| مسلمان شخصیات | فادر آف کیمسٹری جابر بن حیان ؒ
فادر آف کیمسٹری جابر بن حیان ؒ
جابر بن حیانؒ ایک عظیم مسلمان سائنسدان تھے۔ان کی شخصیت پر پردہ پڑا ہے اور جب ایک طالب علم ان کی شخصیت کو جاننے کی کوشش کرتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تاریخ پیدائش ،نام،ان کی پرورش کہاں اور کیسے ہوئی؟ اور انہوں نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟ اس سب کے بارے میں متضاد روایات موجود ہیں۔اس لیے جب ہم اس عظیم شخصیت کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کافی مشکل اور دقت والا کام ہے۔ایک شخص جو اسلامی تاریخ میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے اور علم کیمیا کا موجد مانا جاتا ہے اور ہم اسے امت اسلامیہ کا فخر سمجھتے ہیں اور اگر تاریخ انسانی کی بات کی جائے تو اس کا چمکتا ہوا ستارہ ہے اس کی زندگی کے بارے میں یہ اختلاف موجو دہے۔
ہماری علم اور اہل علم سے محبت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم ان علما کی زندگیوں پر کام کریں اور ان کو معاشرے کے لیے سامنے لائیں اور ان کے آثار کی تشہیر کریں۔ہم لوگوں کو بتائیں کہ دیکھو ان شخصیات نے کس طرح انسانی تہذیب کی خدمت کی ہے؟ اور ایک علمی انقلاب برپا کیا ہے۔ان علما کی خدمات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے لیے ان کے آثار کے احیاء کو ضروری سمجھیں۔یہ لوگ جن کی زندگیوں پر کام کرنا ضروری ہے ان میں اہم ترین شخصیت جابربن حیان کی ہے۔ان کی علمی میراث نے ہمیں قابل فخر بنایا ہے اور انہوں نے انسانی تاریخ میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔آپ کے علمی کام نے انسانی تاریخ کی کئی صدیوں کو نور علم سے منور کر دیا۔آپ کے علم نے فزکس اور دیگر کئی علوم کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا اور کئی اہم ایجادات آپ کے علم کی بنیاد پر ہوئیں۔آپ کی علمی میراث پر یورپ نے جدید ایجادات کیں۔مشہور فرانسی کیمیا دان مرسلان بییر اوجین برتلو نے کہا تمام عرب سائنسدانوں نے جابر سے علم لیا ہے اور اپنی تحقیقات میں اسی پر اعتماد کرتے ہوئے تالیفات کی ہیں۔ میں مشہور فلسفی برتراند رسل نے لندن میں جابر کی کتب کا ترجمہ کیا تو کہا یہ سب سے بڑے اور عرب عالم اور فلسفی ہیں۔
برتیلو نے کہا جابر کا کیمسٹری میں وہی مقام ہے جو منطق میں ارسطو کا ہے۔
صیدلی اور بلجیم کے محقق سارتون یعنی جورج الفرڈ لیون ساتون جو کہ ریاضی اور فزکس کا ماہر ہے جابر کو ان اہل علم میں سے شمار کیا ہےجو انسانی تاریخ میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔
کیمیا دانوں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے قفطی کہتا ہے کہ جابر علوم فزکس کے ابتدائی لکھنے والوں میں سے ایک ہے اور وہ علم کیمیاء کےبانی اور ان کے کئی مشہور تصانیف بھی ہیں۔
جلدکی جن کا نام علی بن محمد ہے اپنی کتاب نھایۃ الطلب فی شرح المکتسب میں لکھتے ہیں "اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم جابر کی کتب کی فہرست دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں کیمسٹری پر بہت سی کتب ملتی ہیں اور اس موضوع پر جابر نے بہت لکھا ہے اس کے نظریات اور ان کی شرح پر بہت کام کیا ہے۔اسی لیے جابر کیمیائی کے نام سے مشہور ہوئے کیونکہ انہیں اس میں بہت زیادہ دلچسپی تھی۔جابر اپنے زمانے میں ہی اس علم کے ایک ماہر کے طور پر معروف ہو گئے تھے اسی طرح بعد والوں نے بھی آپ کے تفوق علمی کو مانا ہے۔جابر کیمیاء کا امام ہے اس میں اس کا مقابل کوئی نہیں ہے اور اس علم میں اس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا۔
مشہور فلسفی محمد بن زکریا رازی ہمیشہ جابر کے نظریات سے استفادہ کرتے تھے۔انہوں نے ایک سے زیادہ جگہوں پر اپنی کتب میں کہا ہے کہ ہمارے استاد ابو موسی جابر بن حیان کہتے ہیں اور یوں ان کی بات سے دلیل قائم کی ہے۔
اسماعیل مظہر اپنی کتاب تاریخ الفکر العربی میں کہتے ہیں شاید جابر بن حیان اس سے زیادہ کے حقدار تھے جتنا ان کا تذکرہ علم کی عربی تاریخ میں کیا جاتا ہے۔ان کے آثار کو اہل علم میں بہت ہی اعلی مقام حاصل ہےاسی لیے علما نے اعتراف کیا ہے کہ تہذیب اور تعمیر کے میدان میں جابر کو اعلی مقام حاصل ہے۔
اعیان شیعہ میں کچھ اور اقوال کو بھی سید امین نے اور حافظ طوقان نے اپنی کتاب الخالدوں العرب میں نقل کیا ہے ا ن اقوال سے جابر کی عظمت اور اعلی علمی حیثیت کا پتہ چلتا ہےکہ کیمسٹری اور فلسفہ کے بڑے بڑے علما آپ کو کس طرح یاد کرتے ہیں ؟ہم نے طوالت کے پیش نظر اس کو چھوڑ دیا ہے۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل علم جابر کی اعلی خصوصیات اور ان کے عبقری دماغ کے قائل ہیں اسی لیے انہوں نے بغیر کسی اختلاف کے جابر کو علم کیمیاء کا امام تسلیم کیا ہے۔
ولادت و پرورش
تاریخ دانوں کا آپ کی ولادت کے بارے میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ہم ان اقوال میں زیادہ نہیں پڑتے جو ایک دوسرے سے بہت ہی مختلف ہیں اور ان کے مختلف ہونے کی سیاسی اور مذہبی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ایسا جان بوجھ کر کیا گیاہے۔جابر نے جس زمانے میں زندگی کی اس زمانے میں مذہب کی وجہ سے ایسا ہونا عام تھایہاں تک کہ لوگوں نے آپ کے پہلے استاد کا بھی انکار کیا جس نے آپ کو کیمسٹری پڑھائی تھی اور بہت سے دوسرے علوم کی بھی تعلیم دی تھی۔
