19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 6:27 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | زکات |  زکات
2023-01-10   954

زکات

شریعت اسلام میں مالی انفاق کو زکوٰۃ کہا جاتا ہے لغت میں زکات کا مطلب’’پاکیزگی اور نشوونما‘‘ ہے۔ جس طرح تزکیہ نفس سے انسانی روح کی پاکیزگی اور نشوونما ہوتی ہے اسی طرح زکوٰۃ کی  ادائیگی سے مال پاک ہوتا ہے  اور مال میں اضافہ ہوتا  ہے۔زکات اسلام کے اہم ترین بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اور یہ ضروریات دین میں سے ہے۔ قرآن مجید کے بہت سارے مقامات پر اس کا ذکر نماز کے ساتھ ہوا ہے۔

((وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآَتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ)) (البقرة ـ 43).

اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور (اللہ کے سامنے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو ۔

 ((وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآَتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ)) (البقرة ـ 83).

 اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا (اور کہا) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (اپنے) والدین، قریب ترین رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں پر احسان کرو اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو پھر چند افراد کے سوا تم سب برگشتہ ہو گئے اور تم لوگ روگردانی کرنے والے ہو

 ((إِنَّ الَّذِينَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآَتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ)) (البقرة ـ 277) البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل بجا لائیں نیز نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

((وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ أُولَئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا)) (النساء ـ 162). اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور زکوٰۃ دینے والے ہیں اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان لانے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو عنقریب ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔

 ((فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآَتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ)) (التوبة ـ 5).پس جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو تم جہاں پاؤ قتل کرو اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات پر ان کی تاک میں بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو، بیشک اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

 ((وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا)) (مريم ـ 31).اور میں جہاں بھی رہوں مجھے بابرکت بنایا ہے اور زندگی بھر نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے ۔

((الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآَتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ)) (الحج ـ 41).یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

ان آیات کے علاوہ تقریبا 26 دیگر آیات میں زکات کا دیگر واجبات الہی کی طرح انسانی زندگی پرہونے والے اثرات کا تذکرہ موجود ہے۔

احادیث میں زکات کے بعض آثار کا تذکرہ آیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

انسانی روح کی تطہیر اور تزکیہ کا سبب بنتی ہے

قَالَ اَبُوعَبْدِاللّه علیه السلام: لَمَّا نَزَلَتْ آیة الزَّکاة «خُذْ مِنْ اَمْوَالِهمْ صَدَقَة تُطَهرُہمْ وَ تُزَکّیهمْ بِها» حدیث فی شَهرِ رَمِضانِ، فَاَمَرَ رَسُولُ اللّه صلی اللہ علیه و آله مُنادِیه فَنَادی فی النّاسِ: اِنَّ اللّه تَبَارَکَ وَتَعَالی فَرَضَ عَلَیکُمُ الزَّکَاة کَما فَرَضَ عَلَیکُمُ الصَّلاة

امام صادق علیہ‌السلام نے فرمایا: جب رمضان المبارک میں زکات سے متعلق آیت نازل ہوئی: ان کے مال سے صدقہ لے لیں تاکہ اس کے ذریعے ان کی تزکیہ اور اور انہیں پاک و پاکیزہ کیا جا سکے، تو پیغمیر اکرم نے اعلان کروایا کہ خداوندعالم نے تمہارے اوپر زکات واجب کیا ہے جس طرح تمہارے اوپر نماز واجب کی گئی تھی۔

اسلام کے پانج ستون میں سے ایک ہے:

عَنْ اَبی جَعْفَرٍ علیه السلام قالَ: بُنِی الاْءسْلامُ عَلی خَمْسَة: عَلَی الصَّلاة، وَالزَّکَاة، وَالصَّوْمِ، وَالْحَجِ وَالوِلایة

