9 ذو القعدة 1446 هـ   7 مئی 2025 عيسوى 7:38 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  عبادت: انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد
2025-01-05   803

عبادت: انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد

اس دنیا میں انسان کے وجود کا فلسفہ کیا ہے؟یہ سوال زندگی کے مختلف مراحل میں انسان کے ذہن میں آتا ہے۔مادی اور عصبیت پر مبنی فلسفوں میں اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔لیکن تھوڑا سا غور و فکر کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس سوال کا جواب انسان کی فطرت اور وجدان میں موجود ہے۔اسی طرح اس کا جواب اسلام اور دیگر الہی ادیان کے فلسفہ وجود میں موجود ہے۔

انسان ایک عقلی وجود کے طور پر کائنات کی تخلیق اور اس کے نظام پر غور کرتا ہے تو اس پر ایک حیران کن حقیقت آشکار ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس عالم وجود میں موجود ہر چیز حیرت انگیز طور پرباہم مربوط اور ہم آہنگ ہے۔آسمانی موجودات، قدرتی مظاہراور جاندار یہ سب کائناتی قوانین کے مطابق ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔یہ سب ایک پیچیدہ نظام  کی عکاسی کرتے ہیں جس کا مقصد ایک اعلی ترتیب کو حاصل کرنا ہے۔ یہ بذات خود واضح ہے کہ یہ کائناتی ہم آہنگی محض اتفاقی یا بے ترتیبی تشکیل نہیں پائی ہے بلکہ یہ سب انسان کے وجود اور اس کی تخلیق کے مقصد سے متعلق ایک بنیادی سچائی کی طرف اشارہ ہے۔

انسان اس کائنات میں واحد وجود ہے جو اپنے وجود کا ادراک کر سکتا ہے اور اپنے مقصد کے بارے میں سوال اٹھا سکتا  ہے۔ یہ انسان ہی کا وجود ہے جو بڑے سوالات کے بارے میں سوچتا اور تفکر کرتا ہے جیسے: میں کہاں سے آیا ہوں؟میں یہاں کیوں ہوں؟اور میں کہاں جا رہا ہوں؟ یہ اعلی شعور انسان کو اس کائنات میں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔

کائنات بے مقصد جگہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو انسانی زندگی کے لیے ایک اعلی مقام کے طور پر بڑی کاریگری سے تخلیق کیا ہے۔ اس کائنات میں خدا کی تخلیق کردہ ہر چیز انسان کی خدمت  پر مامور ہے اور اسے اپنے کمال تک پہنچنے کے لیے ضروری وسائل  اور حالات مہیا کرتی ہے۔ خدا نے انسان کے لیے ہر وہ چیز بنائی ہے جس کی اسے زندگی کے مختلف پہلوؤں میں کمال حاصل کرنے کے لیے  ضرورت ہے: چاہےاس کا اپنے اور دوسرے کے ساتھ تعلق ہو،اس کی عقلی صلاحیتیں ہوں اور اس کی روح ہو جو اس محدود عالم مادہ سے بہت پرے ہوتی ہے۔

انسان کائنات کا مرکز و محور 

انسان اس کائنات کا صرف ایک حصہ ہی  نہیں ہےبلکہ یہ اس کا مرکز اور کا ئنات کا محور ہے۔ یہ کائنات خود اپنے لیے نہیں ہے بلکہ یہ کائنات انسان کی خدمت کے لیے مسخر کی گئی ہے۔یہ زندگی ایک بڑی  نعمت ہے جس میں انسان اس کائنات کی مسئولیت کو اٹھاتا ہے جسے اللہ نے انسان کے لیے مسخر کر دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی پیش نظر رہے کہ انسان کیسے اس کے وجود سے غافل ہو سکتا ہے جب  سب دلائل کی بازگشت اسی طرف ہے انسان ہی اس کائنات کا مرکزی اور اعلی کردار ہے؟

انسان اپنی عقل سلیم کے ذریعے جن نتائج تک پہنچتا ہے قرآن بھی اس سے متفق ہے اور اسی کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ یہ کائنات انسان کے لیے مسخر کی گئی ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:  (اَلَمۡ تَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ اَسۡبَغَ عَلَیۡکُمۡ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّ بَاطِنَۃً ؕ وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ لَا ہُدًی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِیۡرٍ) (لقمان: 20)

" کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں کامل کر دی ہیں اور (اس کے باوجود) کچھ لوگ اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس نہ علم ہے اور نہ ہدایت اور نہ کوئی روشن کتاب" یہ تسخیر کائنات اتفاقی نہیں ہےبلکہ اسی سے انسان کی زندگی  آگے بڑھتی ہے اور اسی کے ذریعے انسان اس کائنات سے استفادہ کرتا ہے۔اگر یہ تسخیر نہ ہوتی تو انسان ہر طرح کی ترقی اور تکامل سے محروم رہ جاتا۔انسان کی زندگی محال ہو جاتی جبکہ وہ اس دنیا میں موجود نظام کی وجہ سے پیدا ہونے والے ماحول کی وجہ سے زندگی گزار پاتا ہے۔

یہاں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تخلیق کا مرکزی  مقصد انسان ہے اور وہی ہے جو اپنے فکر و شعور سے وجود کے مقصد کو دیکھ سکتا ہے۔ کائنات اپنا معنی انسان کے ذریعے حاصل کرتی ہے جو اس کی دوبارہ تشریح کرتا ہے اور اس کے اندر موجود حکمت کو تلاش کرتا ہے۔

عبادت اور انسان کی ترقی

انسان، اپنے وجود کو جاننے کی کوشش کی وجہ سے کہ اس کی تخلیق کیوں ہوئی ہے؟ تکامل اور ترقی کی جستجو کر  رہا ہے۔ جب انسان کائنات میں اپنے آپ اور دنیا  پر غور کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلسل بہتری اور ترقی کے لیے کوشاں ہے، خواہ وہ سائنس ہو، اخلاقیات ہو  یا تہذیب ہو۔ یہ سفر رکا نہیں ہے کیونکہ انسان کمال کی آرزو رکھتا ہے اور خود کو بہتر کرنے کے لیے مسلسل کوشش کررہا ہے۔

جمودشکست تسلیم کرلینا اور کوشش چھوڑ دینا وہ تصورات ہیں جو تخلیق اور وجود کے فلسفے سے متصادم ہیں۔ صلاحیتوں کے ہوتے ہوئے ساکت کھڑے رہنا اور حرکت نہ کرنا فطرت سے انحراف کا پتہ دیتا ہے کیونکہ فطرتا انسان تمام کمالات کی خواہش رکھتا ہے۔ اس تناظر میں اسلام کا پیغام اس بات کی تصدیق کے لیے آیا کہ انسان اپنی فطرت کے مطابق  کیا کچھ محسوس کرتا ہے اور اس کا ذہن کس طرف رہنمائی کرتا ہے؟ تاکہ  زندگی کے تمام میدانوں میں ترقی کرے۔مذہب ہر انسان کو ہر وقت مخاطب قرار دیتے ہوئے کمال کے حصول کی دعوت دیتا ہے۔اس نقطہ نظر سے عبادت اور اطاعت کو اس اعلیٰ ترین مقصد کے حصول کا ذریعہ سمجھنا چاہیےنہ کہ ایسی پابندیاں جو انسان کو محدود کرتی ہوں یا اس کی فطرت کے خلاف ہوں۔

اسلام انسان کو ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے، یہ انسان کو اپنی صلاحیتوں کو روکنے کرنے یا اپنی مسائل کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لیے نہیں کہتا بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ مقاصد کے حصول کے لیے اپنی صلاحیتوں کو لگانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسلام میں عبادات صرف ایک رسم نہیں ہےبلکہ انسانی تکامل کی دعوت ہےجو عقل اور واقع  کے درمیان توازن حاصل کرنے کی دعوت ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ) (الأنفال: 24) اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور یہ بھی کہ تم سب اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔

یہ آیت اسلامی پیغام کا نچوڑ ہے، ترقی اور تکامل کی تعلیم  کی  حقیقی دعوت دیتی ہے۔یہ روحانی اور مادی ترقی کے حصول کا حکم دیتی ہے۔ بھلائی اور نیکی کے دروازے کھولتی ہے۔اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کا مطلب یہ ہے کہ انسان مسلسل کمال کی طرف سفر کرے اور آگے بڑھتا جائے اس کی امیدیں بھی بڑھتی جائیں۔

عبادت مقصدتخلیقِ انسان

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ) (الذاريات: 56) اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

