2 جمادي الثاني 1446 هـ   4 دسمبر 2024 عيسوى 11:40 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  وحی کی تعلیمات اور انسانی دریافتیں: ایک تجزیاتی مطالعہ
2024-11-22   149

وحی کی تعلیمات اور انسانی دریافتیں: ایک تجزیاتی مطالعہ

شیخ مقداد ربیعی:

عصرِ تنور (روشن خیالی) کے دور سے، بعض مغربی فلاسفراس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسانیت علم کے دور میں داخل ہو چکی ہے اور مذہب کا دور ختم ہو گیا ہے۔ ان فلسفیوں میں فرانسیسی مفکر اوگست کونٹ نمایاں تھے، جس نے انسانی فکر کو تین ادوار میں تقسیم کیا۔ پہلا دور جہالت کا تھا، جہاں انسان قدرتی مظاہر کو دیوی دیوتاؤں سے منسوب کرتا تھا۔ دوسرے دور میں یونانی فکر کی پختگی کے ساتھ ان مظاہر کو فلسفیانہ اسباب سے جوڑا گیا۔ اور تیسرے دور میں تجرباتی سائنس نے ان مظاہر کے قریبی اور مادی اسباب کو دریافت کیا۔

کومٹ اور دیگر فلسفیوں کا  بھی یہ دعویٰ ہے کہ جیسے جیسے سائنسی معرفت میں ترقی ہوگی، دینی توضیحات کی ضرورت ختم ہو جائے گی، حتیٰ کہ انسانیت مکمل طور پر مذہب سے بے نیاز ہو جائے گی۔ یہ خیال سائنسی حلقوں میں آج تک کسی حد تک مقبول ہے، لیکن یہ کئی تضادات اور مسائل کا شکار بھی رہا ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ یہ علم کو تجرباتی سائنس تک محدود کر دیتا ہے۔ حالانکہ یہ اصول بذات خود تجرباتی طور پر قابلِ اثبات نہیں، بلکہ یہ  اسے خود ان کے معیار کے مطابق غیر معتبر بنا دیتا ہے۔

قدرتی مظاہر کے مادی اسباب تک محدود نظر رکھنے کایہ  رویہ الحاد اور ایمان کے درمیان وہ  بنیادی فرق ہے۔ جیسے  قرآن کریم میں  اس طرح بیاں فرمایا گیا ہے۔

(ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ. الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ...)(البقرہ: 2-3)

یہاں متقین کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں، جبکہ کافروں کے بارے میں کہا گیا:

(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)(الروم: 7)

یعنی کافر صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں۔ اس طرح ایمان اور کفر کے مابین بنیادی فرق یہ ہے کہ کافر مادیات تک محدود رہتا ہے جبکہ مومن مادے اور محسوسات سے ماورا حقائق پر یقین رکھتا ہے۔

اور ان دونوں فلسفیانہ نقطہ ہائے  نظر کے مقابل ، ہمیں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے اقوال میں دین اور علم کے درمیان ایک بہترین توازن نظر آتا ہے۔ چنانچہ، شیخ صدوق  (رحمۃ اللہ علیہ)نے اپنی کتاب "التوحید" میں نقل کیا ہے:

 فقد روى الصدوق في توحيده: حدثنا أبي رحمه الله، قال: حدثنا سعد بن عبد الله، قال: حدثنا أبو الخير صالح بن أبي حماد، قال: حدثني أبو خالد السجستاني، عن علي بن يقطين، عن أبي إبراهيم عليه السلام، قال: «مر أمير المؤمنين عليه السلام بجماعة بالكوفة وهم يختصمون في القدر، فقال لمتكلمهم: أبالله تستطيع أم مع الله أم دون الله تستطيع؟!

فلم يدر ما يرد عليه، فقال أمير المؤمنين عليه السلام: إنك إن زعمت أنك بالله تستطيع فليس لك من الأمر شيء، وإن زعمت أنك مع الله تستطيع فقد زعمت أنك شريك معه في ملكه، وإن زعمت أنك من دون الله تستطيع فقد ادعيت الربوبية من دون الله، عز وجل، فقال: يا أمير المؤمنين لا، بل بالله أستطيع، فقال عليه السلام: أما إنك لو قلت غير هذا لضربت عنقك». التوحيد، ص353.