امام باقر علیہ‌السلام نے فرمایا: اسلام پانج ستونوں پر قائم ہے: نماز، زکات، روزہ، حج اور ولایت ( اہل بیت علیہم السلام)

خداوندعالم کے غضب کو ختم کرنے کا سبب بنتی ہے:

قَالَ اَمیرُالمُؤمِنِینَ علیه السلام: اُوصیکُمْ بِالزَّکَاۃ فَاِنّی سَمِعْتُ نَبیکُمْ صلی اللہ علیه و آله یقُولُ: اَلزَّکاة قَنْطَرَة الاِءسْلامِ فَمَنْ اَدّاہا جازَ الْقَنْطَرَة، وَمَنْ اِحْتَبَسَ دُونَها وَهی تُطْفی غَضَبَ الرَّبِّ

امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے هیں: تمہیں زکات ادا کرنے کی سفارش کرتا ہوں، کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) سے میں نے سنا ہے آپ فرماتے تھے: زکات اسلام کا پل ہے، پس جس نے بھی زکات ادا کی وہ پل سے گذرے گا اور جس نے بھی زکات دادا نہیں کیا پل سے نیچے گر جائے گا اور زکات کی ادائیگی خداوندعالم کے غم و غصے کو ختم کرنے کا سبب بنتا ہے۔

نماز قبول ہونے کی شرط ہے:

عَنْ اَبِی الحَسَنِ الرِّضا علیه السلام قالَ: اِنَّ اللَّه اَمَرَ بِثَلاثَة مَقْرُونٌ بِها ثَلاثَة اُخْری: أمَرَ بِالصَّلاة وَالزَّکَاة فَمَنْ صَلَّی وَلَمْ یزَکِّ لَمْ تُقْبَلْ مِنْه صَلاتُه، وَاَمَرَ بِالشُّکْرِ لَه وَلِلْوَالِدَینِ فَمَنْ لَمْ یشْکُرْ وَالِدَیه لَمْ یشْکُرِ اللّه، وَأَمَرَ بِاتِّقاءِ اللّه وَصِلَة الرَّحِمِ فَمَنْ لَمْ یصِلْ رَحِمَه لَم یتَّقِ اللّه

امام رضا علیہ‌السلام فرماتے هیں: خدا نے تین کاموں کو تین کاموں کے ساتھ انجام دینے کا حکم دیا ہے :۱ ـ نماز اور زکات دونوں کا حکم دیا ہے۔ پس جو شخص بھی نماز تو پڑھے لیکن زکات نہ دیا تو اس کی نماز بھی قبول نہیں ہے۲ ـ خدا اور والدین دونوں کا شکریہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے پس اگر کوئی خدا کا شکر تو بجالائے لیکن والدین کا شکریہ ادا نہ کرے تو اس کا شکر خدا بھی قبول نہیں ہے۳ ـ تقوا کے ساتھ صلہ رحم کا بھی حکم دیا ہے پس جس نے بھی صلہ رحم انجام نہ دیا تو گویا اس نے تقوا کی رعایت بھی نہیں کی ہے۔

زکات کی ادائیگی خدا کا انسان کے ساتھ دوستی کی علامت ہے:

قَالَ رَسُولُ اللّه صلی اللہ علیه و آله: اِذَا اَرَادَ اللّه بِعَبْدٍ خَیرا بَعَثَ اللّه اِلَیه مَلَکا مِنْ خُزّانِ الْجَنَّة فَیمْسَحُ صَدْرَه وَ یسْخی نَفْسَه بِالزَّکَاة۔۔رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: اگر خدا کسی بندے کے حق میں نیکی کا ارادہ کرے، تو بہشت کے خزانوں پر مامور ایک فرشتے کو بھیجتا ہے جو اسکے سینے کو لمس کرتا ہے اور اسے زکات دینے کیلئے سخی بناتا ہے۔

