| مقالات | اسلامی نظریہ آزادی اور حیاتیاتی جبر کا تقابلی جائزہ
اسلامی نظریہ آزادی اور حیاتیاتی جبر کا تقابلی جائزہ
الشيخ معتصم السيد أحمد:
آزادی ان بنیادی انسانی اقدار میں سے ایک ہے جس نے ہر دور میں مفکرین کو غور و فکر پر مشغول رکھاہے، چاہے وہ فلسفہ ہو، مذہب ہو یا سیاست، آزادی کا مسئلہ بہت سی فکری مباحث کی بنیاد بنا ہے۔ آزادی کے مفہوم اور حدود کے بارے میں آراء بہت مختلف ہیں۔ اس تناظر میں آزادی کے اسلامی تصور اور جدید مادیت پسند فلسفوں کے پیش کردہ تصورات کے مابین بنیادی فرق کو اجاگر کرنے پر خاصا کام ہوا ہے۔ اسلامی فکر آزادی کو روحانی اور اخلاقی بنیادوں پر استوار کرتی ہے، جو مادیت پرستی کی محدود دنیاوی سوچ سے ماورا ہے، جبکہ مادیت پسند فلسفے انسان کو محض ایک حیاتیاتی وجود کے طور پر دیکھتے ہیں، جو فطری قوانین کے تابع ہے ۔
اسلام میں آزادی کو ایک عظیم اور بنیادی قدر سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ مطلق آزادی یا شتر بے مہار آزدی نہیں ہے۔ اگرچہ اسلام اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ انسان میں انتخاب کرنے کی صلاحیت موجود ہے، مگر اس صلاحیت کا مقصد یہ ہے کہ انسان اسے ایسے راستے پر استعمال کرے جو اس کی روحانی اور اخلاقی ترقی کا ذریعہ بنے۔ دوسرے لفظوں میں، ایک شخص اچھے اور برے میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکتا ہے۔ نتیجے کے طور پر وہ اپنے انتخاب کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ انسان جو چاہے بغیر پابندی کے سب کچھ نہیں کر سکتا، کیونکہ اگر وہ صراط مستقیم سے ہٹ جائے تو اسے اپنی پسند کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
جب کوئی شخص انتخاب کرتا ہے، تو وہ صرف اپنی خواہشات کو پورا کرنے والا نہیں ہوتا، بلکہ وہ خود کو اس راستے کی طرف لے جانے کا ذمہ دار ہوتا ہے جو اسے دنیا اور آخرت میں فائدہ دیتاہے۔ یہ تصور روایتی مغربی تصورات سے مختلف ہے جو آزادی کو بنیادی طور پر سماجی یا سیاسی پابندیوں سے جوڑتے ہیں۔
جب کوئی شخص انتخاب کرتا ہے، تو وہ صرف اپنی خواہشات کو پورا کرنے والے وجود کی حیثیت سے نہیں ہوتا، بلکہ اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کو اس طرف لے جائے جس سے خدا راضی ہو اور اس کو دنیا اور آخرت میں فائدہ ہو۔ یہ تصور روایتی مغربی تصورات سے مختلف ہے جو آزادی کو بنیادی طور پر سماجی یا سیاسی پابندیوں سے آزادی سے جوڑتے ہیں۔
لہذا، ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں آزادی کا تصور خدا اور انسانی معاشرے پر حکمران اقدار کے ساتھ فرد کی ذمہ داریوں کا نام ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ(سورہ طور ۲۱)
اور جو لوگ ایمان لے آئے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ان کی اولاد کو (جنت میں) ہم ان سے ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے ہم کچھ بھی کم نہیں کریں گے، ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہے۔
انسان اپنی مرضی سے جو چیز منتخب کرتا ہے وہی اس کی دنیا اور آخرت میں قسمت کا تعین کرتی ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ ۚ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا (الکہف ۲۹)
