

| مقالات | عاشورائی اجتماعات کا حقیقی مقصد: تعداد کی گنتی سے پہلے دلوں کی بیداری

عاشورائی اجتماعات کا حقیقی مقصد: تعداد کی گنتی سے پہلے دلوں کی بیداری
الشيخ مصطفى الهجري
جب مجالسِ عزا میں شرکت یا شعائرِ حسینی کی ادائیگی کا مقصد اُن کے حقیقی اہداف کے بجائے محض ایک رسمی عمل یا ذاتی تسکین بن جائے، تو یہ سید الشہداءؑ امام حسیں علیہ السلام کی تحریک کے حقیقی مقاصد تک پہنچنے میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔پس کبھی عاشوراء کی مجالس اور ان کے احیاء کا مقصد حسینی اقدار کو زندہ کرنا ہوتا ہے، بلکہ انہی کے ذریعے انسان کی روح کو زندہ کرنا ہوتا ہے، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان شعائر کی ادائیگی ان کے فوائد اور مقاصد سے غافل رہتے ہوئے محض ایک رسم بن جاتی ہے۔
یقیناً ان دونوں طریقوں میں بہت بڑا فرق ہے ، کیونکہ شعائرِ حسینی کے ساتھ سنجیدہ اور بامقصد تعلق کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ہر سال ان میں شرکت کے ذریعے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اصلاح و بہتری کی کوشش کریں، تاکہ ہم امام حسین علیہ السلام کے تربیتی اور اخلاقی مقاصد سے قریب تر ہو سکیں اور عدل و اصلاح کی راہ میں ظلم و فساد کا مقابلہ کر سکیں۔
اگر ہم وہ طرزِ عمل اختیار کریں جو عاشورا اور عزاداری کے ایام کو ان کے اصل معانی اور مقاصد سے محروم کر دیتا ہے، تو اس صورت میں ہماری توجہ صرف شرکائے عزاداری کی گنتی پر مرکوز رہ جاتی ہے۔گویا لاکھوں کا اجتماع ہی سب سے بڑی کامیابی شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف لاکھوں کی شرکت کافی ہے؟ بلاشبہ یہ لائقِ تحسین ہے، مگر کیا ہمیں اس مسئلے کو کسی اور زاویے سے نہیں دیکھنا چاہیے؟ وہ زاویہ جہاں دن کے اختتام پر یہ سوال اٹھے کہ کتنے افراد امام حسین علیہ السلام کے اصولوں کو اپنانے اور ان کی راہ پر ثابت قدم رہنے میں کامیاب ہوئے؟
یہاں یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ جب تک عاشورا کے اجتماعات سے مختلف میدانوں جیسے انتظامی، مالی، سماجی، ادارہ جاتی اور ثقافتی میں ایسی اصلاحی توانائی جنم نہ لے جو عدل کے قیام کو تقویت دے اور ظلم و فساد کے خاتمے میں معاون ہو، اس وقت تک امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے اصل مقاصد میں سے کوئی مقصد بھی حقیقی طور پر حاصل نہیں ہوا۔ عاشورائی اجتماعات کا مقصد صرف مجالس برپا کرنا یا عزاداری کی ظاہری رسومات کو ادا کر لینا نہیں، بلکہ ان کا جوہر اس شعور کی بیداری ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے جس عظیم قربانی پیش کی، وہ دراصل عدل، انصاف اور اصلاح کے قیام کے لیے تھی
یہ بات بھی اہم ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے شعائر حج کے شعائر سے بہت مشابہ ہیں، اور قرآن نے بھی حج کے مناسک کی ادائیگی کے دوران اخلاقی اور روحانی فوائد حاصل کرنے کی تاکید کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ (الحج: 27-28)۔
اور لوگوں میں حج کے لیے اعلان کرو کہ لوگ آپ کے پاس دور دراز راستوں سے پیدل چل کر اور کمزور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں۔ تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو انہیں حاصل ہیں اور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے اس بات کو واضح کیا کہ حج کا مقصد صرف عبادات کی ادائیگی نہیں، بلکہ اس دوران روحانی، اخلاقی اور دینی فائدے حاصل کرنا بھی ہے۔ یہاں مشی کرنے والوں کا ذکر پہلے کیا گیا ہے (یَأْتُوكَ رِجَالًا) کیونکہ وہ زیادہ مشقت برداشت کرتے ہیں، اور اسی طرح ان کا درجہ زیادہ بلند ہوتا ہے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "حاجی کے لیے ہر قدم پر ستر نیکیاں ملتی ہیں، اور جو شخص پیدل حج کرتا ہے، اس کے لیے ہر قدم پر سات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے حوالے سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "جو شخص امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پیدل آتا ہے، اللہ تعالی اس کے ہر قدم کے بدلے ایک ہزار نیکیاں لکھتا ہے، ایک ہزار گناہ مٹا دیتا ہے، اور ایک ہزار درجے بلند کرتا ہے۔" (کامل الزیارات، ص 255)۔
جیسے حاجی ہر سال ہر کونے سے، سفر کی مشقتیں اور خطرات جھیلتے ہوئے، حج کی عظیم عبادت کے لیے آتے ہیں، اسی طرح اہلِ محبت بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے دور دراز علاقوں سے، ہر قسم کی دشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے پہنچتے ہیں۔ اسی حوالے سے مفسر معروف ابو الفتح الرازی نے اپنی تفسیر میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جس میں ایک شخص، جس کا نام "ابو القاسم بشر بن محمد" تھا، نے اپنی حالت کا ذکر کیا۔ وہ کہتے ہیں: "میں نے طواف کے دوران ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو بہت کمزور تھا اور اس کی پیشانی پر سفر کی تھکاوٹ کے آثار واضح نظر آ رہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا: آپ کہاں سے ہیں؟ اس نے جواب دیا: میں ایک گہری وادی سے آیا ہوں، جہاں سفر میں پانچ سال لگ گئے۔ اب میں اتنا کمزور ہو گیا ہوں کہ سفر کی مشقت اور تکالیف نے مجھے بوڑھا کر دیا۔" میں نے کہا: "واقعی یہ بہت بڑی مشقت ہے، مگر یہ اللہ کی رضا اور خالص محبت کا معاملہ ہے۔" پھر اس شخص نے کہا:
زر من هويت وإن شطت بك الدار وحال من دونه حجب وأستار
لا يمنعنك بعد من زيارته إن المحب لمن يهواه زوار
"جسے تم چاہتے ہو، اسے ضرور ملنے جاؤ، چاہے تمہارا گھر کتنا ہی دور ہو، اور اگر اس کے درمیان حجاب اور پردے بھی ہوں، تب بھی نہیں رُکو۔ تمہیں کوئی دوری، کوئی رکاوٹ نہیں روکنی چاہیے، کیونکہ سچا محبوب ہمیشہ اپنے محبوب تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔"
اسی طرح، جیسا کہ حج میں دینی، ثقافتی، اور سماجی فوائد کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے:
(لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ (الحج: 28)
تاکہ وہ ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو انہیں حاصل ہیں اور خاص دنوں میں اللہ کا نام لو
ویسے ہی امام حسین علیہ السلام کی زیارت بھی ایسی ہی منافع رکھتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ انسان ان فوائد کو سمجھ سکے اور ان کی حقیقت کو جان کر ان کے حصول کے لیے کوشش کرے۔