| مقالات | روح اور غیب پر ایمان: انسان کی باطنی شعور اور الحاد کی مشکلات، ایک تجزیہ
روح اور غیب پر ایمان: انسان کی باطنی شعور اور الحاد کی مشکلات، ایک تجزیہ
الحاد نے خود کو انسان کا حلیف ظاہر کرنے کی کوشش کی، کہ یہ اس کے حقوق اور مسائل کا محافظ ہے، اور گویا کہ یہ انسان کو ایسے خوف اور وہم کی زنجیروں سے آزاد کرنے کا علمبردار ہے، جو انسان کو خرافات اور جہالت کے شکنجے میں جکڑتی ہیں۔
اس تناظر میں، الحاد کو علم کی وہ روشنی سمجھا جانے لگا ہے جو انسانیت پر ایک نئے نور کے ساتھ طلوع ہوتی ہے۔ اس گمان کے مطابق، انسان الحاد کے بغیر نہیں رہ سکتا، کیونکہ یہ جہالت کے خلاف علم، خرافات کے خلاف حقیقت، غلامی کے خلاف آزادی، اور پسماندگی کے خلاف ترقی کا علمبردار ہے۔ اس طرح الحاد کو علم کی بشارت اور انسان کی اپنی ذات کے لیے ایک نبوّت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ الحاد اپنے لیے یہ خوشنما تصویر اور گمان کیسے تخلیق کرتا ہے؟ اور یہ بھلاتصور کیسے پیش کیا جا سکتا ہے کہ خدا کے انکار میں انسان کی نجات کا راز مضمر ہے؟ کیا مادہ اور قدرتی انتخاب کا قانون کوئی ایسی روشنی ہے جو تاریکی کو ختم کر سکتی ہے؟
یہ بات طے ہے کہ علم، آزادی، ترقی، اور انسانیت جیسی اقدار تمام اختلافات اور مباحثوں سے بالاتر ہیں، لیکن ان کی بنیاد کھوکھلے دعووں یا محض نعروں پر نہیں رکھی جا سکتی۔ الحاد)جو انسان کے نام پر دنیا میں شور برپا کیے ہوئے ہے( کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس کی جڑیں واقعی انسان کی حقیقت سے وابستہ ہیں؟۔ دوسرے الفاظ میں، الحاد کو بطور فلسفہ اور کائنات وہ وجود کے نظریے کے، انسانی قدر کے ساتھ ایسا گہرا تعلق ثابت کرنا ہوگا کہ انسان کی قدر کا تصور الحاد کے بغیر ممکن نہ ہو۔ اسی بنیاد پر الحاد فلسفیانہ آزمائش کو عبور کرے گا اور اپنی قابلیت کو اس بزاویہ نگاہ سےثابت کرے گا کہ وہ ہمارے تاریخی دور(عصرِحاظر) کا عنوان بن سکتا ہے۔ چنانچہ محض نعرے، پروپیگنڈے اور تشہیری مہم اور اہم حقائق کو ثابت کرنے کے لیے کھوکھلے دعوے کافی نہیں ہیں۔
اسی تناظر میں یہاں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ان اقدار اور الحاد کے درمیان تعلق کو واضح طور پر بیان کیا جائے۔ اسی طرح، دین اور الحاد کے درمیان موازنہ ان دونوں کے فلسفیانہ تصورات اور انسانی اقدار کے ساتھ ان کے ناگزیر اور لازمی تعلق کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے، جن کا ہر ایک دفاع کرتا ہے۔
الحاد کا نظریہ،) اپنی بہترین صورت میں( انسانی وجود کے بارے میں ایک قدیم اصول سے ماخوذ ہے جو لاکھوں سال پرانا ہے۔ اس کے مطابق زندگی کا آغاز ایک واحد خلیے سے ہوا، جو ٹھہرے ہوئے اور ساکت پانی کے ماحول میں وجود میں آیا۔
