8 ربيع الاول 1447 هـ   1 ستمبر 2025 عيسوى 8:16 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  انتقامِ خونِ حسینؑ… الٰہی انصاف کا ازلی و ابدی منصوبہ
2025-08-19   52

انتقامِ خونِ حسینؑ… الٰہی انصاف کا ازلی و ابدی منصوبہ

الشيخ مصطفى الهجري

جب انتقام حسینؑ کی بات کی جاتی ہے تو یہ صرف اس خون کی بات نہیں جو صحرائے کربلا میں صدیوں پہلے بہایا گیا تھا بلکہ یہ ایک ایسی عظیم اور دائمی قربانی کی یاد دہانی ہے جو ہمیں اُس تاریخی جدوجہد کی طرف لے جاتی ہے جو آسمانی اقدار اور  ارضِ خدا پر ظلم کی طاقتوں کے درمیان ہمیشہ سے جاری ہے۔ یہ وہی معرکہ ہے جو الٰہی اصلاحی پروگرام اور گمراہ نظاموں کے مابین ازل سےجاری رہا ہے۔ اورظالم و جابر قوتیں اس وقت سے آج تک اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش کرتی آرہی ہیں ۔

چنانچہ اہلِ بیتؑ کی بعض روایات اور اِس آیتِ الٰہی کا مفہوم بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے،ارشاد باری تعالی ہوتاہے:

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗوَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا [الإسراء: 33]

اور جس جان کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے تم اسے قتل نہ کرو مگر حق کے ساتھ اور جو شخص مظلوم مارا جائے تو ہم نے اس کے ولی کو(قصاص کا) اختیار دیا ہے، پس اسے بھی قتل میں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، یقینا نصرت اسی کی ہو گی۔

یہ آیت کریمہ امام حسینؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔معروف مفسر قرآن علامہ عیاشیؒ نے امام باقرؑ سے روایت نقل کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اس سے مراد حسینؑ بن علیؑ ہیں جنہیں مظلومانہ طور پر شہید کیا گیا اور ہم ہی ان کے وارث و ولی ہیں اور جب ہمارا قائم (عج)قیام کرے گا تو وہ حسینؑ کے خون کا بدلہ لے گا۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر امام حسینؑ کے قاتل دنیا سے جا چکے ہیں اور ان میں سے بعض نے تو اپنا عذاب دنیا ہی میں پا بھی لیا تھا تو پھر وہ کون سا بدلہ ہے جس کا مطالبہ قائمؑ عجل اللہ فرجہ کریں گے؟

شیعہ علماء کی ایک بڑی تعداد کا ماننا ہے کہ ثأر(انتقام) سے مراد اُن افراد سے جسمانی انتقام لینا نہیں جن کی زندگیاں ختم ہو چکی ہیں بلکہ یہ اس منصوبے اور فکر کا مقابلہ ہے جسے اموی مکتب نے جنم دیا تھا۔ وہی طرزِ فکر جس نے آغازِ رسالت ہی سے حق کا مقابلہ کیا، جس نے حکومت کو الٰہی تعلیمات سے خالی کر دیا اور اسے باطل کی بالادستی کا آلہ کار بنا ڈالا۔ یہ اموی منصوبہ ان کی موت کے ساتھ ہی ختم نہیں ہوا بلکہ یہ ہر دور میں مختلف شکلوں میں دوبارہ سامنے آتا ہے اور ہمیشہ اُس نظام حکومت یا تحریک کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جو ظلم کو جائز قرار دیتی ہے اورپھر عدل، آزادی اور کرامت کی قدروں سے برسرِپیکار رہتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس انتقام کا دائرہ ہر اُس شخص کو شامل کرتا ہے جو اس طرزِ فکر کے ساتھ کھڑا ہو،اسے جائز قرار دے یا اس پر راضی ہو،خواہ  وہ ماضی،حال یا مستقبل جس زمانے میں مرضی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا۔حسینؑ کسی چھوٹےمعرکے کے قائد نہ تھے بلکہ آپ ایک بڑے اصلاحی منصوبے کے علمبردار تھے۔ اسی لیے آپؑ کے خون کا بدلہ صرف عسکری پہلو تک محدود نہیں بلکہ اسکا دائرہ کار ہر اُس میدان تک پھیلا ہوا ہے جہاں کہیں حق کو پامال کیا جاتا ہے۔