"امیر المؤمنین  علیہ السلام کوفہ کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو تقدیر پر بحث کر رہے تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا: کیا تم اللہ کے ساتھ تقدیر کو سمجھتے ہو، یا اللہ کے علاوہ کسی اور کے ساتھ؟ "اگر تم یہ کہو کہ تم اللہ کے ذریعے سمجھتے ہو، تو تمہارا اپنا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔ اور اگر یہ دعویٰ کرو کہ تم اللہ کے ساتھ (برابر) سمجھتے ہو، تو تم نے اللہ کے اقتدار میں شریک ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور اگر کہو کہ تم اللہ کے بغیر سمجھتے ہو، تو تم نے اللہ کے علاوہ ربوبیت کا دعویٰ کیا۔ (التوحید، ص 353)

یہاں حضرت علیہ السلام کا مقصود یہ تھا کہ فعل انجام دینے  والا اور کسی بھی عمل یا قدرتی مظہر کا مادی سبب اپنی قوت اور وجود اللہ تعالیٰ سے حاصل کرتا ہے۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کی قدرت اور علم کے وسیلے سے انجام پاتا ہے۔ایسے میں  اگر اللہ کی یہ قدرت شاملِ حال  نہ ہو، تو شرک لازم آتا ہے یا پھر استقلال اور خدائی کا دعویٰ۔ اللہ ہمیں اور آپ کو اس سے محفوظ رکھے۔

تجربے پر مبنی علم اگرچہ کسی مظہر کے مادی سبب کو دریافت کر لیتا ہے، لیکن وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر دیتا ہے کہ یہ سبب خود اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ وجود کا مظہر ہے۔ بظاہر یہ مادی سبب عمل کرنے والا دکھائی دیتا ہے، لیکن درحقیقت اس سبب کا وجود مسلسل تجدید پذیر اور جاری و ساری ہے، جو ہر لمحے، ہر ثانیے اللہ تعالیٰ کے فیض سے قائم رہتا ہے۔

یہی بات سائنسی تحقیقات نے ثابت کی ہے— یہاں ہم قارئین کی سہولت کے لیے اختصار سے کام لے رہے ہیں۔ تفصیل کے خواہاں افراد ڈاکٹر محمد باسل الطائی کی کتاب "صیرورة الكون" (صفحہ 205 اور آگے) سے رجوع کر سکتے ہیں۔

علماء نے قدرتی مظاہر کے ابتدائی عناصر کے وجود کی حقیقت جاننے کی کوشش میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ عناصر ذیلی ایٹمی ذرات (subatomic particles) سے پیدا ہوئے ہیں۔ مزید تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ ذرات خود ایسے اجزاء سے جنم لیتے ہیں جو مجازی وجود رکھتے ہیں۔ ان کو جسمانی طور پر موجود نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ جسمانی وجود وہی ہے جو کم سے کم زمانی حصہ، یعنی پلانک کے وقت (Planck time) میں پایا جائے، جو 10−2110^{-21}10−21 سیکنڈ کے برابر ہے۔ یہ ایک سیکنڈ کے ایک ارب کھربویں حصے کے برابر ہے۔

پس جو چیز اس زمانی حد سے کم وقت میں پیدا ہو اور فنا ہو جائے، اسے جسمانی طور پر موجود نہیں کہا جا سکتا۔ یہی مجازی ذرات وہ بنیادی مواد ہیں جن سے ایٹمز اور پھر عناصر اور مرکب اجسام وجود میں آتے ہیں۔ چنانچہ، قدرتی مظاہر خواہ کتنے ہی عظیم کیوں نہ ہوں، ان کا بنیادی وجود انہی مجازی ذرات تک جا پہنچتا ہے، جو پلانک کے وقت سے بھی کم لمحے میں وجود میں آتے اور فنا ہو جاتے ہیں۔

یہی وہ مقام ہے جہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی  جلوہ نمائی سامنے آتی ہے کہ وہ جس کا چاہے رزق وسیع کر دیتا ہے اور جس کا چاہے محدود کر دیتا ہے۔ اللہ ان ذرات کے وجود کو فیض عطا کرتا ہے یا اپنی قدرت سے انہیں روک دیتا ہے۔

