
| دراسات | انسان کمزوری سے کمزوری تک: دائرہ جو ٹوٹتا نہیں

انسان کمزوری سے کمزوری تک: دائرہ جو ٹوٹتا نہیں
الشيخ معتصم السيد أحمد
انسان اس دنیا میں جب پیدا ہوتا ہے تو اس پر بے بسی کی نشانیاں نمایاں ہوتی ہیں۔ وہ آنکھیں تو کھول لیتا ہے، مگر ایک ایسے عالم میں جہاں وہ اپنے کسی معاملے پر اختیار نہیں رکھتا۔ نہ وہ خود حرکت کرنے کی قدرت رکھتا ہے، نہ اپنی بات کا اظہار کر سکتا ہے، نہ اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ اگر کوئی چیز اس پر حملہ کرے تو اپنا دفاع کیسے کرے، اور نہ ہی اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خوراک یا پانی کا مطالبہ کس طرح کیا جائے۔
یہ کمزور آغاز ، جو مکمل بے بسی اور لاچاری کے ساتھ ہوتا ہے ، انسان کی اس وجودی دائرے کا پہلا نقطہ ہے، جس کے اندر وہ اپنی پوری عمر طے کرتا ہے۔پھر انسان آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے۔ اس کی ہڈیاں مضبوط ہونے لگتی ہیں، پٹھوں میں طاقت آتی ہے، فہم و ادراک کے دائرے وسیع ہو جاتے ہیں، اس کی صلاحیتیں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ وہ دنیا کو دریافت کرنا شروع کرتا ہے، اور پہلی مرتبہ یہ احساس اس کے اندر جنم لیتا ہے کہ وہ کچھ بنانے اور کرنے کی قدرت رکھتا ہے، اور وہ یہ جان لیتا ہےکہ اس کا ایک مستقل ارادہ بھی ہے۔
جوانی کے مرحلے میں وہ خود کو قوت کے عروج پر دیکھتا ہے، گویا زندگی مسلسل بلندی کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس میں زوال کا کوئی تصور ہی نہیں۔ لیکن یہ قطعی اور اٹل حقیقت ہے ، جس سے انکار ممکن ہی نہیں کہ قوت دراصل ایک عارضی مرحلہ ہے ، ایک طویل سفر کے درمیان آنے والا مختصر سا پڑاؤ ہے۔ یہ سفر کمزوری سے شروع ہوتا ہے اور کمزوری ہی پر ختم ہوتا ہے، اور طاقت انسان کی پوری زندگی کو محیط اس دائرے میں محض ایک چھوٹا سا نقطہ ہے ۔
یہ نقطۂ نظر نہ محض کوئی فلسفیانہ گہرائی ہے اور نہ ہی کسی وقتی جذباتی کیفیت کا نتیجہ، بلکہ یہ ایک یقینی قرآنی حقیقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں واضح فرمایا ہے، تاکہ انسان اپنے آپ کو اس آئینے میں دیکھ سکے، وجود کے مفہوم کو سمجھ سکے، اور انجامِ کار سے غافل نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ اس سفر کی تصویر کشی یوں فرماتا ہے:
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا﴾
وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے، پھر علقہ سے، پھر تمہیں بچہ بنا کر (دنیا میں) نکالتا ہے، پھر (تمہیں زندگی دیتا ہے) تاکہ تم اپنی پوری قوت کو پہنچو، پھر تاکہ تم بوڑھے ہو جاؤ۔
اس الٰہی اور بلیغ ترتیب میں وجودی دائرہ پوری وضاحت کے ساتھ نمایاں ہو جاتا ہے، پہلے کمزوری، پھر طاقت، اور پھر دوبارہ کمزوری۔
اس سے بھی گہری بات یہ ہے کہ قرآن یہ واضح کرتا ہے کہ انسان کا انجام صرف جسمانی کمزوری نہیں ہوتا، بلکہ بعض اوقات علمی کمزوری بھی عارض ہو جاتی ہے، جب انسان سے وہ علم بھی واپس لے لیا جاتا ہے جو اس نے پوری زندگی میں حاصل کیا ہوتا ہے، اور وہ یوں پلٹ آتا ہے جیسے ابتدا میں تھا:
﴿وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا﴾
اور تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جسے بدترین عمر کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے، تاکہ وہ جان لینے کے بعد کچھ بھی نہ جان سکے۔
یہ دردناک تصویر ، جس سے بہت سے لوگ غافل رہتے ہیں ، اس حقیقت کو آشکار کرتی ہے کہ انسان خواہ علم کی کس قدر بلند منزل تک پہنچ جائے، اس کا انجام بالآخر ادراک، بصیرت اور حافظے کی کمزوری ہی کی طرف ہوتا ہے۔ اور یہ دوسری کمزوری کوئی بے ربط زوال نہیں، بلکہ وجود کے اس عظیم دائرے کا ایک باقاعدہ اور مقصود مرحلہ ہے۔
اگر ہم ایک قدم پیچھے ہٹ کر اُس اولین لمحے کی طرف لوٹیں جہاں انسان کی تخلیق کا آغاز ہوتا ہے، تو ہمیں یہ دائرہ صرف عمر کے مراحل میں ہی نہیں بلکہ خود تخلیق کی نوعیت میں بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ نطفہ ، جو انسان کی تخلیق کی پہلی کڑی ہے ، بیضہ میں داخل ہوتا ہے، اور بیضہ خود ایک دائرہ نما شکل رکھتا ہے۔ پھر رحمِ مادر میں جنین اپنے ہی گرد لپٹنا شروع کرتا ہے۔ جدید علمِ جنینات کی تصویریں ظاہر کرتی ہیں کہ ابتدائی مہینوں میں جنین ایک جھکی ہوئی، قوس دار حالت اختیار کرتا ہے، بالکل ایک واضح دائرے کی مانند، گویا وہ اسی نقطۂ آغاز کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جس کی طرف وہ سفر کے اختتام پر دوبارہ لوٹے گا۔
پیدائش کے بعد وہ آہستہ آہستہ سیدھا ہونا شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ کمر سیدھی کر کے کھڑا ہو جاتا ہے اور مضبوطی کے ساتھ حرکت کرنے لگتا ہے۔ لیکن جب زمانہ اپنی گردش پوری کرتا ہے تو وہ اُسے پھر اسی جھکی ہوئی حالت کی طرف لوٹا دیتا ہے۔ کمر جھک جاتی ہے، ہڈیاں کمزور پڑ جاتی ہیں، اور حرکت کی صلاحیت سمٹنے لگتی ہے، گویا جسم بتدریج اسی پہلی صورت کی طرف پلٹ رہا ہو جس سے اس نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔
یقیناً آغاز اور انجام کے درمیان یہ مشابہت کوئی اتفاق نہیں، بلکہ ایک مقصود اور گہری حکمت ہے، جس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتی ہے: ﴿كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ﴾
جس طرح اس نے تمہیں ابتدا میں پیدا کیا تھا، اسی طرح تم لوٹائے جاؤ گے۔
یہ واپسی صرف روحانی نہیں، بلکہ جسمانی، رفتاری اور ادراکی سطح پر بھی ہے، تاکہ زندگی کا دائرہ مکمل ہو جائے۔ اور جب ہم خود انسان کے اندر جھانک کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دائرہ صرف عمر کے سفر تک محدود نہیں۔ بلکہ جسم کے سادہ ترین افعال بھی دائرے کی حرکت پر قائم ہیں۔
خون ، جو زندگی کی نمایاں علامت ہے ، ایک بند دائرے پر چلتا ہے، جو شریانوں اور وریدوں کے ذریعے گردش کرتا ہے، جن کی مجموعی لمبائی ایک لاکھ چونسٹھ ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔ یہی خون سرخ اور سفید خلیات پر مشتمل ہے، جن میں سے اکثر کی ساخت دائرہ نما ہے، گویا دائرہ اس کی تخلیق کی بنیاد میں ثبت کر دیا گیا ہو۔ اسی طرح سانس لینا بھی ایک دائروی عمل ہے: سانس کا اندر جانا جو سینہ بھر دیتا ہے، پھر سانس کا باہر آنا جو اسے خالی کر دیتا ہے ، ایک مسلسل دائرہ، جو صرف زندگی کے اختتام پر ہی ٹوٹتا ہے۔
