| طبیعت اور ماحولیاتی حقوق | وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ...اسلام اور حیاتیاتی تنوع کی ضرورت
وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ...اسلام اور حیاتیاتی تنوع کی ضرورت
(وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ) (سورۃ الحجر آیت 21 ) اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں پھر ہم اسے مناسب مقدار کے ساتھ نازل کرتے ہیں۔
(إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ) (سورۃ القمر آیت 49) ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے کے مطابق پیدا کیا ہے۔
قرآن کریم نے ان آیات میں اللہ تعالی کی عظیم مخلوقات اور ان کی خلقت میں اللہ تعالی کی انفرادیت کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی کی شاہکار تخلیقات میں خصوصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ آپ نے انہیں متنوع اور مختلف اقسام میں اتنی کثرت کے ساتھ خلق فرمایا کہ جس کا احصاء ممکن نہیں۔ لیکن اتنی کثرت کے باوجود بھی ہر مخلوق دوسری سے مختلف اور انفرادی خصوصیات کی حامل ہے۔ چنانچہ ہزاروں اقسام کے نباتات اور حیوانات وغیرہ سے اس کائنات میں اتنی زندگی پھیلا دی جسے ایک عام آنکھ مکمل طور پر دیکھ بھی نہیں سکتی ہے۔اس سے بھی شگفتہ انگیز بات ہر مخلوق کی بے شمار قسمیں مختلف جنس اور متفرق انواع کے باوجود، ان تمام زندہ اشیاء کا طرز زندگی اور ان میں سے بعض کا بعض پر انحصار کرنا ہے۔ یہ تمام مخلوقات ایک دوسرے سے الگ اور منفرد ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مربوط اور محتاج بھی ہیں۔ یہی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ ان تمام مخلوقات کا خالق اور موجد ایک ہی ذات ہے۔ جس نے ان سب کو خلق فرمایا پھر ان کے درمیان ربط قرار دیا اور ایک منظم انداز میں ہر ایک کی ذاتی انفرادیت کے باوجود اپنی صنف کی دیگر اشیاء کے جیسا بنایا۔ان کی کیفیت میں موجود اختلاف کے باوجود انہیں ایک خاص نظم و نسق کی لڑی میں پرو دیا۔ یہ سارا کام آسمان و زمین خلق کرنے والے ایک قادر مطلق خدا کے سوا کسی کے لیے ممکن ہی نہیں۔
زندگی رکھنے والی ان تمام اشیاء اور انسان کے درمیان چونکہ زندگی اور جینیاتی لحاظ سے ایک ربط ہے کہ ان تمام اشیاء کے درمیان انسان کی حیثیت ایک فاعل اکبر کی ہے۔ ان کے درمیان حکمرانی کرنے کی صلاحیت اور احکام نافذ کرنے کے حوالے سے انسان یدِ طولی رکھتا ہے۔ کیونکہ انسان ہی اس کائنات کی فطرت پر غالب ہے اور یہ پوری کائنات اس کے لیے ہی مسخر کی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: (هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ استوى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ) (سورۃ البقرہ آیت 29) وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پیدا کیا، پھر آسمان کا رخ کیا تو انہیں سات آسمانوں کی شکل میں بنا دیا اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔
قرآن کریم کی یہ آیات ہمیں دعوت فکر دیتی ہیں کہ ہم اس کائنات کی شگفتگی کے بارے میں غور کریں۔ نظام عالم کے تحفظ اور اس کی رکھوالی کی کوشش کریں۔ کیونکہ اس کائنات کے نظم و نسق کے باقی رہنے میں ہمارے لئے بے شمار فوائد اور عبرتیں موجود ہیں۔ اس عظیم کائنات کی شاہکار تخلیق ہمیں اس کی ضرورت و اہمیت کی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ہم پر عائد کرتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم بھی ہمیں اس بات کا حکم دیتا ہے:
(وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَت اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ) (سورۃ الاعراف آیت 56)
اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو، اللہ کی رحمت یقینًا نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔
کائنات میں اس حیاتیاتی تنوع کا آغاز اسی ماحول سے ہوتا ہے جس میں زندگی نشوونما پاتی ہے۔ جبکہ ماحول میں بھی پانی ہر زندہ چیز کا اصلی مادہ حیات ہے۔ چنانچہ فرمان الٰہی ہے:
(وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلا يُؤْمِنُونَ)(سورۃ الانبیاء آیت 30 )
اور ہم نے تمام جاندار چیزوں کو ہم نے پانی سے بنایا ہے؟ تو کیا (پھر بھی) وہ ایمان نہیں لائیں گے ؟
عناصر حیاتی کی باقی اشیاء کے ساتھ پانی کی نسبت ایک خاص مقدار اور حکمت کے ساتھ ہے۔چنانچہ ارشاد ہوا:
(وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ) (سورۃ المؤمنون آیت 18)
اور ہم نے آسمان سے ایک خاص مقدار میں پانی برسایا پھر اسے زمین میں ہم نے ٹھہرایا اور ہم یقینًا اسے ناپید کرنے پر بھی قادر ہیں۔
پانی ہی وہ مادہ اصلی ہے جس سے زندگی اور پوری کائنات کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کے بعد زمین اور اس میں موجود فطرت کی تمام اقسام اور زندگی کے انواع وجود میں آئے ہیں۔ اللہ تعالی نے زمین اور اس میں موجود فطرت کی تمام شاہکار اشیاء کو تمام لوگوں کے لئے خلق فرمایا ہے۔
چنانچہ ارشاد رب العزت ہے: (وَالْأَرْضَ وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ) (سورۃ الرحمٰن آیت 10) اور اسی نے مخلوقات کے لیے اس زمین کو بنایا ہے ۔
لہذا یہ بات ضروری ہوگئی ہے کہ کوئی انسان اس کائنات میں اپنی حد سے تجاوز نہ کرے اور زمین پر کوئی زیادتی نہ کرے۔ کیونکہ اس پر دوسروں کا بھی حق ہے۔ اللہ تعالی نے اس زمین پر زندگی کی متنوع اقسام کے ساتھ ظالمانہ تجاوز کرنے سے منع فرمایا ہے اور اس کائنات کا نظام اور اس کی شکل بگاڑنے کو فساد قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا :
(وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ)(سورۃ القصص آیت 77)
اور جو (مال) اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر، البتہ دنیا سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر اور احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد پھیلنے کی خواہش نہ کر یقینا اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔ (يا بني ءَادَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وأشربوا وَلَا تُسْرِفُوٓا إنه لَا يُحِبُّ ٱلْمُسْرِفِينَ) (سورۃ الاعراف آیت 31)
اے بنی آدم!ہر عبادت کے وقت اپنی زینت(لباس)کے ساتھ رہو اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو،اللہ اسراف کرنے والوں کو یقینا دوست نہیں رکھتا۔
آیت کے اس مفہوم سے نزدیک تر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ وصیت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: " مَا مِن مُسلم يَغرِسُ غَرْسًا أو يَزرَعُ زَرْعًا فيأكُلُ مِنه طَيرٌ أو إنسَانٌ أو بهيْمَةٌ إلا كان لهُ بهِ صَدقَةٌ"
مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے، اس میں سے پرندہ ، انسان یا جانور جو کچھ کھاتا ہے، یہ اس کے لئے صدقہ ہوتا ہے