یہ انسان کے وجود کے فلسفہ  کو بیان کرتی ہے۔عبادت انسان کے ترقی کے سفر میں کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے بلکہ یہ اس سفر کا اصل محور اور مرکز ہے۔یہ وہ فریم ورک ہے جو انسانی امنگوں میں روشنی بھرتا ہے اور اس کی کوششوں کو منظم کرتا ہے تاکہ وہ بے ترتیب یا بے معنی نہ ہو جائیں۔

اس تناظر میں عبادت کا مطلب یہ ہے کہ انسان  اپنی پوری مادی اور روحانی توانائیاں اعلیٰ ترین مقصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے۔اس سےخدا کا قرب حاصل کرنا اور کمال کی طرف بڑھنا مقصود ہے۔ جیسا قرآن رہنمائی کرتا ہے کہ  عبادت اصل میں  انسانی فطرت اور مقاصد کے مطابق ہے۔ یہ کسی شخص کی آزادی پر پابندی نہیں ہےبلکہ ہر اس چیز سے حقیقی آزادی کا  دروازہ  ہے جو روحانی اور مادی ترقی  میں رکاوٹ ہے۔

دراصل عبادت کچھ لینے کا نام نہیں ہے کہ کچھ چھین لیا جائے اللہ تعالی بے نیاز ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (هَا أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ ۖ وَمَنْ يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ ۚ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ ۚ وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ) (محمد: 38)

آگاہ رہو! تم ہی وہ لوگ ہو جنہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو تم میں سے بعض بخل کرتے ہیں اور جو بخل کرتا ہے تو وہ خود اپنے آپ سے بخل کرتا ہے اور اللہ تو بے نیاز ہے اور محتاج تم ہی ہو اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو اللہ تمہارے بدلے اور لوگوں کو لے آئے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔

اللہ تعالی  کو انسان کی عبادت سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اس کا فائدہ اسی عبادت گزار کی طرف پلٹ جاتا ہے۔عبادت انسان کا خالق سے رابطہ ہے ،اس  کے خالق کے ساتھ  تعلق کی طاقت و کمال کا بتاتا ہے۔ انسان کی طرف سے دیکھا جائے تو عبادت اس پر زبردستی لاگو  نہیں کی  گئی تھی بلکہ اسے ایک ذمہ داری کے طور پر  فرض کیا گیا تھا جو انسان  کو عروج اور کمال کی طرف  لے جاتی ہے۔ یہاں آزادی صرف پابندیوں سے آزادی نہیں ہے بلکہ انسانیت اور وجود میں اپنے کردار کے تئیں عزم اور ذمہ داری ہے۔ ساری کائنات اس کے تابع ہےاور انسان کو اس امانت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: (إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا) (الأحزاب: 72)

ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو ان سب نے اسے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا، انسان یقینا بڑا ظالم اور نادان ہے۔

یہ عظیم ذمہ داری تخلیق میں انسان کی مرکزی  حیثیت کو ظاہر کرتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس ذمہ داری  کا خاص مقصد ہے. اس تناظر میں عبادت کوئی سزا یا جبر نہیں ہےبلکہ انسان کی قدر و منزلت کو بڑھانے اور عظیم ترین مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: "وما خلقهم ليجلب منهم منفعةً ولا ليدفع بهم مضرة، بل خلقهم لينفعهم ويوصلهم إلى نعيم الأبد"

انہیں اس لیے خلق نہیں فرمایا کہ ان سے کوئی فائدہ اٹھائے اور نہ اس لیے کہ ان  کے ذریعے کسی  نقصان کو  دور کرے۔بلکہ انہیں اس لیے خلق کیا گیا کہ انہیں فائدہ پہنچائے اور انہیں ہمیشہ کی نعمتوں تک پہنچا دے۔

اس طرح عبادت خدا سے رابطے کا نام ہے،یہ انسانی کمال کا سفر ہے اور یہ ہمیشہ اخلاقی اور روحانی تکامل کی طرف لے جاتا ہے۔یہ انسانی زندگی  کا محور ہے جس میں انسان کا خالق اور اردگرد موجودات سے تعلق بنتا ہے۔یہ ایک ایسی دعوت ہے جو انسان کو مادی وجود سے بلند کر کے ایک عظیم پیغام لے جانے والی ہستی کی طرف لے جاتی ہے، جو روح اور جسم کی ضروریات کے درمیان  تعلق پیدا کرکے اس میں  تکامل پیدا کرتی ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018