یہاں تک کہ نیند اور بیداری بھی ایک روزانہ دائرہ بناتی ہیں، جس میں انسان لاشعوری طور پر بار بار داخل ہوتا ہے: وہ مکمل ہوش کی حالت سے نیند کی طرف اترتا ہے، پھر اسی طرح بیدار ہو جاتا ہے، ایک مسلسل حرکت میں جو چڑھاؤ اور اُتار کی مانند ہے اور ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔
اور اگر انسان اپنی نگاہ کو کائنات کی وسعتوں کی طرف مرکوز کرے تو وہاں بھی یہی دائرہ بار بار نظر آتا ہے:
زمین اپنے محور کے گرد گھومتی ہے۔اور سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔سورج ایک عظیم کہکشاں میں گردش کر رہا ہے۔ اور تمام کہکشائیں ایک وسیع کائناتی نظام میں گردش پذیر ہیں۔انسان اور کائنات کے درمیان یہ ہم آہنگی اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ انسان کوئی الگ تھلگ جسم یا تنہا مخلوق نہیں، بلکہ ایک بڑے دائرے کا حصہ ہے، جس کے اندر وہ ایک محکم الٰہی نظام کی اطاعت میں بہتا چلا جاتا ہے۔
اور کمزوری کے مفہوم پر ٹھہر کر غور کرنا محض دو حالتوں کا تقابل نہیں، بلکہ خود شناسی کا ایک بنیادی درس ہے۔ کیونکہ جب انسان یہ جان لیتا ہے کہ وہ کمزوری سے شروع ہوا تھا اور کمزوری ہی کی طرف لوٹے گا، تو اس کے اندر طاقت کے جھوٹے وہم ٹوٹ جاتے ہیں، اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ ان دونوں آغازوں کے درمیان جو کچھ ہے وہ محض ایک عارضی امانت ہے، جس کا وہ حقیقی مالک نہیں، بلکہ یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ جب چاہے واپس لے لیتا ہے۔
انسان کی اپنی ابتدائی کمزوری کا شعور اسے کمزوروں کے ساتھ زیادہ مہربان بنا دیتا ہے، اور اپنی آخری کمزوری کا ادراک اسے آنے والے دنوں کے لیے زیادہ آمادہ اور قوت کے ایام میں کم مغرور کر دیتا ہے۔ جوں جوں اس کا شعور اس دائرے کے بارے میں بڑھتا ہے ،حال سے اس کی وابستگی کم ہوتی جاتی ہے، کیونکہ وہ جان لیتا ہے کہ حال خود ایک بڑے دائرے کا نہایت چھوٹا سا حصہ ہے، جو ایک ہی وقت میں اسے اپنے اندر سمیٹ بھی لیتا ہے اور اس سے آگے بھی بڑھ جاتا ہے۔
اور قرآن جب انسان کو کمزوری سے کمزوری کے درمیان گردش کرتا ہوا بیان کرتا ہے، تو دراصل وہ اسے اسی نوع کے شعور کی دعوت دیتا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی تخلیق اور اس کی ساخت کو بیان کرنے والی آیات محض فطری کیفیت پر اکتفا نہیں کرتیں، بلکہ عموماً غور و فکر یا عقل سے کام لینے کی دعوت پر ختم ہوتی ہیں:
﴿وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴾
شاید تم سمجھو
﴿لِنُبَيِّنَ لَكُمْ﴾
تاکہ ہم تمہارے لیے واضح کر دیں
﴿لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ﴾
تاکہ وہ غور و فکر کریں
پہلی کمزوری اور آخری کمزوری کے درمیان انسان کو ایک محدود مدت عطا کی گئی ہے، جس میں اس کی آزمائش ہوتی ہے۔ اس کی زندگی بذاتِ خود مقصود نہیں، بلکہ اس زندگی کے اندر اس کا عمل اصل معیار ہے، کیونکہ یہ زندگی دو عدموں کے درمیان ایک عارضی پڑاؤ ہے۔ ایک عدم اس سے پہلے، اور ایک عدم اس کے بعد، پھر بعث ہے، جس میں وہ اس دائرے سے نکل کر ایک اور عالم میں داخل ہوتا ہے۔