انتہائی اختصار سے کام لیتے ہوئے آپ کی ولادت کے بارے میں راجح قول ۱۲۰ ھ کا ہے۔اس کے بعد آپ کی ولادت کے مقام کے بارے میں اختلاف کی بحث شروع ہوتی ہے۔کچھ روایات یہ بتاتی ہیں کہ آپ کوفی تھے،بعض روایات ایسی ہیں جن سے آپ کے کوفہ میں پیدا ہونے کا یقین نہیں ہوتا،کچھ روایات یہ بتاتی ہیں کہ آپ کوفہ میں نہیں بلکہ کوفہ کے مضافات میں باب شام میں پیدا ہوئے۔جابر کازیادہ تر قیام کوفہ میں رہا اور اس کی وجہ کوفہ کی صحت بخش آب و ہوا تھی۔
ول دیورانت نے قصۃ الحضارہ میں لکھا ہے کہ جابر بن حیان کوفی تھے طب سے وابستہ تھے۔اپنا زیادہ تر وقت کیمیاء گری میں گزارتے تھے۔
ابن ندیم نے مشہور کتاب الفہرست میں کہا ہے کہ جابر طوس جو خراسان کا علاقہ ہے اس میں پیدا ہوئے۔ایک اور روایت کے مطابق اس کا تلفظ طرسوس ہے کچھ نے کہا کہ آپ اہل حران میں سے تھے چوتھا قول یہ ہے کہ آپ یونانی تھے اسلام قبول کیا ۔اختلاف یہاں تک پہنچا کہ آپ کو اشبیلیہ کا کہا گیا میں یہ درست نہیں ہے کیونکہ اس میں دوسری صدی ہجری کے جابر بن حیان اور چھٹی صدی ہجری کے مشہور فلکیہ دان،ریاضی دان جابر بن افلح اشبیلی کے ساتھ مکس کیا گیا ہے جو اشبیلہ کے رہنے والے تھے۔
روایات مختلف ہیں اور چیزیں آپس میں گڑ بڑ ہوئی ہوئی ہیں۔ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ ازدی تھے آپ کا تعلق مشہور ازد قبیلہ سے تھا جو جزیرہ عرب کے جنوب میں آباد ہے اور وہاں سے ہجرت کر کے کوفہ میں آباد ہو گیا تھا۔یہ بھی کہاگیا کہ آپ طوس میں پیدا ہوئےجو خراسان میں ہے آپ کی والدہ اور والد کا تعلق عرب قبیلے ازد سے تھا۔جابر کے والد عطار تھے آپ مشہد کے پاس پیدا ہوئے۔جابر کے والد نے آپ کو جزیرہ عربیہ میں قرآن ،ریاضی اور دیگر علوم کی تعلیم کے لیے روانہ کر دیا۔
جہاں تک آپ کی کنیت میں اختلاف کا تعلق ہے کیونکہ آپ کی دو کنیت مشہور ہیں ابو عبداللہ اور ابو موسی،اس حوالے سے درست قول یہ ہے کہ اسی نام کے دو بیٹے تھے۔اس حوالے سے یہاں تک اختلاف موجود ہے کہ ان کو اس لیے جابر کہا گیا کیونکہ جبر علم تھے جنہوں نے علم کو منظم کیا۔
جابر کے متعلق تاریخ دانوں کا شدید اختلاف ہے اور یہ اختلاف ان کی زندگی کے ہر شعبے کو شامل ہے۔جابر کے مذہب اور گروہ کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا ہے کہ یہ کیا تھا؟درست بلکہ سو فیصد درست بات یہ ہے کہ جابر کا تعلق مذہب اہلبیت ؑ سے تھا اور مزید واضح کریں تو آپ حضرت امام جعفر صادقؑ کے پیروکار تھے۔
ابن ندیم نے فہرست میں کہا ہے کہ وہ یعنی جابر بڑے شیعوں میں سے تھے۔کچھ لوگوں نے کہا یہ فلاسفہ میں سے تھے،آپ کی منطق اور فلسفہ میں تصانیف ہیں۔سونے اور چاندی کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ان کا سلسلہ آپ پر پہنچ کر تمام ہوتا ہے۔
ابن ندیم نے جابر کے بارے میں جو بھی بات کی ہے وہ درست ہے استاد زکی نجیب محمود اپنی کتاب جابر بن حیان میں لکھتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ جابر ایک ساتھ تینوں حیثیتیں رکھتے تھے،وہ مذہبی طور پر شیعہ تھے،جدل میں فلسفی تھے اور کیمسٹری کے بڑے عالم تھے۔
آپ کی پرورش اور آپ کی تعلیم کے بار ے میں دینوری اخبار طول میں لکھتا ہے کہ جابر امام جعفر بن محمد صادق ؑ کے شاگرد تھےاس حوالے سے یہ بات تحقیق سے ثابت ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
اس طرح امام جعفرصادقؑ جابر کے پہلے استاد تھے جنہوں نے آپ کو تعلیم دی اور علوم کے دروازے کھولے جن کے نتیجے میں جابر کیمسٹری پر لکھنے کے قابل ہوا۔آپ کی ہدایات کی روشنی میں کام کرنے پر جابر اس مقام پر پہنچا کہ پہلا کیمیاء دان بنا جو مسلمان اور عرب بھی تھا۔جابر کو تمام القاب اس وقت کے بڑے بڑے علماء نے دیے ہیں۔
جابر کی تصانیف
جابر نے بہت سے علوم میں تصانیف چھوڑی ہیں اور اس وقت کے تمام علوم پر لکھا ہے۔ جابر نے طب،کیمسٹری،ریاضی،زہد،وعظ اور اس طرح کے دیگر موضوعات پر لکھا ہے آپ کی تالیفات کی تعداد تین ہزارنو سو کتابوں تک پہنچتی ہے جس میں آپ کے رسائل اور کتب ہر دو شامل ہیں۔آپ کی صرف علم طب میں پانچ سو کتب ہیں،اسی طرح کمیسٹری پر آپ نے بہت زیادہ لکھا جس کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہو چکا ہے اور ان کے مخطوطات مشرق و مغرب کے کتابخانوں میں موجود ہیں۔ان کی اہم کتب میں:كتاب أسطقس الأول، أسطقس الثاني، الكمال، علم الاكسير العظيم، الواحد الكبير، رسائل جعفر الصادق، الواحد الصغير، والركن البيان، النور، التدابير الكبير، التدابير الصغير، التدابير الثالث، الخواص الكبير، الملاغم الجوانية، الملاغم البرانية، العمالقة الكبير، العمالقة الصغير، الشعر والتبويب، الأحجار، ابو قلمون، الباهر، الدرة المكنونة، البدوح، الخالص، رسالة في الامامية، القمر، الشمس، التركيب، الأسرار والأرض، المجردات، الحيوان، ما بعد الطبيعة اور الخمسة عشر، الروضة شامل ہیں۔
ابن ندیم نے آپ کی پچاس کتب کا ذکر کیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں۔ الإيضاح، مصححات سقراط، الضمير، الموازين، الزنبق، الاستتمام، الملك، التصريف، شرح المجسطي، الوصية، إخراج ما في القوة إلى الفعل، الحدود، كشف الأسرار، خواص إكسير الذهبي، الرحمة، التجميع الأصول، الاستيفاء، التكليس والأسرار، الروض والوجيه، الجاروف، الراحة والعوالم، السهل والتجريد، صبح النفوس، الصافي، الجامع في الاسطرلاب، الخارصيني، الجفر الصادق، الجفر الأسود، السبعين والانثيين، جنات الخلد في تدبير الحجر، التصحيح في علم الصنعة اور السموم اہم ہیں۔
آپ کی یہ کتب پیرس،دار لکتب قاہرہ،برطانیہ کے کتاب خانہ،آکسفورڈ ،کیمرج کے کتابخانہ اور ہندوستان کے کتابخانوں میں بھی موجود ہیں جس کا تذکرہ بالزنکراف نے کیا ہے۔
