

| مقالات | امام حسین ؑ و حضرت عباس علمدارؑ کے روضہ ہائے مبارک کے زیر اہتمام جشن تکلیف (بلوغت) ذمہ داریوں کی پہچان و ادائیگی

امام حسین ؑ و حضرت عباس علمدارؑ کے روضہ ہائے مبارک کے زیر اہتمام جشن تکلیف (بلوغت) ذمہ داریوں کی پہچان و ادائیگی
الشيخ مقداد الربيعي
اسلام معاشرے میں بڑھتی بے راہ روی کو روکنے اور سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کے لیے ایک مکمل تربیتی نظام فراہم کرتا ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ اسلام کا اپنا سزا و جزاء کا نظام ہے جس میں حدود نافذ کی جاتی ہیں۔اسلام انسانوں کی ہدایت کے لیے جو نظام فراہم کرتا ہے اس میں نوجوان بچے اور بچیوں کو مختلف انداز میں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے مثلا بچیوں کی سن بلوغت کے ساتھ ہی شرعی ذمہ داریاں آجاتی ہے جیسے حجاب پہننا اور نامحرم مردوں کے ساتھ غیر شرعی میل جول سے اجتناب کرنا وغیرہ۔اسی طرح جب لڑکے کا عقل و شعور پختہ ہونے لگتا ہے تو وہ ذمہ دار ہوتا ہے کہ اپنی اندرونی طاقت کے ذریعے اپنی خواہشات پر قابو پائے اور خود کو شریعت کے احکامات کے مطابق ڈھالے۔
اسلام اور قدیم مذاہب میں یہ رائنج طریقہ کار ہے کہ ایک خاص عمر ہونے پر مختلف مذہبی ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔ اسے انسانی علوم (انتهروپولوجی) کی زبان میں بلوغت کی رسومات کہا جاتا ہےجو عام طور پر انسان کی زندگی کے ایک نئے مرحلے کے آغاز کی علامت ہوتی ہیں جو پچھلے مرحلے سے مختلف ہوتی ہے۔ (عبور کی رسومات از آرنولڈ فان جینپ)
ان اقدامات کے ذریعے بچہ یا بچی اپنی انفرادی اور اجتمائی زندگی میں آنے والے چیلنجز سے بہتر انداز میں نبرد آزما ہو سکتا ہے۔انسان کی زندگی میں تبدیلیاں یقینی اور ناگزیر ہوتی ہیں۔ فان جینپ کی یہی رائے ہے۔ یہ تبدیلیاں انسان کو ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں لے جاتی ہیں۔یہ بات پیش نظر رہے کہ زندگی کا ہر مرحلہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور ہر ایک کے اپنے حالات اور اقدار ہیں ۔اس کی سب سے واضح مثال یہ ہے کہ ایک فرد بچپن کی دنیا سے بلوغت کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ ان دونوں میں ہر مرحلہ کا خاص ماحول اور شرائط ہوتی ہیں۔ انسان ہر مرحلہ میں ایک خاص مدت تک زندگی کرتا ہے۔اسی لیے اس مرحلہ کے افعال و اعمال کی عادت اس کا معمول بن جاتی ہے۔یہاں ہر مرحلہ میں پیش آنے والے مسائل تقریبا سب لوگوں کے لیے ایک جیسے ہوتے ہیں۔یہ عبوری مرحلہ عارضی اور جلدی گزرنے والا ہوتا ہےجو اضطراب سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے بہت سے واقعات کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ ایک بحرانی مرحلہ ہوتا ہے جس میں فرد پہلے مرحلے کی زندگی سے جس میں وہ ایک مدت رہا ہوتا ہے نئی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔جوان آہستہ آہستہ پہلی مرحلے کی عادات و اطوار کو ترک کرتا ہے اور اس کی قدروں سے علیحدہ ہو جاتا ہے تاکہ وہ دوسرے مرحلے کی دنیا میں تشریف فرما ہو سکے۔اس تبدیلی سے وہ نئے مرحلے کی خصوصیات سے ہم آہنگ ہو پاتا ہے اور اس کی قدروں کو اپنا سکتا۔ اس اعتبار سے بچپن سے جوانی کا یہ مرحلہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو تعمیر کے لیے تخریب کا عمل ہوتا ہے۔