خدا کے نزدیک محبوبیت کا سبب ہے

قالَ الصَّادِقُ علیه السلام: وَاَنَّ اَحَبَّ النَّاسِ اِلَی اللَّه تَعَالی اَسْخَاہمْ کَفَّا، وَاَسْخَی النّاسِ مَنْ اَدّی زَکَاة مالِه وَلَمْ یبْخَلْ عَلَی الْمُؤْمِنینَ بِمَا افْتَرَضَ اللّه لَهمْ فی مالِه

امام صادق علیہ‌السلام فرماتے ہیں: خدا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ شخص، سخاوت مند ترین انسان ہے، اور سخاوت مندترین انسان وہ ہے جس نے اپنے مال کا زکات ادا کیا اور اپنے مالی واجبات میں مومنین کی نسبت بخل سے کام نہ لے۔

زکات سخت ترین عبادت ہے:

عَنْ رُفَاعَة بْنِ مُوسی اَنَّه سَمِعَ اَباعَبْدِالله علیه السلام یقُولُ: مَا فَرَضَ اللّه عَلی هذِه الاُمَّة شَیئا اَشَدَّ عَلَیهمْ مِنْ الزَّکاة، وَفیها تُهلَکُ عَامَتُّهمْ۔۔رفاعہ کہتے ہیں کہ امام صادق علیہ‌السلام سے سنا کہ فرمارہے تھے: خـداونـدعالم نے اس امت پر زکواۃ سے زیادہ کوئی سخت چیز واجب نہیں کیا ہے، زکواۃ کی وجہ سے اس امت کے بہت سارے لوگ ہلاک ہونگے۔

معاشرے کی سعادت کا سبب بنتی ہے:

قالَ رَسُولُ اللّه صلی اللہ علیه و آله : لاتَزالُ اُمَتّی بِخَیرٍ ما لَمْ یخُونُوا وَاَدُّوا الْأَمانَة، وَآتَوُا الزَّکاة، وَاِذا لَمْ یفْعَلُوا ذلِکَ اُبْتُلُوا بِالْقَحْطِ وَالسِّنِینَ۔۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے هیں: میری امّت جب تک خیانت نہ کرے اور امانتوں کا پاس رکھے اور انہیں اپنے اہل تک پہنچا دے اور زکات ادا کرے سعادتت اور خوشبختی میں ہوگی لیکن جب بھی ایسا انجام نہ دے تو قحط سالی کا شکار ہونگی۔

مال و دولت کی حفاظت کا ضامن ہے:

قالَ رَسُولُ اللّه صلی الله علیه و آله : داوُوا مَرْضاکُمْ بِالصَّدَقَة، وَحَصِنُّوا اَمْوَالَکُمْ بِالزَّکاة۔۔رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: اپنے بیماروں کا صدقہ دینے کے ذریعے مداوا، اور اپنے اموال کا زکات دینے کے ذریعے حفاظت کریں۔

گناہوں کی بخشش کا سبب بنتی ہے:

قالَ رَسُولُ اللّه صلی الله علیه و آله : اَلزَّکاة تُذْہبُ الذُّنُوبَ:۔۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: زکات، گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔

رزق میں اضافہ کا سبب:

عَنْ اَبی عَبْدِاللّه علیه السلام اَنَّه قَالَ: ما اَدّی اَحَدٌ الزَّکاة فَنَقَصَتْ مِن مالِه، وَلامَنَعَها اَحَدٌ فَزادَتْ فی مالِه۔۔امام صادق علیہ‌السلام فرماتے ہیں: زکات دینے سے کسی کا مال کم نہیں ہوتا، جس طرح زکات ادا نہ کرنے سے مال میں اضافہ نہیں ہوتا۔

قَالَ اَبُوجَعْفَرٍ مُحَمَدُ بْنُ عَلی علیهماالسلام: یا جابِرُ وَالزَّکاة تَزیدُ فِی الرِّزْقِ۔۔امام باقر علیہ‌السلام فرماتے ہیں:‌اے جابر … زکات انسان کی روزی میں اضافہ کرتا ہے۔