آپ کی کتب کی یہ تعداد ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے اور بہت سے لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ تمام کتب ایک جابر بن حیان سے ممکن ہیں؟وہ ان کتب کی جابر کی طرف نسبت کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں کہ اتنی زیادہ تصانیف انسانی طاقت سے باہر ہیں۔اسی طرح وہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ان کتب کی تحریر کا اسلوب بھی مختلف ہے جو بتاتا ہے کہ یہ کسی ایک بندے کی تحریر نہیں ہیں۔
یہ تمام شکوک و شبہات حقیقت سے دور ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔حقائق یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کا تعلق جابر سے ہی ہے۔جابر اپنے زمانہ کا ایک بڑا سکول آف تھاٹ تھا جس کی بڑی اہمیت تھی جابر نے بڑی تعداد میں شاگردوں کی تربیت کی۔انہوں نے جابر سے علم حاصل کیا اور جابر سے اس کے نظریات سے آگاہی حاصل کی اور اس کی آراء کے ماہر بنے۔جابر کے علمی مقام کے بارے میں محققین کہتے ہیں کہ جابر فقط غو ر و فکر کے ذریعے ہی نتائج نہیں لیتے تھے بلکہ مسلسل تجربے کے ذریعے نتائج تک پہنچتے تھے۔جابر نتائج کے حصول کے لیے سخت محنت کرتے تھےانہوں نے یونانی طریقہ تحقیق پر نتائج کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ کسی بھی نظریہ تک پہنچنے کے لیے بار بار تجربے کی بھٹی سے گزارتے تھے اور کسی بھی نظریہ کی بنیاد اسی پر رکھتے تھے جس سے دوسروں کو نتائج کے سمجھانے میں آسانی ہوتی تھی۔
جابر کہتے تھے کہ اصل بات تجربہ کی ہے جو عمل کرئے اور تجربہ نہ کرے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گا۔اسی طرح کہتے تھے کہ ہر چیز کی اصل اس کی طبیعت ہے اور یہی اصل معرفت کے حصول کا ترازو بھی ہے جو اس ترازوں کو جانتا ہے وہ ہر چیز کے جان لیتا ہے کہ وہ کیسی ہے اور اس کی ترکیب کیا ہے؟ جو تجربہ کرتا ہے وہی عالم ہوتا ہے اور جو تجربہ کی بھٹی سے نہیں گزرتا وہ عالم نہیں ہوتا۔تجربہ تمام صنعتوں کی بنیاد ہے۔وہ صنعتیں جن کی بنیاد تجربہ پر ہوتی ہےوہی کامیاب ہوتی ہیں اور جو تجربہ کے بغیر ہوتی ہیں خراب ہو جاتی ہیں۔وہ ایمان جس کی بنیاد علم پر ہو وہ بہترین ایمان ہے۔
وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ایسے لوگوں پر تعجب ہے کہ جو علم کسی بھی سوال کے جواب میں عاجز ہو جانے کو درست سمجھتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ یہ سوچنا بھی درست نہیں علم کیسے طبیعت اور اس کے اسرار کی آگاہی سے عاجز ہو سکتا ہے؟یہ کیسے ممکن ہے کہ علم طبعیت اور اس کے ماوراء سے عاجز آ جائے؟ وہ جو علم نہیں رکھتے ہم ان سے نہیں پوچھتے ہیں جو کیمسٹری کا علم ہی نہیں رکھتے۔ہم ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں جنہوں نے تحقیق کے اصولوں کو پورا کیا ہے کہ علم کیسے کسی سوال کے جواب سے عاجز آ سکتا ہے۔
اسی لیے جس نے جابر کی ان تصنیفات کا انکار کیا ہے وہ غلطی پر ہے کیونکہ اس کا حکم صرف ماہرین ہی لگا سکتے ہیں۔یہ عالم ہی کر سکتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ یہ قول جابر کا ہے یا نہیں ؟اسی طرح جابر کے بارے میں علما کے اقوال کو بھی عالم ہی پرکھ سکتا ہے کہ یہ کثیر کتب اس کی ہیں یا نہیں ہیں اور اس میں راز کیا ہے؟یہاں پر بہت سی تاریخی ادلہ ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہ کثیر کتب جابر کی ہیں۔ان کتب کی جابر کی طرف نسبت علما کی ایک جماعت نے دی ہے جن کا زمانہ جابر کے زمانے سے متصل ہو جاتا ہے جیسے ابن ندیم،مجریطی ،رازی اور دوسرے بہت سے اہل علم ہیں۔
فزکس کے مشہور عالم اور فلکیات کے ماہر لورنس ماکسویل کراوس کہتے ہیں جابر کے رسائل اور مولفات اسلوب،لغت اور ادب میں جدا گانہ ہیں اور ان کے درمیان بہت ہی گہرا اور مضبوط تعلق پایا جاتا ہے ان کی ہر تالیف اور ہر رسالہ باہمی طور پر دوسری طرف رہنمائی کرتا ہے۔جابر کے ہاں اس طرح کے اسلوب کا پایا جانا یہ بتاتا ہے کہ جابر کی کتب میں تفاوت کی باتیں فقط اتہام ہیں۔
استاد زکی نجیب محمود کہتے ہیں جہاں جابرکے رسائل میں اسلوب کے فرق کی بات ہےیہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ یہ ایک سے زیادہ لوگوں کی تصانیف ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی شخص اس علمی بلندی پر فائز ہے کہ جہاں وہ مختلف اوقات میں مختلف انداز سے تحریر کرتا ہے۔تیسری تفسیر یہ ہے کہ مولف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے جس میں مختلف مقامات کی تحریرمیں فرق آ جاتا ہے اور قدیم مولفین میں رائنج طریقہ ہے۔
طغرائی اپنی کتاب مفاتیح الرحمہ میں جابر سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کبھی جابر ظاہر میں ایک چیز لکھتا ہے لیکن اس کے باطن میں کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جو علم کیمسٹری کی طرف رہنمائی کرتی ہےیہاں تک کہ آج کا علم کیمسٹری بھی اسے نہیں سمجھ پایا جابر فقط یہ چاہتا تھا کہ اس کے کلام کو فقط اہل کیمسٹری ہی سمجھیں۔
جلدکی نھایۃ الطلب میں اس بات کی وضاحت کرتے ہیں بعض کتب میں جابر نے باتیں مختصر لکھیں اور دوسری کتب میں ان کو تفصیل سے بیان کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر صاحب حکمت کی یہ عادت ہے کہ وہ تمام کتب میں علم کو پھیلا کر لکھتا ہے اور اس کا علم میں مختلف کتب میں بکھرا ہوا ہوتا ہے۔بعض کتب خاص طور پر کسی ایک علم کے لیے لکھ دیتا ہے جس کی طرف وہ اشارہ کر چکا ہوتا ہےجابر نے بھی ایسے ہی کیا ہے اور اپنی تمام کتابوں کا حاصل ایک کتاب خمسمائہ کے نام سے لکھ دی ہے۔