یا جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا:
ما فات مضى وما سيأتي أين * قم فاغتنم الفرصة بين العدمين
جو گزر گیا وہ گزر گیا ، جس نے آنا ہے اس کا آنا ہی معلوم نہیں ، پس اٹھو اور ان دو عدموں کے درمیان کو غنیمت سمجھو ۔
اسی بنا پر قرآن نے بعث کو اسی دائرے کا تسلسل قرار دیا ہے، اور یہ بات واضح کی ہے کہ جو شخص جنین کی پیدائش اور بوڑھے کی موت کا منظر دیکھتا ہے، اس کے لیے موت کے بعد زندگی کے تصور میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ مفہوم ایک ہی ہے، سنت ایک ہی ہے، اور یہ دائرہ ٹوٹتا نہیں۔ اور اسی سیاق میں وہ آیات آتی ہیں جو مردہ پڑی زمین کا پانی سے زندہ ہونے کا ذکر کرتی ہیں:
﴿فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ﴾
اور جب ہم اس پر پانی نازل کرتے ہیں تو وہ کانپ اُٹھتی ہے اور ابھرتی ہے
تاکہ اللہ انسان سے فرمائے۔پودوں کے دائرے کو دیکھو، پھر اپنی ذات کے دائرے پر نظر کرو، اور جان لو کہ جس نے مردہ زمین کو زندہ کیا، وہ تمہیں بھی موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ:
جب انسان یہ دریافت کرتا ہے کہ اس کی زندگی ایک دائرہ ہے جو کمزوری سے شروع ہوتا ہے اور کمزوری پر ختم ہوتا ہے، تو یہ ادراک مایوسی پیدا نہیں کرتا بلکہ حکمت کی دعوت دیتا ہے۔ ابتدائی کمزوری اسے یاد دلاتی ہے کہ اس نے خود کو پیدا نہیں کیا، اور آخری کمزوری اسے یاد دلاتی ہے کہ وہ اس زندگی میں ہمیشہ قائم نہیں رہے گا۔ ان دونوں کے درمیان ایک وسیع فاصلہ ہے جس میں اختیار، ارادہ اور عمل شامل ہیں، اور یہی انسان کی آزمائش کا اصل جوہر ہے۔اور اگر زندگی ایک دائرہ ہے، تو انسان کو اس سے جو چیز ملتی ہے وہ نہ اس کی شکل ہے، نہ اس کی طاقت، نہ اس کا مال، بلکہ اس کی قدر و قیمت ہے۔ قدر وہ واحد چیز ہے جو پیچھے کی طرف نہیں جاتی بلکہ اللہ کی طرف بڑھتی ہے، اور اس کا اثر دائرے کے اختتام کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔
اور یہ بڑا دائرہ جو انسان کی زندگی پر حکمرانی کرتا ہے، اسے تین بڑی باتیں سکھاتا ہے:
عاجزی: کیونکہ قوت اصل نہیں، بلکہ ایک عارضی مرحلہ ہے۔
رحم و کرم: کیونکہ آج کے کمزور لوگ اسی طرح ہیں جیسے ہم پہلے تھے اور جیسے ہم آئندہ ہوں گے۔
بصیرت: کیونکہ جب انسان ابتدا میں انجام دیکھ لیتا ہے، تو وہ راستے کا مفہوم سمجھتا ہے، اور جان لیتا ہے کہ وقت غفلت کے لیے نہیں بلکہ معنی پیدا کرنے کا موقع ہے۔
اور جب انسان دائرے کے اختتام کے قریب پہنچتا ہے، تو وہ اسی طرح واپس لوٹتا ہے جیسے آیا تھا، مگر آغاز اور انجام کے درمیان فرق یہ ہے کہ اس نے تجربہ، علم اور اقدار حاصل کیں۔ ابتدا میں وہ خالی آتا ہے، اور آخر میں وہ وہ سب لے کر جاتا ہے جو اس کے دل اور روح نے حاصل کیا۔ یوں ہماری ابتدائی کمزوری ہمیں انسانیت سکھاتی ہے، اور ہماری آخری کمزوری ہمیں حکمت سکھاتی ہے۔ اور دونوں کے درمیان کا عرصہ وہ سفر ہے جو ہمیں اللہ کی تلاش، معنی کی تلاش، اور اس قدر کی تلاش کی طرف لے جاتا ہے جو انسان کو اس کے دائرے سے بلند کر کے جاودانگی کے افق تک پہنچا دیتی ہے۔


