| مراکزِاسلامی | مسجد اقصی،مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور دوسرا حرم
مسجد اقصی،مسلمانوں کا پہلا قبلہ اور دوسرا حرم
یہ زمین پر مسجد الحرام کے بعد مقدس ترین مسجد ہے ۔اس کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور اس کو انبیاء نے تعمیر کیا ہے اور ایسا زمانہ قدیم میں ہوا۔حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا روئے زمین پر پہلی مسجد کونسی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوا ب دیا بیت الحرام،میں نے پوچھا دوسری مسجد کونسی ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد اقصی،پھر میں نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟(زمانی فاصلہ) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:چالیس سال اور اس کے بعد ساری روئے زمین تمہارے لیے مسجد ہے جہاں نماز کا وقت ہو جائے ادھر ہی نماز پڑھو۔اس طرح مسجد اقصی مسجد الحرام کی طرح ہزاروں سال قدیم مسجد ہے۔
مسجد اقصی کے اوصاف
مسجد اقصی مقبوضہ فلسطین کے شہر قدس میں واقع ہے۔بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ فقط گنبد اور اس کے ساتھ والی جگہ ہی ہے ایسا نہیں بلکہ اس کا رقبہ 144000 مربع میٹر ہے یہ مستطیل شکل میں ہے جس کی لمبائی چوڑائی 300×480 ہے۔اس میں کھلا صحن،کنویں ،پانی کی جگہ،بڑے ہال اور دیگر بہت سی سہولیات شامل ہیں۔اس کے وسط میں ایک سنہرا گنبد ہے اسے مسجد صخراء کہا جاتا ہے۔اس میں دو میٹر بلند اور ۱۳ سے چودہ میٹر کی چٹان ہے،اس چٹان کی بہت اہمیت ہے کیونکہ یہی وہ چٹان ہے جہاں سے شب معراج آپ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنےسفر کا آغاز فرمایا تھا : ((سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام الى المسجد الأقصى الذي باركنا حوله))(الإسراء-1)
پاک ہے وہ جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش میں ہم نے برکتیں رکھیں تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔
مسجد اقصی مسلمانوں کاپہلا قبلہ اور دوسرا حرم ہے۔مسلمانوں نے ایک زمانہ تک اسی طرف منہ کر کے نماز ادا کی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے مسجد اقصی سے تبدیل کر کے بیت اللہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنا دیا۔
مسجد اقصی کس نے بنائی؟
مسجد اقصی کس نے بنائی؟ اس میں بہت اختلاف ہے کہا جاتا ہے سب سے پہلے حضرت آدمؑ نے مسجد اقصی کی تعمیر کی ہے۔ایک قول کے مطابق حضرت ابراہیمؑ نے اس کی تعمیر کی ۔یہ بھی کہا جاتا ہے ان دونوں کے علاوہ کسی نے کی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ایک حدیث میں آیا ہے کہ اس کی بنیاد حضرت سلیمانؑ نے رکھی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں جب حضرت سلیمان بن داوودؑ مسجد اقصی کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ سے تین چیزوں کی دعا کی پہلی جب وہ کوئی فیصلہ کریں تو وہ اللہ کے فیصلے کے مطابق ہو،دوسرا یہ کہ ان کو ایسا ملک عطا ہو کہ ان کے بعد ایسا ملک کسی کو نہ دیا جائے تیسرا یہ کہ جب بھی کوئی اس مسجد میں صرف نماز ادا کرنے آئے اور جب وہ نماز ادا کر کے نکلے تو اس کے گناہ ایسے معاف ہو جائیں جیسے وہ آج ہی ماں کے پیٹ سے نکلا ہے۔اللہ نے دو دعائیں تو قبول کیں میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ نے تیسری بھی قبول کی ہوگی۔اس حدیث کی صحت کو قبول کر لیا جائے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے مسجد اقصی کی تعمیر فرمائی۔اس کا رقبہ ۴۴۰۰ میٹر اس کا طول اسی میٹر ،چوڑائی پچپن میٹر ہے اس کے گیارہ دروازے ہیں،ان میں سات دروازے شمال کی طرف ہیں اور سب سے بڑا دروازہ درمیان میں ہے،ایک دروازہ مشرق اور دو دروازے مغرب کی طرف ہیں اور ایک دروازہ جنوب کی طرف ہے۔