سید امین نے اپنی کتاب اعیان میں جابر بن حیان کے بارے میں لکھا ہے ان سے مجریطی نقل کرتے ہیں کہ جابر اور میرے درمیان بہت زیادہ وقت کا فاصلہ ہے اس نے بھی مجھے اس کا طالب علم ہونے سے نہیں روکا ۔جابر کی تحقیقات سے علما،مفکریں اور موجدین نے استفادہ کیا ہے۔یہ وہ قابلیتیں تھیں جو جابر کے پاس تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر ذکی نجیب محمود جابر بن حیان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ تحقیق اور مطالعہ کرنے اور دریافت کے بارے میں جابر کا بڑا نام ہے اسے مختلف ادوار میں تمام اہل علم کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ وہ اپنی کتاب کے تعارف میں کہتے ہیں: میں نے عربوں میں فطری علوم کے امام یعنی جابر بن حیان سے آغاز کیا تھا۔
پروفیسر ذکی نے جابر کا انتخاب اتفاقی طور پر نہیں کیا بلکہ ان کے اور دوسرے اسکالرز کے درمیان وسیع مطالعہ اور تقابل، تاریخ کا گہرا مطالعہ شامل ہے۔ جابر کو جن سائنسی حقائق سے واقفیت حاصل ہوئی تھی اس کے بعد جابر نے کہا: "کیمیا دان نے دھاتوں کی تبدیلی میں کام کیا ہے جیسا کہ اس کی تشکیل کی فطرت کام کرتی ہے، اگر یہ حقیقت نہ ہوتی کہ قدرت نے سونے اور چاندی سے جو کچھ بنایا ہے اسے بنانے میں بہت وقت نہ لگتا۔ ، جبکہ سائنسدان اپنے تجربات کے ذریعے ان دھاتوں کو ملا کر نئی دھات بنانے میں اس وقت کو مختصر کر سکتاہے۔
جابر کی کیمسٹری ان کے تجربات کی تفصیل ہے۔ پروفیسر ذکی لکھتے ہیں کہ جابر کا علم خالص کیمسٹری کے علم سے بڑھ کر تھا، بلکہ جابر دیگر کئی علوم کے ماہر تھےاس لیے انھوں نے کہا۔جابر صرف کیمیا دان ہی نہیں تھے، بلکہ وہ ایک فلسفی بھی تھے جنہوں نے چیزوں کا تصور کیا جیسا کہ فلسفیوں نے کائنات کی مختلف چیزوں کو ایک نظام کے طور پر تصور کیا ہےجس کے لیے انہوں نے پہلے اصول بنائے اور پھر فروعات نکالیں۔
جابر کی ذہانت تھی کہ پروفیسر رؤف سبحانی نے اپنی کتاب (مشہور مسلم فلاسفرز) کا سب سے طویل باب جابر بن حیان پر لکھا اور باب کے تعارف میں کہا: جابر بن حیان ان مفکرین میں سے ہیں جنہوں نے نئی فکر کو جنم دیا۔ انسانی تہذیب کے علمبردار اور رازوں کو افشا کرنے والے تھے۔فطرت اور کائنات کے رازوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے، تہذیب کو ترقی دینے کے لئے تمام تر کوشش کی، اس راستے کی نشاندہی کی جس پر تہذیب ترقی کی منازل طے کرتی ہے۔ جہاں تک کیمسٹری کی بات ہے تو جابر اس کی بنیاد رکھنے والا ہے اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے۔ ہولبارڈ کہتے ہیں: جابر پہلا مسلمان ہے جو کیمیا دان کے لقب کا مستحق ہے۔
اسماعیل مظہر (History of Arab Thought) میں کہتے ہیں: ایسا لگتا ہے کہ جابر نے اپنے علم کی بدولت جو شہرت اور دولت حاصل کی اور جو اس وقت اعلی مقام ملا اس نے ان کے خلاف لوگوں میں حسد پیدا کر دیا جس میں ظلم و ستم کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے۔جابر کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی انہیں ملک الھند،ملک العجم اور ملک العرب کہا گیا۔
جابر کا منہج تحقیق
جابر ان القابات کے لائق تھا، کیونکہ علم پر اس کا عقیدہ غیر متزلزل تھا، اور اس کی فکر بہترین تھی، اسے سائنس کے رازوں کو ظاہر کرنے اور اس کی گہرائیوں کو تلاش کرنے سے کسی چیز نے روکا نہیں تھا۔ کسی بھی انسان کی طرف سے اس کی موجودگی کا امکان ہوتا ہے ایک ہی طبیعت کو دوبارہ بنانے کے نظریہ میں کے وقوع کا انکار کرنے والوں میں شیخ ابن سینا بھی تھے جنہوں نے اپنی کتاب (الشفاء) میں اس کے باطل ہونے کو ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس کی دلیل یہ ہے: ان کے بارے میں جو صفات بیان کی جاتی ہیں اگر وہ یہاں شامل کی جائیں یا وہاں حذف ہونے کے بعد، چیزیں کچھ حادثاتی طور پر ٹھوس خصوصیات میں بدل جاتی ہیں جو چیزوں کے جوہر کو نہیں چھوتی ہیں، اس لیے وہ حقیقی نہیں ہیں جو ایک قسم کو دوسری قسم سے ممتاز کرتی ہیں۔
وہ مادے جو سونے کو سونا اور تانبا کو تانبا بناتے ہیں وہ نامعلوم ہیں جب ان کے عناصر اصلی نامعلوم ہیں تو کیسے اسے کوئی بنا سکتا ہے ؟
مشہور مسلمان فلسفی الکندی بھی جابر کی آراء سے متفق نظر آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ طبعیت جداگانہ ہوتی ہےیعنی ہر چیز کی طبیعت الگ ہےکسی بھی انسان کے لیے یہ محال ہے کہ وہ اسی جیسی چیز بنائے۔جیسے انسان (طبعیت انسان نہیں) دوسری اشیاء سے الگ ہے۔جیسے یہ محال ہے کہ تلوار،بستر اور تلوار وغیرہ خود سے بن جائے اسی طرح یہ محال ہے کہ انسان سونا،تانبا اور چاندی بنا لے۔ان دونوں کی ابن خلدون نے تائید کی ہےاس کی بات بھی ان دونوں کی بات جیسی ہے ابن تیمیہ نے بھی ان کے بنانے کے محال ہونے کا کہا ہے۔
اس کے مقابل میں علما کی ایک بڑی تعداد ہے جو یہ کہتی ہے کہ ایسا کرنا ممکن ہے کہ انسان اپنے علم اور تجربے سے سونا چاندی وغیرہ بنا لے۔فخرالدین رازی نے مباحث مشرقیہ میں اس پر مستقل بحث لکھی ہے جس میں کیمسٹری میں اس کے امکان پر بات کی ہے۔شیخ نجم الدین بن بغدادی نے ابن تیمیہ کو رد کیا ہے کہ ابن تیمیہ کا یہ قول درست نہیں ہے کہ کیمیا میں ایسا ممکن نہیں ہے۔اسی طرح محمد زکریا رازی نے اسی موضوع پر کندی کے فلسفہ کو رد کیا ہے۔