اور کہدیجئے: حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، ہم نے ظالموں کے لیے یقینا ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیرے میں لے رہی ہوں گی اور اگر وہ فریاد کریں تو ایسے پانی سے ان کی دادرسی ہو گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا بدترین مشروب اور بدترین ٹھکانا ہے۔
اسلامی فکر کے تصور آزادی میں دوسروں کے ساتھ منصفانہ انداز میں مکالمہ کرنا بھی شامل ہے، یعنی فرد کی آزادی دوسروں کی آزادی سے متصادم نہیں ہے۔ اس تناظر میں، ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کسی بھی قسم کی ناانصافی یا ظلم کو درست نہیں سمجھتا کیونکہ آزادی صرف اس صورت میں درست وصحیح ہے جب وہ معاشرے کے مفادات کے مطابق ہو، اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق طے شدہ اخلاقی اصولوں سے مطابقت رکھتی ہو،ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ(المائدہ ۸)
اے ایمان والو! اللہ کے لیے بھرپور قیام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہاری بے انصافی کا سبب نہ بنے، (ہر حال میں) عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔
اسلامی تصور آزادی انسان کو روح اور جسم کے مشترکہ وجود کے طور پر دیکھتا ہے اور خود مختار ارادے اور عقل کے ساتھ انتخاب کرنے کا حامل گردانتا ہے ۔اس سے انسان اقدار اور اخلاقیات کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس اسلامی تصور آزادی کے برعکس جدید مادیت پسند فلسفے میں انسان کو خالص مادی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ ان فلسفوں کے مطابق انسان کا ہر طرز عمل یا فیصلہ محض دماغ میں جسمانی اور کیمیائی عمل کا ردعمل ہوتا ہے، جو قوانین فطرت اور وراثت کے تابع ہوتے ہیں۔ اس طرح انسان محض ایک حیاتیاتی مشین بن کر رہ جاتاہے جو ناقابل تغیر جسمانی تعامل کی حدود میں کام کرتا ہے۔جو کہ "آزادی" یا "آزاد مرضی" کے تصور کو محض عصبی تعاملات اور ماحولیاتی حالات کے نتیجے میں ایک وہم بنا دیتا ہے، اور اس کی روحانی یا اخلاقی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
اس مسئلے کو حل کرنے والے ممتاز فلسفیوں میں سے ایک سیم ہیرس ہیں، جنہوں نے "فری ول" کے عنوان سے ایک خصوصی کتاب لکھی جس میں ہیرس نے وضاحت کی ہے کہ خواہش کی جو آزادی انسان محسوس کرتا ہے وہ دراصل دماغ میں کیمیائی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور یہ کہ کوئی بھی شخص اس حیاتیاتی عمل کے بارے میں آزادانہ طور پر اپنے اعمال کا تعین کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا وہ آزادیاں جو ایک شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس ہیں وہ مادی تعاملات کے ایک پیچیدہ نظام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ایک (وہم) کے سوا کچھ نہیں ہیں جس سے وہ کسی صورت بچ نہیں سکتا۔
اس کے مطابق، مادیت پرستی وجود کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے یہ انسان کو اپنی حدود میں محدود کرتی رہتی ہے کیونکہ وہ اس کا ایک حصہ ہے جس سے وہ بچ نہیں سکتا۔ واحد راستہ جو انسان کو مادے کی گرفت سے نجات کا راستہ کھولتا ہے وہ خدا ہے ۔جس نے انسان کو قوت ارادی، عقل اور علم کیا ہے اور اس کا رتبہ تمام مخلوقات سے بلند کیا۔ رہی بات جو لوگ اس منطق کو رد کرتے ہیں اور اس فہم سے ہٹ جاتے ہیں، ان کے لیے آخر میں کہیں نا کہیں پھنس ہی جاتے ہیں۔ الحاد کے علمبردار آزادی کے نعرے کے تحت اس سچائی کو چھپانے کی کتنی ہی کوشش کریں، اس میں انہیں کامیابی نہیں ملے گی وہ جتنا مرضی چلا لیں شور سے سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا۔