تزکیہ نفس اور مال میں اضافہ کا باعث ہے:

قَالَتْ فَاطِمَة علیهاالسلام فی خُطْبَتِه: فَجَعَل الاْءیمَانَ تَطْهیرا لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ وَالصَّلاة تَنْزیها عَنِ الْکِبْرِ، وَالزَّکَاة تَزْکِیة لِلنَّفْسِ، وَنِماءً فِی الرِّزْقِ۔۔حضرت فاطمہ زہرا علیہاالسلام فرماتے ہیں:خداوندعالم نے ایمان کو شرک سے تمہاری پاکیزگی اور نماز کو تکبر سے دوری اختیار کرنے اور زکات کو تمہارے نفس کی پاکیزگی اور مال و دولت میں اضافہ کا باعث قرار دیا ہے۔

بیماروں کا علاج ہے:

امام جعفر صادق‏(ع): "زکات دینے کے ذریعے اپنے اموال کی حفاظت اور صدقہ دینے کے ذریعے اپنے بیماروں کی مداوا کریں۔ کوئی مال بھی صحرا اور بیابان میں غارت نہیں ہوا مگر یہ کہ اسکا زکات نہیں دیا گیا تھا۔

عَنْ اَبی عَبْدِاللّه علیه السلام قالَ: إنَّ اللّه لَـیدْفَعُ بِمَنْ یصَـلّی مِنْ شیعَتِـنا عَـمَّنْ لایصَـلّی مِـنْ شیعَتِنا وَلَوْ اَجْمَعُوا عَلی تَرْکِ الصَّلاة لَهلَکُوا، وَإنَّ الله لَیدْفَعُ بِمَنْ یزَکّی مِنْ شیعَتِنا عَمَّنْ لایزَکّی وَلَوْ أَجْمَعُوا عَلی تَـرْکِ الـزَّکاة لَهلَکُوا

امام صادق علیہ‌السلام فرماتے ہیں: خداوندعالم ہمارے شیعہ نمازگزاروں کی وجہ سے نماز نہ پڑھنے والے شیعوں سے بلا کو دور کرتا ہے، اور اگر سب نماز ترک کریں تو سارے ہلاک ہوجائیں گے۔ اسی طرح خداوندعالم زکات ادا کرنے کی وجہ سے زکات نہ دینے والے شیعوں سے بلا کو دور کرتا ہے اگر سب زکات ادا نہ کریں تو سارے ہلاک ہو جائیں گے۔

زکات دینے والے اور دوسرں سے بلاء کو دفع کرتی ہے:

قالَ الصّادِقُ علیه السلام: اِنَّما وُضِعَتِ الزَّکاة اِخْتِبارا لِلاَغْنیاءِ وَمَعُونَة لِلْفُقَراءِ، وَلَوْ اَنَّ النّاسَ أدُّوا زَکاة اَمْوالِهمْ ما بَقِی مُسلِمٌ فَقیرا مُحْتاجا وَلاَسْتَغْنی بِما فَرَضَ اللّه لَه، وَاِنَّ النّاسَ ما افْتَقَرُوا وَلا احْتاجُوا وَلا جاعُوا وَلاعَرَوْا اِلاّ بِذُنُوبِ الأَغْنِیاءِ وَحَقیقٌ عَلَی اللّه تَبارَکَ وَتَعالی اَنْ یمْنَعَ رَحْمَتَه مِمَّنْ مَنَعَ حَقَ اللّه فی مالِه

امام صادق علیہ‌السلام فرماتے ہیں: زکات کو دولتمندوں کیلئے امتحان اور غریبوں کیلئے امداد کے طور پر واجب کیا گیا ہے، اگر لوگ اپنے اموال کا زکات ادا کریں تو کوئی مسلمان غریب باقی نہ رہے گا اور جو چیز خدا نے واجب کیا اسی کے ذریعے ہر ایک غنی اور بے نیاز ہو جائے گا۔ لوگ غریب، محتاج اور نیازمند نہیں ہوتے مگر دولتمندوں کے گناہوں کی وجہ سے پس سزاوار ہے کہ خداوندعالم اپنی رحمت کو ان لوگوں سے باز رکھے جو لوگ اپنے اموال میں خدا کا حصہ ادا نہیں کرتے ہیں۔

