19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 11:50 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | تحقیقات |  عقل کی قدرت۔۔۔۔۔افراط و تفریط کے درمیان
2021-07-11   813

عقل کی قدرت۔۔۔۔۔افراط و تفریط کے درمیان

ہمارے بہت سارے تہذیب یافتہ افراد اس بارے میں اظہارِ ناراحتی کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی طرف سے آئین زندگی کی حیثیت سے جو شرعی قوانین وضع ہوئے ہیں وہ انہیں عقلی طور پر سمجھ نہیں پاتے ہیں وہی منھج (یعنی شریعت )جسے اللہ نےاسی وقت سے وضع کر دیا کہ جب بشریت کو تخلیق فرمایا تھا کہ اگر بشریت اس منھج پر استوار رہے گی تو نجات پائے گی اور عقل و روح کا تکامل بھی حاصل ہوگا اور ہمیشہ جنت میں رہیں گے جیسے ہی کامیابی نصیب ہوگی اور اگر مخالفت کریں گے تو ہلاکت میں پڑ جائیں گےاور عقل وروح کی بستی سے دور ہوجائے گی اور ہمیشہ جہنم مقدر بنے گی اوراگر دونوں راستوں خیر و شر پر مخلوق چلتی رہی تو دونوں نتیجوں یعنی ثواب و عقاب میں مبتلا رہیں گے اور یہ اس وقت ہونا ہے کہ جب بعض آسان قوانین پر اعتراض کرتے ہیں۔اور وہ برملا کہتے ہیں کہ وہ ان قوانین کو عقل کے مطابق نہیں جانتے ہیں اور ان قوانین پر اس لئے ایمان بھی نہیں رکھتے ہیں کیونکہ انکی عقلیں انکو درک نہیں کر پاتیں بلکہ وہ تو اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے کسی دور مطابق عقل جانا تھا وہ افراد ہمیشہ غیر موجود حقائق کے بارے میں بحث کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ کسی ثابت پر نہیں پہنچتے کہ جس سے سفر تفکیر شروع کرسکیں اس کے باوجود کہ علم اپنے ہر میدان میں ثابت رہتا ہے۔پس ان کے ہاں ہر چیز عقل پر پرکھنےاور جانچنے کے قابل ہوتی ہےخواہ وہ ثوابت میں سے ہو یا ان اشیاء میں سے ہو جوحسین کی بابت عقل کو حق بحث حاصل ہے مثلا اللہ تعالیٰ نے کفارِ غیر آسمانی ادیان کے پیروکار کو نجس العین کیوں قرار دیا؟ اور یہی کہ انکے کھانے سے اجتناب کا حکم کیوں دیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو کیوں حرام کیا ہے؟ جس برتن میں کتا چاٹ جائے اسکو پاک کرنے کا منحصر طریقہ مٹی سے مانجنا اور دھونا ہے۔اور صرف پانی کافی نہیں ہے حتیٰ اس زمانے میں بھی نہیں کہ جس میں یہ دستیاب ہیں، مرد و زن نکاح کے وقت جو کلمات ادا کرتے ہیں صرف وہی نکاح کی حلیت کا سبب کیوں ہے؟  اور انکے بغیر زنا شمار ہوگا، زانی کو کیوں کر رجم کیا جائے گا اور یہ کہ چور کی کیوں انگلیاں کاٹی جائیں گی حالانکہ اس حکم کی شرائط نوع اسلامِ حقیقی کی تاریخ حکومت میں صرف چند لوگوں کے لئے حاصل ہوئی تھیں وہ نبی اکرم ﷺاور امام علیؑ اور امام حسنؑ کے عصر حکومت میں ہوا نہ کہ سیاسی اسلام کے دور میں اور کیوں؟ اور کیوں اس جیسے بہت سے سوالات کہ جسکا سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

