| حضرت محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ایک قائد تھے | مدینہ منورہ کی ریاست ِ اسلامی کی خصوصیات اور امتیازات
مدینہ منورہ کی ریاست ِ اسلامی کی خصوصیات اور امتیازات
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےالٰہی قائد کے طور پر لوگوں کو دین حق کی طرف دعوت، اور ان کی ہدایت وتربیت کا آغاز یوں تو مکہ مکرمہ میں ہی شروع کر دیاتھا، لیکن دعوت اسلام اور تبلیغ حق کا یہ سلسلہ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد مزید پھیلتا گیا، اور مدینہ میں تشریف آوری اور سکونت اختیار فرمانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے الٰہی سیاست کی باقاعدہ باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کی روحانی تربیت بھی شروع کی۔ خاص کر جب مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت قائم ہوئی (جو کہ پہلے والا مدینہ سے یکسر مختلف تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روحانی تربیت کے علاوہ امت اسلامیہ کی سیاسی، اجتماعی، معاشی اور عسکری تربیت بھی شروع کی۔
تحریک نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صلح حدیبیہ نے بہت بڑا فائدہ پہنچایا، یہ تحریک ،صلح حدیبیہ کے بعد پہلے کی نسبت زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کرنے لگی، اور اس کے نتیجہ میں جنوب کی طرف سے کفار قریش کی طرف سے لاحق خطرات کم ہوگئے، اور پیغمبر اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کے دارالحکومتوں کی طرف اپنے سفیروں کو بھیجنا شروع کیا، تاکہ دعوت نبوی جو پیغامِ الٰہی، اخلاقی اور انسانی اقدار پر مشتمل تھی، مدینہ سے نکل کر حق کے تمام طلبگار انسانوں تک پہنچ سکے، یہ اقدام در حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس نئی حکومت الٰہیہ کی خودمختاری کی نشانی تھا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعوت الٰہیہ جزیرہ عرب کے قبائل کے سرداروں کے علاوہ، تمام ملکوں اور آزاد ریاستوں کے قائدین، بادشاہوں، وزراء، اور کرتا دھرتا سب کے لئے تھی، اوریہ دعوت دین اسلام کا حصہ تھی تاہم دعوت اسلامی ایسے اصولوں پر مشتمل تھی جوآج کل کے بین الاقوامی معاہدوں اور فیصلوں سے کسی طور کمتر نہ تھے۔بلکہ اس میں سب سے زیادہ خوبصورت اور حیران کن بات یہ تھی کہ یہ دعوت، دین اسلام کی تہذیب وتمدن کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ منطقی وعقلی استدلالات اور دعوت حسنیٰ پر مشتمل تھی کہ جس میں دور تک جبرواکراہ کا کوئی عنصر شامل نہیں تھا، یہ وہ چیز تھی جو بعد میں اسلام کی ترویج اور نشرواشاعت کا سبب بنی۔
اسلام نے لوگوں پر اخلاقی اور اعلی انسانی اقدار پر عمل کرنے اور ان کی پاسداری کو ضروری قرار دیا، جبکہ معاشرہ کے پسے ہوئے مظلوم طبقہ کے احترام اور ان کی مالی معاونت کو بہت اہمیت دی۔ اسلام انسانوں میں باہمی محبت، اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے، اور کسی بھی طبقاتی نظام کو قبول نہیں کرتا، اسلام ہر انسان کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آنے اور اختلافی مسائل اور تنازعات کو اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے باہمی گفت وشیند کے ساتھ حل کرنے پر زور دیتا ہے۔ اسلام انفرادی، اجتماعی اور بین الاقوامی مسائل میں دعوت حسنیٰ اور موعظہ کے ذریعہ مخالف اور مد مقابل کو قائل کرنے کا درس دیتا ہے اور کسی بھی غیر اخلاقی رویہ اپنانے کی ممانعت کرتا ہے۔