8 ربيع الاول 1447 هـ   1 ستمبر 2025 عيسوى 8:12 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  زیارت و گریہ سے متعلق روایات میں گناہوں کی معافی سے متعلق اشکالات
2025-08-16   237

زیارت و گریہ سے متعلق روایات میں گناہوں کی معافی سے متعلق اشکالات

سید علی العزام الحسینی

دینی اور غیر دینی حلقوں میں ایک اشکال بارہا زیرِ بحث آتا ہے جو بظاہر منطقی پہلو بھی رکھتا ہے۔ یہ اشکال ان روایات کے حوالے سے ہے جن میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت اور آپؑ پر گریہ کے بے حساب اجر و ثواب، گناہوں کی مغفرت اور جنت میں داخلے کی بشارت بیان ہوئی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسی روایات گویا گناہوں کو معمولی بنا کر پیش کرتی ہیں، شریعت کے احکام کے بارے میں بے اعتنائی کو جنم دیتی ہیں اور معاصی کے مقابلے میں عدمِ سنجیدگی پیدا کرتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گناہگار مزید دلیر ہو جاتا ہے، کبائر کو بھی ہلکا سمجھنے لگتا ہے اور برے اعمال میں جری ہو جاتا ہے۔ گویا ان روایات کا مطلب یہ لیا جائے کہ: ’’جو چاہو کرو، پھر امام حسینؑ کی زیارت یا گریہ کر لو تو سب کچھ معاف ہو جائے گا۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی محض ایک آنسو یا ایک مختصر زیارت جنت میں داخلے کی ضمانت بن سکتی ہے؟

اس اشکال کا معروضی اور علمی تجزیہ کرنے کے لیے درج ذیل چار نکات نہایت اہم ہیں:

اولاً: یہ روایات محض شیعہ مصادر تک محدود نہیں ہے بلکہ اہلِ سنت کی معتبر کتبِ احادیث میں بھی صحیح اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہیں۔جیساکہ امام احمد بن حنبلؒ (م 241ھ) نے فضائل الصحابہ میں صحیح سند کے ساتھ امام حسین علیہ السلام سے روایت نقل کی: (مَنْ دَمَعَتْ عَيْنَاهُ فِينَا دَمْعَةً، أَوْ قَطَرَتْ عَيْنَاهُ فِينَا قَطْرَةً، أَثْوَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْجَنَّةَ) و شخص ہم اہلِ بیت کے لیے ایک آنسو بہائے یا اس کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ ٹپکے، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں جگہ دے گا۔" (فضائل الصحابة ج2ص675ح1154، م الرسالة، ت: وصي الله عباس، ط: الأولى، 1403 - بيروت).

ثانياً: اس مؤقف کو اسی نوعیت کی قطعی نصوص سے رد کیا جا سکتا ہے، خواہ وہ آیاتِ قرآنی ہوں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔

(اِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ)( النساء: 48) بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس کے ماسوا جس کو چاہے معاف فرما دیتا ہے۔

اسی طرح نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے: (مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ). ( صحيح مسلم، ح273).

جو بندہ یہ کہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور پھر اسی حالت پر اس کی موت واقع ہوجائے، وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے عرض کیا: "اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے؟ آپ  نے فرمایا: "ہاں، اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے۔میں نے پھر عرض کیا: "اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے؟ آپ  نے فرمایا: "ہاں، اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے۔"آپ  نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا اور آخر میں فرمایا(عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ)خواہ یہ بات ابوذرؓ کو ناگوار گزرے۔( صحيح مسلم، ح273).

سوم: محققین کے مطابق امام حسین علیہ السلام پر گریہ، آپؑ کی زیارت اور اس نوع کے دیگر اعمال کا اثر ،  جیسے گناہوں کی معافی اور جنت میں داخلہ، سببِ اقتضائی کی حیثیت رکھتے ہیں، نہ کہ علّتِ تامہ کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان اعمال میں یہ صلاحیت اور استعداد پائی جاتی ہے کہ وہ انسان کو مغفرت اور جنت کا مستحق بنائیں، مگر یہ صلاحیت اس وقت بالفعل نتیجہ خیز ہوتی ہے جب شرائطِ لازم پوری ہوں اور موانع و رکاوٹیں مکمل طور پر زائل ہوں۔یہ تعلق اس مثال کی مانند ہے کہ ایندھن انجن کو حرکت دینے کا بنیادی عنصر ہے، یا آگ کاغذ کو جلانے کا قدرتی سبب ہے؛ تاہم اگر انجن کے دیگر پرزے موجود نہ ہوں یا کاغذ گیلا ہو تو اثر ظاہر نہیں ہو گا۔لہٰذا ان روایات کا مفہوم یہ ہے کہ گریہ یا زیارت کے ذریعے بندہ جنت اور مغفرت کا استحقاق حاصل کرتا ہے، لیکن یہ استحقاق ہر حال میں اور بلا محاسبہ جنت میں داخلے کی قطعی ضمانت نہیں بنتا۔ اس سے پہلے بندے کے اعمال کا جائزہ اور محاسبہ بہرحال لازم ہے۔

چہارم: زیارت اور گریہ سے متعلق روایات میں خود ایک شرط بھی بیان ہوئی ہے جس کے بغیر جزا مترتب نہیں ہوتی، اور وہ یہ ہے کہ زائر امام کی معرفت رکھتا ہو، یعنی "عارفاً بحقّه" ہو۔ اور یہ واضح ہونا چاہئے کہ محض ذہنی یا علمی واقفیت کافی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ عملی التزام اور عملی پیروی بھی ناگزیر ہے۔ اس کی تائید معتبر حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ ابنِ قولویہ نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

 (مَنْ زَارَ الْحُسَيْنَ (ع) عَارِفًا بِحَقِّهِ، يَأْتَمُّ بِهِ؛ غَفَرَ اللهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ۔) جو شخص امام حسینؑ کی کے حق کو پہچانتے ہوئے اور ان کی اقتداء کرتے ہوئے ان کی زیارت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے۔

روایت میں موجود جملہ يَأْتَمُّ بِهِ نہ صرف اتباع و اقتداء کی شرط کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس امر کی صراحت کرتا ہے کہ محض اعتقاد یا زیارت بذاتِ خود کافی نہیں، بلکہ امامؑ کی سیرت، تعلیمات اور عملی نمونہ زندگی کو اپنا لینا اس استحقاق کا لازمی جزو ہے۔ اس شرط (عارفاً بحقّه) کی گہرائی، اس جملے پر ایک علیحدہ سے مستقل تحقیقی مقالے میں تفصیلی بحث موجود ہے، جس کا مطالعہ اس مفہوم کی مزید وضاحت فراہم کرتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018