| مقالات | وحی اور انسانی علوم کے درمیان متوازن فہم کی جستجو
وحی اور انسانی علوم کے درمیان متوازن فہم کی جستجو
شیخ مقداد ربیعی:
"یہ ممکن نہیں کہ علم اور مذہب میں صلح ہو، اس لئے انسانیت کو چاہیے کہ اپنے تخلیقی بچے یعنی(علم) کی صلاحیت کا احترام کرے اور علم و مذہب کے درمیان صلح کی تمام کوششوں کوناکام بنا دیں۔ کیونکہ مذہب مکمل ناکام ہو چکا ہے، اور اس کی ناکامیاں بے نقاب ہونی چاہیے۔ علم جوکہ اس وقت کائنات کے سب سے چھوٹے اجزاء کی تشریح میں اپنی مکمل صلاحیتوں کو ظاہر کر رہا ہے، علم ہی عقل کا سب سے بڑا کمال ہے، اور اسے بادشاہ تسلیم کیا جانا چاہیے۔" (پیٹر اٹکنز)
"وہ سائنس کہ جس کے ذریعے ہم کام کرتے ہیں، وہ اللہ کا علم ہے۔ اللہ ہی اس علم کی پوری داستان کا ذمہ دار ہے۔ کائنات کی سائنسی وضاحت میں جو شاندار ترتیب، ہم آہنگی، استحکام اور حیرت انگیز پیچیدگی نظر آتی ہے، وہ دراصل الہی فعالیت کی ترتیب، ہم آہنگی، استحکام اور پیچیدگی کی عکاسی ہے" (سر جون ہوٹن، فیلو آف رائل سوسائٹی)
دو فلسفیانہ نقطہ نظر کے درمیان یہ ایک جنگ ہے ۔ پہلا یہ مانتا ہے کہ سائنس اور مذہب کے درمیان مفاہمت ناممکن ہے اس لئے اس سلسلے میں کسی قسم کی کوشش نہیں ہونی چاہئے، جبکہ دوسرا سائنس کو اپنے ایمان کی بنیاد سمجھتا ہے۔ انسان نے اپنی ادراکی قوتوں کے ذریعے اپنی طویل تاریخ کے دوران فلسفیانہ، تجرباتی، تاریخی، اخلاقی، حقوقی، فنی اور ادبی علوم و معارف کا ایک ذخیرہ تیار کیا۔ انہوں نے مختلف مکاتب فکر اور علمی راستے تخلیق کیے جو تنوع، تضاد اور اختلاف کا مظہر ہیں، لیکن ان سب میں یہ قدر مشترک ہے کہ یہ سب انسانی عقل اور ادراکی قوتوں کی تخلیق ہیں۔
دوسری جانب، پوری انسانی تاریخ کے دوران انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے، جو ہمارے پاس ایسے علوم و معارف لے کر آئے جو ان پر عالم بالا سے وحی کیے گئے تھے۔ کسی بھی دین کے بانی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ جو تعلیمات وہ لائے ہیں وہ ان کی ذاتی ادراکی قوتوں کا نتیجہ ہیں، بلکہ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ آسمانی وحی کا نتیجہ ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا۔ پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا لوگ کہنے لگے: ہم اس سے کیسے بات کریں جو بچہ ابھی گہوارے میں ہے؟ (قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا)۔ بچے نے کہا: میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔، (مريم: 29 ـ 30)
اس سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ حضرت عیسی کونبی بنانے کے لئے کسی بھی قسم کی مشق یا تمرین کے عمل سے نہیں گزارا گیا ۔
مختصر یہ کہ اس وقت عالم بشریت کے پاس دو قسم کے علوم و معارف موجود ہیں ۔
1۔ : وہ علوم و معارف جو انسان نے خود کشف کئے
2۔: وہ علوم و معارف کہ جو وحی کے ذریعے ہم تک پہنچے
پہلی قسم انسانی جدوجہد کا نتیجہ ہے، جبکہ دوسری قسم اکتسابی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کے ذریعے انسانیت کے لیے ایک تحفہ اور نعمت ہے۔
جو مسئلہ قابل غور ہے وہ یہ کہ ہم انسانی دریافتوں اور وحی سے حاصل شدہ حقائق کے درمیان اختلاف یا تضاد کے مقامات کو پہچان لیں ۔ اور پھر یہ فیصلہ کر لیں کہ اگر کہیں ان دونوں کے درمیان تضاد پیدا ہو جائے تو ہم کس کو اپنائیں اور کسے چھوڑ دیں؟