پس وہ افراد اعتقاد رکھتے ہیں کہ عقل ہر واقع کی تفصیل، ہر چیز کا حل دینے اور بنا کسی سابق اعتقاد اور اصولوں کے ہر شیء پر حکم لگانے پر قادر ہے لہٰذہ انکی نگاہ میں ہرچیز اس قابل ہے کہ اسے پرکھا جائے اور کوئی ثابت ایسا نہیں ہے کہ جس پر چیزوں کو پرکھا جائے ۔  انکے مقابلے میں عقل پر ظلم کرنے والا ایک طبقہ ہے کہ جنکا کہنا ہے کہ عقل چیزوں کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتی جب تک اللہ تعالیٰ اسکی خبر نا دے مثلا انکے ہاں سچائی حسن و جھوٹ قابل مذمت اور برا ہے نہ اس لئے کہ عقل سچ کو قبول کرتی اور مدح کرتی اور جھوٹ کو مسترد اور قابل مذمت سمجھتی ہے بلکہ صرف اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کہا ہے اور بس۔

یہ دونوں اگرغلطی پہ ہیں پہلے گروہ نے افراط کو اپنا موقف بنایا جنکہ دوسرے نے تفریط کو جہاں ایک اہم وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ عقل ایک ناقص مخلوق ہے۔ ہاں درست ہے کہ عقل ہی کی بنیاد پرانسان کو ثواب و عقاب ملے گا کیونکہ عقل کے راستے کا آخری مرحلہ چننے کا سبب ہے لیکن کونسا راہ حق؟ راہ حق وہ راستہ کہ جو اللہ تعالیٰ نے معین کیا ہے نا کہ عقل نے۔ جو خود کے لیے طے کر لیا ہے وگرنہ یہ تو دور ہے کہ جیسا فلاسفہ کہتے ہیں اور عقل کا ہر شے کی تفسیر سے عاجز ہونے اور ہر معاملے پر احاطہ کرلینے سے ناقص ہونا اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ عقل انکے علاوہ لاکھوں قضایا کو سمجھنے اور تفسیر کرنے پر قادر ہے۔ جیسا کہ اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ عقل ہزاروں راستوں میں سے صحیح راستے کے انتخاب پر قدرت رکھتی ہے ، قابل توجہ ہے کہ آسمانی ادیان سے جو ہمیں نصوص ملی ہیں وہ بشری عقل کا نتیجہ نہیں ہیں کہ ہم ان نصوص کو عقل پر پیش کریں اور دیکھیں کہ عقل کے مطابق ہیں یا نہیں اور پھر جو عقل کے مطابق ہیں انہیں قبول کریں اور باقیوں کو مسترد کردیں کیونکہ اگر عقل بشر کی سب مشکلوں کے حل کے لئے کافی ہوتی تو اللہ تبارک و تعالیٰ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو دارین میں سعادت تک پہنچنے کا راستہ بنانے کے لئے مبعوث نہ فرماتا۔

