کا حکم دیا ہے لیجیئے اپنے بیٹے کی بات سنئے۔ اور ان کی اطاعت کیجیئے ۔

مکہ

مکہ

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018