دیگر احادیث:

جو شخص بھی اپنے مال کا زکات ادا کرے تو یقینا بخل سے محفوظ رہے گا۔

کسی نے امام صادق علیہ‌السلام سے کہا: میرا بھائی دنیا سے چلا گیا ہے درحالیکہ اس کے گردن پر بہت زیادہ زکات واجب تھا لیکن میں نے ان سب کو ادا کردیا، امام نے فرمایا: تمہارے اس عمل سے اس کی مشکل آسان اور حل ہوگی۔

امیرالمؤمنین علی علیہ‌السلام فرماتے ہیں: "کوئی غریب بھوکہ نہیں رہتا مگر یہ کہ کسی دولت مند نے خدا کا حق ادا نہیں کیا ہے اور قیامت کے دن دولتمند کو اسی کی وجہ سے پوچھ گچھ ہوگی۔.

امام صادق علیہ‌السلام فرماتے ہیں:  ما ضاع مال فی البرّ و لا فی البحر الا بتضییع الزّکاة۔۔"بحر و بر میں کسی جگہ پر کوئی مال ضایع نہیں ہوگا مگر اینکہ زکات نہ دے کر اسے ضایع کردے۔

مَن مَنعَ حقّا للّه أنفق فی باطل مثلیه ۔۔جو شخص خدا کا حق ادا نہ کرے (یعنی حق کی راہ میں مال خرچ نہ کرے) تو اسکے دو برابر باطل کی رہ میں خرچ ہوگا۔ وافی

امام صادق علیہ‌السلام فرماتے ہیں: وَ اعلَم أنّه من لم ینفق فی طاعة الله ابتلی بأن ینفق فی معصیۃ اللہ و مَن لم یمش فی حاجة ولی الله ابتلی بأن یمشی فی حاجة عدوّ الله 

جان لو جو شخص اپنا مال خدا کی بندگی میں خرچ نہیں کرتا وہ خدا کی معصیت میں خرچ کرنے میں گرفتار ہوگا۔ اور جو بھی خدا اولیاء کی مشکلات کو حل کرنے کا اقدام نہ کرے خدا اسے خدا کے دشمنوں کی مشکلات کے حل میں قدم اٹھانے میں گرفتار کرے گا۔

امام صادق علیہ‌السلام فرماتے ہیںحَقِیقٌ عَلَی اللَّه تَبَارَک وَ تَعَالَی أَنْ‌ یمْنَعَ‌ رَحْمَتَه مَنْ‌ مَنَعَ‌ حَقَ‌ اللَّه فِی‌ مَالِه ۔۔"جو شخص اپنے مال سے خدا کا حق ادا نہ کرے سزاوار ہے کہ خدا اپنی رحمت سے اسے محروم کرے۔

قالَ الصّادِقُ علیه السلام: اَلسُّراقُ ثَلاثَة: مانِعُ الزَّکاة، وَمُسْتَحِلُّ مُهورِ النِّساءِ، وَ کَذلِکَ مَنْ اِسْتَدانَ وَ لَمْ ینْوِقَضائَه

امام صادق علیہ‌السلام فرماتے ہیں: چور تین قسم کے ہیں: زکات نہ دینے والے، وہ لوگ جو عورتوں کے مہریہ کو حلال سمجھتے ہیں اور انہیں نہیں دیتے اور وہ شخص جو قرض لیتا ہے لیکن ادا واپس کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔

قالَ اَبُوعَبْدِاللّه علیه السلام : وَاِذا مُنِعَتِ الزَّکاة ظَهرَتِ الْحاجَة۔۔امام صادق علیہ‌السلام فرماتے ہیں: … جب زکات نہیں دی جاتی تو غربت اور نیازمندی نمودار ہوتی ہے۔

قالَ رَسُولُ اللّه صلی الله علیه و آله: ثَمانیة لاتُقْبَلُ مِنْهمْ صَلاة، مِنْهمْ مانِعُ الزَّکاة

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: آٹھ گروہ کے نماز قبول نہیں ہوتی، ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جو زکات دینے سے انکار کرتے ہیں۔

عَنْ اَبی جَعْفَرٍ علیه السلام اَنَّه قالَ: ما مِنْ عَبْدٍ مَنَعَ مِنْ زَکاة مالِه شَیئا اِلاّ جَعَلَ اللّه ذلِکَ یوْمَ الْقیامَة ثُعْبانا مِنْ نارٍ مُطَوَّقا فی عُنُقِه ینْهشُ مِنْ لَحْمِه حَتّی یفْرَغَ مِنَ الْحِسابِ وَهوَ قَوْلُ اللّه عَزَّوَجَلَّ "سَیطَوَّقُونَ ما بَخِلُوا بِه یوْمَ الْقِیامَة یعْنی ما بَخِلُوا بِه مِنَ الزَّکاة

امام باقر علیہ‌السلام فرماتے ہیں: جو شخص واجب زکات دینے سے انکار کرتا ہے خداوندعالم قیامت کے دن اس مال کو آگ کے اژدہے کی صورت میں تبدیل کرتا ہے جو اس شخص کی گردن میں لٹکایا جائے گا جو اس کے گوشت کو کو کھا لے گا، یہاں تک کہ حساب و کتاب سے فارغ ہوگا، اور یہ خداوندعالم کا یہ قول ہے جو قرآن میں ارشاد فرمایا: جس چیز میں یہ لوگ بخل کرتے ہیں اسے قیامت کے دن ان کی گردن میں لٹکایا جائے گا یعنی زکات میں سے جس چیز میں بخل کرتے ہیں۔

عَنْ اَبی عَبْدِاللّه علیه السلام: مَنَ مَنَعَ قیراطا مِنَ الزَّکاة فَلْیمُتْ اِنْ شاءَ یهودیا اَوْ نَصْرانّیاً 

امام صادق علیہ‌السلام فرماتے ہیں: جو شخص واحب زکات میں سے ایک قیراط کے برابر بھی ادا نہ کیا ہو، وہ یا یہودی یا نصرانی کی موت مرتا ہے۔

قالَ اَبُوعَبْدِاللّه علیه السلام: مَـنْ مَنَعَ قیـراطا مِـنَ الزَّکـاۃ فَلَیسَ بِمُـؤمِنٍ وَلا مُسْـلِمٍ وَہـوَ قَـوْلُ اللّه عَزَّوَجَلَّ: رَبِّ ارْجِعُـونِ لَعَـلِّی اَعْمَلُ صالِحا فِیما تَرْکْـتُ

امام صادق علیہ‌السلام فراتے ہیں: جو شخص واجب زکات میں سے ایک قیراط کے برابر بھی ادا نہ کیا ہو وہ مومن اور مسلمان نہیں ہے اور اس آیت کا مصداق ہے جس کے بارے میں خدا یوں ارشاد فرماتا ہے: (یہ لوگ) موت کے بعد کہے گا خدایا مجھے دوبارہ دنیا میں لوٹا دے تاکہ ان نیک کاموں کو جسے میں نے انجام نہیں دیا تھا انجام دے سکوں۔

قَالَ رَسُولُ اللّه صلی الله علیه و آله: اِذا مُنِعَتِ الزَّکاة مَنَعَتِ الْاَرْضُ بَرَکاتِها

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: جب زکات سے انکار کیا جاتا ہے تو زمین اپنی برکتوں کو روکت دیتی ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018