اور اگر عقل ہر معاملے میں درست تفسیر کرنے پر اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر قادر ہوتی تو ہزاروں اجتماعی، نفسانی اور معاشرتی معاملات میں تشخیص کی غلطی نا کرتی کہ جس سے چند سالوں یا کبھی چند صدیوں بعد تہہ دامنی کرنی پڑتی ہےبیشک اللہ تعالیٰ نے عقل کو ناقص پیدا کیا ہےاور اللہ تعالیٰ کا عیب نہیں ہےبلکہ اس نے اپنی حکمت میں ضروری نہیں جانا کہ عقل ہر چیز کو سمجھنے اور ادراک کرنے پر قادر ہواور اللہ تعالیٰ نے مثلا اسے قادر نہیں بنایا اس پر کہ وہ احکام الٰہیہ پر تکرار و بحث کرے اور اس کے انبیاء کے بغیر وہ احکام پر رسائی حاصل کرے۔ جبکہ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے عقل کو شیطانی راستوں کے درمیان سے راہ حق کی تشخیص کے لئے معیار قرار دیا البتہ اللہ تعالیٰ نےحق کا راستہ خود بیان کیا نا کہ عقل نے اور عقل کو قاضی (یا جج) مقرر نہیں کیا کہ اللہ کے قوانین میں سے جو اسے سمجھ آئے وہ اسے قبول کرے اور اس کے علاوہ باقی سب کو مسترد کردے بلکہ عقل کو صرف راہ حق کے انتخاب اور راہ باطل سے دوری کا ذریعہ قرار دیا ہے اگر عقل نے اپنی فھم کے مطابق شریعت کے جزئی احکام کو قبول یا مسترد کرنا تھا تو اللہ نے انبیاء کیوں بھیجے یہ کیوں مبعوث فرمائےاور ہم میں انکی پیروی کرنے کا امر کیونکر صادر فرمایا یہ دیکھے بغیر کے وہ انبیاء کیا ھدایت لائے ہیں اور عقل ہی کی بنیاد پر عقاب و ثواب ہوگا کیونکہ عقل باطل کو حق سے الگ کرنے پر قادر ہے نا اس لئے کہ عقل خود احکام الٰہی کو تشکیل دینے اور اسکی جزئیات اور کیفیات کو معین کرنے پر قادر ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی اطاعت سے بے نیاز ہے اور بندوں کی نافرمانی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاتی اس نے شریعت صرف بندوں  کی مصلحت و مفاد کے لئے بنائی اور شریعت کے کچھ احکام کی تفسیر کردی اور کچھ کو ترک کردیا تاکہ عقلاء کے ایمان کا امتحان لیا جائے کہ آیا عقل مند صرف قبول کررہاہے کہ اسے سمجھ آرہی ہے یا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ بس۔۔۔

حجیت عقل کے بارے میں مبالغہ آراء لوگوں کی مشکل یا کہیں کہ (عقل ہر شے کی تفسیر کرسکتی ہے کہ قائل) یا (عقل ہر شے کی تفسیر پر قادر ہے اگرچہ وہ تفسیر آسمان سے نازل حکم سے متصادم ہی کیوں نا ہو) ان جملوں کے قائل اور اس کشتی کے سوار افراد کی مشکل یہ ہے کہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عقل خود ایک مخلوق ہے اور ہر مخلوق محدود ہوتی ہے اور خالق اپنی مخلوقات کی حدود کی وسعت و تنگی کے لحاظ سے تعین کرتا ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ خالق ایسے احکامات مقرر فرمائے کہ عقل آج تک اسکی تفسیر و تشریح سے عاجز ہو اور ہو سکتا ہے کہ روز قیامت تک عاجز رہے تاکہ یہ اسکی عقل مند مخلوقات (یعنی جن و انس) کے لئے چیلنج رہے اور ہمارے بعض پڑھے لکھے افراد کی دوسری مشکل یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو کسی شعبہ کے ماہر تخصص اور مہارت کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس شعبہ کے ماہرین کے علاوہ کسی اور کو اس شعبہ کے متعلق اظہار رائے کا حق نہیں دیتے اور وہ اس معاملہ میں بالکل درست ہیں کیونکہ یہ ایک عقلائی اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی قرآن میں اسکی دعوت دیتا ہے۔

(فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون۔)

'' اھل الذکر سے سوال کرو اگر تم نہیں جانتے'' القرآن

لیکن یہ لوگ بڑی آسانی سے یہ قاعدہ فراموش کردیتے ہیں اور رب العالمین کے ہر شعبہ میں مداخلت کرتے ہیں اور وہ جب اپنے شعبہ تخصص سے متعلق امر صادر فرماتا ہے تو اسکے قوانین میں مناقشہ و بحث کرنے لگتے ہیں اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ سوال کرتے ہیں کہ یہ قوانین ایسے کیوں ہیں اور ایسے کیوں نہیں ہیں؟ اور یہ قانون ہمارے لئے کیونکر ناقابل فھم ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق کیوں نہیں ہیں؟ اور گویا کہ وہ لوگ تو علوم کی انتہاء تک پہنچے ہیں ہم کیوں فلاں قانون کی مناسب تشریح نہیں رکھتے؟ کیونکر یہ قوانین عصر حاضر کی روح سے سازگار نہیں؟ ان سوالات اور دیگر ان جیسے سوالات سے لگتا تو یہی ہے کہ گویا وہ اللہ کی طرح ان قوانین کے ہر زمانے سے سازگار ہونے یا نہ ہونے کا ازلی علم رکھتے ہیں۔۔۔ بلکہ گویا یہ لوگ ان احکام کی علل و اسباب کی حد درجہ معرفت رکھتے ہیں اور یہ معرفت ہی انکے اعتراضات کا جواز ہے۔۔۔