جہاں تک ابن سینا کا تعلق ہے؛ اس نے طغری کو جواب دینے کا بیڑا اٹھایا۔ جنہوں نے اس کے امکان کو ثابت کرنے کے لیے کتابیں لکھیں۔ اس نے اس میں ابن سینا کے اس قول کا بھی جواب دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، اور اس میں ان دو متضاد آراء کے درمیان ایک تیسرے نظریہ کی بنیاد رکھی وہ اس کے وقوع پذیر ہونے یا نہ ہونے کے درمیان کی پوزیشن ہے۔ اس رائے کو ابو نصر الفارابی نے اختیار کیا ان کی رائے کا خلاصہ یہ ہے: چیزوں کا ایک دوسرے میں تبدیل ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ کس قسم کی صفات کو حذف یا شامل کیا جانا ہے۔اگر وہ اعراض ذاتیہ ہیں توتبدیلی ممکن نہیں ہے، اور اگر یہ ایک عرضی ہیں تو انہیں بدلا جا سکتا ہے۔
الفارابی آگے کہتے ہیں تبدیلی کا امکان رسمی، نظریاتی نقطہ نظر سے قابل قبول ہو سکتا ہے، لیکن حقیقی اور عملی نقطہ نظر سے یہ مشکل ہے۔
ان متضاد متضاد آراء کے درمیان جوکہ ہونے یا نہ ہونے کے امکان کی ہیں۔جابر اس تنازع میں آتے ہیں اور ایک رائے کو عمل سے اختیار کرتے ہیں وہ فقط قول سے نہیں بتاتے بلکہ عمل سے ایسا کر کے دکھاتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔جن لوگوں نے اس کے عدم امکان کی بات کی ہے اصل مسئلہ ان کی فہم میں ہے۔وہ کہتے ہیں انسان دو وجوہات پر قدرت کے رازوں سے آگاہ نہیں ہو پاتا ایک یہ کہ وہ راز بہت ہی باریک ہیں اور ان کو جاننے پر انسان ابھی قادر نہیں ہے اور یا یہ کہ ان اسرار میں لطافت ہے جو جاننے میں مانع بن جاتی ہے۔وجہ جو بھی ہو سائنس کا محقق اپنے مقصد کو حاصل کرنے کا راستہ تلاش کرسکتا ہے۔ نہ تو موضوع کی مشکل اور نہ ہی اس کی باریک بینی اور درستگی کوئی ایسی چیز ہے جو اسکالرز کو تحقیق کے دوران اپنے مقصد کی طرف بڑھنے سے روک سکتی ہے۔
جو بھی سائنس کو ایک ہتھیار کے طور پر اٹھاتا ہے وہ فطرت کے پردے کو توڑ سکتا ہے، اس کے اوصاف کو واضح کر سکتا ہے اور اس کے رازوں سے پردہ اٹھا سکتا ہے۔
تحقیق کی بنیادیں ہر شخص کے لیے فراہم نہیں ہوتیں جابر کے نزدیک کیمیاء ہر اس شخص کے بس کی بات نہیں جو اس جو علم کا دعویٰ کرتا ہے۔ بلکہ ایک اعلی مفہوم ہے جو عالم کو حاصل کرنا ضروری ہے اس کے بعد ہی وہ مطلوبہ علم کو حاصل کرے۔
اعتدال کے معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں اعتدال پسند وہ ہے جو چیزوں کو اپنی فطرت سے سمجھتا ہے اور وجدان کا علم اسے پہلی نظر میں ملتا ہے۔ اس کی ایک مثال سقراط حکیم ہےجو کہتے ہیں اعتدال کا راہی شکایت نہیں کرتا تھوڑی سی مشق سے بہت زیادہ علم اس کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ یہ جبلت کا علم ہے، یہ سیکھنے والے کا ہنر ہے کہ وہ علم حاصل کرنے اور اسے قبول کرنے کے لیے کتنا تیار ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس پر جابر نے علم حاصل کرنے کے لیے انحصار کیا۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں روح ضروری نہیں کہ پہلے سےعالم ، قابل، فعال ہولیکن اس میں صلاحیت ہے کہ وہ علم حاصل کرے، جتنی کوشش ہو گی اتنا ہی علم حاصل ہو سکے گا۔خارجی عوامل کے اثرات پر غور کیا جاتا ہے اور یہی تجربات انسانی علم کی بنیاد بنتے ہیں۔اس میں والدین اور اساتذہ کا بنیادی کردار ہے ۔
اس لیے جابر استاد کو بڑا درجہ دیتے تھے اور اس کا بڑا احترام کرتےتھے، اس لیے استاد کے لیے میرے آقا کے لقب سے ہی مخاطب کرتے ہیں۔ انہوں نے کتاب کا پہلا مضمون اس موضوع کے لیے وقف کیا کہ استاد اور طالب علم کا رشتہ کیا ہونا چاہیے؟ یہ ایک بہت اچھا موضوع ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ استاد کو طالب علم کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے؟اور طالب علم کو استاد کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے۔؟ہم تعلیم کے میدان میں شاندار روایات رکھتے ہیں جن کی بنیاد ادب ہے۔
جابر کے نزدیک استاد کا وہی مقام ہے جو علم کا مقام ہے۔وہ کہتے ہیں کہ علم اور استاد کا دشمن حق کا دشمن ہے استاد کا مقام وہی ہے جو ایک گروہ میں ان کے امام کا ہوتا ہے۔طالب علم کو استاد کے سامنے خاموش رہنا چاہیے جیسے ایک راز خاموش ہوتا ہے۔اسی طرح طالب علم کو ہمیشہ اپنے درس کی فکر میں ہونا چاہیے اور مطالعہ کرتا رہے تاکہ وہ کچھ حاصل کر سکے۔استاد طالب علم کو سیکھنے کے بنیادی اصول سکھائے اور طالب علم کو سیکھنے کے لیے تربیت کرے۔طالب علم کی بھلائی کے لیے استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ طالب علم کی عقل کو پرکھےاس سے میری مراد یہ ہے کہ وہ سیکھنے کی اس صلاحیت کو دیکھے کہ وہ کتنا قبول کرتا ہے اور کتنا سنتا ہے اور سنتے ہوئے اس کا ادب کیا ہے؟
سیکھنے اور سکھانے کے بارے میں ان کے نقطہ نظراور استاد وطالب علم کے درمیان تعلقات پر ان کی رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ استاد کو اہل ہونا چاہیے اور یہ کہ طالب علم کو علم حاصل کرنے کے لیے ضروری تیاری کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ اچھا استاد وہ ہوتا ہے جو علم کو ہر کسی پر ظاہر نہیں کرتا بلکہ صرف اہل پر ظاہر کرتا ہے۔اہل علم کو اچھے انداز میں حاصل کرتا ہے اور پھر اس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ علم انسان میں برداشت پیدا کرتا ہے جتنی زیادہ اہلیت ہو گی اتنا زیادہ علم حاصل کر سکے گا اگر اہلیت نہیں ہو گی تو وقت ضائع ہو گا اور علم بھی حاصل نہ ہو سکے گا۔
جابر اس طریقہ کار کے مطابق ہی علم دیتے تھے اور اسے ہرحال میں ضروری سمجھتے تھے۔شرح مکتسب میں جلدکی نے روایت کیا ہے کہ ایک طالب علم نے جابر سے تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔جب طالب علم نے بہت زیادہ اصرار کیا اور ٹلنے سے انکار کر دیا تو جابر نے کہا ’’میں صرف یہ چاہتا تھا کہ تم کو آزماؤں اور تم سے فہم کی حقیقت جانوں اور اس کے بعد ان لوگوں میں شامل کروں۔علم کیمیا ایسا علم ہے جسے ہر کسی کو تعلیم نہیں دیا جا سکتا اور نا اہلوں کو اس کی تعلیم دینا درست نہیں ہے۔نااہلوں سے اس کا چھپانا ضروری ہے کیونکہ ان کو اس کی تعلیم تباہی لائے گی ۔ اس کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ نہ دیا جائے اس لیے اس کا چھپانا واجب ہے۔
