23 ذو القعدة 1446 هـ   21 مئی 2025 عيسوى 1:15 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  ہم نے دینی عقیدے سے کیا فائدہ حاصل کیا؟
2025-03-01   162

ہم نے دینی عقیدے سے کیا فائدہ حاصل کیا؟

علي العزام الحسيني

میرے خیال میں یہ سوال اس سوال سے مختلف نہیں کہ: انسان کے انسان ہونے پر یقین رکھنے کا کیا فائدہ ہے، بجائے اسے پتھر یا کیڑے مکوڑے سمجھنے کے؟! اور اپنی بات کو ایسے انداز میں واضح کرنے کے لیے جسے ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکے، مجھے پہلے تین نکات بیان کرنے ہوں گے:

پہلا نکتہ –دین کے امور دو قسم کے ہوتے ہیں: حقائق اور اقدار۔

1۔حقائق وہ تمام امور ہیں جو حقیقت میں موجود ہیں اور جو کائنات اور دنیا کی اصل حقیقت کو بیان کرتے ہیں، جیسے: خالق کے وجود کی خبر دینا، یہ کہ وہی تخلیق کی اصل بنیاد ہے، اسی سے آغاز ہوا اور اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے، فرشتوں کا وجود، یومِ آخرت، نیکی پر جزا اور برائی پر سزا کے متعلق معلومات وغیرہ۔ ان امور کی تحقیق کا مخصوص میدان علمِ عقائد اور الٰہیات ہے۔

2۔ اقدار وہ امور ہیں جو اس بات سے متعلق ہیں کہ حقیقت میں دنیا کیسی ہونی چاہیے تاکہ انسان کی فلاح اور سعادت یقینی بنے۔ ان اقدار کا مقصد بھلائیوں اور فوائد کو فروغ دینا اور برائیوں و نقصانات سے بچانا ہے۔ ان اقدار کی وضاحت اور ترتیب کے دو بڑے شعبے ہیں: فقہ اور اخلاقیات۔ فقہ انسانی ظاہری اعمال کو احکامِ شریعت (اوامر و نواہی) کے ذریعے منظم کرتا ہے، جبکہ اخلاقیات انسان کے باطنی کردار کو سنوارتی ہے، نیکی کے اصولوں کو مضبوط کرتی ہے اور اچھے اخلاقی اوصاف پیدا کرتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ دین میں حقائق شامل ہیں، جو کہ موجودہ حقیقت کی خبر دیتے ہیں، اور اس میں تشریعی اقدار کا ایک مکمل نظام بھی پایا جاتا ہے۔ دین کی تمام تعلیمات انہی دو بنیادی اقسام میں آتی ہیں۔

دوسرا نکتہ – حقائق اور اقدار کے درمیان تعلق

اگر آپ اس جملے پر غور کریں: "بارش ہوگی، لہٰذا تمہیں چھتری لے کر جانا چاہیے"تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں دو حصے ہیں:

1۔" بارش ہوگی" یہ ایک حقیقت ہے، جو کسی موجودہ یا متوقع امر کی خبر دیتی ہے۔ یہ محض ایک بیان ہے جو کسی چیز کے وقوع کو ظاہر کرتا ہے، لیکن یہ خود کسی واقعے کو پیدا نہیں کرتا، بلکہ صرف اس کی وضاحت کرتا اور خبر دیتا ہے۔

2۔ "لہٰذا تمہیں چھتری لے کر جانا چاہیے" یہ حقیقت پر مبنی ایک قدر ہے، جو ہمیں حقیقت سے پیدا ہونے والے عملی رویے کی طرف لے جاتی ہے۔ یہاں ہم ایک موجودہ یا متوقع حقیقت (بارش) سے ایک مثالی طرزِ عمل (چھتری لینا) کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔

اسی اصول کے تحت حقائق اور اقدار کا باہمی ربط مضبوط ہوتا ہے۔ اقدار کی نوعیت اور ان کا عملی اطلاق حقیقت کے ادراک پر منحصر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص دین کو جھٹلاتا ہے، رب العالمین کے وجود کا انکار کرتا ہے، اور یومِ حساب پر یقین نہیں رکھتا، تو اس کے لیے تمام اقدار محض ذاتی منفعت پر مبنی ہوں گی۔ جیسا کہ فلسفی ڈیوڈ ہیوم کہتا ہے: "ایسا شخص پوری دنیا کو تباہ کرنے کو ترجیح دے گا، بجائے اس کے کہ خود اس کی انگلی پر خراش آئے"۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ الماعون میں دین کے انکار کو اخلاقی بدحالی سے جوڑا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:{أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ} کیا تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ (الماعون:1) اور پھر نتیجہ بیان کرتے ہیں: {فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ، وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ}.پس وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے، اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ (الماعون:2-3) یہاں واضح ہوتا ہے کہ عقیدہ نہ صرف ایک حقیقت ہے بلکہ وہ عملی زندگی کی اقدار پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہے۔

تیسرا نکتہ – دینی نصوص: خبریہ اور انشائیہ جملے

عام طور پر حقائق کو خبریہ جملوں کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے، جبکہ اقدار کو انشائیہ جملوں میں پیش کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر، حقیقت کو بیان کرنے والا یہ جملہ"آسمان سے بارش ہو رہی ہے"یہ ایک خبریہ جملہ ہے کیونکہ یہ ایک موجودہ یا متوقع حقیقت کی خبر دیتا ہے۔اسی طرح قدر کو بیان کرنے والا جملہ، "تمہیں چھتری لے کر جانا چاہیے" یہ ایک انشائیہ جملہ ہے، جو کسی عمل (چھتری لینے) کو لازمی قرار دے رہا ہے۔ پس، بنیادی طور پر حقائق کو خبریہ جملوں میں بیان کیا جاتا ہے، جبکہ اقدار کو انشائیہ عبارات کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے، جیسے کہ امر، نہی یا اس جیسی دیگر صورتوں میں۔اور ان دونوں اصناف کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ خبریہ قضایا مثلاً: "آسمان سے بارش ہو رہی ہے" کی صداقت یا عدم صداقت کی جانچ ممکن ہوتی ہے۔ اگر یہ حقیقت سے مطابقت رکھے تو اسے "درست" کہا جائے گا، اور اگر حقیقت کے خلاف ہو تو "غلط" تصور کیا جائے گا۔

اس کے برعکس، انشائیہ جملے کسی ایسی حقیقت کو بیان کرنے کے بجائے کسی عمل یا حالت کے وجود میں لانے کے لیے ہوتے ہیں۔ مثلاً، جملہ"تمہیں چھتری لانی چاہیے " کو "صحیح" یا "غلط" نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ یہ حقیقت کا اظہار نہیں بلکہ ایک مطلوبہ عمل پر زور دینے کے لیے ہے۔ اس کا مقصد حکم یا ترغیب دینا ہے، نہ کہ کسی موجودہ حقیقت کی عکاسی کرنا۔پس اہل منطق نے خبریہ جملوں کو وہ جملے قرار دیا ہے جنہیں "سچ" یا "جھوٹ" قرار دیا جا سکتا ہے، جبکہ انشائیہ جملے ان اوصاف سے خارج ہیں اور انہیں صدق و کذب سے نہیں پرکھا جا سکتا۔

مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں، عقیدۂ دینی کی افادیت پر سوال اٹھانے کا دائرہ صرف ان امور تک محدود ہوتا ہے جنہیں دین نے حقائق کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان حقائق کو اصطلاحاً"عقائدِ کبریٰ"اور"اصولِ دین"کہا جاتا ہے۔ منطقی نقطۂ نظر سے، کسی خبر کے بارے میں یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ"اس کا ماننا فائدہ مند ہے یا نہیں؟"بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ"یہ خبر سچ ہے یا نہیں؟"۔ اسی طرح، جو کچھ دین نے حقیقت کے عنوان سے پیش کیا ہے، اس کے بارے میں تحقیق کا بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ"کیا یہ واقعی حقیقت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں؟"۔ان بنیادی دینی حقائق کے اثبات اور ان پر بحث کا میدان"علمِ کلام"اور"علمِ عقیدہ"ہے، جو ان امور کی معقولیت اور حقیقت کی جانچ پر مرکوز ہوتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018