28 ربيع الثاني 1446 هـ   1 نومبر 2024 عيسوى 3:02 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | موالاة اولياء الله |  محبت اور نفرت صرف خدا کےلئے:
2022-11-16   1202

محبت اور نفرت صرف خدا کےلئے:

بہت سے لوگ اس وقت حیرت کا اظہار کرتے ہیں جب انہیں بتایا جاتا ہے کہ اللہ کے دشمنوں سے بغض رکھنا شرعی طور پر واجب ہے اوریہ ایک مقدس عبادت ہے۔ایمان صرف اسی صورت میں درست ہوتا ہےکہ جب انسان اللہ کے دوستوں سے محبت کرے اور اس کے دشمنوں سے نفرت کرے۔جس طرح اللہ اور اس کے اولیاء سے محبت ضروری ہے اسی طرح اللہ اور اس کے اولیاء کے دشمنوں سے دشمنی بھی ضروری ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مومن کی زندگی میں محبت اور بغض ساتھ ساتھ رہتے ہیں وہ اللہ اور اولیاء اللہ سے محبت کرتا ہے اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرتا ہے۔جب کوئی کہتا ہے کہ اللہ اور اس کے اولیاء سے محبت کرو مگر ان کےد شمنوں سے محبت ضروری نہیں ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایمان میں کہیں نا کہیں خرابی موجود ہے۔اسی کی طرف قرآن مجید کی یہ آیت اشارہ کر رہی ہے:

((.... وَلَٰكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ))(سورة الحجرات ـ 7)

لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنا دیا اور اسے تمہارے دلوں میں مزین فرمایا اور کفر اور فسق اور نافرمانی کو تمہارے نزدیک ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ راہ راست پر ہیں۔

مومن کے عقیدے کی سلامتی کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ وہ سامنے کیا کہتا ہے اور پیچھے کیا کہتا ہے؟ اورا س کی محبت اور بغض کے معیارات کیا ہیں؟ کوئی بھی مومن انسان کسی مشرک،کافر اور دشمنِ خدا سے کسی عنوان کے ساتھ بھی محبت نہیں کرے گا چاہے کوئی بھی خوش کن نام دے کر محبت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، اگرچہ خدا سے یہ دوری  اسے اچھی معاشرت یا اچھے معاملے، انسانی مکالمہ اور اس سے ملتی جلتی تراکیب کا نام ہی کیوں نہ دیا گیا ہویہ شیطانی وسوسے ہیں جو مومن کے دل میں دوسروں کے حوالے سے ڈالے جاتے ہیں۔مسلمانوں کی تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہے جس میں مسلمانوں نے اللہ کے دشمنوں کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ))(سورة التوبة ـ 23)

۲۳۔ اے ایمان والو! تمہارے آبا اور تمہارے بھائی اگر ایمان کے مقابلے میں کفر کو پسند کریں تو انہیں اپنا ولی نہ بناؤ اور یاد رکھو کہ تم میں سے جو لوگ انہیں ولی بنائیں گے پس ایسے ہی لوگ تو ظالم ہیں۔

نبی اکرمﷺ ارشاد فرماتے ہیں:اللہ کی محبت فرض ہے اسی طرح اللہ کے لیے بغض بھی فرض ہے۔

یہ مفہوم تو واضح ہے کہ انسان اللہ کے لیے محبت کرتا ہے اور اللہ والوں کو پسند کرتا ہے اور ان سے بغض رکھتا ہے جو اس کے لائق ہوتے ہیں۔تبراء کو سمجھنا ضروری ہے جب ہم یہ جان چکے ہیں کہ تولی اور تبراء بہترین اعمال میں سے ہیں۔

امام باقرؑ کا یہ فرمان تولی اور تبراء کی حقیقت کو واضح کر رہا ہےجب تم جاننا چاہوں کہ تمہارے اندر بھلائی ہے تو اپنی دل میں دیکھو،اگر اس میں اللہ کی اطاعت کرنے والوں کی محبت ہے اور اللہ کے نافرمانوں کے لیے نفرت ہے تو اس میں بھلائی ہے،اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔اگر تم اللہ کی اطاعت کرنےو الوں سے نفرت کرتے ہو اور اللہ کے نافرمانوں سے محبت رکتے ہیں تو تم بھلائی پر نہیں ہواور اللہ تم سے نفرت کرتا ہے اور انسان اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔

حضرت موسیؑ سے مروی ہے جس میں وہ اپنے رب سے یوں سوال کرتے ہیں:

اے میرے رب مجھے وہ عمل بتاو جو صرف  تمہارے لیے ہو؟

اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:کیا تم نے  صرف میرے دوستوں کو دوست بنایا ہے اور میرے دشمنوں کو دشمن بنایا ہے؟

اس فرمان کی روشنی میں ذرا غور و فکر کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ وہ اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لئے دشمنی کرنا ہے۔مومن کی محبت کا معیار اللہ کی محبت ہوتی ہے وہ اللہ کے تعلق سے محبت کرتا ہے۔ جبکہ غیر مومن کی محبت کا یہ معیار نہیں ہوتا  وہ اپنے شخصی میلانات کے مطابق دوستیاں اور دشمناں بناتا ہے کسی کے قریب ہوتا ہے اور کسی سے دور ہو جاتا ہے۔اس میں اپنے فائدے،قوت،طاقت،کاروبار وغیرہ کو دیکھتا ہے اور اس کےمقابل مومن کا ایک ہی معیار ہے اور وہ اللہ کی محبت ہے۔مومن اللہ کے لیے خضوع اختیار کرتا ہے،اللہ کی مرضی کے مطابق اپنےا ٓپ کو ڈھالتا ہے،وہ ہر طرح سے اپنے رب کی مانتا ہے۔مومن کی حرکات و سکنات اللہ کی رضا کے لیے ہوتی ہیں۔مومن حقیقی ہمیشہ مومنین اور اہل تقوی سے محبت کرتا ہے اگرچہ وہ اہل تقوی میں سے نہ بھی ہو۔اسی طرح مومن ہمیشہ گمراہ اور نا فرمان لوگوں سے نفرت کرتا ہے کافروں اور ظالموں کا انکار کرتا ہے۔اگرچہ وہ اس کو فائدہ پہنچانےو الے اور قریبی ہی کیوں نہ ہو وہ اللہ کے لیے ان سے بغض رکھتا ہے اور  اللہ کے دشمنوں سے تبراء کرتا ہے۔

نبی اکرمﷺ سے مروی ہے سب سے مضبوط ایمان اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لیے بغض ہے،اللہ کے دوستوں کو دوست رکھنا،اور اللہ کے دشمنوں سے دشمنی رکھنا ہے۔اسی طرح آپﷺ سے مروی ہے اے اللہ کے بندے،اللہ کے لیے محبت کرو اور اللہ کے لیے بغض کرو، اللہ کے لیے محبت کرو ،اللہ کی ولایت  میں رہو،اللہ کی ولایت صرف اسی ذریعے سے ملے گی ،کوئی شخص ایمان کے ذائقے کو نہیں پاسکتا اگرچہ اس کی نمازیں اور روزے بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔

 

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018