یہاں جابر اپنا طریقہ کار واضح کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اور جن لوگوں کو یہ علم سکھاتے ہیں ان کی تربیت کرتے ہیں کہ وہ اس علم کو چھپائیں اور فقط اہل لوگوں کو ہی اس کی تعلیم دیں۔یہ نقطہ نظر واضح طور پر اس روایت کی تردید کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جابر بن حیان نے اپنے راز ہارون الرشید ، یحییٰ برمکی اور ان کے دو بیٹوں الفضل اور جعفر کو بتائے تھے۔
جابر کے استاد
تاریخی کتب،سوانح عمریوں اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونےو الی معلومات میں کافی تضادات ہیں کہ اس عظیم سائیسدان اور محقق کے استاد کون تھے؟ اس کی زندگی کیسے گزری؟ اور اس کی پرورش کیسے ہوئی؟ایک بات بہت واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ ان کے استاد سینہ علم کو شگافتہ کرنے حضرت امام جعفر صادق ؑ ہیں اس پر ناقابل تردید تاریخی شواہد موجود ہیں۔جابر کی کتابوں میں امام جعفر صادقؑ کی شاگردی کے اثرات واضح طورپر نظر آتے ہیں۔
جابر کی کتابوں میں یہ الفاظ بکثرت ملیں گے جن میں جابر لکھتا ہے میرے آقا جعفر بن محمد الصادق ؑ نے مجھے سے فرمایا، میرے آقا جعفر بن محمدع نے مجھے پہنچایا اور میں نے یہ علم جعفر بن محمد ؑ سے لیا جو اپنے زمانے کے سردار تھے۔
وہ ایک سے زیادہ جگہوں پر یہ بھی کہتاہے کہ اس کے علم کا سرچشمہ حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی حق اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ جن کے ذریعےجابر کو منتقل ہواوہ امام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام ہیں۔وہ کتاب کے اکیسویں مضمون (الخواص الکبیر) میں لکھتا ہے کہ جو کچھ تھا اور جو ہے اور جو اس کے بعد ہوگا اس کا علم ان سے حاصل کیا۔جابر نے کتاب الخواص الکبیر کے مقالہ حادیہ عشرین کے ص ۳۱۵ میں لکھا ہے میری کتب سے نبی اکرمﷺ امام علیؑ او رمیرے سید یعنی امام جعفرصادقؑ اور ان کے درمیان ان کی اولاد سے منقول ہے ۔
اسی کتاب (ص 317)کے چوبیسویں مضمون میں فرماتے ہیں: خدا کی قسم، میرے پاس ان کتابوں میں سوائے لکھنے کے اور کچھ نہیں ہے سب کچھ نبی ﷺ کا علم ہے۔اور جابر اپنے اقوال کے ذریعے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ان کی کتابوں میں موجود یہ علم انہیں ان کے آقا جعفر الصادق علیہ السلام نے سکھایا تھا اور ان جیسا کوئی دوسرا شخص انہیں نہیں سکھا سکتا۔جابر اپنے اکثر سائنسی نظریات میں کہتے ہیں:دوسرے لوگوں کے لیے یہ ناممکن ہے،اگر امام صادق علیہ السلام ان کو سکھانے کے لیے نہ ہوتے تو جابر ان لکھے ہوئے مقالات کا ایک حرف بھی نہ لکھ پاتے۔وہ کتاب الاحجار (جلد 2/ص 164) میں لکھتے ہیں:میرے آقا کا حق یہ ہے کہ اگر یہ کتابیں میرے آقا کی نسبت سے نہ ہوتی تو میں کبھی ایک لفظ تک نہ لکھ سکتا۔
ہم اس طرح کی بے شمار مثالیں جابر کی کتب میں ان کے اقوال کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔وہ رسائل لکھتا ہے اور اس میں اپنے علم کے کی نسبت حضرت امام جعفر صادقؑ کی طرف دیتا ہے کہ جن کے ذریعے اسے یہ علم امام کے آباء و اجداد کے واسطے سے ہوتے ہوئے نبی اکرمﷺ سے ملا۔اسی طرح وہ اپنے علم کی نسبت نبی اکرمﷺ کے وصی حضرت علیؑ کی طرف دیتا ہےجو فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ نے مجھے ایک ہزار علم کے باب تعلیم کیے اور میں نے ہر باب سے ایک ہزار باب کو شگافتہ کیا۔جابر اخلاق کی اعلی منزل پر فائز تھے اسی لیے وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ جعفر بن محمد الصادقؑ کے طفیل ہے۔
جابر بن حیان وہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے اسلام میں علم کیمیاء کی بنیاد رکھی۔یورپ نے اپنی علمی تحریک کی بنیاد اسی پر رکھی۔ان کی کتب کے لاطینی زبان میں تراجم ہوئے یہ ۱۶۶۲ ء میں ہوا۔یورپ کی بہت سی ایجادات کی بنیاد یہی نظریات بنے انہوں نے جابر سے بہت زیاد استفادہ کیا۔جابر کی کتاب الاستتمام سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا گیاجابر کی اس کتاب کی تدریس صدیوں تک یورپی جامعات میں کی جاتی رہی۔
جابر کون ہے؟
جابر کی ولادت،اس کی نشوونما اور اس کی تعلیم و تربیت کے بارے میں اتنی زیادہ روایات ہیں کہ بعض لوگوں کو یہ وہم ہو گیا کہ جابر نام کی کوئی شخصیت اسلامی تاریخ میں نہیں ہے۔کج فکری اور فرقہ وارانہ رجحانات سے پیدا ہونے والا یہ لہجہ بہت سے مصنفین کے ہاں نیا نہیں ہے جو ذاتی خواہشات اور اپنے مزاج سے تاریخی شخصیات کے بارے میں فیصلے جاری کرتے ہیں۔ گویا ان کے ذہنوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا کہ انسانیت جابر بن حیان جیسے عظیم ذہین کو جنم دے سکتی ہے چنانچہ انہوں نے ہومر، عمرو القیس اور دیگر کے وجود سے بھی انکار کر دیا، یہاں تک کہ یہ بات شیکسپیئر تک پہنچ گئی اور اس کے وجود کو بھی فرضی کہا گیا۔
کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے جابر کی شخصیت کا انکار تو نہیں کیا مگر جابر کی شخصیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہےاور اپنی سوچ سے ہی یہ کہہ دیا کہ اگر جابر کو ایک حقیقی اور تاریخی شخصیت فرض بھی کر لیا جائے تو بھی وہ اتنی زیادہ کتابوں کا مصنف نہیں ہو سکتا ۔