انسانی وجود سے متعلق یہ نقطہ نظر ایک قدیم اصول سے جڑا ہوا ہے جو کروڑوں سال پرانا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، زندگی کا آغاز ایک ایسے واحد خلیہ سے ہوا جو کسی باسی آبی ماحول میں وجود میں آیا۔ ان کے مطابق، زندگی مخصوص حالات میں کیمیائی تعاملات کے نتیجے میں حادثاتی طور پر شروع ہوئی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ارتقائی مراحل سے گزرتی گئی۔لیکن یہاں ایک ایسا بنیادی سوال اٹھتا ہے جو اکثر ذہنوں کو الجھن میں ڈال دیتا ہے: کہ کیسے ایک بے جان مادہ زندگی پیدا کر سکتا ہے؟ اور کیسے ایک غیر جاندار عنصر، جو محض ایٹموں اور مالیکیولوں کا مجموعہ ہے، ایک ایسے جاندار میں بدل سکتا ہے جو شعور اور ادراک رکھتا ہو؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کےاطمینان بخش جواب کے بغیر الحاد کی بنیاد کو مضبوط نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ زندگی اور شعور کی حقیقت ان ہی سوالات کے گرد گھومتی ہے۔
یہ بنیادی سوالات الحاد کے لیے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، اور وہ اس بارے میں کوئی واضح اور تسلی بخش جواب فراہم نہیں کرتا کہ بے جان مادے سے زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔ الحاد ان فلسفیانہ اور سائنسی سوالات کی گہرائی میں جانے سے گریز کرتا ہے، جو اس بات سے متعلق ہیں کہ مادہ کیسے ایک جاندار میں تبدیل ہوا جو شعور اور احساس رکھتا ہو۔
اگرچہ زندگی مختلف ارتقائی مراحل سے گزری ہے، لیکن یہ ایک سوال اب بھی جواب طلب ہےکہ، وہ کونسی قوت تھی جس نے ابتدائی خلیوں کو، جو محض کیمیائی مرکبات تھے، اس قابل بنایا کہ وہ پیچیدہ خصوصیات جیسے تفکر اور احساسات کے حامل جانداروں میں تبدیل ہو سکیں؟
یہ وہ چیلنج ہے جو مادی پرست اور الحاد کو مسلسل درپیش ہے، کیونکہ زندگی کے آغاز اور شعور کی پیدائش کے پیچیدہ سوالات اس مادی نظریے کے بنیادی دعووں پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں۔
الحاد کے مطابق، انسانی ارتقا کا آغاز ممالیہ (ثدییات) سے ہوا، جو واحد خلیے کے بعد انسان کے درمیانی اجداد تصور کیے جاتے ہیں۔ ان ممالیہ جانداروں میں ایک مخصوص مرحلہ آیا جہاں انسان اور بندر کا مشترکہ نسب سامنے آیا۔ اس کے بعد دونوں نے اپنے الگ الگ ارتقائی راستے اختیار کیے، یہاں تک کہ موجودہ انسان وجود میں آیا، جبکہ بندر اپنی ابتدائی حالت میں جنگلات میں باقی رہا۔
اس ارتقائی تبدیلی کو صرف ایک قانون کے ذریعے سمجھایا جاتا ہے، یہ ارتقائی تبدیلی صرف اس ایک قانون کے زیر اثر تھی: "سب سے موزوں کا بقا" یا "قدرتی انتخاب"۔
یہاں ہمارا مقصد اس نظریے کی صحت یا غلطی پر بحث کرنا نہیں ہے، کیونکہ یہ میدان بنیادی طور پر حیاتیات کے ماہرین اور سائنس دانوں کا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ الحاد ہمیں اسی بحث میں الجھانے کی کوشش کرتا ہے، جہاں وہ مکالمے کو ایک پیچیدہ سائنسی گفتگو کی طرف موڑ دیتا ہے، جو درحقیقت وجود اور زندگی کی علت کے بنیادی سوال سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔
فلسفی انتھونی فلو نے اپنی کتاب "There is a God" (یہاں ایک خدا ہے) میں اس حقیقت کو بہترین انداز میں واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:"2004 میں میں نے کہا تھا کہ زندگی کی ابتدا کو صرف مادے کی بنیاد پر بیان کرنا ممکن نہیں تب ناقدین نے ؛طنزیہ انداز میں جواب دیا تھا کہ میں نے سائنسی جریدوں کے مضامین کبھی نہیں پڑھے یا زندگی کے خودکار وجود کے بارے میں جدید سائنسی ترقیات کو نہیں دیکھا۔ چنانچہ وہ میرے اصل مقصد کو سمجھنے میں ناکام رہے۔کہ میرا فوکس کسی خاص کیمیائی یا جینیاتی حقیقت پر نہیں تھا بلکہ اس بنیادی سوال پر تھا کہ کسی چیز کے زندہ ہونے کا مطلب کیا ہے، اور یہ سوال کیمیائی و جینیاتی حقائق کے مجموعی تناظر سے کیسے جڑا ہوا ہے۔ جب آپ اس سطح پر غور کرتے ہیں، تو آپ ایک فلسفی کی طرح سوچتے ہیں۔"
اگر ہم ارتقائی نظریے کی صحت کو تسلیم کر لیں اور یہ مان لیں کہ انسان فطرت کی پیداوار ہے، جو لاکھوں سالوں پر محیط کیمیائی اور طبعی تعاملات کا نتیجہ ہے، تو یہ نظریہ انسانی وجود کے مادی اور طبعی پہلو کو معقول حد تک بیان کر سکتا ہے۔ یہ نظریہ وضاحت کر سکتا ہے کہ انسانی جسمانی خصوصیات کیسے تشکیل پائیں، حیاتیاتی افعال کس طرح عمل پذیر ہوئے، اور رویوں کے نمونے وقت کے ساتھ کیسے ترقی کرتے رہے۔لیکن یہاں ایک بڑا خلا باقی رہتا ہے، اور وہ یہ کہ ارتقائی نظریہ انسان کے معنی اور مقصد کو بیان کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔
روحانی پہلو محض انسان کے مادی وجود سے متعلق نہیں، بلکہ اس کا تعلق شعور، ادراک، فہم، اور معانی سے ہے۔ یہ مظاہر صرف حیاتیاتی یا کیمیائی وضاحت کے دائرے میں نہیں آتے۔ انسان نہ صرف اپنے وجود کا احساس کرتا ہے، بلکہ وہ خود سے کائنات، اپنی ذات، اور دوسروں کے ساتھ ایک گہرےاور پیچیدہ تعلق میں محسوس کرتا ہے۔
محبت، امید، انصاف، اور تخلیق جیسے جذبات اور تجربات کو محض مادی عوامل کے ذریعے مکمل طور پر سمجھانا ممکن نہیں ہے۔ یہ انسانی تجربات نہایت گہرے اور پیچیدہ ہیں اور انہیں کیمیائی یا طبعی معیارات کے ذریعے ناپا نہیں جا سکتا۔
الحاد، جو انسان کے روحانی پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف مادی عناصر پر توجہ مرکوز کرتا ہے، وہ اپنی تمام تر کوششون کے باوجود ایک ایسی انتہائی پیچیدہ حقیقت کا سامنا کرتا ہے، جو انسانی وجود کو محض طبعی تعاملات تک محدود کرنے کی خواہش رکھتی ہے- الحاد انسان کے گہرے شعور اور اس کی خود آگاہی کو وضاحت سے بیان کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
خود آگاہی وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنے وجود کا شعور دیتی ہے اور اسے زبان اور فکر کے ذریعے ظاہر کرنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ صلاحیت محض حیاتیاتی عمل کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ فہم اور ادراک کوئی کیمیائی تعامل کے سادہ نتائج نہیں ہیں، بلکہ یہ وہ تجربات ہیں جو معانی اور مقصد کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔
الحاد، جب مادی تصورات میں اتنا زیادہ متفرق ہو جاتا ہے، تو اپنے اندر خود اپنے زوال کے بیج بولیتا ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ اگر مادی عناصر فکر کو پیدا نہیں کر سکتے، تو فکر الحاد کا دفاع کیسے کر سکتا ہے؟