اسکاٹش ماہرِ بشریات وکٹر ٹرنر فان جینیپ بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ مختلف گروہوں کی طرف سے جو رسومات انجام دی جاتی ہیں وہ بچوں کے لیے اس نئے مرحلے میں پیش آنےو الے چیلنجز کو کم کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔مثلاً شادی کی تقریب ایک سماجی رسم ہے جو دلہا اور دلہن کو کنوارے پن کی دنیا سے شادی اور خاندانی ذمہ داریوں کی دنیا میں آسانی سے داخل ہونے میں مدد دیتی ہے۔یہیں سے معاشرے کے ان اداروں کا کردار سامنے آتا ہے جو افراد کی زندگی کے مختلف مراحل کی تبدیلیوں میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت امام حسینؑ کے حرم اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت عباس علمدارؑ کے حرم کی طرف سے بچوں اور بچیوں دونوں کے لیے بلوغت کی رسومات اور تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ نوجوان اور ان کے اہل خانہ اپنی نئی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھ سکیں۔یہ اس حقیقت کا شعور حاصل کریں کہ وہ اب اس ذمہ داری کے لیے تیار ہیں جو آسمانوں اور زمین نے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (72) لِيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ وَيَتُوبَ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا)، الأحزاب: 71 ـ 73
ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو ان سب نے اسے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا، انسان یقینا بڑا ظالم اور نادان ہے۔ ۷۳۔ تاکہ (نتیجے میں) اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرکہ عورتوں کو عذاب دے اور اللہ مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو معاف کرے اور اللہ بڑا بخشنے والا، رحیم ہے۔
امانت سے مراد وہ چیز ہے جو کسی کے پاس حفاظت کے لیے رکھی جائے تاکہ وہ اس کی حفاظت کرے اور پھر اُسے اس کے اصل مالک کو واپس کر دے۔ اس آیت میں جس امانت کا ذکر ہے دراصل وہ چیز ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو امین بنایا ہے۔ انسان اس امانت کی احسن انداز میں حفاظت کرے اور جس حالت میں اللہ نے اس کے سپرد کی ہے اسی حالت میں اللہ تعالیٰ کو واپس لوٹائے ۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : (لِيُعَذِّبَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ) تاکہ (نتیجے میں) اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو عذاب دے۔" سے یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ اس امانت کو اٹھانے کا نتیجہ نفاق، شرک یا ایمان کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی جو لوگ اس امانت کو اٹھاتے ہیں وہ اس کے اٹھانے کے طریقے کے اعتبار سے مختلف اقسام میں تقسیم ہو جاتے ہیں کوئی منافق بنتا ہے، کوئی مشرک اور کوئی مومن بن جاتا ہے۔(ماخوذ: تفسیر المیزان، سورہ احزاب، صفحہ 70)
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں امانت سے مراد الہی ولایت ہے اور اس کا آسمان، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا جانا اس بات کی علامت ہے کہ ان چیزوں کو اس امانت کے ساتھ تولا گیا یعنی ان کا اس کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔ جواب سے پتہ چلے گا کہ کون سے چیز اس امانت کو اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور کونسی چیز یہ صلاحیت نہیں رکھتی؟اس آیت مجید کا یہی مفہوم ہے۔زمین ،آسمان اور پہاڑ اپنی تمام تر عظمتوں کے باوجود اس امامت کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے ان کا انکار بتا رہا ہے کہ وہ یہ طاقت نہیں رکھتے اسی خوف کی وجہ سے انکار کر رہے ہیں۔(ماخذ: تفسیر المیزان، سورۃ الاحزاب، صفحہ 70)