آزادی کے تصور کے حوالے سے اسلامی فکر اور مادیت پسند فلسفے کے درمیان بنیادی فرق ان فلسفیانہ بنیادوں کی وجہ سے ہے جن پر اسلامی فکر آزادی کے بارے میں ایک جامع اور مربوط نظریہ اختیار کرتی ہےجہاں آزادی کا تعلق رضائے الٰہی سے ہے۔ انسان جو چاہتا ہے وہ بغیر کسی پابندی یا شرط کے کرتا ہے، مگر وہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے نافذ کردہ اصولوں کے مطابق ہوتا ہےاور اس تناظر میں آزادی کو ایک اخلاقی اور روحانی امتحان سمجھا جاتا ہے جو انسان کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔ انصاف اور نیکی کے حصول کے لیےانسان اپنی مرضی اور آزدی سے درست راستہ اختیار کرتا ہے۔
جہاں تک مادیت پسند فلسفوں کا تعلق ہے، وہ آزادی کو محض ایک حیاتیاتی مسئلہ سمجھتے ہیں، جس کا تعلق دماغ میں جسمانی اور حیاتیاتی تعاملات کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے ہے۔ خالص مادیت پسندانہ نقطہ نظر سے انسان کو فقط جسمانی وجود سمجھا جاتا ہے۔ فطرت، اور اس کی حرکات اور انسانی فیصلوں میں کسی بھی روحانی یا اخلاقی امکان کو مسترد کر دیا جاتاہے۔ اس تناظر میں مادیت پسند فلسفی اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ جسے آزادی کہا جاتا ہے وہ دراصل انتخاب کا ایک غلط احساس ہے، جو حیاتیاتی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ایک شخص یہ یقین کر سکتا ہے کہ اس انتخاب کا تعلق اس کی مرضی سے ہے۔ درحقیقت یہ مخصوص مادی عوامل کے زیر انتظام ہو رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا مادیت پسند فلسفوں میں آزادی دماغ اور اعصابی نظام میں میکانکی تعاملات کے پیچیدہ عمل کی نفسیاتی نمائندگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ان دونوں تصورات کے درمیان فیصلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک مکمل طور پر مختلف فکری راستے کی عکاسی کرتا ہے جو کہ آزادی کی مادی جہت سے آگے نکل کر اسے اپنے خالق کے ساتھ جوڑتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر ایک گہری اخلاقی اور روحانی جہت کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ آزادی کو نہ صرف اس دنیا میں موجود متبادل کے درمیان انتخاب کرنے کی صلاحیت کے طور پر دیکھاہے بلکہ خدا کے سامنے ایک ذمہ داری کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے، جس میں مذہبی اور سماجی اقدار سے وابستگی کی ضرورت ہوتی ہے جیسے انصاف اور رحم۔
اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی فکر آزادی کا ایک ایسا تصور پیش کرتی ہے جو مادّہ کی تابعداری سے بالاتر ہے، کیونکہ یہ انسان کو روحانی اور مادی کمالات کی طرف لے جانے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔یہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر مشتمل ہے: اسلام میں ایک شخص اس وقت آزاد تصور کیا جاتا ہے جب وہ اس کو مرضی سے اختیار کرتا ہے جو الہی رہنمائی کے راستے کی طرف لے جاتا ہے۔