پس، الحاد انسان کے اس اندرونی شعور کی کوئی معقول وضاحت پیش کرنے میں ناکام رہتا ہے جو روح کے احساس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس طرح سائنس نظریات کے ذریعے جتنا بھی وجود، ارتقا، اور مادی تعاملات کی وضاحت پیش کرنے کی کوشش کرے، وہ اس گہرے احساس کو بیان کرنے سے عاجز ہے جو انسان غیب اور مافوق المادہ پہلوؤں کے حوالے سے محسوس کرتا ہے۔
سائنس حیاتیاتی تعاملات کی مادی تشریحات تو فراہم کر سکتی ہے، لیکن وہ اس اندرونی پکار کا جواب نہیں دے سکتی جو انسان کو اپنی زندگی کے معنی تلاش کرنے اور اپنے وجود کی حقیقت کو سمجھنے کی طرف مائل کرتی ہے۔ یہ شعور مادی جسم کی حدود سے آگے بڑھتا ہے اور غیب کی وسعتوں میں جا پہنچتا ہے، اور یہی وہ میدان ہے جس تک الحاد کی رسائی نہیں۔
انسان اپنی فطرت میں ایسی اعلیٰ غایات کی تلاش میں رہتا ہے جو محض مادی دنیا فراہم نہیں کر سکتی۔ وہ صرف سائنس یا مادی اقدار کے ذریعے اس خلا کو پُر نہیں کر سکتا۔ انسان غیب کی دنیا سے تعلق جوڑنے کا خواہاں ہوتا ہے، ایک ایسی وسیع کائنات کا متلاشی ہوتا ہے جو اس کی روح کو تسکین اور زندگی کو معنی عطا کرے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں الحاد ناکام ہو جاتا ہے۔ غیب صرف ایک پراسرار یا سائنسی طور پر ناقابلِ وضاحت حقیقت نہیں، بلکہ یہ روحانی زندگی کا سرچشمہ ہے، جو انسان کی روح کو غذا فراہم کرتی ہے اور اسے سکون اور اطمینان عطا کرتی ہے
محض افادیت کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو دین ایک انسانی ضرورت ہے جو محض عبادات یا عقائد تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ انسان کی روحانی اور نفسیاتی آسودگی کا حصہ بن کر سامنے آتی ہے۔ دین نہ صرف انسان کو نفسیاتی اور روحانی سکون فراہم کرتا ہے بلکہ اخلاقی معاشرے کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
یہ ایک گہرا ذاتی تجربہ ہے جو انسان کی اس ضرورت سے جنم لیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے معنی تلاش کرے۔ اس کے برعکس، ملحد فلسفیوں کی تحریروں میں زندگی کے معنی یا اس کے مسائل کا کوئی مکمل یا تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔
مادی فکر، اپنی تمام تر بلندیوں کے باوجود، انسان کے اس روحانی خلا کو پرنہیں کر سکتی جو وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے اور نہ ہی وہ ان گہرے سوالات کا جواب دے سکتی ہے جو وجود اور زندگی کے مقصد کے بارے میں اٹھائے جاتے ہیں۔
آخرکار، انسان محض خاموش کائنات میں متحرک مادہ نہیں بلکہ ایک زندہ مخلوق ہے جس کے اندر روح ہے اور جو اعلیٰ اقدار کے فہم و شعور اور ان سے تعلق قائم کرنے کی جستجو کرتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ دین اور روحانیت انسان کے لیے ایسی ضروریات ہیں جنہیں نہ نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا متبادل تلاش کیا جا سکتا ہے، اگر انسان کو اندرونی سکون اور اطمینان حاصل کرنا ہے۔
(انتھونی فلو، ایک خدا ہے، مترجم: صلاح الفضلی، اشاعت: کویت، 2015ء، صفحہ 108)