یہ انہی افراد کو دعوت ہے کہ آئیے پورا اترئیے اپنے دعویٰ پر کہ جسکی طرف آپ سبکو بلاتے ہیں اور وہ یہ کہ ہر شعبہ کے ماہر کا اور اسکی آراء کا احترام کریں اور غیرمربوط افراد اسمیں گنجائش تبصرہ نہ رکھیں اللہ کے قوانین کو اللہ پر چھوڑ دیں وہ ان احکامات کی مصلحتوں سے خوب آشناء ہیں اور بحث مت کریں کہ یہ قانون کیوں وضع کیے ہیں اور وہ وضع کیوں نہیں کیے ہیں بےشک وہ علیم و حکیم ہے ہاں اس میں حرج نہیں کہ انکی علت و فوائد پر بحث کی جائے تاکہ آپ کا دل مطمعن ہوسکے اور اگر اپ کے فوائد و علل کو جان لیں تو بہت خوب وگرنہ یہ ضروری نہیں کہ آپکو کو کسی فائدہ کا ناملنا ان احکامات کو مسترد کرنے کا جواز ہوسکے یہ احکامات اللہ تعالیٰ کے فائدہ کے لئے تو ہیں نہیں بلکہ یہ ہمارے مفاد میں ہیں اور آپ بادشاہ سے بڑے بادشاہ نہ بنیں اور ناہی خود کو ان مخلوقات الٰہی کا وکیل جنکا خالق ان پر انکی ماؤں سے بھی زیادہ رحم کرنے والا۔