بعض ایسے ہیں جنہوں نے جابر کی حقیقی شخصیت کا اعتراف کیا اور کہا کہ صرف الرحمہ کتاب ایسی ہے جس کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ساری کتاب اس کی ہے۔اس کی دیگر کتابوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کتب دوسروں نے لکھی ہیں اور پھر ان کی نسبت اس کی طرف دے دی گئی ہے۔یہ ان لوگوں کی باتیں ہیں جنہوں نے تعصب کا مظاہرہ کیا۔ہم حقیقت کو جاننے کے لیے دوسرے تاریخ دانوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جنہوں نے تاریخ کی درست سمت دکھائی ہے۔مشہور فہرست نویس ابن ندیم ان متعدد آراء کو نقل کرنے کے بعد انہیں رد کرتا ہے اور بڑے بڑے تاریخی حقائق سے یہ بات ثابت کرتاہے کہ جو انہوں نے کہا وہ غلط ہے۔اپنی کتاب فہرست کے ص ۴۹۹میں ان لوگوں کی رد میں لکھتا ہے جنہوں نے جابر کی کتب کا انکار کیا ہے کہ جابر ایک عظیم صاحب علم شخصیت تھے آپ ہزاروں صفحات لکھتے تھے جو آپ کی فکر کا نتیجہ ہوتے تھے۔جب وہ خود لکھتے تھے اور اس کے لیے اپنے بدن کو زحمت دیتے تھے تو وہ اسے دوسروں کی طرف نسبت کیوں دیں گے؟آپ کی زندگی علم کی تحصیل اور لکھنے میں گزری آپ کی زندگی میں ہر لمحہ علم کے حصول کے لیے تھا۔مشہور فرانسی فلسفی کاردیفو نے بھی ان لوگوں کا رد دائرہ معارف اسلامیہ میں کیا ہے جو جابر کی تصانیف کا انکار کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ یہ روایت تو ہوا ہے مگر ہم بغیر کسی تردید کے اس کا انکار کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ تاریخی حقائق بھی اس کی تائید کرتے ہیں،جابر نے دوسری صدی ہجری میں زندگی گزاری حسین بن بسطام بن سابور الزیات اور اس کے بھائی ابو عتاب عباللہ بن بسطام نے جابر سے ان دونوں سے روایت کی ہے ان دونوں کی کتاب طب الائمہ میں ہے وہ دونوں شیخ کلینی صاحب الکافی کے ہم عصر ہیں جیسا کہ فلسفی رازی نے ذکر کیا ہے اور کہا ہمارے استاد ابو موسی جابر بن حیان۔
بہت سے لوگوں نے جابر کی کتب کی شرحیں لکھی ہیں جو جابر کے فورا بعد آئے ہیں۔ان میں جعفر بن محمد بن علی شلمغانی،ابو قران جو اہل نصیبین میں سے تھا،ابو حیان توحیدی نے جب جابر کے بارے میں بات کی ہے جب وہ ابن مسکویہ سے بات کرتے ہوئے کہتا ہےجابر ابی طیب کیمیائی رازی کے ساتھ ہمیشہ علم کیمیاء میں مشغول رہتے تھے ن کے سامنے ابی زکریا رازی اور جابر بن حیان کی کتب کھلی ہوتی تھیں۔مجریطی نے اپنی کتاب غایۃ الحکیم میں جابر کی کتاب الجامع کے بارے میں لکھا ہےیہ ایک ہزا ر باب کی حامل ہے اس میں عجیب و غریب معلومات ہیں جو ان سے پہلے کسی نے نہیں لکھیں۔یہ سب وہ تاریخی حقائق ہیں جو کتب حدیث میں مدون ہوئے ہیں۔ان سے جابر کی عظیم تخلیقی شخصیت کا پتہ چلتا ہے یہ ان لوگوں کے لیے کافی ہے جو کہتے ہیں کہ جابر کا وجود ہی نہیں ہے۔
جن لوگوں نے جابر کی کثرت تصانیف پر اعتراض کیا ہے کہ انہوں نے فلسفہ،کیمیا،منطق اور ریاضیات میں بہت زیادہ لکھا ہے اس کا بہترین رد وہی ہے جو ابن ندیم نے لکھ دیا ہے۔امت اسلامیہ کو ایسے لوگ ملے جنہوں نے امت کو امتحان میں ہی ڈالے رکھا اور اپنی خواہشات کے مطابق لکھتے رہے یہاں ایک اور گروہ ہے جو پورا زور قلم اس بات پر لگایا کہ جابر کی شخصیت کو کم کر کے دکھایا جائے۔یہ چاہتے ہیں کہ جابر کی شخصیت ان کی خواہش کے مطابق ہو تو ٹھیک ہے ورنہ ٹھیک نہیں ہے۔اصل میں ان لوگوں کا مسئلہ جابر کے شیعہ ہونے سے ہے۔ان کے لیے یہ برداشت کرنا مشکل ہے کہ جابر چھٹے امام کے شاگرد ہیں۔جابر نے ان سے ہی اصل علم حاصل کیا اور جابر انہی کا شاگرد ہے جن کی اطاعت کی دعوت اللہ کے رسول ﷺنے اپنے بعد کرنے کی ہدایت کی تھی۔جابر اپنے استاد سے علم کو نقل کرتا ہے۔بعض لوگوں نے جعفر نام کے اشتراک کی وجہ سے استاد کی نسبت بدلنے کی کوشش کی ہے وہ کہتے ہیں کہ جنہیں جابر سید کہتا ہے وہ جعفر بن بن یحی برمکی ہے حالانکہ جابر نے خود اپنے استاد کی تشریح کی ہے او رکہا ہے کہ وہ جعفر بن محمد بن علی بن حسین علیھم السلام ہیں۔جابر نے اس بات کو اپنی کتب میں بار بار دہرایا ہے۔جابر اختصار کی خاطر والد کے نام کو نہیں لکھتے اور فقط صادق یا جعفر لکھ دیتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جابر کو اپنے استاد کے پورے نام کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ وہ پہلے اس کا ذکر کر چکا ہے۔یہاں پر امام صادقؑ کے علاوہ کسی اور کو سمجھنا بنتا ہی نہیں ہے کیونکہ جب وہ اشارہ کر رہا ہے تو امام جعفر صادق ؑ کی طرف ہی ہو گا کیونکہ کوئی اور تو موجود ہی نہیں جس کا ذکر اس نے پہلے کیا ہو۔ جیسے جس کی صفت لائی جائے وہی مراد ہوتا ہے محال ہے جو کوئی اور اس سے مراد لیا جائے۔جابر یہ بہت زیادہ کہتے تھے کہ میرے سردار جعفر بن محمد علیہ السلام ،یہ کہیں نہیں ہے کہ جابر علیہ السلام کا اطلاق جعفر برمکی پر کرتے ہیں جابر سے ہٹ کر بھی شیعہ سنی میں سے کوئی بھی برمکی کے لیے علیہ السلام استعمال نہیں کرتا یہاں تک کہ کوئی فرقہ ایسا نہیں کرتا۔
اسی بات کو استاد زکی نجیب نے اپنی کتاب جابر بن حیان ص ۱۸ میں اختیار کیا ہےجب انہوں نے اس روایت کو نقل کیا جس میں جابر سے منقول ہے جابر اپنی کتاب الحاصل کے مقدمے میں کہتے ہیں میرے سردار جعفر بن محمد صلوات اللہ علیہ نے مجھ سے کہاجو کتابیں تالیف کی ہیں ان کی منفعت کیا ہے؟ اس کے جواب میں یہ کتاب لکھی اور میرے سید صلوات اللہ علیہ نے اس کتاب کا نام ہی الحاصل رکھا۔محمود اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں یہ عزت و احترام اور القاب کا استعمال برمکی کے لیے نہیں ہو سکتا یہ وہ عزت اور احترام ہے جو شیعہ اپنے ائمہ کا کرتے ہیں۔