اگر انسان مذہبی بھی بننا چاہے اور عقل کو بھی اہمیت دینا چاہے ، تو پھر وہ ان دونوں اقسام کے علوم و معارف کوکیسے ساتھ لے کر چلے گا، جب کہ کئی مواقع پر ان دونوں کے درمیان شدید اختلاف ہوتا ہے ؟
دین داری اور عقلانیت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے پانچ مختلف طریقے تجویز کیے گئے ہیں، جن کا ذکر پہلی بار امریکی ماہر الہیات ہانس فریس نے اپنی کتاب (The Eclipse of the Biblical Narrative)میں کیا ، جو کہ 1992 میں نشر ہوئی۔ یہ طریقے انسانی نظریات کو دینی متون پر حاکم بنانے سے لے کر- جیسے کہ پہلے طریقے میں اس نے بیان کیا- ان کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے اور دینی نص کو ان سے بے نیاز بنانے تک پھیلے ہوئے ہیں- جیسا کہ پانچویں طریقے میں اس نے بیان کیا۔
ذیل میں ان پانچ طریقوں کی وضاحت کی گئی ہے
پہلا راستہ:
انسان ابتدا میں انسانی مکاتب فکر کی طرف رجوع کرے، اور ان میں سے ایک کو منتخب کرے جو اسے دوسروں سے زیادہ بہتر اور قانع کنندہ لگے ، اس پر نظریاتی اور عملی طور پر کاربند ہو جائے، اور پھر دینی متون کی طرف رجوع کرے تاکہ ان میں سے ان باتوں کا انتخاب کرے جو اس کے اپنائے گئے فلسفے یا انسانی نظریات سے ہم آہنگ ہو، وہ دین پراتنا ہی ایمان لائے گا جتنا وہ اس دین کو انسانی نظریات سے ہم آہنگ پائے گا، اور باقی دین کو نظر انداز کردے گا۔
یہ ایک ایسا راستہ ہے کہ جس پر قرآن نے شدید تنقید کی ہے اور اس نظرئے کے حامل لوگوں کو دین سے خارج قرار دیا ہے ۔ لہذا ان لوگوں کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہوا :: (إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا )۔ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور رسولوں کے درمیان تفریق ڈالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے اور وہ اس طرح کفر و ایمان کے درمیان ایک راہ نکالنا چاہتے ہیں، (أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُهِينًا) ایسے لوگ حقیقی کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔،( النساء: 150 ـ 151)
مگر اس کے باوجود یہی راستہ اور یہی نظریہ مغربی اقوام میں سب سے زیادہ مقبول اور رائج نظر آتا ہے ۔ آج ہم مغرب میں لوگوں کو خالص انسانی افکار اور فلسفہ سے مانوس پاتے ہیں کہ جس کا دین سے کسی قسم کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور وہ دین کو اپنے زاویہ نظر سے قریب کرتے ہوئے اسے اپنے فریم ورک میں محدود کر دیتے ہیں۔ اسی لیے برطانوی الہیات دان" ڈیوڈ فورڈ" نے اسے جدید دور کی خود غرضی اور خود پرستی کا مظہر قرار دیا ، ایک ایسا راستہ جو دین، علم اور انسانیت کے مابین حقیقی مکالمے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا ۔
دوسرا راستہ:
یہ راستہ بھی پہلےراستے کی طرح ہے ، یعنی انسانی نظریات کو بنیادی اہمیت دیتا ہے، لیکن ان دونوں میں یہ فرق ہے کہ یہ ان فلسفوں کے دائرے کو محدود کر دیتا ہے کہ جن میں سے انتخاب کیا جانا ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان دین کے قریب ترین انسانی فلسفوں کا انتخاب کرےایسا نہیں ہے کہ وہ کسی بھی فلسفے کو اختیار کرے ، چاہے وہ دین سے مکمل طور پر متصادم ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا اسے سب سے پہلے اپنی انتخابی دائرہ کار کو ان فلسفوں تک محدود کرنا ہوگا جو دین کے قریب ہوں، اور پھر ان میں سے وہ فلسفہ چننا ہوگا جو اس کے لیے سب سے زیادہ قائل کرنے والا اور تسلی بخش ہو۔ اس کے بعد وہ اپنے انسانی نظریہ کو دین کے قریب آنے، اس کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ یہ راستہ بھی پچھلے راستے کی طرح آسمانی ادیان پر زمینی نظریات کو فوقیت دیتا ہے۔ اس راستے کے مطابق انسانی علوم وحی کے حقائق کو سمجھنے اور ان کی تشریح کرنے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرتے ہیں، بشرطیکہ یہ علوم دینی نصوص کے ساتھ واضح تضاد میں نہ ہوں۔
پروٹسٹنٹ الہیات دان "روڈولف بولتمان" بھی اس راستے کے مؤیدین میں سے تھے۔ وہ یہ مانتے تھے کہ مذہبی فلسفے کے پہلو سے وجودی فلسفہ عیسائیت کے سب سے قریب ہے۔ اس بنیاد پر انہوں نے عیسائیت کو وجودیت کے مطابق ڈھالنے کے لیے بائبل کو اساطیری عناصر سے پاک کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ انہوں نے ان نصوص کو، جو وجودیت سے مطابقت نہیں رکھتیں، غیر ضروری قرار دے کر ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا، اور صرف ان حصوں کو معتبر سمجھا جو وجودیت کے ساتھ ہم آہنگ تھے۔ انہوں نے اپنے اس منصوبے کو "نبذ الأساطير" (پرانی کہانیوں کا خاتمہ) کا نام دیا۔
تیسرا راستہ:
یہ راستہ بھی انسانی علوم کو وحیانی حقائق پر فوقیت دینے کے اسی طریقے پر مبنی ہے، لیکن اس کا ان دو سابقہ راستوں سے فرق یہ ہے کہ یہ کسی ایک زمینی فلسفے کو "حق فلسفہ" مان کر دین پر حاکم نہیں بناتا۔ بلکہ اس کا موقف یہ ہے کہ تمام انسانی مکاتب فکر حق اور باطل کا ایک مرکب ہیں۔ مزید یہ کہ کوئی بھی مکتب فکر ایسا نہیں ہے جسے مکمل طور پر دین کے قریب ترین کہا جا سکے، کیونکہ ایک مکتب کسی زاویے سے دین کے قریب ہو سکتا ہے لیکن کسی دوسرے زاویے سے اس سے دور۔ یہی بات باقی مکاتب پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر انسانی فلسفی مکتب فکر، دین اور اس کے حقائق کو سمجھنے میں کسی نہ کسی حد تک اپنا حصہ ڈال ضرورسکتا ہے۔ مثلاً ارسطوی فلسفہ، نو افلاطونی فلسفہ، یا توماوی مکتب فکر، دین کے وجودی زاویے سے زیادہ قریب ہو سکتے ہیں، جبکہ اخلاقی اور عملی زاویے سے "رواقی" مکتب فکر دین کے قریب ترسمجھا جا سکتا ہے ۔
اس نظریے کے حاملین کے مطابق علم ہمیشہ رواں اور زمانے کے ساتھ تبدیل ہونے والا ہوتا ہے۔ لہٰذا انسانی معارف کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے ذریعے دینی نصوص کو سمجھا جا سکے۔ دوسرے الفاظ میں دینی نصوص کے بارے میں ہماری فہم مختلف ادوار میں مختلف ہو سکتی ہے، اور یہ فرق انسانی معارف میں ہونے والی تبدیلیوں پر منحصر ہے، جن کی بنیاد پر فہم قائم ہے۔
ڈاکٹر عبد الکریم سروش اس نظریے کے نمایاں داعیوں میں سے ہیں، جو یہ کہتے ہیں کہ دینی علم انسانی معارف کے تابع ہے، اور ان معارف میں آنے والی تبدیلیاں لازمی طور پر دینی نصوص کے فہم میں بھی تبدیلی کا سبب بنیں گی، جیسا کہ بیسویں صدی میں اس راستے کے سب سے مشہور حامی جرمن نژاد امریکی الہیات دان "پال ٹیلش" تھے، جن کے ذریعے ایمانِ مسیحیت اور جدید ثقافت کے درمیان تعلق قائم کرنے کے طریقۂ کار کو "اسلوب التضامن" (یکجہتی کا طریقہ) کہا جاتا ہے۔
چوتھا راستہ:
اس راستے کی بنیاد دینی نصوص کی تشریح کے عمل کو دیگر دینی نصوص کے ذریعے ہی انجام دینے پر قائم ہے۔ کسی بھی انسانی فلسفے یا دوسرے کائناتی نظریے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہمیں دین کی تعلیمات کو سمجھنے اور تشریح کرنے کا طریقہ بتائے۔ دین اپنے آپ کو واضح اور مکمل طور پر بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جب دین خود کو ہمارے سامنے واضح اور مکمل بیان کر دیتا ہے، تو اس کے بعد ہم انسانی ثقافت کی تخلیقات کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ ان دینی دعوؤں کو سمجھیں اور ان کی درستی کی تصدیق کریں۔ اس کے ساتھ ہی ان انسانی تخلیقات کو دینی تعلیمات کی کمی اور خلا کو پُر کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس عمل کے دوران، وہ انسانی تخلیقات جو ہمارے دینی نصوص کے فہم سے متصادم ہوں، ان کو ہمیشہ کے لیے مسترد کر دیا جاتا ہے۔
جس طرح اوپر مزکور دوسرا راستہ دینی تعلیمات میں ترمیم کی تجویز پیش کرتا ہے تو یہ چوتھا راستہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں ہم صرف ان انسانی معارف کو قبول کرتے ہیں جو دین کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔
اس راستےکے نمایاں مبلغین میں مشہور سوئس الہیات دان "کارل بارٹھ" شامل ہیں، جن کا یہ ماننا ہے کہ ہمارے دور کے جدیدیت پسند الہیات دانوں نے تجرباتی علوم، فلسفے اور مابعد جدیدیت کی ثقافت کے آگے سر تسلیم خم کر لیا ہے، اور اس طرح انہوں نے خدا کے کلام سے دوری اختیار کی ہے اور اسے اس کے شایانِ شان توجہ اور اہمیت نہیں دی۔
کارل بارٹھ کے نزدیک، حقیقی دیندارلوگ وہ ہیں جو خدا کے کلام کو بنیاد اور معیار سمجھے، اور اسی کے ذریعے ہر چیز کی جانچ کرے اور اس کی قدر و قیمت کو پہچانے۔ ان کے الہیات کو "الہیاتِ کلمۂ الٰہی" کا نام دیا گیا۔
پانچواں راستہ:
یہ ان افراد کا طریقہ ہے جن کا ایمان اور دین سے محبت اس حد تک بڑھ چکی ہوتی ہے کہ وہ انسانی ثقافت کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے۔ وہ فلسفوں اور انسانی کائناتی نظریات کو مکمل طور پر رد کر دیتے ہیں۔ یہی نقطۂ نظر سخت گیر مکاتب فکر جیسے اسلام میں حشویہ، اہلِ حدیث، اور آج کے دور میں وہابیت وغیرہ نے اپنایا۔ اس راستے کے اختیار کرنے اور اس کی بنیاد رکھنے والے یہ گمان کرتے ہیں کہ الہیات، جو درحقیقت ماضی میں انسانی معارف اور دینی نصوص کے درمیان تعامل کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی، وہ مکمل طور پر انسانی علوم کی کسی بھی مداخلت یا ترمیم سے محفوظ ہے ۔ یہ ایک بڑا وہم ہے جو دین اور عصر حاضر کی ثقافت کے درمیان مکالمے کے دروازے مکمل بند کر دیتا ہے۔ نیز یہ راستہ پہلے راستے کے بالکل برعکس ہے۔
ان مزکورہ راستوں میں سے اگر ہم بہتر کا انتخاب کرنا چاہے، تو چوتھا راستہ سب سے زیادہ مناسب نظر آتا ہے جو دین کی اصالت اور انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پردین کی شمولیت کے تحفظ کے درمیان توازن قائم رکھتا ہے، اور ساتھ ہی انسانی حاصل کردہ علوم کی اہمیت اور ان کا دینی نصوص کو سمجھنے اور اس کی تفسیر میں استعمال کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے ۔ کیونکہ دینی نصوص اگرچہ خود اپنی وضاحت دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں کسی بیرونی چیز کی ضرورت نہیں، اور جو اصولی طریقے مسلم علماء نے اصول الفقہ میں اپنائےہیں وہ اس مقصد کے لیے اہم مددگار ہیں۔ تاہم اس سے انسانی معارف کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ اسلامی مفسر دین کے نصوص کو سمجھنے اور ان کی تفسیر انہی اصولوں کے ذریعے کرتا ہے جو شرع نے ثابت کیے ہیں اور جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق ہیں، کیونکہ ان کی ذمہ داری قرآن کی وضاحت کرنا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے
(وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ) اور (یاد کرنے کی بات ہے کہ) جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا تھا کہ تمہیں یہ کتاب لوگوں میں بیان کرنا ہوگی [آل عمران: 187]، اور فرمایا: (وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ) اور (اے رسول) آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں) غور کریں [النحل: 44]۔ اور قرآن ہدایت کا کتاب ہے، تو اسے کیسے کسی اور چیز کے ذریعے ہدایت دی جا سکتی ہے؟ جیسے اللہ تعالی نے فرمایا: (أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهْدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ) تو پھر (بتاؤ کہ ) جو حق کی راہ دکھاتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود اپنی راہ نہیں پاتا جب تک اس کی رہنمائی نہ کی جائے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟ يونس: 35
لیکن ہمارادینی نصوص کو سمجھنا ہمیشہ ان سوالات کی حدود تک محدود رہتا ہے کہ جن کے جواب ہم ان دینی نصوص سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جتنے زیادہ سوالات ہوں گے، اتنی ہی زیادہ مقدار میں ہم نص سے فائدہ اٹھائیں گے۔ نص ایک عالم کی طرح ہے، جیسا کہ ڈاکٹر سروش کہتا ہے کہ، یہ تب تک نہیں بولتا جب تک اس سے سوال نہ کیا جائے۔ یہاں انسانی معارف کا کردار آتا ہے، کیونکہ ان انسانی معارف پر نظر ڈالنا ہمیں سوالات کا ایک ذخیرہ فراہم کرتا ہے جو ہم نص سے پوچھ سکتے ہیں، اور ساتھ ہی ان جوابات کو بھی دینی نص کے سامنے پیش کرتے ہیں جو انسانوں نے ان سوالات کے جوابات کے طور پر دریافت کیے ہیں، تاکہ ہم ان کی صحت اورحقیقی قیمت کا جائزہ لے سکیں۔
اس سلسلے میں شہید باقر الصدر رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان بھی بہت قابل توجہ ہے کہ جب انہوں نے قرآن کی تفسیر کی ضرورت کے بارے میں کہا: "قرآن کی تفسیر کا تجزیاتی طریقہ عموماً منفی ہوتا ہے، اس میں مفسر سب سے پہلے قرآن کی مخصوص آیت یا سورہ کو بغیر کسی پیشگی مفروضے یا نظریے کے لے کر اس کی تفصیل بتانے کی کوشش کرتا ہے، اور وہ لفظ کی مدد سے قرآن کے مدلول کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس کے برعکس موضوعی مفسر اپنا کام نص سے شروع نہیں کرتا، بلکہ زندگی کے حقیقی حالات سے شروع کرتا ہے۔ وہ زندگی کے کسی مخصوص موضوع کو چاہے وہ عقیدہ ہویا سماجی یا کائناتی کوئی مسئلہ ہواس پر نظر مرکوز کرتا ہے، اور انسانوں کے خیالات اور تجربات سے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں اور انسانی فکروں نے ان کے جو حل پیش کیے ہیں، اسی طرح تاریخ میں جو سوالات اٹھائے گئے ہیں، اور جو خلا موجود ہیں، انہیں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر وہ قرآن کی طرف رجوع کرتا ہے، اس لیے نہیں کہ وہ قرآن کے سامنے ایک سننے والے اور ریکارڈ کرنے والے کا کردار ادا کرے، بلکہ وہ قرآن کے سامنے ایک موضوع پیش کرتا ہے جو انسانوں کے خیالات اور موقف سے بھرپور ہوتا ہے، اور قرآن کے ساتھ ایک مکالمہ شروع کرتا ہے؛ سوال اور جواب کا سلسلہ، مفسر سوال کرتا ہے، اور قرآن جواب دیتا ہے۔ مفسر ان تجربات کی بنیاد پر جو وہ انسانی فکروں سے جمع کرتا ہے، جو کہ خطا اور درستگی کی کوششوں کے ذریعے حاصل کی گئی ہیں، اس موضوع کے بارے میں ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے، اور پھر اس نتیجے کو قرآن کے سامنے پیش کرتا ہے، نہ کہ خاموش ہو کر صرف سننے کے لیے بیٹھا ہو، بلکہ وہ بیٹھ کر سوال کرتا ہے، استفہام کرتا ہے، اور تدبر کرتا ہے۔
اس اس عمل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن کی موجودگی میں اس موضوع پر قرآن کے موقف کا پتا لگائے اور وہ نظریہ جو قرآن سے اخذ کیا جا سکتا ہے، اس نص کو انسانوں کے خیالات اور رجحانات سے موازنہ کرکے دریافت کرے۔ اور اسی لیے موضوعی تفسیر کے نتائج ہمیشہ انسانی تجربے کے رجحانات سے جڑے ہوتے ہیں؛ کیونکہ یہ قرآن کی رہنمائی کے ذریعے زندگی کے کسی موضوع پر اسلامی نظریہ کی وضاحت فراہم کرتے ہیں۔ یہاں قرآن زندگی کے ساتھ جڑتا ہے، قرآن حقیقت سے جڑتا ہے؛ کیونکہ تفسیر حقیقت سے شروع ہوتی ہے اور قرآن پر ختم ہوتی ہے، نہ کہ قرآن سے شروع ہو کر قرآن پر ختم ہوتی ہے، جو کہ حقیقت سے الگ اور انسانی تجربات کے ورثے سے بے خبر ہوتا۔ بلکہ یہ عمل حقیقت سے شروع ہو کر قرآن تک پہنچتا ہے، کیونکہ قرآن ایک ایسا معیار اور ماخذ ہے جو اس حقیقت کے بارے میں خدائی ہدایات کو متعین کرتا ہے۔ (المدرسہ القرآنیہ، صفحات 23 ۔ 30 )
اگرچہ سائنسی ترقی کا احترام ضروری ہے، لیکن بعض مذہبی روایات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ الہامی وحی کو ایک اعلیٰ مرجع کے طور پر فوقیت دی جانی چاہیے جس میں انسانی علم کی تبدیلیوں کے مطابق تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ یہ خیال اس اعتقاد پر مبنی ہے کہ مطلق حقیقت انسان کے محدود فہم سے بالا تر ہے، اس لیے دینی نصوص کو ایسی تبدیلیوں سے محفوظ رہنا چاہیے جو ان کے اصل معنی کو ضائع کر دیں۔ تاہم اس خیال کو انسانی سائنسز اور فلسفہ کی کامیابیوں کا گہرا احترام کرتے ہوئے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے، تاکہ ایک تنقیدی توازن قائم ہو سکے جو دینی نصوص کے اصلیت کی حفاظت کرے۔
البتہ سائنسی علوم اور دینی نصوص کے درمیان توازن قائم کرنا ایک سادہ مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے ایک مکمل نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو انسانی فکر اور علم میں مسلسل تبدیلیوں کو مدنظر رکھے۔ اس کے لیے لچکدار نظریات کو اپنانا ضروری ہے جو معرفتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مدد دیں، بغیر اس کے کہ روحانی اور اخلاقی اقدار سے دستبردار ہوا جائے۔ اس توازن کو حاصل کرنے کے لیے دین کو ایک متحرک قوت کے طور پر سمجھنا ضروری ہے جو اپنے دور کے ساتھ ہم آہنگ ہے، اور ساتھ ہی اس کے جوہر کی حفاظت کرے جو انسان کی موجودگی کو معنی دیتا ہے اور اسے زندگی کے بنیادی مسائل سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