میرے بھائیو آپ اس وسیع اور آزاد میدان پر توجہ مرکوز رکھیں جو اللہ نے آپ کے لئے ہزاروں اختصاصیات (شعبوں) میں فراہم کر رکھا ہے تاکہ آپ تحقیق و تفکر کرسکیں اور ان میدانوں میں اپنی عقل کو تعلیم دیں خدا ان شعبوں اور میدانوں میں مداخلت نہیں کرتا جبکہ آپ اللہ کے شعبہ (قانون سازی) میں مداخلت نہیں کرتا تاکہ آپکی عقلوں کا تقدس برقرار رہے اور تجربہ اور خطاء کے ذریعے آپ کے لئے طبعی عقلی تکامل کا راستہ کھل سکے اسنے اپنی شریعت مقدسہ کے ذریعے آپ کی زندگی کے لئے عمومی طریقہ کار وضع فرمایا ہے تاکہ آپکو آپ اور آپکی حوس کی اغلاط سے تحفظ میں رکھا جاسکے اور اسنے انسان اور اسکے خود کے درمیان اور انسان اور اسکے رب اور انسان اور دیگر انسانوں کے تعلقات کے لئے عمومی خطوط وضع فرما دیے تاکہ تصادم نا ہو اور اللہ نے زندگی کے کامل طریقہ کار کے لئے اسکو اسکی عقل کے حوالے نہیں کیا کہ جو علوم دین، نفس اور اجتماعیات اور ہر وہ علم جسمیں انسان اور دیگر کے درمیان تعلقات کو طے کیا جاتا ہے ان معاملات میں درست فیصلہ کرنے سے عاجز ہے اور کبھی بعض روشن فکر افراد علماء کی سرزرش کرتے نظر آتے ہیں اور علماء پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ یہی ہیں جنہوں نے اس شریعت کو وضع کیا یا کم از کم اسکی تفصیلات یا جزئیات کو تاکہ اس بات کے ذریعے وہ لوگوں کی اس تنقید کا نشانہ نہ بنیں کہ یہ لوگ اللہ پر اعتراض کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ انکی علوم شریعت سے عدم واقفیت کی بنیاد پر ہے، اللہ تعالیٰ نے زندگی کے عمومی خطوط معین فرمائے ہیں اور اپنی محکم آیات کریمہ میں ایسے قوائد مقرر فرمائے ہیں جنسے عالم دین احکام جزئیہ کا استنباط کرتا ہے اور ان آیات محکمات کو متشابھات سے ملا دیا ہے تاکہ یہ انکی تفسیر کر سکیں اور آیات کی مدد کے لئے روایات و احادیث کو بھیجا تاکہ تفصیلات بیان ہو سکیں اور ان روایات میں بھی محکم و متشابہ موجود ہیں اور عالم کا کام بس اتنا ہے کہ ان آیات و احادیث اور ان سے مربوط علوم کو سیکھے مکمل مہارت کے ساتھ تاکہ اسکے بعد الٰہی قوائد کو واقع اور خارج پر تطبیق کرسکے اور یوں حکم شرعی کا استنباط کرے پس عالم یہ احکامات اپنی جانب نہیں کرتا اور نہ ہی اپنے استنباط شدہ احکام میں اپنی پیروی کی طرف ہمیں مجبور کرسکتا ہے بکہ شریعت نے ہمیں اختیار دیا ہے کہ ہم اسکی اتباع (تقلید) کریں یا اسکی طرح خود اجتہاد کریں اور خود ان علوم کو سیکھیں اور شرعی احکامات کا استنباط کرنے کی صلاحیت پیدا کریں اور کیونکہ دوسرا راستہ ہماری شریعت کے لئے مشکل و دشوار ہے اس لئے آپ دیکھتے ہیں کہ ہم اختصاص سے کام لیتے ہیں اور اس عالم کی تقلید کرتے ہیں جنکی تقلید کا ہمیں اہلبیتؑ نے حکم صادر فرمایا ہے اس کے باوجود آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض روشن فکر دینی عالم کے شرعی استنباط پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ اس عالم نے ان علوم کو سیکھنے میں زندگی کا ایک بڑا حصہ لگایا ہے اور یہ لوگ ماہر انجینئر کی واقع  تطبیقات یا طبیب یا ماہر کمپیوٹر پر اعتراض نہیں کرتے اور ان معترضین نے عالم دین کی تعلیم کا آدھا بھی نہیں پڑھا ہوتا ہاں اگر اس عالم دین کے استنباط شدہ احکام کبھی درست ہوتے ہیں اور کبھی غلط تو ایسا تو دیگر ماہرین علوم میں روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں غلطیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ڈاکٹر سے نہیں پوچھا جاتا کہ آپ نے فلاں دوا کیوں تجویز کی ہے؟ بلکہ مریض اس سے لیتا ہے اور کبھی تو غلط تشخیص کی بنیاد پر موت واقع ہو جاتی ہے اور کبھی کم از کم شفاء نصیب نہیں ہوتی لیکن دینی مرجع سے اسکے فتویٰ کے بارے میں سوال ہوتا ہے کہ کیونکر صادر کیا؟ حالانکہ اس نے قرآن و حدیث سے اخراج شدہ علمی قوانین کو ہی استعمال کیا ہے نا کہ بشر ساختہ قوانین کو، کبھی خود تطبیق ہوتی ہے اور کبھی غلط؟؟ اور اللہ تعالیٰ نے اس دینی عالم کو چھوٹ دی ہے کہ اگر اس نے قوانین کے استخراج میں پوری طاقت بروئے کار لائی ہے اور پھر ان قوانین کی تطبیق میں غلط نتائج حاصل ہوئے ہیں اور ہمیں بھی اسی طرح چھوٹ دی ہے اسکی تقلید میں اور اسی وقت اگرانجینئر  پوری محنت کریں اور مطلوبہ نتائج حاصل نا کر پائیں کیونکہ جو زمین قوانین اس یا دوسرے کسی نے اختراع کیے تھے وہ غلط تھے تو ایسے میں اسے بےقصور کہا جاتا ہے لیکن۔۔۔

ہے کوئی حقائق بین؟؟

 

جسام محمد السعيدي

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018