خلاصہ: ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دین قدرتی مظاہر کے مادی اسباب کو تسلیم کرنے سے نہیں روکتا، لیکن ان مادی اسباب کا سلسلہ بالآخر ایک ایسے وجود پر جا کر ختم ہوتا ہے جو مادی دائرے سے باہر ہے۔اور  یہی وجود تمام اسباب کا حقیقی خالق اور مالک ہے۔دینی علماء نے اس موضوع پر کثرت سے اظہارِ خیال کیا ہے، اور علامہ طباطبائی کا کلام اس ضمن میں ایک نمایاں مثال ہے۔ انہوں نے اس بحث میں کہ آیا جن اور شیطان انسان پر اثر ڈال سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اسے جنون لاحق ہو سکتا ہے، نیز یہ کہ یہ بات نفسیاتی بیماریوں کے مادی اسباب سے متصادم نہیں ہے، فرمایا:"یہ بات کہ جنون کو شیطان سے منسوب کیا جائے، براہِ راست اور بلا واسطہ نہیں ہے، بلکہ قدرتی اسباب، جیسے اعصابی خلل یا دماغی بیماری، قریبی اسباب ہیں، جن کے پیچھے شیطان کارفرما ہو سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مختلف کرامات فرشتے کی طرف منسوب ہوتی ہیں، لیکن ان کے درمیان بھی مادی اسباب موجود ہوتے ہیں۔

اس کی نظیر قرآن کریم میں حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعے میں ملتی ہے، جہاں فرمایا گیا: (إني مسني الشيطان بنصب وعذاب) (ص: 41) اور ایک اور مقام پر فرمایا: (إني مسني الضر وأنت أرحم الراحمين) (الأنبياء: 83)

یہاں 'ضرر' سے مراد وہ  بیماری ہے، جس کے بدن میں ظاہری اور قدرتی اسباب موجود ہوتے ہیں۔ لیکن حضرت ایوب علیہ السلام نے ان قدرتی اسباب کے ذریعے پیش آنے والی بیماری کو شیطان کی طرف منسوب کیا۔

علامہ طباطبائی نے اس معاملے کو مزید وضاحت سے بیان کیا ہے کہ مادی نقطہ نظر بعض اہل تحقیق کے اذہان میں غیر شعوری طور پر سرایت کر گیا ہے۔ جب اہلِ مادہ نے یہ سنا کہ دینی نظریات رکھنے والے لوگ واقعات کو اللہ تعالیٰ، روح، فرشتہ یا شیطان کی طرف منسوب کرتے ہیں، تو انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ یہ بات طبیعی علل (اسباب) کو ختم کرنے اور ان کی جگہ ماورائے طبیعت کو رکھنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے واضح کیا: "حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ان نسبتوں کا مطلب علل (اسباب) کی نفی نہیں بلکہ یہ ایک طولی ترتیب میں تعلیل (تشریح) ہے، نہ کہ عرضی۔ یعنی قدرتی اسباب اپنی جگہ قائم ہیں، لیکن ان اسباب کے پیچھے ایک ماورائی سبب بھی موجود ہے جو ان کو چلاتا ہے۔ یہ موضوع مختلف مباحث میں بارہا زیر بحث آ چکا ہے" (الميزان، جلد 2، صفحہ 413)

اختتامیہ: دین اور علم کے درمیان کوئی تصادم نہیں۔ علم مظاہرِ فطرت کے مادی اسباب کو دریافت کرتا ہے، لیکن اس کی حد مادی دنیا تک محدود ہے۔ جب یہ بات واضح ہو جائے کہ مادی دنیا کے پیچھے غیر مادی حقائق کارفرما ہیں، تو دین ان حقائق کو واضح کرتا اور ان کی وضاحت فراہم کرتا ہے۔ یوں دین اور علم ایک دوسرے کے ساتھ تکمیلی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک طولی (سلسلہ وار) ترتیب میں کام کرتے ہیں، نہ کہ ایک دوسرے کے متوازی۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018