سیاسی میدان: ظالم حکومت کی مشروعیت کا خاتمہ اور استبداد کا مقابلہ۔

سماجی میدان: معاشرتی بگاڑ کی مزاحمت اور اصلی اقدار کی حفاظت۔

اقتصادی میدان: استحصال، اجارہ داری اور غریبوں پر ظلم کے خلاف جدوجہد۔

اخلاقی و تربیتی میدان: نفوس میں عدل اور دیانت داری کو راسخ کرنا۔

ان تمام محاذوں پر فساد کا مقابلہ کرنا ہی نعرۂ 'یا لثاراتِ حسینؑ' کی عملی صورت ہے۔ جو شخص اپنے ماحول اور معاشرے میں ظلم کے خلاف جدوجہد نہیں کرتا وہ ہرگز سچا نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ یہ دعویٰ کرے کہ وہ اپنے جدّ حسینؑ کے قاتلوں سے انتقام لینے کے لیے امام مہدیؑ کا انتظار کر رہا ہے۔

مظلومیتِ حسینؑ… درحقیقت تمام قدروں کی مظلومیت ہے۔

امام حسینؑ پر ہونے والا ظلم محض ایک عظیم انسان پر ظلم نہ تھا بلکہ یہ تمام الٰہی تعلیمات پر حملہ اور انسانیت کی ہر عظیم قدر کی پامالی تھا۔ اسی بنا پر اس جرم کے اثرات کربلا کی سرحدوں سے کہیں آگے بڑھ گئے اور یہ واقعہ انسانیت کے ضمیر پر ایک ایسا کاری زخم بن گیا جو آج تک تازہ ہے۔تاریخ باہم جڑی ہوئی کڑیوں کی صورت میں آگے بڑھتی ہے اس لیے یہ مظلومیت اُس وقت تک زندہ رہے گی جب تک عدل امام قائمؑ عجل اللہ فرجہ کے دستِ مبارک سے قائم نہ ہو جائے۔یہ انبیاء کی اس جدوجہد کی تکمیل ہیں جس کا مقصد ظلم کا خاتمہ اور قسط و عدل کا قیام ہے۔

جب ہم حسینیؑ تصور میں ثأر(انتقام) کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد کوئی جذباتی ردعمل یا ذاتی انتقام نہیں ہوتا بلکہ حق کو قائم کرنا، عدل کو برپا کرنا اور ظلم کی جڑیں کاٹ دینا مقصود ہوتا ہے۔ جیسا کہ علماء نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے، یہاں ثأر(انتقام) کا فلسفہ دراصل وہی ہے جو اصلاحی جہاد کا فلسفہ ہےیعنی زمین کو فساد سے پاک کرنا، عدل کو پھیلانا اور انسان کو جبر سے آزاد کرانا۔

امام حسینؑ پر رونے کا تربیتی پہلو

امام حسینؑ پر رونا بذاتِ خود کوئی مقصد نہیں بلکہ یہ دل کو ایک ایسی اخلاقی و روحانی توانائی سے بھرنے کا ذریعہ ہے جو اسے انحراف سے محفوظ رکھتی ہے۔ سید محسن الامین فرماتے ہیں، ایک سچا آنسو عملی طور پر ظلم کے انکار  اور حق کی خدمت کے لیے جدوجہد میں ڈھل جانا چاہیے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عاشورا کس طرح بعض تاریخی مواقع پر طاقت اور مزاحمت کا سرچشمہ بناجیسے کہ عراق کے جنوب میں تحریکِ عشرین کے دوران اور اسی طرح جنوبی لبنان میں جب مجالسِ عاشورا کی حرارت روحِ جہاد سے ملی تو اس نے دشمن کو پریشان کر دیا اور اس کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔

مهدوی عدل کی تمہید

حسینی ثأر(انتقام) اپنی تکمیل، الٰہی عدل کی اُس ریاست میں پاتا ہے جو امام مہدیؑ کی قیادت میں قائم ہوگی مگر یہ ریاست محض منفی انتظار سے وجود میں نہیں آتی بلکہ اس کے لیے ایک ایسی امت درکار ہے جو اپنی نسلِ نو کی عدل پر تربیت کرے اور اپنی روزمرہ زندگی میں ظلم کو مسترد کرے۔ جو شخص اپنے گھر میں عدل قائم نہیں کرتا، اپنے کام میں انصاف سے پیش نہیں آتا اور اپنے معاشرے میں اقدار کا پابند نہیں رہتا، وہ ظہور کے دن حسینی ثأر(انتقام) کا پرچم اٹھانے کے اہل نہ ہوگا۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018