اسی کتاب کے ص ۱۷ میں لکھتے ہیں قول راجح یہ ہے کہ وہ صدق کی نسبت سے مراد جعفر صادق لیتے ہیں ہوں کیونکہ جابر کے نزدیک مرجع صدق امام جعفر صادقؑ ہیں کیونکہ جابر شیعہ تھے اور اس میں کچھ باعث تعجب نہیں ہے کہ وہ اس سے مراد جعفر صادقؑ ہی لیتے ہوں۔یہ بات معلوم ہے کہ جب جابر نے زندگی کی تو وہی دور ہے جس میں امام جعفر صادقؑ زندہ تھے۔حاجی خلیفہ کتاب کشف الظنون ص ۳۴۳ میں کہتے ہیں جب وہ جابر کا ذکر کر رہے تھے کہ جابر امام جعفر صادق کے شاگرد ہیں۔
ایک تیسرا گروہ ایسا بھی آ گیا جس نے کہا جابر نے لفظ سیدی کا اطلاب اصل میں خالد بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان پر کیا ہے۔مگر جلد ہی ان کی بات سے ہوا نکل گئی جب یہ پتہ چل گیا کہ خالد ۹۰ ھ میں مر گیا تھا اور جابر ۱۲۰ ھ میں پیدا ہوا۔یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جابر جس جعفر کے شاگرد ہیں وہ جعفر بن محمد الصادقؑ ہیں جو چھٹے امام ہیں۔
ان واضح اور آشکار دلیلوں کے باوجود بھی بعض لوگ جان بوجھ کر اندھے بن جاتے ہیں اور اس کا خیال نہیں رکھتے ۔وہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا جابر بن حیان بہت بڑا کیمیاء دان تھا عرب و عجم نے اپنی کتب میں اس کی تعریف کی ہے۔عرب کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ امام جعفر صادقؑ کے شاگرد تھے اور شیعہ تھے۔جب اسے مانے بغیر چارہ نہ رہا تو یہ کہہ دیا کہ جابر اثنا عشری شیعہ نہیں تھا بلکہ اسماعیلی تھا۔
ان لوگوں کی یہ بات مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے او راس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔حقائق علمیہ کو مسخ کیا گیا ہےاس میں ان کی دلیل بڑی عجیب ہے وہ کہتے ہیں کہ اسماعیلیہ اور جابر کے ہاں سات کا عدد ایسا ہے جو یہ تعلق پیدا کرتا ہے۔اسماعیلیہ کی ابتدائی تعلیمات سات ہیں،ان کے امام سات ہیں،اسی طرح سات اقلیم ہیں،اسی طرح سات آسمانوں اور زمینوں پر نص موجود ہے۔اس پر جابر کی کتاب الانتقال من القوۃ الی الفعل سے استدال کرتے ہیں آگ کی شکل سات جیسی ہے۔ان کو کل ملا کریہی دلیل ملی ہے کہ جابر اسماعیلی ہیں۔
اسی طرح انہوں نے جابر کے علم کیمیا سے متعلق نظریات کو اسماعیلی فکر سے تشبیہ دی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کیمیا کےہاں چیزوں کے خواص دوطرح کے ہوتے ہیں ایک ظاہری اور دوسرے باطنی، ظاہری خواص علم اور باطنی ترازو ہیں۔علم باطنی اسماعیلیوں کے ہاں بڑی اہمیت رکھتا ہے وہ ظاہر کی بجائے ہر چیز کو باطن کی طرف پلٹا دیتے ہیں۔اسی لیے اسماعیلیوں کو باطنیہ کہا جاتا ہے۔اسی طرح کی دلیلوں کے ذریعے انہوں نے جابر کا اسماعیلیہ سے تعلق جوڑا ہے۔وہ کہتے ہیں جابر نے بہت سے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جیسے جابر نے الاکسیر اور حجر الحکماء کے الفاظ کو استعمال کرکے اس سے مراد امام کو لیتے ہیں ۔اسی طرح جابر عالم کو تین عالم میں تقسیم کرتے ہیں ایک انسان کے لیے چھوٹا عالم،بڑا عالم اور تیسرا امام کا عالم وہ عالم اکسیر ہے اس کی دلالت روابط ازلیہ کے ذریعے عناصر اربعہ پر ہے۔جابر کے ہاں ان مفاہیم میں اور اسماعیلیہ کے ہاں موجود مفاہیم میں رابطہ پایا جاتا ہے بالخصوص احمد بن حمید الدین الکرمانی اسماعیلی جو فاطمی خلیفہ حاکم باللہ کا معاصر تھا اس کے ساتھ۔استاد رووف سبھانی نے اپنی کتاب مشاہیر فلافۃ المسلمین کے ص ۳۱۶ پر اس کا رد کیا ہے وہ کہتے ہیں جابر کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کی تعبیرات اسماعیلیوں سے ملتی جلتی ہیں تو وہ اسماعیلی ہے یہ ایک گمراہ کن بات ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عام باتیں ہیں اور یہ تعبیرات قرآن میں آ چکی ہیں۔جیسے تاویل،سات ،باطن اور دیگر باتیں بھی ،جب ہم باطن اور سات کی تعبیر کو صرف اسماعیلیہ سے خاص کرتے ہیں تو پھر نتیجتا ضروری ہے کہ ہم قرآن کو بھی اسماعیلی مان لیں۔اس صورت میں ضرور مان لینا چاہیے جب قرآن باطن کی بات کرتا ہے۔اسی طرح ہمیں تمام صوفیوں کو بھی اسماعیلی مان لینا چاہیے وہ مشرق و مغرب میں یہی بات کرتے ہیں۔
اس کے بعد وہ اسی کتاب میں اس رائے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جنہوں نے جابر کو شیعہ نہیں مانا وہ لکھتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جابر اہم شیعہ فلاسفہ میں سے ہے اس کی کتب اور اس کے رسائل میں روح تشیع موجود ہے اور اس کی تحریروں میں جعفری نظریات پائے جاتے ہیں۔
جابر کے اسماعیلی ہونے کی قطعی نفی اس بات سے بھی ہو جاتی ہے کہ اسماعیلیہ کا عملی ظہور ان کے مشہور داعی عبداللہ بن میمون سے ۸۷۴ ھ میں ہوا،یعنی اسماعیل بن امام جعفر صادقؑ کی وفات کے بعد ،اس طرح ان کا یہ دعوی غلط اور بغیر دلیل کے ثابت ہو جاتا ہے۔جابر کا تشیع ثابت ہو جاتا ہے ۔اس پر قدیم اور جدید ہر دور کے علما کی آراء موجود ہیں سید طاووس نے اپنی کتاب فرج المھموم فی تاریخ العلماء النجوم میں جب وہ بڑے شیعہ علما کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں جابر بن حیان اصحاب امام صادقؑ میں سے تھے۔
ابن ندیم نے الفھرست میں یہی لکھا ہے کہ جابر شیعہ تھے۔یہ بات بڑی واضح ہے اس کا اظہار تمام علما نے کیا جنہوں نے جابر کے حالات لکھے انہی میں سید الامین ہیں وہ اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں لکھتے ہیں جابر کا شمار مذہب شیعہ کے بڑے علما میں ہوتا ہے۔آغا بزرگ تہرانی نے الذریعہ میں لکھا ،سید محمد علی الشھرستانی نے اپنی کتاب الھیئہ و الاسلام میں یہی لکھا ہے۔