مادیت پسند فلسفوں میں، جو فطری یا حیاتیاتی نقطہ نظر کو اپناتے ہیں، آزادی کے تصور کو محض ماحولیاتی اور حیاتیاتی عوامل کی اطاعت تک محدود کر دیتے ہیں۔ یہ آزادی کی کسی اخلاقی یا روحانی جہت کے انکار کا باعث بنتا ہے۔ مادیت پسند فلسفیوں کے لیے آزادی انتخاب کے ایک سیٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے جو انتخاب فرد اپنے ماحولیاتی حالات اور دماغ میں حیاتیاتی تعاملات کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اس تناظر میں آزادی ناگزیر قوانین کے تحت چلتی ہے جو مکمل طور پر انسان پر حکومت کرتے ہیں، خواہ جینیات کے ذریعے ہو یا اس کے ارد گرد کے ماحول کے ذریعے ہو۔
دونوں تصورات کے درمیان یہ فرق ہر ایک میں آزادی کے معنی کے بارے میں بہت سے بنیادی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا کسی شخص کو حقیقی طور پر آزاد تصور کیا جا سکتا ہے؟ بالخصوص اس صورت میں جب اس کے تمام اختیارات حیاتیاتی یا ماحولیاتی قوتوں کے زیر کنٹرول ہوں؟ اگر انسان محض حیاتیاتی اور ماحولیاتی تعاملات کی پیداوار ہے تو کیا اس کے پاس حقیقی آزادی ہے، یا وہ آزادی ہے جو وہ اپنے او پر حکومت کرنے والے حالات کا مطالعہ نہ کرنے کے نتیجے میں ایک وہم کے نتیجے میں محسوس کرتا ہے؟ کیا کوئی شخص آزاد رہ سکتا ہے اگر وہ حیاتیاتی ڈھانچے تک محدود ہو جو اس کے سوچنے کے انداز اور اس کے رویوں کا تعین کرتا ہو ؟
دوسری طرف اسلامی فکر میں یہ سوال آتا ہے کہ کیا اس معاملے میں کوئی شخص واقعی آزادی کا تصور کر سکتا سکتا ہے؟ کیا یہ تصور جدید دور میں شخصی آزادی کے تصور سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے جو مذہبی یا اخلاقی پابندیوں سے آزادی کا مطالبہ کرتا ہے؟
اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی فکر میں آزادی ذمہ دارانہ بیداری کی اعلیٰ سطح کی عکاسی کرتی ہے۔ اسلام میں انسان صرف ایک حیاتیاتی وجود نہیں ہے جو فطری قوانین تک محدود ہے بلکہ ایک روحانی اور اخلاقی طور پر بیدار ہستی ہےجس میں خواہش کی آزادی ہے جس کا استعمال ایسے بلند مقاصد کے لیے کیا جانا چاہیے جو انفرادی سطح سے بالاتر ہوں۔ اس تناظر میں سوال یہ بنتا ہے کہ کیا انسان واقعی آزاد ہے؟ اس کی نوعیت بہت گہری ہےجو انسان کے جوہر اور اس کے وجود کے مقصد سے متعلق ہے نہ محض ذاتی فیصلے کرنے کی صلاحیت تک محدود ہے۔ اسلام میں آزادی ایک سماجی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے، کیونکہ انسانی انتخاب کا اندازہ اس انصاف اور توازن کے مطابق کیا جاتا ہے جو وہ معاشرے میں ہوتا ہے۔
مادیت پسند فلسفوں میں آزادی کو ایک سطح پر محدود کر دیا جاتا ہے جو کسی شخص کے انتخاب کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے لیکن یہ انتخاب حقیقی نہیں ہے کیونکہ ہر عمل سابقہ حالات کا نتیجہ ہے جس سے بچنا ممکن نہیں۔ لہٰذا، مادیت پسندانہ سوچ میں آزادی ایک مسئلہ بن جاتی ہے جو ماحولیاتی اور ذاتی انتخاب کی حدود سے تجاوز نہیں کرتی جسے فرد اپنے لیے موجود سمجھ سکتا ہے۔
آخر میں، آزادی کے اسلامی تصور اور مادیت پسند فلسفوں کا موازنہ کرتے ہوئے، ہم واضح طور پر ان میں سے ہر ایک کی انسانی قدر کی تفہیم میں بنیادی فرق محسوس کرتے ہیں۔اسلام آزادی کو خدا کی طرف سے ایک تحفہ کے طور پر دیکھتا ہے، جو اپنے اور معاشرے کے لیے مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری سے منسلک ہے۔مادہ پرست فلسفے آزادی کو محدود حیاتیاتی اور ماحولیاتی تصورات تک محدود کرتے ہیں۔ یہ موازنہ انسانی آزادی کی نوعیت کے بارے میں گہرے فلسفیانہ سوالات کے دروازے کھولتا ہےاور اسے اخلاقی اور روحانی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے جو مادی حدود سے باہر ہے۔